اپنی بیماریوں سے ملاقات کیجیے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 17 ستمبر 2016

افلاطون نے ٹھیک کہا تھا کہ فلسفے کی ابتداء حیرت سے ہوئی ہے۔ اس تناظر میں انسان کا وہ پہلا بچہ جس نے آنکھیں کھولنے کے بعد اپنے ارد گرد کی دنیا کو حیرت سے دیکھا پہلا فلسفی تھا ۔ یہ بچہ جب ذرا بڑا ہوا تو اس کے ذہن میں سیکڑوں سوالوں نے سر اٹھایا کہ یہ کائنات کیا ہے اس کو کس ہستی نے پیدا کیا ہے یا یہ خود بخود وجود میں آگئی ہے۔ اس کائنات میں انسان کا مقام کیا ہے، اس کی زندگی کا کوئی مقصد بھی ہے یا نہیں۔

یہ سلسلہ موت و حیات کیا ہے اور کیا موت کے بعد بھی کوئی زندگی ہے۔ لوگ سوچنے لگے اور سوال کرنے لگے مگر جب ان سوالوں کے جواب نہ ملے تو پھر لوگوں نے اپنے جواب خود تخلیق کرنا شروع کردیے لیکن سوالات پھر بھی ختم نہ ہوئے اور پھر سوالات کرتے کرتے انسانیت کا قافلہ چھٹی صدی قبل مسیح میں پہنچ گیا۔

یہ چھٹی صدی قبل مسیح ہی ہے جب ہندوستان میں گوتم بدھ، چین میں کنفیوشس اور ایران میں زرتشت سچ کی شمعیں جلا کر صدیوں سے پریشان کرنے والے سوالوں کا جواب دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اسی صدی میں یونان میں فلسفے کا آغاز ہوا اور یونان کے سات دانش مند جو آپس میں گہر ے دوست بھی تھے، سر جوڑ کر بیٹھ گئے جن میں (1) بیاس (2) کلیز بولس (3) کیلون (4) پیری اینڈر (5) بٹیا کس (6) سولن (7) طالیس یا تھیلز شامل تھے جو تمام بنیادی سوالات کے جواب ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے پھر اس کے بعد جیسے جیسے وقت کے ساتھ ساتھ سوالات پیدا ہوتے رہے۔

وقت کے فلسفی ان کے جوابات تلاش کرتے رہے سوالات کرتے کرتے اور جوابات ڈھونڈتے ڈھونڈتے انسانیت کا قافلہ بیسویں صدی میں داخل ہوگیا۔ آج بھی سوالات پیدا ہوتے ہیں اور آج بھی ان کے جوابات ڈھونڈ لیے جاتے ہیں اور جب تک انسان اس زمین پر موجود ہے سوالات کیے جاتے رہیں گے کیونکہ سوال ہی زندگی کی علامت ہے سوال میں ہی زندگی چھپی ہوئی ہے اسی لیے مردے کبھی سوال نہیں کرتے۔

آج جو چاروں طرف سچ کی شمعیں روشن ہیں، یہ سوالات کا ہی نتیجہ ہیں لیکن ایک ملک اسی دنیا میں ایسا بھی ہے جہاں سوال کرنا جرم سمجھا جاتا ہے جہاں سوال کرنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے، جہاں سوال کرنے والوں کے پیچھے جاہلوں کے غول کے غول پیچھے پڑجاتے ہیں جہاں سوال کرنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس بدقسمت ملک میں فکر، سوچ، فلسفے کے سارے چراغ اوندھے پڑے ہوئے ہیں جہاں تازہ ہوا اور روشنی کا گزر ممنوع ہے جہاں سوچنے پر پابندی ہے جہاں صرف اندھیروں اور تاریکیوں کو آنے کی اجازت حاصل ہے۔

جہاں جہالت دیوانہ وار ناچتی ہے جہاں وحشت قہقہے لگاتی پھرتی ہے جہاں انسان سوال کرنے کے خیال سے ہی کانپنے لگ جاتے ہیں ۔ جہاں تمام سوالوں پر رجعت پرستوں ، بنیاد پرستوں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ ان کے علاوہ کسی اور کو سوال کرنے کی کوئی اجازت حاصل نہیں ہے ۔اب ہم سب انسانیت کے اس قافلے کے مسافر ہیں جنہیں باندھ کر یرغمال بناکر بغیر پوچھے سخت پہر ے میں ہانکا جارہا ہے، ایک بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ جب ہم اس ذلت آمیز غلامی کو قبول کرچکے ہیں تو پھر ہم اکیلے میں چیختے چلاتے کیوں ہیں۔

سماج کی برائیوں اور خرابیوں کا رونا کیوں روتے پھرتے ہیں جب اس زندگی کا انتخاب خود ہم نے اپنے لیے کیا ہے تو پھر اس سلوک پر اکیلے میں ماتم کیوں کرتے رہتے ہیں۔ یاد رکھو جہاں بولنے پر بات کرنے پر سوال کرنے پر پابندی ہوتی ہے تو پھر وہاں تمام بدیاں دبے پاؤں آکر قابض ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹر نپولین ہل کی لکھی کتاب “Out Witting the Devil” ایک نفسیاتی کتاب ہے، مصنف نے انسان کی ان عادات و رویوں کا ذکر کیا ہے جو اس کو کامیابی سے روکتی اور مسرت اور شادمانی سے دور کرتی ہیں۔

ہل کہتا ہے یہ سب شیطان کے بہکانے کی وجہ سے ہوتا ہے اگر ہم شیطان کے ورغلانے کا توڑکرلیں تو پھر ہم سے خوشحال زندگی کو کوئی چھین نہیں سکتا، وہ کہتا ہے جو لوگ نہیں سوچتے وہ بہت جلد شیطان کے چیلے بن جاتے ہیں اوران کے نا سوچنے سے ذہن کی خالی جگہ میں شیطان اپنا مسکن بنا لیتا ہے جو لوگ غوروفکر کرتے ہیں۔ شیطان کا ان پر بس نہیں چلتا “Out Witting the Devil” شیطان سے ایک انٹرویوکے دوران کیے گئے سوال وجواب پر مشتمل کتاب ہے۔

آئیں، کتاب کے چند سوال وجواب کو پڑھتے ہیں ’’سوال۔ تم لوگوں کے اذہان پرکیسے کنٹرول کرتے ہو۔ (ج ) اوہ یہ تو بہت آسان ہے میں صرف اندرداخل ہوتا ہوں اور انسانی ذہن کی غیراستعمال شدہ فضائے بسیط پر قبضہ کرلیتا ہوں ۔(س ) تمہارا زمین پر سب سے بڑا دشمن کون ہے؟ْ (ج ) وہ تمام لوگ جو لوگوں کو سوچنے پراکساتے اوراپنی ذاتی پیش قدمی کے مطابق عمل کرتے ہیں، میرے دشمن ہیں ایسا جیسے سقراط ، کنفیوشس، والٹر، ایمرسن، تھامسن پین اور ابراہام لنکن ( س) تم اپنی سب سے زیادہ منفرد چالبازی کے بارے میں بتاؤ وہ جس کو تم لوگوں کی سب سے بڑی تعداد کو پھانسنے میں استعمال کرتے ہو۔ (ج ) میرا انسانوں پر سب سے بڑا ہتھیار دوخفیہ اصولوں پر مشتمل ہے جس کے ذریعے میں ان کے اذہان پرکنٹرول حاصل کرتا ہوں سب سے پہلے میں عادت کے اصول کی بات کروں گا جس کے ذریعے میں خاموشی سے لوگوں کے اذہان میں داخل ہوجاتا ہوں اس اصول پر عمل کر کے میں میلانی (Drifting) کی عادت کو تشکیل دیتا ہوں جب کوئی شخص کسی بھی موضوع پر بھٹک جاتا ہے وہ سیدھا اس کے دروازے پر پہنچ جاتا ہے وہ لوگ جو اپنی ذات کے لیے سوچتے ہیں وہ کبھی بھی میلانی نہیں بنتے جب کہ وہ جوتھوڑا یا جو اپنی ذات کے بارے میں بالکل نہیں سوچتے وہ میلانی بنتے ہیں۔

میلانی وہ ہے جو اپنے ذہن کو باہر کے خیالات سے متاثر کرتا اور دوسروں کواسے کنٹرول کرنے کی اجازت دیتا ہے وہ مجھے اپنے ذہن پر قبضہ کرنے اور خود سوچنے کی تکلیف اٹھانے کے بجائے اس کی سوچ کا کام مجھے کر نے کی اجازت دیتا ہے وہ اتنا سست ہوتا ہے کہ وہ اپنا ذاتی ذہن استعمال نہیں کرتا۔ میں لاکھوں سال سے خاکی مخلوق پر خوف اور جہالت کے ذریعے حکمرانی کر رہاہوں میرے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند خوف،توہم پرستی، طمع، سستی اورکاہلی ہیں۔ ‘‘ اس اقتباس کو آپ پڑھیں سوچیں اور پھر پڑھیں جب آپ اسے پڑھ چکے ہوں گے تو پھر آپ کی اپنی بیماریوں سے ملاقات ہوجائے گی ۔ آگے آپ کیا فیصلہ کرتے ہیں، آپ کی مرضی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔