سب سے بڑا دہشت گرد

رئیس فاطمہ  ہفتہ 8 دسمبر 2012

’’صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘ جس جگہ آپ کو یہ جملہ لکھا نظر آئے گا، عین اس کے نیچے گندگی اور غلاظت کا ڈھیر بھی آپ کا خیر مقدم کرے گا۔ صفائی کو مسلمانوں کے ایمان کا نصف جزو بنا دیا گیا، لیکن اس پر عمل کرتے ہیں غیر مسلم۔۔۔۔۔! انڈیا میں جن جن شہروں اور علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا، وہاں ہر جگہ مسلم آبادی والے علاقے انتہائی غلیظ نظر آئے، جب کہ ہندوؤں خصوصاً جین مت کے ماننے والوں کے علاقے اتنے صاف ستھرے کہ ڈھونڈے سے گندگی نہ ملے۔

شاید اس لیے کہ صفائی ان کی زندگیوں کا لازمی حصہ ہے، جب کہ ہم آسانی سے نصف ایمان صفائی کا اہتمام کر کے حاصل کر سکتے ہیں، مگر نہیں کرتے۔ ظہور اسلام سے پہلے بھلا ان صحرائی بدوؤں کی زندگی میں کتنی غلاظت ہو گی کہ صفائی کو ان کے نصف ایمان کا درجہ دے دیا گیا، لیکن ہماری صورت حال آج بھی وہی ہے جو قبل اسلام تھی اور تو اور مسجدوں کے اطراف میں بھی آپ کو گندگی کے ڈھیر نظر آئیں گے، کیونکہ مسجدیں ہوں یا امام بارگاہیں، سب میں بنیادی حیثیت دکانوں کی ہوتی ہے اور جہاں دکانیں ہوں گی وہاں گندگی اور کوڑے کے ڈھیر بھی ہوں گے۔

کیونکہ لاکھوں کی دکانوں میں کروڑوں کا مال ہوتا ہے، لیکن صاحبِ دکان صرف دکان کے اندر کی صفائی کو مقدم سمجھتا ہے اور اپنی دکان کا کوڑا کرکٹ نکال کر فٹ پاتھ اور سڑک پر پھیلا دینا اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے، یقین نہ آئے تو بڑی بڑی مارکیٹوں کی دکانیں بند ہونے کے بعد اطراف کی گلیوں اور سڑکوں پہ نگاہ ڈالیے تو ہر جگہ کھانے پینے کی اشیاء کے خالی ڈبے، ریپرز، کولڈ ڈرنک کی ڈسپوز ایبل بوتلیں، پھلوں کے چھلکے اور نجانے کیا کیا آپ کی آنکھوں میں چبھے گا۔

کراچی اور لاہور میں اتوار کو دیگر بازاروں کے علاوہ پرانی کتابوں کے بازار بھی لگتے ہیں، چونکہ اتوار کو بڑی مارکیٹیں بند ہوتی ہیں اس لیے دکانوں کے آگے یہ بازار سجائے جاتے ہیں۔ لیکن بازار لگانے والے کتب فروش نہ تو یہ دیکھتے ہیں کہ جس جگہ وہ کتابیں سجا رہے ہیں وہیں گٹر اُبل رہا ہے اور کوڑے کے ڈھیر پڑے ہیں۔ انھیں تو کتابیں بیچنی ہیں۔ کوڑا کرکٹ ان دکانوں کا ہے جو اتوار کو بند ہوتی ہیں، لہٰذا یہ ان کی ذمے داری نہیں کہ ایک خاکروب کو سو دو سو روپے دے کر جگہ صاف کروالی جائے تا کہ خریدار کو کتابوں کے ساتھ ساتھ بیماریاں نہ خریدنی پڑیں۔

اتوار کو ہم ایک ایسے ہی بازار سے ہو کر آئے جو ریگل صدر کراچی میں لگتا ہے، واپسی پر چھینکیں، نزلہ اور زکام کا تحفہ بھی مفت میں مل گیا، جس نے جان عذاب میں کی ہوئی ہے۔ گھر لوٹنے کے ساتھ ہی مجھے ڈاکٹر احسان الحق صاحب کا ایک تاریخی جملہ یاد آ گیا جو وہ اکثر اپنے مریضوں سے کہتے ہیں کہ ’’سب سے بڑا دہشت گرد پولوشن (Polution) ہے۔‘‘ بے چارے ڈاکٹر صاحب ہر مریض کو آلودگی کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر کے طور پر ناک میں ہمیشہ کوئی سا تیل لگا کر رکھیں، گرم پانی سے دن میں دو تین بار غرارے کریں، سونف، ادرک، دار چینی اور الائچی کا قہوہ یا چائے بنا کر پئیں۔

لیکن ڈاکٹر صاحب کے لاکھ کہنے کے باوجود لوگ آلودگی کے مضر اثرات کو سنجیدگی سے لیتے ہی نہیں ہیں۔ آلودگی بھی کئی قسم کی ہے۔ مثلاً CNG رکشوں سے دھواں بے شک نہیں نکلتا، لیکن گیس کے اثرات سے چھینکیں، نزلہ اور زکام عام ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے ایک اور پتے کی بات بتائی کہ موبائل فون کے ٹاور سے بھی تابکاری کے مضر اثرات انسانی جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں، لیکن لوگوں میں یہ شعور ہی نہیں ہے کہ ان سے بچا جا سکے۔ پیسوں کے لالچ میں لوگ اپنے گھروں پر خوشی خوشی یہ ٹاور نصب کرواتے ہیں اور اپنے خاندان کی صحت داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

دراصل ہم لوگ مجموعی طور پر بے حس اور خود غرض ہیں۔ گھر ہمارے ہیں لیکن سڑکیں ہماری نہیں گورنمنٹ کی ہیں۔ اسی لیے سارا کوڑا کرکٹ گھروں سے نکال کر سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں۔ گاڑیاں ہماری ہیں، لیکن گلیاں ہماری نہیں، اسی لیے گاڑیوں کو دھونے کا کام گلیوں میں ہوتا ہے، جہاں گندہ پانی ہر وقت جمع رہتا ہے، جس میں مچھر پیدا ہوتے ہیں اور ڈینگی بخار کا باعث بنتے ہیں۔ پلاسٹک کی تھیلیاں گٹر بند کر دیتی ہیں، سڑکوں اور بازاروں میں گٹر اُبلتے رہتے ہیں، لیکن ہم پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال بند نہیں کریں گے، کیونکہ ہم قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔

سٹی گورنمنٹ نے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی لگائی تھی اور نہایت پتلے پلاسٹک کی تھیلیوں کی قطعی ممانعت کر دی تھی۔ سٹی گورنمنٹ گئی تو پلاسٹک کی تھیلیاں دوبارہ گٹر بند کرنے لگیں۔ آخر پہلے بھی تو سودا سلف کے لیے لوگ گھروں سے کپڑے کے تھیلے لے کر جاتے تھے، دودھ، دہی کے لیے بھی خود ہی انتظام کرنا پڑتا تھا، لیکن پلاسٹک کی تھیلیوں نے آسانیاں تو پیدا کر دیں، لیکن ہم اس قابل نہیں تھے کہ ان کو صحیح طور سے استعمال کرنے کا سلیقہ سیکھتے، راہ چلتے کھاتے پیتے تھیلیاں ہوا میں اڑاتے اڑاتے یہ کسی نے نہیں سوچا کہ جب ان تھیلیوں کی وجہ سے گٹر ابلیں گے، سیوریج کی لائنیں خراب ہوں گی تو ان سے جو تعفن اور آلودگی پیدا ہو گی وہ انسانی صحت کے لیے کتنا بڑا خطرہ ثابت ہو گی۔

ہم میں نہ اجتماعی شعور ہے نہ ہی دوسروں کا احساس۔ بازار کھلنے پر دکانوں کی صفائی شروع ہو جاتی ہے، دکاندار اپنی دکانیں صاف کر کے سارا کوڑا کرکٹ سڑک پر ڈال دیتے ہیں اور تو اور جہاں جہاں نام نہاد فوڈ اسٹریٹ ہیں اور کھانے پینے کے ٹھیلے لگے ہیں، ان کا حال دیکھیئے تو گھن آتی ہے۔ اسی کچرے کے ڈھیر اور ابلتے گٹروں کے ساتھ لوگ کرسیوں پر بیٹھے بہت کچھ کھا پی رہے ہوتے ہیں۔ خدا جانے کیوں نہ انھیں ایسی جگہوں سے کراہت آتی ہے نہ ہی ٹھیلوں پر بکنے والی اشیاء سے۔ اور جب یہاں سے وہ پیٹ پوجا کر کے اٹھتے ہیں تو چند گھنٹوں یا ایک دن بعد ان پر ڈائیریا کا اٹیک ہو جاتا ہے، آنتوں کی سوزش، نزلہ، زکام، بخار، سر درد، جی کا متلانا، گلے میں خراش، یہ سب سرد موسم کا تحفہ ضرور ہیں، لیکن 98% فیصد یہ آلودگی کا عذاب ہیں۔ تعلیم کی کمی، اخبار کا نہ پڑھنا اور صرف اپنی ذات سے آگے نہ سوچنا، ان تمام مسائل کی جڑ ہیں۔

یہاں تو لوگوں میں اتنا شعور نہیں کہ چھینکتے وقت رومال منہ اور ناک پر رکھ لیں، دفتروں میں، بازاروں میں، محفلوں میں، لوگ آزادانہ چھینکتے رہتے ہیں اور اپنے اطراف کے لوگوں کو بیمار کر ڈالتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ہمت کر کے انھیں کہہ دے کہ بھائی ذرا منہ کے آگے رومال رکھ لیجیے تو جواب میں وہ ایسی غصیلی نظروں سے مخاطب کو دیکھے گا کہ کہنے والا خود مجرم بن جائے گا۔ آخر میں ڈاکٹر احسان کا جملہ پھر دوہراؤں گی کہ ’’سب سے بڑا دہشت گرد پولیوشن ہے۔‘‘ اس سے بچو اور صحت مند رہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔