ہرچیز گوگل سے نہیں ملا کرتی

رئیس فاطمہ  اتوار 18 ستمبر 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

فیس بک پہ کسی نے جملہ لکھا ’’کچھ پل بیٹھا کرو اپنے بزرگوں کے پاس، کیونکہ ہر چیز ’’گوگل‘‘ سے نہیں ملا کرتی۔‘‘بات تو سو فیصد درست ہے لیکن گھروں میں بزرگ اب رہے کہاں ہیں؟ شاید ہی کوئی خوش قسمت گھر ایسا ہو جہاں بچوں کے سر پہ دادا، دادی کا سایہ ہو۔

بچے اسکول جائیں تو باپ چھوڑ کر آئے اور واپس وین سے آئیں تو والدہ محترم یا تو سو رہی ہوں، یا میکے اماں جان سے شوہر کو قابو میں رکھنے اور والدین سے اس کو بدظن اور متنفر کرنے کے گر سیکھ رہی ہوں۔ ایسے میں بچے کیا کریں؟ خود ہی کپڑے بدلیں اور فریج میں رکھا ہوا جو کچھ بھی مل جائے وہ مائیکرو ویو اوون میں گرم کر کے کھالیں۔

جب ایسے ماحول میں بچے پرورش پائینگے تو تربیت کہاں سے ہو گی۔ آج والدین کی عام شکایت ہے کہ بچے ان کا کہنا نہیں مانتے۔ اپنی چلاتے ہیں، ماں باپ کو گردانتے ہی نہیں لیکن کبھی والدین نے یہ بھی سوچا کہ اس جارحانہ اور منفی رویے کا ذمے دار کون ہے؟ کتاب کے بجائے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل دے دیے گئے۔

وہ موبائل کی اسکرین سے ایسے چپکے کہ پاس بیٹھے بہن بھائیوں اور ماں باپ کی خبر نہیں۔ گستاخی ان کے خمیر میں یوں شامل ہو گئی کہ جب انھوں نے اپنی ماں کا رویہ دادا، اور دادی کے ساتھ دیکھا جو انتہائی خراب اور تکلیف دہ تھا جس پر بوجوہ سسرالی دباؤ کے باپ بھی کوئی احتجاج نہیں کر سکتا تھا، تو بھلا بچے کیونکر اپنے والدین کو عزت دینگے اور ان کی بات مانیں گے؟

گھر سے بزرگوں کو باہر نکالنے کا ایک نقصان یہ ہوا کہ بچے کہانیاں سننے سے محروم ہو گئے۔ کہانی سے انسانی فطرت کی دلچسپی ازلی ہے۔ بچے تو بچے، بڑے بھی کہانیوں کے سحر میں مبتلا تھے۔ طلسم ہوشربا، داستان امیر حمزہ اور میر باقر علی داستان گو ادب کی تاریخ میں یوں ہی تو زندہ نہیں ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ نصیحت قبول نہیں کرتا لیکن کہانی میں جو سبق پوشیدہ ہوتا ہے وہ لاشعوری طور پر بچے کے ذہن میں نقش ہو جاتا ہے۔

جو نسل دادی، نانی سے سبق آموز کہانیاں سن کر بڑی ہوئی تھی اور اب بوڑھی ہو چکی ہے، اس کا اخلاق، انداز گفتگو، نشست و برخاست کا طریقہ، ادب آداب، نیکی کرنے کا جذبہ اور دوسروں کی مدد کو اپنا انسانی فرض سمجھنا ان کی زندگی ہی نہیں بلکہ خون میں شامل ہے لیکن آج کی نسل کے ہاتھوں میں کتابوں اور دلچسپ بچوں کے رسالوں کے بجائے آتشیں کھلونے دے دیے گئے ہیں۔ یہ آگ اگلتے کھلونے بچوں کی کیا تربیت کریں گے؟ سوائے مار دھاڑ اور شور شرابے کے؟

سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ دیکھنے میں آ رہی ہے کہ وہ تہذیب مٹتی اور ملیا میٹ ہوتی جا رہی ہے جس میں کسی بھی اپنے سے بڑے کو دیکھ کر بچے اور نوجوان سلام کرتے تھے اور راستہ دے دیتے تھے۔ اب معاملہ بالکل برعکس ہے۔ ہر نوجوان خواہ بائیک پر ہو یا پیدل کسی کو بھی دھکا دے کر آگے نکلنا اپنا حق سمجھتا ہے۔

اگر کسی نے غلط سمت سے آنے سے ٹوک دیا تو الٹا اس پر برس پڑے کہ ’’بڑے میاں دیکھ کر کیوں نہیں چلتے‘‘ شاپنگ سینٹرز اور اپارٹمنٹ کے باہر بے ترتیب گاڑیاں کھڑی ہیں۔ اگر آپ نے اعتراض یا احتجاج کیا تو جواب میں صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ والدین بھی آپ کو وہ کھری کھری سنائیں گے کہ ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔

آخر ان تمام منفی رویوں کا سرا کہاں ملتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں تو ایسا نہیں ہوتا؟ ہم نے اپنے دین پر اور حضورؐ کی تعلیمات پر کتنا، کس طرح اور کس حد تک عمل کیا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جہاں بڑے بڑے الفاظ میں جگہ جگہ لکھا ہے ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ اسی کے عین نیچے غلاظت کا ڈھیر پڑا ہے۔ ماں باپ کے لیے جو حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے کیا اس پر عمل ہو رہا ہے؟ مائیں صرف گورنس بن گئی ہیں، پالا پوسا تعلیم دلائی زندگی گزارنے کے قابل کیا۔ شادی کی اور بس اب ماں اور باپ کا رول بچوں کی زندگی سے ختم ہو گیا۔

وہ نیا گھونسلہ بنانے پھر سے اڑ گئے۔ رہ گئے بدنصیب والدین، تو ان کے لیے کوئی معقول اولڈ پیپلز ہوم بھی نہیں۔ ایدھی ہوم میں ہر ایک پناہ نہیں لے سکتا۔ وہاں بہت سے مسائل ہیں۔ لیکن جب کسی کو کوئی ٹھکانہ دستیاب نہیں ہوتا تو بیٹے کچرا کنڈی کے بجائے ایدھی ہوم پھینک آتے ہیں اور پلٹ کر خبر نہیں لیتے۔ اس پہ بھی یہ زعم کہ ہم مسلمان ہیں اپنے بزرگوں کو اولڈ ہوم میں نہیں پھینکتے۔ ہو سکتا ہے بہت سے گھرانے بدنصیب اور بیمار والدین کو گھروں میں بھی رہنے دیتے ہوں، لیکن وہاں ان کی اوقات کیا ہوتی ہے؟

کبھی جا کر دیکھئے تو اندازہ ہوتا ہے۔ان کے برعکس امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر غیر مسلم ممالک میں عمر رسیدہ افراد کے لیے باقاعدہ اولڈ پیپلز ہوم حکومت کی طرف سے بنائے گئے ہیں۔ جہاں ایک کمرے سے دو تین بستروں تک کی سہولت ہے۔ ان کے کھانے پینے، دوا دارو کا انتظام بھی ہے۔ ان کے بچے ماہانہ رقم بھی ادا کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ملنے بھی آتے ہیں۔

سوشل ورکر اور خدمت خلق کرنے والے ان بوڑھے اور تنہا لوگوں کو کمپنی دیتے ہیں جن کی بینائی کمزور ہے انھیں خود اخبار پڑھ کر یا ان کی دلچسپی کی چیزیں سناتے ہیں۔ یہ ہے انسانیت ۔ مسلمان پاکستان میں ضرور ہیں لیکن اسلام یورپ اور امریکا میں نظر آتا ہے۔ کیا ان ممالک میں یا سعودی عرب میں کوئی ایکسپائری ڈیٹ کی چیز بیچ سکتا ہے؟ جعلی دوائیں نیا لیبل لگا کر بازار میں لائی جا سکتی ہیں؟

جب سعودی عرب اور متحدہ امارات نے قانون پہ عملدرآمد کر کے جرائم کا خاتمہ کیا ہے، قوانین پہ عمل کرایا ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ اس کا تو جواب بہت سیدھا سادہ ہے کہ یہ ملک کسی فلاحی جذبے سے نہیں بنا بلکہ اپنے اپنے حصے کی بندربانٹ کے لیے بنایا گیا ہے۔ دو ٹولے میدان میں آ گئے ہیں۔ پہلے ان کے بڑوں نے انگریزوں سے وفاداری کے عوض زمینیں، جاگیریں، خطابات اور عہدے حاصل کیے، اب ان کی آل اولاد چوروں، ڈکیتوں اور لوٹ مار کرنے والوں کو تحفظ دے رہی ہے۔

سانجھے کی ہنڈیا بڑی عیاری اور مکاری سے پکائی جا رہی ہے۔ جب ایک کی باری ہنڈیا پکانے کی ہوگی تو دوسرا آگ تیز کر دے گا اور ساتھ ساتھ چمچے اور کفگیر چلانے والے بھی مہیا کر دے گا۔ معاہدے کے تحت اگلی باری جب دوسرے کی آئے گی تو وہ بھی اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ اس طرح اس ملک کے کتنے حصے بخرے ہوں گے؟ کیا پتہ؟ مشرقی پاکستان ٹوٹ گیا بلکہ جان بوجھ کر توڑ دیا گیا کہ اقتدار کے ترازو کا پلڑا ادھر بھاری تھا۔

بہتر یہی سمجھا گیا کہ دونوں پلڑوں کو توڑ دو۔ اور کم وزن والا پلڑا مقتدر قوتوں کی ملی بھگت سے قبضے میں کر کے حکومت حاصل کر لو اور نعرہ لگاؤ…شکر ہے پاکستان بچ گیا۔اب آنے والے وقت میں کون سا نعرہ لگایا جائے گا؟ بدقسمتی سے جو کوئی بھی کرپشن کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔ اس کو ناکام بنانے کے لیے اقتدار کی دیگ میں حصے دار بننے والے سب سے پہلے رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ بدنام کرتے ہیں۔ لیکن کوئی تو ہو جو بددل ہوئے بغیر کام کرتا رہے۔

بڑی عالمی طاقتوں کی نظریں پاکستان خصوصی طور پر کراچی پر لگی ہوئی ہیں۔ سب جانتے ہیں آیندہ عالمی منظر نامہ کیا ہو گا؟ جہاز تیار کھڑے ہیں۔ کہیں نہ کہیں محفوظ محل بھی بنا لیے گئے ہیں۔ یہ تو ساری دولت لے کر رفو چکر ہو جائیں گے۔ جو رہ جائیں گے وہ اس ملک میں کیا کہلائیں گے اور کس نام سے خود کو اور اس ملک کو پکاریں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔