بھارت کے کئی اضلاع میں پرتشدد واقعات،18افراد ہلاک ، فوج طلب

ایکسپریس اردو  منگل 24 جولائی 2012
 چھبیس ہزار افراد نے ریلیف کیمپوں میں پناہ لے لی (فوٹو ایکسپریس)

چھبیس ہزار افراد نے ریلیف کیمپوں میں پناہ لے لی (فوٹو ایکسپریس)

گوہاٹی: بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کے کوکراجھار اور چرانگ اضلاع میں جاری تشدد میں مرنے والوں کی تعداد اٹھارہ تک پہنچ گئی اور ریاستی حکومت نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوج کو طلب کر لیا ۔بھارتی ٹی وی نے بتایاکہ گوہاٹی اور کوکراجھار سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق تشدد سے بچنے کے لیے صرف کوکراجھار ضلع میں چھبیس ہزار لوگوں نے ریلیف کیمپوں میں پناہ لی ہے

جبکہ ضلع میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا گیا بتایا جاتا ہے کہ تشدد کے واقعات کوکراجھار میں اقلیتی طلبا تنظیموں کے دو رہنمائوں پر حملے کے بعد شروع ہوئے اس حملے میں آل بوڈولینڈ مائنارٹی اسٹوڈنٹس یونین کے مجیب الاسلام اور آل آسام مائنارٹی اسٹوڈنٹس یونین کے عبدالصدیق شیخ شدید زخمی ہوگئے تھے۔

اس کے بعد مبینہ طور پر انتقامی کارروائی میں بوڈو لبریشن ٹائیگرز کے چار سابق کارکنوں کو ہلاک کیا گیا اور تب سے تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔پولیس کے مطابق چرانگ ضلع کے ہسرا بازار میں نامعلوم حملہ آوروں نے اتوار کی شام تین لوگوں کو دھاردار ہتھیاروں سے قتل کر دیا جبکہ دو لوگ منگولیاں بازار میں گولی لگنے سے ہلاک ہوئے۔یہ دونوں اضلاع بوڈو قبائلیوں کے زیرِانتظام ہیں خطے کے انسپکٹرجنرل پولیس ایس این سنگھ کے مطابق تشدد پر قابو پانے کے لیے فوج ریاستی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی مدد کر رہی ہے۔متاثرہ علاقوں میں نیم فوجی دستوں کی چھ کمپنیاں اور دو پلاٹون بھی تعینات کی گئی ہیں۔

بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک ہجوم نے مظاہرے کے دوران دلی گوہاٹی راجدھانی ایکسپریس ٹرین کو بھی روکا ہے لیکن مسافروں یا ٹرین کو کوئی نقصان پہنچائے جانے کی اطلاع نہیں ہے۔ تشدد نے نسلی رنگ اختیار کر رکھا ہے ایک طرف بوڈو قبائلی ہیں اور دوسری طرف وہاں باہر سے آ کر بسنے والے لوگ۔طلبا تنظیموں کا دعوی ہے کہ انتظامیہ نے بوڈولینڈ میں مقامی شرپسندوں کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات روکنے کے لیے خاطر خواہ کارروائی نہیں کی ہے جس کی وجہ سے علاقے میں پہلے سے ہی کشیدگی تھی اور طلبا کے رہنمائوں پر حملے کے بعد صورتحال مزید بگڑ گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔