جوانی پھر نہیں آنی …

شیریں حیدر  ہفتہ 17 ستمبر 2016
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

چالیس کا عشرہ شروع ہوتا ہے تو انسان ناسٹلجیا میں مبتلا ہونا شروع ہو جاتا ہے، عورتوں کو بہت یاد آتا ہے کہ ابھی پچیس برس پہلے ہی تو ان کا وزن سو پاؤنڈ سے کم تھا اور مردوں کو یہ یاد ستانا شروع کر دیتی ہے کہ ابھی پچیس برس پہلے ہی تو کتنی لڑکیاں ان پر مرتی تھیں، ان کی خوبروئی کی وجہ سے۔

اس وقت تک ٹنوں پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوتا ہے، خوبصورتی اور اسمارٹ نیس، مرد و زن دونوں کے لیے خواب نما ہونے لگتی ہے مگر یہ اور بات ہے کہ اس وقت بھی سب اس زعم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ اب بھی ویسے ہی ہیں۔ دونوں کے ناسٹلجیا آپس میں مربوط ہیں، مردوں کو کیوں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ان پر کئی مرتی تھیں کیونکہ ان پر ایک بھی مرنا چھوڑ دیتی ہے اور عورتوں کو عمر کے ساتھ وزن زیادہ ہوجانے کا مسئلہ ہو جاتا ہے تو انھیں ہمہ وقت یہی فکر اور یاد ماضی پریشان رکھتی ہے۔

اگر فریقین دلوں میں وسعت پیدا کریں تو دونوں کو پیار، محبت اور ربط قصہء ماضی نہ لگے۔ مرد عورت کو ہر وقت موٹاپے کے طعنے نہ دے تو وہ بھی اس کو اس کے بڑھے ہوئے پیٹ اور بالوں سے خالی سرکی طرف متوجہ نہ کرے۔ مرد تو خوش قسمت ہیں کہ بیویوں کو اٹھتے بیٹھتے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ مجھ پر تو کتنی مرتی تھیں، حتی کہ اب بھی … عورت تو بے چاری یہ فقرہ بھی نہیں کہہ سکتی، نہ ہی خیالی اور نہ ہی واقعی مرنے والوں کا تذکرہ کر سکتی ہے، نہ ہی کہہ سکتی ہے کہ وہ اب بھی طاقت پرواز رکھتی ہے! پہلے پہل پچاس کی دہائی میں قدم رکھتے ہی سب اس بات کو تسلیم کر لیتے تھے کہ ان کا سفر بڑھاپے کی سرحد کو چھونے لگا ہے مگر اب ایسا نہیں ہے، ہمیشہ جوان اور خوبصورت دکھنے کی خواہش کسے نہیں ہے؟ عورتیں اس معاملے میں ذرا زیادہ محنتی واقع ہوئی ہیں اس کا اندازہ آپ کو اس خط سے ہو جائے گا!!

’’میری پیاری دوست ثمینہ! سلام عرض ہے۔

امید ہے کہ تم خیریت سے ہو گی اور ان تمام قدیمی اور دیسی نسخوں پر باقاعدگی سے خود بھی عمل کر رہی ہو گی جو کہ تم نے مجھے ہمیشہ جوان اور صحت مند رہنے ، وزن گھٹانے اور اپنی جلد کی حفاظت کے لیے بتائے تھے۔ مجھے چونکہ ان پر عمل کرتے ہوئے چند ہفتے گزر چکے ہیں تو سوچا کہ تمہیں اس کے بارے میںمطلع کروں ۔ میری ایک اور دوست عشرت کو جب علم ہوا کہ میرے پاس اس قدر نادر نسخے ہیں تو اس نے اصرار کیا کہ میں اسے بھی ان سے فیضیاب کروں مگر میں نے پروں پر پانی نہ پڑنے دیا اور نتیجتاً وہ جل جل کر ہی اپنا وزن گھٹا بیٹھی اور تمہیں تو علم ہے کہ جلنے والے کا منہ کالا، اس کا وزن چاہے کم ہو گیا ہے مگر چہرے پر ویسی رونق نہیں جیسی چند دنوں میں میری ہوجانے والی ہے، تو سنو کہ تمہارے دیے گئے نسخوں کی دوائیں بنانے اور ان پر عمل کرنے کے دوران میرے ساتھ کیا کیا ہوا!

سب سے پہلے تو میں نے دو دوائیں بچوں کے لیے تیار کیں، ایک گلے کی خراش کے لیے اور دوسری بچوں کی نیپی ریش کے لیے، دوائیں بنا کر جار میں ڈال کر ابھی فارغ بھی نہ ہوئی تھی کہ معلوم ہوا عشرت صاحبہ تشریف لائی ہیں اور میں نے جلدی سے دونوں جار اٹھا کر وہیں باورچی خانے کی الماری کے اندر رکھ دیے، ان پر جو لیبل لگانا تھے وہ میں نے چمچوں اور کانٹوں والے دراز میں رکھ دیے کہ بعد میں لگا لوں گی۔ وہ خوب گپ شپ لگا کر، شربت کے بعد سموسوں کے ساتھ چائے بھی پی کر اور میرا دل جلا کر گئی تو میں نے دراز سے لیبل اورالماری سے دوائیں نکالیں کہ ان پر لیبل لگا لوں ۔ غور کیا تو اندازہ ہوا کہ دونوں دوائیں ایک جیسی لگ رہی تھیں۔ اب مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ بچے کی نیپی ریش والی جگہ پر کون سی دوا لگانا ہے اور گلے کی خراش کے لیے اسے کون سی دوا چٹانی ہے۔

ہائی بلڈ پریشر کی دوا زیادہ مقدار میںتیار کر کے بڑے سے جارمیں ڈالی ، جلی حروف میں ’’ بلڈ پریشر کی دوا‘‘ کا لیبل لگا کر اسے فریج میں رکھا کہ اس کی ضرورت کئی لوگوں کو پڑ جاتی ہے، یوں بھی ہم دونوں میاں بیوی کا بلڈ پریشر تو دن میںسارا وقت ہائی ہی رہتا ہے۔ میں کام پر تھی کہ میری غیر موجودگی میں ساس صاحبہ کا بلڈ پریشر لو ہو گیا، ویسے تو اس سے پہلے جب بھی بلڈ پریشر لو ہوتا تھا تو وہ کوئی نہ کوئی نمکین چیزکھا لیتیں تو ان کی حالت سنبھل جاتی تھی۔

اب انھیں معلوم ہے کہ میں اپنے حسن اور جوانی کے دوبارہ حصول کے لیے کیا کیا کرتی رہتی ہوں، سو انھیں تجسس بھی تھا اور شاید مقابلہ بازی کا رجحان بھی کہ انھوں نے ملازم سے استفسار کیا اور میرے وفادار اور کم عقل ملازم نے انھیں بتایا کہ ایک دوا فریج میں رکھی ہے، ’’ بلڈ پریشر کے لیے‘‘ اور آؤ دیکھا نہ تاؤ، کپ بھر کر میری بنائی ہوئی دوا ساس صاحبہ کو پلائی، نتیجہ وہی ہوا جو آپ سوچ سکتے ہیں مگر ان کی اچھی قسمت کہ وہ لوٹ پوٹ کر چار دن اسپتال میں گزار کر پھر لوٹ آئیں اور اس ملازم کی اتنی شدت سے شکایت کی کہ ماں کی محبت میںمیاں صاحب نے اس ملازم کی چھٹی کروا دی  جس نے نادانستگی میں نیکی کرنے کی ایک ناکام  کوشش کی تھی۔

جوانی لوٹانے کے نسخے استعمال کر کر کے میری تو جوانی کسی حد تک لوٹ ہی آئی ہے مگر میاں صاحب کی کھوئی ہوئی جوانی کہاں سے واپس لاؤں ۔ ان سے شکوہ کروں کہ انھیں مجھ سے پیار نہیں رہا تو وہ مجھے گھورتے ہیں، ان کی عمر میں تو romance کے ہجے بھی بھول جاتے ہیں ، ان سے پوچھوں کہ میں دوبارہ خوبصورت ہو رہی ہوں کہ نہیں تو ہونقوں کی طرح مجھے دیکھتے ہیں، میرے شکوے کہ ہر روز میری تعریف نہیں کرتے، میرے مطالبات سے اس قدر زچ ہو گئے ہیں کہ انھوں نے اب بیڈ روم چھوڑ کر اسٹڈی روم میں سونا شروع کر دیا ہے۔

دانت صاف کرنے کے لیے جو دوا بنائی تھی اس کے استعمال کے باوجود بھی دانت ویسے کے ویسے پیلے ہیں، حالانکہ اس سے قبل بھی میں کبھی کبھار منجن سے دانت صاف کرتی تھی مگر تمہارے بتائے ہوئے نسخے کے منجن سے تو میں نے دن میں تین تین بار رگڑ رگڑ کر دانت بھی گھسا لیے ہیں۔ لگتا ہے کہ دانتوں کے یہ امراض مجھے اپنے میاں جی کے خاندان سے وراثت میں ملے ہیں، اس خاندان میں ہمہ وقت ہر کوئی دانتوں کی تکالیف اور مسائل کے بارے میںگفتگو کرتا ہے جیسے اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اس خاندان کے دانتوں کے امراض ہیں۔

امسال میاں صاحب سے اصرار کر کے عید پر دنبے کی قربانی دلوائی کہ سنت ابراہیمی ہے مگر میرا اصل مقصد تھا دنبے کی چربی کی چکنائی حاصل کرنا، جس کے بارے میں تمہارے نسخوں میں لکھا ہے کہ اسے جلا کر ہلدی ملاکر پیروں کی پھٹی ہوئی ایڑھیوں پر لگا کر جرابیں پہن کر سو جانے سے وہ ٹھیک ہو جاتی ہیں۔ کئی قسم کی کریمیں اور لوشن استعمال کر کے بھی دیکھ لیا، ان کا خرچہ یوں بھی برداشت کرنا مشکل ہے اور دنبے کی چربی سستی اور ہلدی بھی، دونوں کو ملا کر آسان سی کریم تیارکر لی ہے۔

میں نے تمہارے نسخے پڑھ پڑھ کر اتنے معجون، سفوف اور دوائیں بنا لی ہیں کہ انھیں کھانا اور لگانا تو کجا ، دیکھ دیکھ کر ہی دل بھر جاتا ہے۔

موٹاپا دور کرنے کے لیے جو دوا بنائی تھی اس کے عناصر مجھے بہت ثقیل لگے اور اس سے میرے معدے میں گرانی کی شکایت ہوگئی،ساتھ بد ہضمی اور ڈکار کی تکلیف … پھر تم سے لیے گئے نسخوں میں سے ہی دیکھ کر معدے کے لیے دوا بنائی، اس دوا سے  متلی کی شکایت ہو گئی اور چلتے ہوئے چکر آ نے لگے۔ چکروں کے علاج کے لیے جو دوا کھائی اس سے ایسی کھانسی چھڑی کہ لگتا تھا جان لے کر ہی ختم ہو گی۔ کھانسی کے علاج کے لیے جو معجون بنائی تھی اس سے میرے جوڑوں میں درد شروع ہو گیا اور جوڑوں کے درد والے نسخے سے جسم پر بڑے بڑے لال نشان پڑ گئے،

ان کے علاج کے لیے جو دوا بنائی اس سے شدید قبض ہو گئی۔ قبض کے علاج کے لیے نسخے کے مطابق دوا تیار کی ، ایک ہی دن میں بارہویں بار باتھ روم جاتے ہوئے پھسل کر گر گئی اور ٹانگ تڑوا بیٹھی، اب چار ہفتے سے بستر پر پڑی ہوں، چلنے پھرنے سے مکمل معذوری ہے۔

دیسی گھی سے بنے ہوئے کھانے اور طاقت کی دوائیں کھا کھا کر کھویا ہوا وزن واپس لوٹ آیا ہے، میں بھی سوچتی ہوں کہ مجھے کون سا ماڈلنگ کرنا ہے اب۔ میاں صاحب اسٹڈی روم سے اپنا بوریا سمیٹ کر واپس کمرے میں آ گئے ہیں، انھیں میں اب ہر حال میں اچھی لگتی ہوں کیونکہ اب میں ان سے کوئی مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، وہ کچھ کہیں بھی تو میں انھیں کہتی ہوں کہ انھیں اس عمر میں ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔