کیا تیسری جنگ عظیم اتنی قریب ہے

اوریا مقبول جان  جمعـء 16 ستمبر 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

تیس ستمبر 2015 کو روس نے شام میں بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کی۔ یہ بمباری داعش کے کسی بھی اڈے پر نہیں کی گئی اور نہ ہی بشار الاسد اور اس کی حامی حزب اللہ کے خلاف تھی‘ بلکہ وہ کرد جو بشار کی حکومت کے خلاف لڑ رہے تھے انھیں بھی بخش دیا گیا۔ حلب شہر اس کا نشانہ تھا‘ وہ شہر جہاں سب سے پہلے عوام  ملک پر ایک علوی اقلیت کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ امت مسلمہ جس طرح اس بات پر متفق ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اسی طرح شیعہ اور سنی تمام فرقے بالعموم علویوں کے عقائد کی وجہ سے انھیں دائرہ اسلام سے خارج تصور کرتے ہیں۔ کئی سو سال تک یہ گروہ اپنے بانی کی وجہ سے خود کو نصیری پکارتا رہا۔ ان کے نظریات کے بارے میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ وہ حضرت علیؓ کو اللہ یا اللہ کا پر تو سمجھتے ہیں۔ چونکہ ان کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ وہ اپنے نظریات کو خفیہ رکھتے ہیں‘ اس لیے ان کے بارے مسلسل شک کے بادل قائم رہے۔

گزشتہ صدی میں جب فرانسیسی افواج نے مسلمانوں کی خلافت عثمانیہ پر حملہ کیا تو علویوں نے فرانسیسی افواج کا ساتھ دیا‘ بالکل ویسے ہی جیسے حجاز میں شریف مکہ نے برطانوی افواج کا ساتھ دیا۔ جب فرانسیسی افواج نے شام پر قبضہ کیا تو وہ پہاڑی علاقے جن میں علوی رہائش پذیر تھے اسے علوی ریاست کا نام دے کر آزاد کر دیا۔ کچھ عرصے بعد شام‘ لبنان کی ریاستیں بنائی گئیں تو فرانس نے علویوں کو شام کے ساتھ ایک قوم کی حیثیت سے مل جانے کو کہا۔ اس معاہدے پر بشار الاسد کے دادا علی الاسد کے دستخط تھے۔

دوسری جنگ عظیم تک یہ صورت حال قائم رہی اور یہ فرانسیسی تسلط میں رہے لیکن سترہ اپریل 1947 کو شام کو آزادی مل گئی۔ جانے سے پہلے فرانسیسیوں نے فوج کو علویوں اور ایک دوسرے اقلیتی گروہ دروزیوں کی فوج بنا دیا۔ علوی چونکہ دیگر لوگوں سے ہمیشہ علیحدہ رہے تھے‘ اس لیے ان کے ہاں کمیونسٹ بعث پارٹی مقبول ہوتی گئی۔ کمیونزم کے غیر مذہبی نظریات اور خفیہ انقلاب کی تکنیک نے بالآخر ایئرفورس کے جرنیل حافظ الاسد کے ذریعے شام پر علویوں کا اقتدار مستحکم کر دیا جو آج بھی قائم ہے۔ علوی شام میں صرف دس فیصد ہیں جب کہ اسی فیصد کے قریب سنی اور دس فیصد شیعہ مسلمان ہیں۔

عرب دنیا کا یہ واحد ملک ہے جہاں دنیائے اسلام کے دو بڑے گروہ سعودی عرب اور ایران کے ساتھی اور مغربی دنیا کے دو گروہ روس اور امریکا کے ساتھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ 2011 میں شروع ہونے والی تحریک کچھ عرصہ تک ایک سول نافرمانی اور سیاسی تحریک طور پر چلتی رہی جیسے باقی عرب ممالک میں چل رہی دیگر تحریکیں تھیں۔ لیکن بشار الاسد اور اس کی علوی افواج نے اپنی اقلیت ہونے کے خوف میں لوگوں پر شدید تشدد اور قتل و غارت کا آغاز کر دیا۔

ان دنوں میں بیروت میں تھا جب شام سے مہاجرین کے اولین قافلے وہاں آنا شروع ہوئے اور دوسری جانب حزب اللہ کے کمانڈروں نے بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کے لیے اپنے جنگجوؤں کو بھیجنا شروع کیا۔ یہ بیروت کے عوام کی زبان پر ایک خفیہ سچ تھا جس کا انکار حسن نصراللہ کر رہا تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد حزب اللہ نے شام کے القصیر ضلع پر حملہ کر کے اس کے آٹھ دیہات پر قبضہ کر لیا اور وہاں اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔ دوسری جانب سعودی عرب اور قطر نے وہاں لڑنے والے دیگر گروہوں نے مدد شروع کر دی۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کردوں کے سیکولر گروہوں کو اسلحہ پہنچانا شروع کیا اور ساتھ ساتھ بشار الاسد کی فوج سے بھاگنے والے سپاہیوں کی تنظیم حرکت الحرالشامیہ (Free Syrian Army) کی بھی مدد شروع کر دی۔ یہ جنگ جس میں عراق کی حکومت اور ایران بھی کود پڑے‘ ایک ایسا میدان جنگ بن گئی جس نے ساٹھ لاکھ سے زیادہ شامیوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق چھ لاکھ کے قریب انسان لقمہ اجل بن گئے۔ کچھ عرصہ یہ جنگ صرف امریکا اور مغربی طاقتوں کی توجہ حاصل کر سکی‘ لیکن جب یہ خطرہ منڈلانے لگا کہ بشار الاسد کی حکومت شاید ختم ہو جائے اور اس کے ساتھ ہی شام کی واحد بندر گاہ جو روس کے زیر استعمال ہے وہ بھی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے گی تو روس بھی اس میدان میں کود پڑا۔

روس اور امریکا اپنے معاملات میں بہت واضح ہیں۔ وہ اسے مفادات کی جنگ کہتے ہیں اور انھی کے تحفظ کے لیے لڑ رہے ہیں۔ لیکن مسلم امہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں بھی سعودی عرب اور ایران بھی مفادات اور علاقائی بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ لیکن عام مسلمان کا خون بہانے یا عام سادہ لوح مسلمان کو جنگ کے لیے تیار کرنے کے لیے مسلک کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’اے کعبہ تیری بڑی حرمت ہے لیکن ایک مسلمان کی جان کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے‘‘(مفہوم) جس انسان کی جان کو خانہ کعبہ سے محترم اور مقدس بتایا گیا ہے اسے مقامات مقدسہ کے نام پر یا پھر فروعی اختلافات کے نام پر قتل کیا جا رہا ہے۔

دنیا بھر سے سنی اور شیعہ مسالک کے نوجوانوں کو شام کے میدان میں جھونکا جا رہا ہے۔روس اور امریکا چونکہ منافقت نہیں کرتے‘ واضح بتاتے ہیں کہ ہم مفاد کے لیے لڑ رہے ہیں اس لیے جیسے ہی روس نے حلب شہر پر بمباری شروع کی امریکا اور اس کے اتحادیوں نے (international Syrian support Group) (ISSG) بنا لیا اور ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی 30 اکتوبر 2015 کو وی آنا میں امریکا‘ برطانیہ‘ روس‘ ایران‘ ترکی‘ مصر‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر‘ اردن‘ چین‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی اور یورپی یونین شام کے مسئلے کے حل کے لیے اکٹھا ہو گئے۔

ایران کو اس گروپ میں روس نے بلایا۔ جس پر سعودی عرب نے احتجاج کیا لیکن پھر خاموشی چھا گئی۔ چودہ نومبر 2015 کو یہ لوگ جنیوا میں اکٹھے ہوئے اور ایک امن کے منصوبے پر اتفاق ہوا جس کے تحت ایک اطالوی نژاد اسٹیفن ڈی مستورا  Staffan D Mistura کو اقوام متحدہ کا امن نمایندہ مقرر کیا گیا۔ یہ شخص پہلے افغانستان اور عراق میں یہی ذمے داری ادا کرتا رہا ہے۔ اس امن منصوبے میں جبۃ النصرہ اور دولت اسلامیہ دونوں کو امن منصوبے سے باہر رکھنے کے لیے کہا گیا۔

اس سب کے باوجود امن شام کی سرزمین کے لیے خواب ہی رہا اور مہاجرین کے قافلے پوری دنیا میں اس سرزمین کی جنگ کی ہولناکی کا پتہ دیتے رہے۔ گزشتہ دنوں پیرس کی گلیوں میں ہر موڑ پر میں نے ایک شامی خاندان کو اپنے بچوں سمیت بھیک مانگتے دیکھا ہے‘ یہی حال برسلز‘ ہیمبرگ‘ اوسلو‘ بارسلونا اور میلان کے شہروں میں مجھے نظر آئی۔ پیرس کی زیرزمین ٹرین جہاں باہر آتی ہے اور پھر بڑے بڑے ستونوں پر سفر شروع کرتی ہے‘ ان ستونوں کے نیچے ہزاروں شامی خاندان رات کو بستر لگا کر سوتے ہیں۔

صرف ترکی میں20لاکھ شامی مہاجرین ہیں اور پوری دنیا میں ان کی اندازاً تعداد ساٹھ لاکھ ہے۔ اس امن منصوبے کے بعد پھر لیبیایوتی کے لیے 27فروری 2016 کو جنیوا میں یہ ممالک مل کر بیٹھے اور لڑائی کو ختم کرنے کے لیے سوچتے رہے۔ اس سوچ کے دوران بیچارے شامیوں پر میزائل برستے رہے‘ ان کے گھر تباہ ہوتے رہے‘ان کی زندگیاں ویران اور موت ان کے محلوں پر رقص کرتی رہی اور یہ چاروں بڑے امریکا‘ روس اور ایران سعودی عرب اس جنگ کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ ایک خوف مسلط کرنے کے بعد اب چند دنوں کا سیز فائر ہوا ہے۔ شاید اس لیے کہ کچھ دیر ان شامیوں کو خوراک دو تاکہ انھیں پھر قتل کیا جائے۔ جنگ بندی میں اقوام متحدہ کی امدادی ٹیمیں جائیں گی اور پھر یہ خبر لے کر واپس آئیں گی کہ کون کہاں بچا ہے تاکہ اس کو بعد میں تباہ کیا جائے۔

دوسری جانب دنیا بھر کے ’’قیامت کے پہلے کے دور کے عالم‘‘ESCHTOLOGIST جن میں خصوصاً عیسائی اور صیہونی شامل ہیں‘ وہ تیسری جنگ عظیم کے آغاز کے لیے 8اکتوبر  2016 سے 26 اکتوبر 2016 کے درمیان کا عرصہ بتا رہے ہیں۔ اس ضمن میں وہ اپنی روایات کے ساتھ ساتھ ناسٹرو ڈیمس کی پیش گوئیوں کا بھی سہارا لے رہے ہیں۔ دوسری جانب احادیث کی وہ تمام کتب جو خصوصاً اس دور کے بارے میں ہیں جو قیامت سے کچھ عرصہ قبل کا دور ہے ان میں موجود احادیث بھی اس آخری جنگ کے آغاز کو شام کی سرزمین سے منسوب کرتی ہیں۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سید الانبیاء کے بقول ’’رومی جنگ عظیم کے لیے اکٹھے ہوں گے اور اسی جھنڈوں کے تحت آئیں گے اور ہر جھنڈے کے تحت بارہ ہزار سپاہی ہوں گے (مستدرک‘ ابن حیان)۔ یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں شام کے علاقوں وافق‘ اعماق اور غوطہ کی جنگوں کا تذکرہ ہے۔ لیکن اس بڑی جنگ سے پہلے ایک فیصلہ ہونا باقی ہے اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا ’’جب لوگ دو خیموں میں تقسیم ہو جائینگے‘ ایک اہل ایمان کا خیمہ جس میں بالکل نفاق نہیں ہو گا اور دوسرا منافقین کا خیمہ جن میں بالکل ایمان نہ ہو گا تو پھر دجال کا انتظار کرو کہ وہ آج آئے یا کل۔ (ابو داؤد‘ مستدرک) یہ فیصلہ بھی لگتا ہے شام کے میدان میں ہی ہو جائے گا۔ جب اس خونریزی سے امت مسلمہ میں سے صرف دو گروہ بچ نکلیں گے جو ان اسی جھنڈوں کے مقابل میں ایک خیمے میں ہوں گے۔ نہ روس کے ساتھی اور نہ امریکا کے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔