مجھے محبت ہے تم سے میرے پیارے

شیریں حیدر  ہفتہ 8 دسمبر 2012
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ پیاری آپی، السلام علیکم… ‘‘  یہ ایک ای میل کے ابتدائی الفاظ ہیں  جو کہ مجھے چند دن قبل موصول ہوئی مگر کئی بار ارادہ کرنے کے باوصف آپ لوگوں سے شئیر نہ کر سکی، اس کے اسباب قطعی ذاتی ہیں مگر جانے کیوں آج قلم کو نہیں روک پا رہی اور یہ ای میل آپ کے سامنے ہے۔ ’’ میرا نام عمر ہے اور میں آ پ کے کالم باقاعدگی سے پڑھتا ہوں اور آپ سے شکایت ہے کہ آپ ہماری زندگیوں کی مشکلات پر کچھ نہیں لکھتیں… (حالانکہ مجھ پر الزام ہے کہ میں خواہ مخواہ فوج کی حمایت میں لکھتی ہوں)، میں اس وقت آپ کے گھر میں الیکٹریشن کے طور پر کام کر رہا تھا جب آپ کا گھر بن رہا تھا…  ( مجھے وہ کم عمر سا عمر یاد آ گیا جو کہ کام میں نا پختگی کے باعث کئی غلطیاں کرتا اور ڈانٹ کھاتا تھا)۔

میں نے اس کام میں اپنے استاد سے بھی یہی سیکھا کہ جس طرح ممکن ہو کام میں ’’ ڈاجنگ‘‘ کرو اور اپنی اجرت بڑھاتے رہو، دو دن کا کام کسی نہ کسی بہانے دس دن تک لے جاؤ۔ مالک کال کر کے بلائیں تو جو بھی کام کہیں، پہلے ایڈوانس رقم کا مطالبہ کرو، کوئی نہ کوئی بہانہ ہمہ وقت تیار ہونا چاہیے۔ اگر رقم مل جائے تو اس دن کے حساب سے کچھ نہ کچھ کام کر دو اور اگر مالک کوئی بہانہ کریں تو تم شکل دکھا کر کھسک جاؤ اور اپنا فون بھی اٹینڈ نہ کرو… اگر دو تین بار سے زائد کالیں کریں تو فون آف کر دو اور دو تین دن انھیں اسی طرح تڑپاؤ۔ خود بخود وہ سیدھے رستے پر آ جائیں گے۔ کہیں مرمت کا کام کرنے جاؤ تو اس گھر میں اپنا راستہ کھول لو، ایک کام درست کرتے وقت کوئی اور ایسی گڑبڑ کر دو کہ وہ بار بار تمہیں بلاتے رہیں اور سلسلہ چلتا رہے۔‘‘  اس کی ای میل پڑھتے ہوئے ہنسی بھی آ رہی تھی کہ اب یہ سب جاننے کے لیے بہت دیر ہو چکی تھی۔

’’ میں اس کام سے جلد اکتا گیا،  طبیعت کسی کام میں نہ لگتی تھی،  اس کام میں پڑنے سے پہلے میں نے مزدوری بھی کی تھی،  گاؤں میں ایک ہوٹل پر بیرے کا کام بھی کیا تھا،  ایک قصاب کی دکان پر گوشت بنانے کا کام بھی کیا تھا،  اپنا چھوٹا سا ڈھابا بھی بنایا تھا، سگنل پر گاڑیاں بھی صاف کی تھیں، اخبار بھی بیچے اور سبزی منڈی میں ریڑھا بھی چلایا تھا،  کوئی کام ایسا نہ تھا آپی جس میں کسی استاد نے یہ سکھایا ہو کہ اپنے کام سے محبت کرو،  اپنے پیشے سے انصاف کرو، ناپ تول پورا کرو،  گاہک کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو، کام خلوص اور نیک نیتی سے کرو…

گیارھویں جماعت کا طالب علم تھا کہ ابا کو پیش آنے والے حادثے نے مجھے اپنی پڑھائی چھوڑ کر عملی زندگی میں قدم رکھنے پر مجبور کر دیا اور فقط دو سال کے عرصے میںِ بیس برس کی عمر میں … میں نے بد دیانتی، جھوٹ اور منافقت کے ایسے ایسے سبق سیکھے کہ جو میری کسی بھی جماعت کے کورس کی کتابوں میں نہ تھے۔ میں سوچ سوچ کر حیران ہوتا تھا کہ کتابوں میں لکھی باتیں کس کے لیے ہیں اور ان پر کون عمل کرتا ہے؟ کیا ان پر عمل کرنے والوں کی زندگی بہت دشوار ہو گی؟ یہی سوچتا رہتا مگر جواب کہیں سے نہ پاتا… پھر ایک روز آپ اپنی ایک کتاب اپنے زیر تعمیر گھر میں اس کرسی پر بھول گئیں جس پر بیٹھ کر آپ اپنے حسابات چیک کرتی تھیں۔  میں نے اپنے سیکھے ہوئے اسباق کے مطابق… آپ کی اجازت کے بغیر وہ کتاب اٹھا لی اور اسے کھولتے ہی اندازہ ہوا کہ وہ کتاب آپ کے کالموں پر مشتمل تھی۔ میں نے سوچا کہ میں آپ سے اجازت لے لوں گا مگر اس کا موقع نہ ملا… اس روز اپنے گھر جاتے ہوئے وین کا حادثہ ہوا اور میں اس حادثے میں ٹانگ تڑوا بیٹھا، آپ کو بتایا مگر آپ کو بھی یقین نہ آیا ہو گا کیونکہ آپ بھی جانتی تھیں کہ کسی نہ کسی بہانے کے ہم لوگ عادی ہوتے ہیں۔

جب تک میں صحت یاب ہوا، آپ کا گھر مکمل ہو چکا تھا اور میرا ذہن مکمل طور پر تبدیل ہو چکا تھا، آپ کی کتاب کسی مقدس صحیفے کی طرح میں ہر روز کھول کر تقریباً پوری پڑھتا تھا، اس میں لکھے ہوئے کالموں نے میری سوچ کا انداز بدل دیا، میں صحت یاب ہو کر فوج میں بھرتی ہوا اور تب میں نے جانا کہ اپنا کام ایمانداری سے کرنے والے لوگ بھی اس ملک میں ہیں،  شاید انھیں کی وجہ سے وہ لوگ بھی زندہ ہیں جنہوں نے اس ملک کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے… اس ملک کو کرتا دھرتاؤں نے نیلام کر دیا ہے مگر ہم تو اپنی ماں کی حفاظت کی قسم کھا چکے ہیں… اسے بچاتے ہوئے اپنے لہو کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے…  خود کٹ مریں گے مگر اس پر آنچ نہ آنے دیں گے۔

آپی میں اس وقت ایک محاذ پر ہوں، سال بھر سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے، ہر روز رات کو موت کی آغوش میں سوتے جاگتے رہتے ہیں… ماں نے تڑپ تڑپ کر گھر سے رخصت کیا تھا کہ تم قدموں پر چل کر نہ آئے تو تمہاری ماں بے موت مر جائے گی… ابا نے کہا کہ سرکاری تنخواہ سے گزارا نہیں ہوتا مگر اب کسے پروا ہے کہ کس کا کتنا پیٹ بھرتا ہے، میں کوئی رازق تو نہیں … جس نے پیدا کیا ہے وہ سب کے رزق کے اسباب بھی کرتا ہے،  میری کیا مجال کہ میں ان کے پیٹ بھرنے کو ہر جائز ناجائز کرتا پھروں،  بس اسی سوچ نے میری زندگی کا رنگ بدل دیا۔

اپنے کمانڈنگ افسر کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں تو سوچ آتی ہے اس سے اوپر بھی ایک کمانڈر ہے،ایک اس سے اوپر ہے، پھراس سے  اوپر اور اس سے اوپر… مگر میں نے مشکل ترین محاذوں پر بھی سب کو آتے دیکھا ہے، وہ ہمارے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری جانیں وطن کی امانت ہیں… وین کے حادثے میں، میں نے چند لمحوں کے لیے سوچا تھا کہ اگر میں مر جاتا تو میرے گھر والوں کا کیا ہوتا اور یہاں ہم ہر وقت موت کا جام ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھے ہوتے ہیں اور کبھی سوچ نہیں آتی کہ میرے گھر والوں کا کیا ہو گا۔  مجھے اب احساس ہوا ہے کہ میری زندگی کا کوئی مقصد ہے… اللہ نے مجھے کتنے خاص کام کے لیے پید ا کیا تھا اور میں پیٹ کی خاطر جانے کیا کیا فراڈ کرتا رہا تھا۔

یہاں سے باہر کی دنیا میں ہر کام میں کوئی نہ کوئی خانہ فراڈ اور چکر بازی کا نکل آتا تھا مگر یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔  لوگ کہتے ہیں کہ فوج ملک کو کھا گئی ہے،  کوئی ہے مائی کا لال جو ہمارے جیسے حالات میں ایک رات  گزار سکے… جہاں مستقل لوڈشیڈنگ ہے کہ بجلی ہی نہیں،  بستر پر گدے نہیں بلکہ حشرات ہوتے ہیں،  گرم کمرے اور محفوظ گھر نہیں … کھلا آسمان ہوتا ہے یا ٹینٹ… نہانا تو درکنار بسا اوقات پینے کے پانی کی بھی راشن بندی ہوتی ہے… کیا کھا گئے ہیں ہم اس ملک کا؟

کسی کو ہماری قربانیوں کا ادراک نہیں، کسی کو ہماری مشکلات کا احساس نہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی سیاست چمکا رہا ہے۔ آپ سے بارہا کہا کہ آپ ہمارے بارے میں لکھیں مگر آپ نے دھیان نہیں کیا، اب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا ہے کہ جب میں جام شہادت نوش کروں تو سب سے پہلے آپ کو اطلاع کی جائے اس درخواست کے ساتھ کہ آپ مجھ پر ایک سادہ سا کالم لکھ دیں اور میرے ساتھیوں پر … زندہ سپاہیوں پر کوئی نہیں لکھتا،  شاید میری شہادت مجھے اس قابل کر دے کہ…‘‘  میری آنکھیں اس ای میل کے آخر تک پہنچتے پہنچتے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔

عمر بیٹا! میں نے آپ کی اس ای میل کو اتنی بار پڑھا ہے جتنی بار آپ نے میری کتاب پڑھی ہو گی،  میں نے کالم بھی لکھا ہے مگر ٹوٹا پھوٹا سا… آپ سے درخواست ہے کہ اپنے ساتھیوں سے کہو مجھے کوئی ایسی خبر نہ دیں، مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں کہ میں بعد میں کچھ لکھ کر یہ سوچتی رہوں کہ میں نے آپ کی ننھی سی درخواست کو رد کر دیا تھا… شالا جوانیاں مانو میرا بیٹا، اس دھرتی ماں کے پیارے لال!!!  اللہ آپ کو اپنی خاص امان میں رکھے، میرے وطن کے ہر ہر محافظ کو اللہ تعالی اپنی امان میں رکھے،  شہیدوں کو بہترین درجات پر رکھے اور اس ملک کا سبز ہلالی پرچم ہمیشہ اسی طرح تفاخر سے لہراتا رہے،  باقی سب کچھ تو آنے جانے والا ہے ،  ہمیشہ رہے والی صرف محبت ہے… وہ محبت جو آپ کو اپنے وطن سے اور ہمیں آپ سے ہے…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔