کیا شہر تھا‘ کیا لوگ تھے

سعید پرویز  ہفتہ 8 دسمبر 2012

شہر کا یہ حال دیکھتا ہوں تو گزرا زمانہ یاد آجاتا ہے، کیسے کیسے اچھے لوگ اس شہر میں رہتے تھے، کیا اچھا زمانہ تھا، سب مل جل کر، موج مستی میں دن بتاتے تھے، کیا امیر کیا غریب، سب اپنی اپنی دنیاؤں میں مگن رہتے تھے۔

وہ بھی میری طرح اس شہر کا پرانا باشندہ ہے اور زندہ ہے۔ میں بھی زندہ ہوں، سانسوں کی مالا، ڈوری پر چل رہی ہے۔ وہ آج صبح صبح آگیا تھا، اور پرانا کراچی یاد کر کرکے آہیں بھر رہا تھا۔ ’’ایک بڑا ہوٹل ہوتا تھا،  شہر کے رؤسا اور بڑے سرکاری افسر یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ غریب آدمی ہوٹل کی عمارت کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا، اس کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ ہوٹل کے اندر جائے، وہ تو بس اسی میں خوش تھا کہ اس کے شہر میں ایسا عالیشان ہوٹل ہے۔

اپنی جھگی میں آکر وہ بیوی بچوں کو بتاتا کہ آج میں نے وہ بڑا ہوٹل دیکھا، کیا بڑھیا ہوٹل ہے، باپ کی بات سن کر بچے کہتے ’’ہمیں بھی وہ والا ہوٹل دکھاؤ‘‘ غریب کے بچے ’’ہوٹل لے جائیں ‘‘ نہیں کہتے تھے، ’’دکھائیں‘‘ کہتے تھے۔ وہ بولے چلا جارہا تھا ’’کیا زمانہ تھا، لوگوں میں حرص و ہوس گھڑی گپ شپ ماری، برکت ہوٹل والا برکت، شیو بڑھی ہوئی، سر پر میلی سی ٹوپی پہنے، چائے بنا رہا ہے، ’’برکت بھائی! آج چائے کے ساتھ باقر خانی بھی دیجیو‘‘ باقر خانی کا آرڈر سن کر برکت بھائی کی بانچھیں کِھل جاتیں ’’ابے لڈن! کیا آج دہاڑی تگڑی لگ گئی ہے‘‘۔

’’بس آج دل چاہ رہا ہے باقر خانی کھانے کو ‘‘ لڈن آلتی پالتی مارتے ہوئے کہتا ’’اچھا بھئی! تُو اپنا دل پرچالے اور باقر خانی کھالے‘‘ برکت اخبار دیکھنے میں محو ہوجاتا، کچھ ادھر اُدھر کی خبریں پڑھیں، تبصرے کیے، کچھ وقت یوں گزارا اور گھر آگئے، گھر کیا جھونپڑی میں آگئے۔ادھر بڑے ہوٹل میں بھی یہی کچھ ہوتا جو برکت ہوٹل میں ہوتا تھا، فرق تھا تو بس ’’کلاس‘‘کا۔ بڑے ہوٹل میں اردو اخبار کی جگہ انگریزی اخبار ہوتے۔ اپنے وطن کے اپنے شہر کے قصے کم اور لندن فرانس کے زیادہ ہوتے،اسی ہوٹل میں بڑے مشہور شاعر ادیب بھی شامیں گزارتے تھے،مگر یہ وہ شاعر ادیب ہوتے تھے کہ جو بڑے سرکاری افسر بھی ہوتے تھے، غریب شاعر ادیب، لائٹ ہاؤس سینما کے سامنے والے سبحان اللہ ہوٹل میں بیٹھتے تھے، یا پھر برنس روڈ اور صدر کے ہوٹلوں میں ان کی شامیں گزرتی تھیں۔

ان علاقوں کے ہوٹل رات گئے تک کھلے رہتے تھے، یہاں بیٹھنے والے شاعر ادیب اس وقت ہوٹل سے اٹھتے کہ جب ٹیبل مین انھیں کہتا کہ اب ہوٹل بند ہو رہا ہے‘‘۔وہ بولتے بولتے کچھ دیر کو رکا  اور پھر شروع ہوگیا۔ ’’بڑے ہوٹل میں کوٹ پینٹ ٹائی یا پھر قومی لباس شیروانی پہن کر داخل ہوا جاتا تھا، یعنی شہر کراچی واضح طور پر تقسیم تھا، ایک امیر طبقہ اور دوسرا غریب طبقہ۔ بس یہی واحد تقسیم کا فارمولا ہوتا تھا اور اپنے اپنے طبقے میں سب شیر و شکر ہوکر رہتے تھے۔ سارا شہر سب کے لیے کھلا تھا، جس کا جدھر دل چاہے اٹھ کر چل دے۔

غریب کے گھر کا چولہا جلتا تھا، دال چٹنی میسر تھی، اور وہ اچھے دنوں کی آس لگائے محنت مزدوری کرتا تھا۔ آج اس شہر میں لاکھوں کی تعداد میں وہ لوگ موجود ہیں کہ جنہوں نے جھونپڑیوں سے زندگی کا آغاز کیا، روکھی سوکھی کھا کے وقت گزارا اور آج پکے مکانوں میں آسودہ حال زندگی گزار رہے ہیں اور یہ ہمارا شہر کراچی سیلف میڈ لوگوں کا شہر کہلانے لگا۔ اور پھر ملک بھر سے لاکھوں لوگوں نے اس شہر کا رخ کرلیا۔ یہاں دن میں ملازمت اور شام میں کالج، شام کے کالجوں سے پڑھ کر جو لوگ نکلے، ان میں اس شہر کے بہت سے نامور وکیل بنے، بینک افسران بنے، سرکاری عہدیدار بنے۔

دوسرے شہروں سے آنے والوں نے بھی اس شہر کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان میں سے بہت سوں نے یہیں شادیاں کرلیں اور یوں محبت کے نئے رنگ، نئے روپ سامنے آئے۔ کیا زمانہ تھا، کہ برنس روڈ کا طالب علم اسلم پولیس والوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوا (جنرل ایوب کا دور حکومت، طلباء تحریک) تو پورا شہر بند ہوگیا۔ لیاری، ملیر، لانڈھی، ڈرگ کالونی، ناظم آباد، عزیز آباد، کیماڑی، سب بند۔ کیا ایکا تھا، کیا پیار تھا، سارے شہر کا دل ایک ساتھ دھڑکتا تھا۔ یہاں تک بات کرکے وہ پھر خاموش ہوگیا اور میں اس کا منتظر کہ اب آگے وہ کیا بولے گا۔ میں اسے دیکھ رہا تھا اور وہ پھر شروع ہوگیا۔

’’یہ جو گانا ہے ’’اے روشنیوں کے شہر بتا/ اجیالوں میں اندھیاروں کا/ یہ کس نے بھرا ہے زہر بتا / میں جب بھی یہ گانا سنتا، تو مجھے لگتا، کہ اس گیت کے شاعر خواجہ خورشید انور نے کراچی کے لیے یہ لکھا ہے، اس کی طرز بھی انھوں نے بنائی تھی، اور مہدی حسن نے اسے گایا تھا، اور جب میں سوچتا ہوں اس زمانے کے اندھیاروں اورآج کے اندھیاروںکا…تو میں لرز کر رہ جاتا ہوں‘‘۔ وہ پھر چپ ہوگیا، پھر کچھ دیر سر جھکائے خاموش رہا۔ اب وہ پھر بول رہا تھا۔ ’’یہ ہم کہاں آگئے ہیں؟ یہ کون سی بستی ہے، جہاں چاند نہ سورج، کس درجہ بری رات ہے، کس درجہ برا دن‘‘۔

وہ چند لمحوں کو رکا اور پھر بولا۔ ’’ہاں ایک چائے خانے کا ذکر تو رہ گیا۔۔۔۔یہ تھا ’’اے ون ہوٹل‘‘ یہ ہوٹل سعید منزل کے سامنے ایم اے جناح روڈ پر آج بھی موجود ہے۔ یہاں بھی بڑے نامور فنکار بیٹھتے تھے، ساتھ ہی ریڈیو پاکستان تھا۔ مہدی حسن، احمد رشدی، نہال عبداللہ اور ریڈیو اسٹیشن کے سازکار، اکثر اس ہوٹل میں بیٹھا کرتے تھے اور سعید منزل سے یاد آیا، ڈاکٹر یاور عباس کا دواخانہ یہیں سعید منزل پر ہوتا تھا، دہلی کا خاندان۔ باپ ڈاکٹر ناصر عباس، بھائی سرجن دلاور عباس، بہن ڈاکٹر عصمت، بہنوئی ڈاکٹر ذیشان عباس اور ڈاکٹروں کا یہ سلسلہ ان کے خاندان میں جاری ہے۔ یہ وہی ڈاکٹر یاور عباس ہیں جن کے چار مصرعے غلام فرید قوال صاحب نے اپنی مشہور قوالی ’’تاجدارِ حرم‘‘ کے آغاز میں گائے ہیں۔

قسمت میں مری چین سے جینا لکھ دے

ڈوبے نہ کبھی میرا سفینہ لکھ دے

جنت بھی گوارا ہے‘ مگر میرے لیے

اے کاتب تقدیر مدینہ لکھ دے

عام لوگوں کے علاوہ جن معروف شخصیات کے یہ معالج تھے، وہ تھیں حضرت جوش ملیح آبادی، زیڈ اے بخاری، ممتاز حسین، عزیز حامد مدنی، مشتاق مبارک، شمس زبیری، کرار نوری، حفیظ ہوشیار پوری، حبیب جالب، صادقین اور دنیائے موسیقی استاد اللہ دتہ خان، استاد نتھو خان، رفیق غزنوی، استاد امراؤ بندو خان، جلیل القدر پیارے میاں، استاد حامد حسین، استاد واجد حسین اور بہت سے نامی گرامی لوگ ، جن کے نام اس وقت یاد نہیں آرہے، میں نے ان سب لوگوں کو ڈاکٹر یاور عباس صاحب کے کلینک پر دیکھا ہے۔ ڈاکٹر یاور جب فردوس کالونی والے گھر میں منتقل ہوئے تو وہاں محرم کے مہینے میں نو تصنیف مرثیوں کی محافل میں وقت کے تمام اہم مرثیہ نگاروں کو میں نے دیکھا، نسیم امروہوی، آلِ رضا، صبا اکبر آبادی، مشتاق مبارک اور دیگر‘‘۔

وہ پھر رک گیا، پھر سرد آہ بھرتے ہوئے بولا، کیسے کیسے پیارے لوگ میرے شہر میں رہتے تھے، کیا بانکا شہر تھا، نہ کوئی فقہی جھگڑا۔ مولانا حامد بدایونی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا شفیع اوکاڑوی، علامہ شاہ احمد نورانی، علامہ مصطفے الازہری، علامہ رشید ترابی، علامہ ابن حسن جارجوی، پیر حیرت شاہ وارثی، پیر ذہین شاہ تاجی، پیر ضیاء القادری۔

اس کی گفتگو جاری تھی کہ میرا لڑکا کمرے میں داخل ہوا، جہاں ہم بیٹھے تھے۔ میرا بیٹا کہہ رہا تھا ’’ابو الحسن اصفہانی روڈ پر شدید فائرنگ ہورہی ہے، ہزاروں لوگ توڑ پھوڑ کر رہے ہیں، ایک مولوی صاحب کو ’’نامعلوم‘‘ قاتلوں نے مار دیا ہے ’’میں بچوں کو اسکول سے لینے جارہا ہوں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔