لگا ہے خودکش بچوں کا بازاردیکھو

جاوید قاضی  ہفتہ 17 ستمبر 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

اس مرتبہ میں جس مسجد میں عید کی نماز پڑھنے گیا، وہاں پہلی مرتبہ پولیس کا پہرا نہیں تھا۔ بیٹے نے میری طرف دیکھا میں نے بیٹے کی طرف، مگر میرے دل میں ہمیشہ سے ایک احساس بیٹھ گیا ہے خدا خیر سے مسجد سے گھر پہنچائے اور پھرگھر پہنچتے ہی شکارپور کے قصبے خانپور میں امام بارگاہ پہ خودکش حملہ ناکام بنانے کی خبرکی پٹی چلنا شروع ہوئی تو اس پولیس والے مرد مجاہد کی ہمت کی داد دینے میں مجھ سے رہا نہیں گیا تو ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ سندھ کا شکارپور پہنچنا کسی طرح بھی سراہنے سے کم نہیں۔

دونوں خودکش حملے کرنے والے کم عمر تھے ایک مارا گیا اور ایک پکڑا گیا جو پکڑا گیا وہ ذہنی طور پر معذور لگا۔اسے کچھ بھی خبر نہ تھی کہ وہ جوکام کرنے کوئٹہ سے یہاں آیا ہے اس سے کیا ہوگا؟ دو خودکش حملہ آور ایک ساتھ ایک امام بارگاہ میں جہاں خانپور کے سارے اہل تشیع نماز پڑھ رہے تھے بچے بڑے سب۔ شاید اس بار جو اس امام بارگاہ میں لوگ مارے جانے تھے وہ تو پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم کرتے، پورے کے پورے خانپورکے خاندانوں کو یتیم بناتے، بیواؤں، بے مددگاروں کا ایک بازار لگتا۔

کتنے یتیم ہوتے اور ان کے لیے تو یہ سب اللہ کی راہ میں تھا۔ عین اسی دن جب ہم اللہ کی راہ میں جانوروں کی قربانیاں کرتے ہیں۔ لہو لہو ہر طرف لہو ہوتا ہے ، جانوروں کا نہیں انسانوں کا۔ بچوں کا جو ابا کے کاندھے پہ چڑھ کے امام بارگاہ گئے تھے بالکل معصوم بچے، نئے کپڑے پہن کے۔

میں گیا تھا پچھلے سال جب شکارپورکی امام بارگاہ پر خودکش حملہ ہوا تھا پوری بس بھروا کے سول سوسائٹی کو لے کر مجھے کسی نے کان میں سرگوشی کرتے شاید کہا تھا مت جاؤ۔ مگر مجھے جانا تھا۔ لہو کی پچکاریاں تھیں جو دیواروں پر عیاں تھیں راستے میں ایک بچہ اپنے ماما کی گود میں تھا تو پوچھا کون ہے تو کہا اس کا ابا پرسوں اس امام بارگاہ میں جمعے کی نماز پڑھتے مارا گیا۔

شکارپور میں ہم جب پریس کلب سے نعرے لگاتے بینر پکڑے گزر رہے تھے  تو کچھ لوگ ہمیں خونخوار آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ جیسے ہم کوئی گناہ کر رہے تھے، شہر میں خوف تھا۔ یہاں پہ جو درگاہیں تھیں ان میں بھی خوف و ہراس تھا کہ ایک دو درگاہوں پر تو حملہ کرچکے تھے۔ صوفی ’’جانٹ‘‘ کی درگاہپر روز دھمال ہوتی تھی کسی نے جا کے کہا کہ یہ دھمال بند کرو تو اس کے گدی نشین نے کہا یہاں ایک رات بھی کبھی یہ دھمال رکی نہیں تو اب کیسے رکے گی۔کچھ دن بعد اس درگاہ پر بم دھماکا ہوا اور گدی نشین مارا گیا۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ایک خودکش بمبار اس سول سوسائٹی کے جلسے میں بھی چھوڑا گیا تھا جو پولیس نے پکڑا تھا اور یہ بات ڈی آئی جی نے پریس کانفرنس میں کہی تھی، اور اگر ہم مارے جاتے تو کیا ہوتا کچھ بھی تو نہیں ہوتا نہ گھر کا چولہا بجھتا نہ بچوں نے اسکول جانا تھا، مگر ان غریبوں کے بچے جو امام بارگاہ میں مارے گئے اسکولوں سے وداع ہوئے عورتوں نے اپنے بازوؤں سے بچوں کی روٹی کی خاطر کام کاج شروع کیا۔

یہ ہے وہ ریاست جس میں ہم اور آپ رہتے ہیں ، دھماکے ہوتے رہتے ہیں ، لوگ مرتے رہتے ہیں ، بیواؤں اور یتیموں کی یلغار لگتی رہتی ہے ، چلو  کوئٹہ میں تو سی پیک کو ناکام کرنے کے لیے سو سے زائد وکیلوں کو مارا گیا مگر خان پور پر امام بارگاہ پہ حملے کا مقصد کیا تھا؟ شکارپور کی امام بارگاہ پر حملے کے ٹھیک آٹھ ماہ بعد جیکب آباد میں دس محرم کو عزاداروں کا جلوس جا رہا تھا اس پر خودکش حملہ ہوا درجنوں لوگ مارے گئے ۔ میں وہاں پر بھی پہنچا، مجھے پہنچنا تھا کہ کہیں بھرم رہ جائے۔

اس تاریخی تسلسل کا جس کا میں امین ہوں پتا چلا اس حملے میں جو اہل تشیع مارے گئے بہت سے ان میں اہل تشیع نہیں بھی تھے ایک ہندو جو عزاداروں کے لیے سبیل لے کے چلتا تھا وہ بھی مارا گیا تو اس کی ماں نے کہا میرا بیٹا اب شمشان گھاٹ نہیں بلکہ ان شہیدوں کے ساتھ ان کے قبرستان میں دفن ہوگا تو اس پر کسی کو اعتراض بھی نہ ہوا۔ میں حیران رہ گیا کہ جیکب آباد میں سکھ بھی ہیں جو سندھی ہیں جو صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔

سندھ میں ہر جگہ شاہ بھٹائی کا دن منانے کی رسم پڑی۔ ادیب ہوں یا شاعر سارے ورکر قوم پرست یہ دن مناتے تھے اور لطیف کی شاعری وغیرہ پر محفل موسیقی ہوتی تھی اب شکارپور میں کسی کو بھی یہ جرأت نہیں کہ وہ ایسی موسیقی کا پروگرام کروا سکے۔ اب تو جرگوں میں بھی مدرسے کے اماموں کو بلایا جاتا ہے۔

پولیس کا تھانیدار وغیرہ بھی ان کو شہر کا شرفا سمجھتا ہے۔ جیکب آباد میں جب سنی بچے کی شہادت پر فاتحہ کرنے ہم پہنچے جو دس محرم کو دھماکے میں مارا گیا تھا تو میرے بزرگ الٰہی بخش سومرو بھی وہاں پہنچے اور کہنے لگے کہ اب ہمیں چپ نہیں رہنا جب تک یہ اس خودکش حملہ کروانے والے کو نہیں پکڑتے۔

مجھ سے بھی رہا نہیں گیا اور کہہ دیا کہ یہ خودکش حملہ کسی بچے نے کیا ہوگا، کوئی معصوم بچہ یا خود جو اس کو لے کے آیا ہوگا وہ بھی اتنا قصور وار نہیں۔ قصور تو پورا اس سوچ میں ہے جس میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ فلاں کافر یہ کافر وہ کافر۔ یہ واجب القتل ہے وہ واجب القتل ہے۔ بیرون ملک والے ان مدرسوں کو پیسے اس لیے نہیں دیتے کہ جو چاہو وہ پڑھاؤ بلکہ جس طرح ہر این جی او کو پیسے ایک مقصد کے لیے ملتے ہیں اسی طرح ہر مدرسے کو (جو خود بھی این جی او ہے) پیسے ایک خاص سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے ملتے ہیں۔مدرسے انسانیت کی قتل گاہ تو نہیں تھے۔

سندھ میں ہمارے اجداد نے عمریں دیں اہنسا کی خاطر۔ مندر ، مسجد، کلیسا کے برابر حقوق کی خاطر۔ سب انسانوں کو ایک آنکھ سے دیکھنے کی خاطر۔ سچل ہوں، سامی ہوں یا بھٹائی ہوں اور نہ جانے کتنے سادھو، فقیر و صوفی ہیں یہ سب سندھ کے سدا بہار بیانیے کا حصہ ہیں ۔ سندھ پورے قلندر کی دھمال کی مانند ہے ، رواداری اس کے لاشعور کا حصہ ہے۔ موسیقی ان کے رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔ ’’ہو جمالو‘‘ اس کا نعرہ مستانہ ہے۔

جیکب آباد کی اس یاترا کی شام میں نے رک اسٹیشن پہ بتائی۔  یہ وہی دن تھا پہلی نومبر کا جب 1939 میں سندھ کے ایک فقیر بھگت کنورکا قتل ہوا تھا۔ یہ فقیر جو سندھ میں جادو کی طرح لوگوں کے روحوں کو نرم کردیتا تھا۔ شکارپورکے اس چھوٹے سے اسٹیشن پر ریل سے اترتے وقت مارا گیا تھا۔ اس کے قاتلوں کو بھی کہتے ہیں انھی بھرچونڈی کے’’بادشاہوں‘‘  نے بھیجا تھا جو پچھلے دنوں گھوٹکی میں ایک اور کارنامہ انجام دے چکے ہیں ہر سال کوئی نہ کوئی بڑی خبر بناتے ہیں کبھی رنکل کماری کے حوالے سے تو کبھی کسی اور حوالے سے۔

جس تیزی سے شمالی سندھ، شمالی وزیرستان بنتا جا رہا ہے کیا ہمارے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اس بات سے باخبر بھی ہیں کہ نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔