چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ کے انقلابی فیصلے!

رحمت علی رازی  اتوار 18 ستمبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ کا فرمان ہے، ’’نااہل، منفی رویوں اور مشکوک شہرت کے حامل جوڈیشل افسران اپنا بوریا بستر لپیٹ کر رکھیں‘ سیشن ججوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ جوڈیشل افسران کی دیانت اور کارکردگی کی نگرانی کریں‘ سیشن ججز جوڈیشل افسران کی تشخیصی رپورٹ کسی دباؤ میں آئے بغیر جرأتمندی سے لکھیں تا کہ ایماندار اور غلط عناصر میں فرق سامنے آ سکے۔

جوڈیشل افسران کی کارکردگی اور استعداد کار میں مزید اضافہ کے لیے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں تربیتی کورسز کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے‘ جوڈیشل افسران کی کارکردگی میں بہتری کے لیے انفراسٹرکچر کو بہتر کیا جائے گا، کورٹ رومز اور جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر سمیت دیگر بنیادی سہولیات فراہم کی جائینگی‘ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم نے اس ملک کو اب تک کیا دیا ہے اور کیا دے سکتے ہیں۔

پنجاب کی عدلیہ کا سربراہ ہونے کے ناطے تمام فاضل جج صاحبان کے ساتھ ملکر عہد کرتا ہوں کہ جلدازجلد انصاف کی فراہمی یقینی بنائینگے اور دن رات محنت کر کے قانونی طریقے سے مقدمات نمٹائیں گے‘ یہ محض ایک بیان نہیں بلکہ اپنے وطن سے وعدہ ہے‘ اس مقصد کے حصول کے لیے کام پہلے ہی شروع کر دیا گیا ہے‘ لاہور ہائیکورٹ اور ضلعی عدلیہ میں تمام مقدمات کا فزیکل آڈٹ شروع کروایا گیا ہے اور ہم ضلعی عدلیہ کو سلیوٹ کرتے ہیں جنہوں نے گرمیوں کی چھٹیوں کو منسوخ کر کے یہ کام کیا‘ نئے کیس مینجمنٹ پلان کے تحت ڈیرہ غازی خان، سرگودھا، فیصل آباد، ساہیوال اور گوجرانوالہ ڈویژنوں کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی بنچ تشکیل دیے جائینگے۔

انصاف کے ذمے داران قائد اعظم محمدعلی جناحؒ کے اُصولوں پر چلنے کی کوشش کریں‘ ایمان، اتحاد اور تنظیم کو اپنائیں‘ ہم نے اس ادارے کی بہتری اور مضبوطی کے لیے کام کرنا ہے‘ میرٹ، میرٹ اور صرف میرٹ ہماری اولین ترجیح ہو گی‘ ضلعی عدالتوں کی طرح ایکس کیڈر اور خصوصی عدالتیں بھی مساوی اہمیت کی حامل ہیں‘ ماضی میں ان عدالتوں کے درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جب کہ فراہمی انصاف کے نظام میں ایکس کیڈر اور خصوصی عدالتوں کا اہم کردار ہے۔

ایکس کیڈر و خصوصی عدالتوں، یعنی انسداد دہشتگردی کی عدالتوں، احتساب عدالتوں، سروس ٹریبونلز، اینٹی کرپشن کورٹس، لیبر کورٹس، بینکنگ کورٹس، کنزیومر کورٹس سمیت دیگر خصوصی عدالتوں کو مرکزی دھارے میں شامل کیا جا رہا ہے اور عدالت ِعالیہ ضلعی عدالتوں کی طرح ان عدالتوں کی بھی نگرانی کریگی‘ خصوصی عدالتوں پر توجہ مرکوز نہ کرنے سے نظامِ انصاف کا مقصد پورا نہیں ہو رہا جس سے عام آدمی کو مشکلات کا سامنا ہے‘ خصوصی عدالتوں کے مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا گیا ہے جس سے عدالت ِعالیہ اور خصوصی عدالتوںکے درمیان بہترین روابط بنائے جا سکیں گے۔

ایکس کیڈر کورٹس کے سینئر ججز اور حکومتی نمایندوں پر مشتمل کونسل بنائی گئی ہے جسکے ماہانہ بنیادوں پر اجلاس منعقد ہونگے‘ آیندہ اجلاس میں کیس مینجمنٹ پلان، خصوصی عدالتوں کو سہولیات کی فراہمی اور فاسٹ ٹریک اپائنٹمنٹ سسٹم پر مشتمل ایجنڈا زیر بحث لایا جائے گا‘ ہم صوبائی محکموں کے سربراہان کو عدالتوں میں نہیں بلانا چاہتے اس لیے حکومتی محکمے عدالتوں کی معاونت کے لیے سینئر فوکل پرسنز نامزد کریں تا کہ کسی بھی وجہ سے مقدمات کی سماعت غیرضروری طور پر ملتوی نہ ہو اور مقدمات کے جلد فیصلے کرنے میںمدد ملے‘ نوتشکیل شدہ کیس مینجمنٹ کو کامیاب بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملکر کام کرنا ہو گا۔

بہت سارے مقدمات ایسے ہیں جنھیں محکموں کی سطح پر ہی حل کیا جا سکتا ہے لیکن محکموں کی عدم دلچسپی کی بناء پر عدالت ِعالیہ میں مقدمات کے بوجھ میں اضافہ ہو رہا ہے، اگر متعلقہ محکموں کے افسران ایسے تمام معاملات کے حل کے لیے کمیٹیاں تشکیل دیں تو ان غیرضروری مقدمات کے بوجھ میں خاطرخواہ کمی لائی جا سکتی ہے‘ لاہور ہائیکورٹ ضلع لاہور میں پہلے ثالثی و مصالحتی سینٹر کے جلد قیام کے لیے کوشاں ہے اور اس کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام جاری ہے تا کہ اس پراجیکٹ کو جلدازجلد پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔

پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میڈی ایٹرز کی تربیت کے حوالے سے مرکزی کردار ادا کریگی‘ ورلڈ بینک کے تعاون سے صوبہ بھر میں ثالثی و مصالحتی سینٹرز قائم کیے جائینگے، جسکے پہلے مرحلے میں لاہور میں اے ڈی آر سینٹر بہت جلد کام شروع کر دیگا‘ کوئی ادارہ ٹریننگ کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا، ٹریننگ پروگرام اداروں کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہیں، خامیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے انھیں درست کرنے کی ضرورت ہے‘ تربیتی کورسز سے ججز کی کارکردگی میں اضافہ ہو گا‘ جہاں جہاں ہماری کمزوریاں ہیں ہم دورانِ تربیت ان پر قابو پا سکتے ہیں۔

اکیڈمی کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے‘ تربیتی کورسز میں بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں لائی گئی ہیں‘ ماضی میں نئے بھرتی ہونیوالے جوڈیشل افسران کو ایک ماہ کی پری سروس ٹریننگ کے بعد عدالتوں میں بٹھا دیا جاتا تھا جس سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے تھے لیکن اب انھیںکم از کم چھ ماہ کی پری سروس ٹریننگ کروائی جائے گی اور عدالتوں میں سینئر جوڈیشل افسران کے ساتھ بٹھا کر فیصلے لکھنا اور کورٹ چلانے جیسے معاملات سکھائے جائینگے‘ ہم یورپین یونین اور بیرون ممالک کے انسٹرکٹرز کے مشکور ہیں جنہوں نے اکیڈمی کے انسٹرکٹرز کو ماسٹر ٹریننگ فراہم کی ہے۔

آج ہمارے پاس اکیڈمی میں تربیت یافتہ ماہرین موجود ہیں اور اکیڈمی میں انسٹرکٹرز کی خالی آسامیوں کو بھی بہت جلد پر کر لیا جائے گا‘ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کی ذمے داری ہے کہ پنجاب کی عدلیہ کے 26 ہزار افراد کو ٹریننگ فراہم کرے لیکن یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ اب تک محض پندرہ فیصد افراد کو ٹریننگ فراہم کی جا سکی ہے‘ رواں سال اکتوبر میں جنرل ٹریننگ پروگرام 2016-17ء شروع کیا جا رہا ہے جسکے تحت ایک سال میں صوبے کے تمام جوڈیشل افسران کو ٹریننگ کورسز کروائے جائینگے‘ جوڈیشل افسران کی کارکردگی جانچنے کے لیے نیا شعبہ بنایا جا رہا ہے۔

تربیتی کورسز کے رپورٹ کارڈز کو جوڈیشل افسران کے سروس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے گا اور اسی کے مطابق پروموشن اور ٹرانسفرز سمیت دیگر معاملات زیر غور آئینگے‘ جوڈیشل افسران کے لیے بہت جلد بنچ بکس کا اجراء کیا جائے گا جس میں بنیادی قوانین سمیت عدالتوں سے متعلق تمام معلومات موجود ہونگی‘‘۔

چیف جسٹس کے اس مربوط اور پُرمغز بیانیے کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ اس پر نقدونذر بھی پیش کیا جائے جس کے لیے ہماری کوشش ہو گی کہ ہم جسٹس منصور علی شاہ کے اصلاحاتی ایجنڈے کو مضبوط کرنے کے لیے مزید کچھ تجاویز و سفارشات بہم پہنچائیں، قطع نظر اسکے، کہ اس پرہمیں مزید کچھ کالم بھی کیوں نہ لکھنے پڑیں۔

سب سے پہلے تو ہماری یہ رائے ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بھرتی کا طریقہ کار انتہائی شفاف ہونا چاہیے اور عام آدمی کا عدلیہ پر اعتماد بحال کرنا ہو گا‘ اس وقت عدلیہ کی اصلاحات کے حوالے سے یہی دو پہلو سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں‘ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس جواد ایس خواجہ اپنی الوداعی تقریر میں اعتراف کر گئے کہ انھوں نے عدالتوں میں خوف کے سائے دیکھے ہیں‘ ایسے حالات میں عام آدمی کا اعتماد کیسے بحال ہو گا؟

اعتماد بحال کرنے کا تو ایک ہی طریقہ ہے کہ فیصلے میرٹ پر ہوں اور فیصلے میرٹ پر تبھی ہو سکتے ہیں جب اعلیٰ عدلیہ کے جج میرٹ پر اور شفاف طریقے سے بھرتی ہونگے‘ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بھرتی پراس وقت کافی بحث مباحثہ ہو رہا ہے‘ ایک تنقید یہ ہو رہی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بھرتی کے نظام میں پارلیمانی کمیٹی کو شامل کر کے اس معاملے کو جانبدار بنا دیا گیا ہے کیونکہ ہر سیاسی جماعت یہی چاہے گی کہ ان کی پسند کے ججز ہی تعینات کیے جائیں جس سے معاملات سدھرنے کے بجائے مزید خراب ہونگے۔

ہمارے ہاں دراصل ذاتی مفادات کا نام میرٹ رکھ لیا گیا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر کسی کا اپنا اپنا میرٹ ہے‘ ملک بھر میں عدلیہ کا نظام درست کرنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ تک میں بعض کیسوں کے فیصلے سالوں تک التواء میں رہتے ہیں جب کہ سوؤموٹو کی بھی یہی صورتحال ہے اور پسند وناپسند کی بنیاد پر سوؤموٹو لیا جاتا ہے مگر بعد میں یہ سارے ازخود نوٹس کہاں جاتے ہیں پتہ تک نہیں چلتا۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس بابت عدلیہ میں اچھی روایات قائم نہیں کیں‘ ملک میں ایسا عدالتی نظام قائم ہونا چاہیے جس میں گلگت کا جج لاہور میں، لاہور کا پشاور اور پشاور کا جج ملتان میں اپنے فرائض سرانجام دے‘ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں احتجاج کے بغیر حقوق نہ ملنے کی تاریخ ہے‘ کون نہیں جانتا کہ تاخیر ہماری عدلیہ کی روایت بن چکی ہے‘ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کے باعث ہی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

عدالتی کارروائی ایک پیچیدہ قانونی معاملہ ہوتا ہے‘ بروقت فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے مقدمات کی کثیر تعداد تاخیر کا شکار ہو جاتی ہے جو وقت کے ضیاع اور فریقین کے لیے ذہنی اور جسمانی تکالیف کا باعث بنتی ہے‘ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ 69 سال گزر جانے کے باوجود وطنِ عزیز کو فلاحی ریاست نہیں بنایا جا سکا! مسلسل ناکامیوں کے باوجود کسی نے سبق نہیں سیکھا اور نظام کو درست کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی گئی۔

جہاں تک نظام کا تعلق ہے تو وہ بالکل درست ہے لیکن جب اس کے چلانے والے اس نظام کے برعکس اپنے من مانے فیصلے کرینگے تو مسائل تو جنم لینگے‘ خرابی صرف نظامِ عدل میں ہی نہیں، قانون کو عملی جامہ پہنانے والوں میں بھی ہے‘ پاکستان میں اگر ایک مخصوص گروپ 95 فیصد لوگوں کے وسائل پر قابض ہے تو 95 فیصد کو ان کا حق کس نے دلانا ہے؟ سابق چیئرمین نیب کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں روزانہ سات ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے! کرپشن کے خاتمے پر مامور شخص اگر یہ کہتا ہے تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے!

کرپشن کے کیس برسوں لٹکے رہتے ہیں‘ کرپشن کے ناسور نے عام پاکستانی کو کنگال کر دیا ہے‘ کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ عناصر کے احتساب کے لیے نیب، پولیس، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن اور عدلیہ سمیت کئی ادارے موجود ہیں مگر کرپشن کا عفریت قابو میں نہیں آ رہا، اس لیے کہ ان اداروں میں بھی وہی کچھ ہوتا ہے جسکا سدباب ان کی ذمے داری ہے‘ بلاشبہ ایسے اداروں میں ایماندار اور فرض شناس افراد ضرور موجود ہیں جو اپنے طو رپر بہت کچھ کر رہے ہونگے مگر مجموعی نتائج اطمینان بخش نہیں ہیں!

اعلیٰ عدلیہ کی بھرتی کے حوالے سے حالیہ بحث میں بھی یہی پہلو نمایاں نظر آتا ہے‘ اعلیٰ عدلیہ میں بھرتیوں کے حوالے سے تین قسم کے مفادات سرگرم ہیں‘ ایک طرف جوڈیشل کمیشن ہے جو سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے چکا ہے‘ دوسری طرف سیاسی جماعتیں ہیں جو پہلے کی طرح عدالتوں میں اپنے لوگ لگوانے کا ’’میرٹ‘‘ بحال کروانا چاہتی ہیں اور تیسری قوت وکالت کے شعبے سے منسلک مخصوص گروہ ہیں جو ہائیکورٹس میں ججوں کی بھرتی پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں گروہ ہی مستفید گروہ ہیں لیکن تینوں بیک وقت ججوں کی بھرتی میں شفافیت پر سوال اٹھا رہے ہیں اور ہر گروہ کا مقصد یہ ہے کہ ہائیکورٹ میں جج بھرتی کرنے کا سار ااختیار اسے مل جائے‘ اگرماضی میں اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی بھرتی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا ہمارے ہاں ’’میرٹ‘‘ یہ رہا ہے کہ یا تو سیاسی جماعتوں کے وکلاء ونگزکے لوگ یا سیاسی رہنماؤں کے ذاتی وکیل جج بنا دیے جاتے ہیں یا پھر بڑے بڑے چیمبرز، لاء فرمز اور چند خاندانوں کے لوگ جج بنائے جاتے ہیںیا پھر ایسے لوگ جو وکلاء سیاست میں سرگرم ہوں‘ اگر صحیح معنوں میں شفافیت اور میرٹ کی بات کی جائے تو پھر یہ کوئی میرٹ نہیں‘ اصل میرٹ تو مقابلے کا امتحان ہوتا ہے۔

ریاست کے باقی دونوں ستونوں میں بھرتیاں مقابلے کے امتحان کے ذریعے ہوتی ہیں‘ انتظامی افسران تو سخت مقابلے کے امتحان سے گزر کر آتے ہیں‘ آنے کے بعد وہ کیا کرتے ہیں یہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن کم از کم وہ آتے میرٹ پر ہیں‘ اسی طرح سیاستدان ایک دوسرے کے مقابلے میں الیکشن لڑ کر حکومت بناتے ہیں تو پھر ریاست کے تیسرے ستون کو مقابلے سے کیوں محروم رکھا گیا ہے‘ ہماری دانست میں عدلیہ میں میرٹ کا تنازع اس وقت تک حل نہیں ہو گا جب تک جج صاحبان مقابلے کے امتحانوں کے ذریعے بھرتی نہیں کیے جائینگے‘ اس مقصد کے لیے ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ ہائیکورٹس کے ججوں کی بھرتیاں مقابلے کے امتحان کے ذریعے کی جائیں۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے یہ کا م بآسانی کیا جا سکتا ہے‘ اس سے بھی بہتر حل یہ ہے کہ ہائیکورٹ میں جج مقابلے کے امتحان کے ذریعے براہ راست بھرتی ہونیوالے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان میں سے سنیارٹی کی بنیاد پر لگائے جائیں‘ اس طریقہ کار کا ایک اضافی فائد ہ یہ ہو گا کہ ہائیکورٹ کے جج صاحبان کو ماتحت عدلیہ میں کام کا تجربہ بھی ہو گا جو موجودہ طریقہ کار میں بہت کم ججوں کے پاس ہوتا ہے۔ ماتحت عدلیہ میں کام کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں میں بہت سے سقم رہ جاتے ہیں جن کی وجہ سے ایسا کیس لاء سامنے آتا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں خاصی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

اگر میرٹ کا یہ نظام رائج ہو جائے تو پھر ہائیکورٹس میں ایسے جسٹس صاحبان سامنے آئینگے جو اپنے دم پر اور اپنی محنت پر مقابلہ کر کے جج بنیں گے‘ چونکہ ان کی نوکریاں کسی کی مرہونِ منت نہیں ہونگی، اس لیے ان کا انصاف فراہم کرنے کا معیار بھی بہت بلند ہو گا لیکن عدلیہ میں میرٹ کا صحیح نظام لانا انتہائی مشکل کام ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے نظام کو شفاف بنانے کے لیے سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک آئینی درخواست ان ریمارکس کے ساتھ سماعت کے لیے منظور کی ہے کہ یہ ایک اہم آئینی مسئلہ ہے، جس میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی فردِ واحد یعنی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی صوابدیدکے بجائے مقابلے کے امتحان کے ذریعے تعیناتی کا نظام اپنایا جائے۔

پاکستان کاعدالتی نظام دنیا کے پرانے عدالتی نظام میں سے ایک ہے اور آج بھی اس میں برطانوی نوآبادیاتی عدالتی نظام کی نمایاں جھلک موجود ہے‘ ہمارے نظامِ انصاف کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ معاندانہ نظام پر مبنی ہے، یعنی اس میں کہانی کے دو پہلوؤں کو ایک غیرجانبدار جج کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جو منطق اور ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ سناتا ہے تاہم ہمارے عدالتی نظام میں کچھ موروثی مسائل بھی ہیں جو اس نظام کے نقائص اور کمزوریوں کا منظرنامہ پیش کرتے ہیں جن کے لیے عدالتی اصلاحات و احتساب کی شدید ترین ضرورت ہے‘ اداروں میں ہو رہی کرپشن کی سنگین وارداتیں اور معاشرتی مظالم عدلیہ میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عدلیہ میں احتساب کا نظام مؤثر انداز میں فعال نہیں ہے، میڈیا بھی توہین کے خوف سے واضح تصویر پیش نہیں کرتا‘ رشوت لینے والے کسی جج کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا کوئی واضح طریقہ موجود نہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ سے منسوب یہ ریمارکس ایک نجی روزنامہ میں چھپے ہیں جن میں ایک نہایت اہم مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے، ’’کیا آزادیٔ اظہار کا یہ مطلب ہے کہ کسی بھی ٹی وی اینکر کویہ لائسنس دیدیا جائے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج اور اہلِ خانہ کی تضحیک کرے‘ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔

عدلیہ کو بدنام کرنے کا اختیار کسی کو نہیں‘ اگر پارلیمنٹ ایسا نہیں کر سکتی تو ان ٹی وی چینلز کو کس قانون کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تضحیک کرنے کی اجازت ہے‘‘؟ سپریم کورٹ نے بجا نشاندہی کی تاہم اسکو اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا چاہیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل جو مکمل طور پراعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان پر مشتمل ہے، اس کے بارے میں تاثر یہ ہو کہ وہ غیرفعال ہے، پارلیمنٹ میں بھی بات نہ ہو، میڈیا کی بھی زبا ن بندی ہو، سوشل میڈیا جیسے عوامی فورمز پر بات کرنے پر بھی پابندی ہو، انتظامیہ توپہلے ہی بات کرنے کی جرات نہیں کرتی تو پھر اتنا یک رُخا اور غیرمتوازن نظام کیسے چلے گا؟

یہ بات امکانات کی دنیا سے وابستہ ہے کہ بعض اوقات افراد یا اداروں کو کسی معزز جج کے طرزِعمل یا رویے کے بارے میں جینوئن شکایت پیدا ہو سکتی ہے، اس طرح کی صورتحال کے پیشِ نظر افراد یا اداروں کے پاس کسی مؤثر فورم کی موجودگی یقینی بنانا ازحد ضروری ہے‘ یہ بات بھی طے ہونا باقی ہے کہ کس حد تک اور کس پیرائے میں معزز جج صاحبان کے رویوں یا فیصلوں پر میڈیا میں تنقید ہو سکتی ہے اور کس حد تک ایسی تنقید عدلیہ کے پورے ادارے پر تنقید تصور ہو گی یا نہیں ہو گی‘ یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ جج صاحبان کے طرزِعمل پر تنقید نہ کرنیوالی پابندی صرف اعلیٰ عدلیہ کے ججوں تک محدود رہنی چاہیے یا پھر ماتحت عدلیہ، خصوصی عدالتوں اور ٹریبونلز کے ججز اور ممبران کو بھی مناسب تحفظ دیا جانا چاہیے؟

ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں دنیا میں سب سے زیادہ زیرالتواء مقدمات کا بیک لاگ ہے جن کی تعداد لاکھوں میں ہے اور یہ اعداد و شمار مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں، اسی سے قانون کے نظام کی نااہلی کا پتہ چلتا ہے‘ ججوں کی تعداد بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ عدالتیں قائم کرنے کی بات ہمیشہ کی جاتی ہے مگر اس پرعمل کرنے میں کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں ہوا‘ وہ اس لیے کہ اس سے متاثر صرف غریب اور عام لوگ ہی ہوتے ہیں کیونکہ امیر لوگ تومہنگے وکیل کا خرچ برداشت کر سکتے ہیں اور تگڑے وکیل کی وجہ سے فیصلے اپنے حق میں کروا سکتے ہیں‘ اس بیک لاگ کی وجہ سے ہی جیلوں میں بند قیدی بھی پیشی کے انتظار میں رہ جاتے ہیں۔

عدالتی نظام کا ایک اور مسئلہ اس میں شفافیت کی کمی کا ہونا ہے‘ یہ دیکھا گیا ہے کہ حقِ اطلاعات کو مکمل طور پر قانون کے نظام سے باہر رکھا گیا ہے اس لیے انصاف اور معیار کو مناسب طریقے سے معلوم نہیں کیا جا سکتا‘ جیلوں میں بند قیدیوں میں سے زیادہ تر کے معاملات زیرِسماعت ہیں اور وہ فیصلہ آنے تک جیل میں ہی بند رہتے ہیں‘ بعض صورتوں میں تو یہ قیدی اپنے اوپر دائر مقدمات کی سزا سے زیادہ وقت سماعت کے انتظار میں جیل ہی میں گزار دیتے ہیں‘ اس کے علاوہ عدالت میں خود کے دفاع کا خرچ اور جوکھم حقیقی سزا سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔

وہیں دوسری طرف دولتمند طبقہ پولیس کو اپنی طرف کر لیتا ہے جس سے پولیس عدالت میں زیرِ التوا کیس کے دوران غریب شخص کو پریشان یا خاموش کرا دیتی ہے‘ یہ بہت ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کی عدلیہ معاشرے کا لازمی حصہ ہو اور اس کی عام افراد سے باقاعدہ اور متعلقہ امور پر باہمی بات چیت ہوتی رہے‘ کچھ ممالک میں عدالتی فیصلوں میں عام شہریوں کا بھی کردار ہوتا ہے تاہم پاکستان میں عدالتی نظام کا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ وصف اسے برطانوی عدالتی سیٹ اپ سے وراثت میں ملا ہے، اسی لیے آج بھی قانون کے افسران عام لوگوں سے ملاقات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ معلومات اور مواصلات میں بے پناہ تیزی آنے کی بدولت لوگوں کی زندگی میں نمایاں تبدیلی آئی ہے لیکن پاکستان کا نظامِ انصاف آج بھی برطانوی اثر لیے ہوئے ہے اور عوام کی رسائی سے کوسوں دُور ہے‘ ملک میں مؤثر عدالتی اصلاحات عرصے سے ناگزیر رہی ہیں‘ لارڈ میکالے کے وضع کردہ دیوانی عدالتی نظام نے عوام کو دیوانہ بنا رکھا ہے اور بنیادی عدالتی اصلاحات کے بغیر عوام کو سستا اور فوری انصاف نہیں مل سکتا‘ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا اصلاحاتی ایجنڈا قابل ِتعریف ہے مگر سستے اور فوری انصاف کے لیے دیوانی اور فوجداری مقدمات کا تین ماہ میں فیصلہ ہونا ازحد ضروری ہے۔

اگر قانون کی حکمرانی ہو، آئین پر عملدرآمد ہو اور جلد انصاف ملے تو دہشتگردی، بدعنوانی اور ناانصافی کی مختلف شکلوں میں ڈرامائی کمی لائی جا سکتی ہے‘ نظامِ قانون کے کلیدی مسئلے کی نشاندہی یہی ہے کہ انصاف مہنگا ہے اور تاخیر سے ملتا ہے‘ مہنگے انصاف کا مطلب پاکستانی شہریوں کی اکثریت کی انصاف تک رسائی سے انکار ہے جب کہ تاخیر سے ملنے والا انصاف دراصل سائل سے ناانصافی ہے‘ یہ مان لیا گیا ہے کہ قوانین میں اصلاحات کے بغیر انصاف کی فراہمی کی ذمے دار سرکاری بیوروکریسی (پولیس) اور عدلیہ دونوں میں بہتری ممکن نہیں اور نہ ہی اصلاحات کے بغیر غریب، کمزور اور بے کس کے لیے مفت قانونی امداد کی فراہمی ممکن ہے۔

اگر ہم فوجداری اور دیوانی مقدمات کے مراحل کا وقت متعین کر دیں تو تاخیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن محدود ججوں کے ہوتے موجودہ عدالتی نظام میں کیسے وقت کا تعین کیا جا سکتا ہے؟ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ قانون اچھا ہو تو اس کا نفاذ ازخود ہو جاتا ہے جب کہ یہ کوئی فرض نہیں کرتا کہ منصف اچھا ہو تو قانون بھی ازخود اچھا ہو جاتا ہے‘ حکومت اور عدلیہ کو ہم اور کتنی نصیحتیں دیں؟

اسے تو اتنا بھی معلوم نہیں کہ پولیس اصلاحات کرنی چاہئیں، تفتیش کو بہتر اور ضلعی ججوں کی تعداد بڑھانی چاہیے وغیرہ‘ ہنوز تو یہ بھی واضح نہیں ہوا کہ حکومت اس مسئلے سے کیسے نمٹے گی اور مجوزہ اصلاحات کے لیے کون سا میکانزم اپنائے گی‘ عدلیہ کو دی گئی سفارشات بھی جانی مانی ہیں مگر عدلیہ انھیں مسلسل نظرانداز کرتی رہی ہے‘ سب سے زیادہ مایوس کن صورتحال یہ رہی ہے کہ عدلیہ کی طرف سے حکومت سے یہ تک نہیں کہا گیا کہ وہ غریب اور کمزور کو مفت قانونی امداد کے لیے کوئی فنڈ قائم کرے‘ فقط غیرمؤثر کمیٹیوں کے قیام کی تجاویز اور وکلاء سے مفت قانونی امداد دینے کی جذباتی اپیلیںہی کی جاتی ہیں جو سینیٹ کی سفارشات میں بھی درج ہیں جن کا سستے اور فوری انصاف پرکوئی اثر نہیں پڑیگا۔

سینیٹ نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 27 کرنے کی تجویز تو دی ہے لیکن چار ہائیکورٹس کے ججوں میں اضافے کی کوئی تجویز نہیں ہے‘ ہر کوئی جانتا ہے کہ زیادہ تر مقدمات ضلعی عدالتوں اور ہائیکورٹس میں زیرالتوا ہیں اور مزید نئے مقدمات کا ڈھیر لگ رہا ہے، اسی لیے یہاں زیادہ ججوں کی ضرورت ہے‘ انصاف میں تاخیر کا مسئلہ سادہ سا ہے‘ اس کی وجہ ضلعی عدالتوں اور ڈسٹرکٹ کورٹس میں ججوں کی کمی ہے‘ دوسرے الفاظ میں بہت زیادہ کیسوں کو نمٹانے کے لیے بہت تھوڑے جج ہیں۔

ججوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ کیے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف ججوں کی تعداد بڑھانے سے مسائل حل نہ ہونگے جب تک ججوں کو میرٹ پر نہیں لایا جاتا‘ بالخصوص ہائیکورٹ میں ججوں کی کمی کا براہِ راست تعلق ججوں کی عدم دستیابی سے ہے، اس کے لیے ہائیکورٹ کے جج کے لیے عمر کی حد کم کر کے 40 سال تک کرنا ہو گی تاکہ جوان افراد کی ہائیکورٹ بینچ کی جانب توجہ مبذول کروائی جا سکے‘ اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدالتوں کے تجربہ کار ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں بھی اضافہ کرنا ہو گا تاکہ وہ کام کرتے رہیں۔

ضلعی عدالتوں کے لیے ہمیں الگ سے جوڈیشل اکیڈمیوں کی ضرورت ہے جہاں قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اور تعیناتی سے پہلے ججوں کو تربیت فراہم کی جائے مگر یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے اعلیٰ عدلیہ کی سطح پر اس کا آغاز کر دیا ہے اور اگر ایسا ممکن ہو گیا تو ضلعی جوڈیشل ٹریننگ سینٹرز بھی جلد بن جائینگے‘ فوجداری کی طرح دیوانی مقدمات کے طریقہ کار کو آسان بنانے کے لیے بھی قوانین تشکیل دیے جانے اور اپیل کے طریقہ میں بھی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔

سستے انصاف کی فراہمی کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں‘ دنیا میں کوئی ملک حکومتی امداد کے بغیر غریب اور کمزور کو انصاف تک رسائی فراہم کرانے میں کامیاب نہیں ہوا‘ قانونی اصلاحات کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کن اصلاحات کی ضرورت ہے اور کون سی کارگر ہونگی‘ ہمیں برطانوی نظامِ قانون کی ضرورت نہیں جو پاکستان میں قابلِ عمل ہی نہیں بلکہ اسکے بجائے ایک پاکستانی نظامِ قانون کی ضرورت ہے جو موزوں اور قابلِ عمل ہو۔ (جاری ہے، باقی اگلے اتوار کو پڑھیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔