دنیا کی سب سے پہلی، آخری اور بڑی کتاب

شاہد سردار  ہفتہ 17 ستمبر 2016

قرآن پاک وہ کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمے داری خود مالک ارض وسما اورکتاب کے اتارنے والے نے لی ہے۔ آج بھی اس کا ایک ایک حرف،ایک ایک لفظ بلکہ ایک ایک نقطہ اس طرح محفوظ اور موجود ہے، جس طرح اسے آج سے 14 سو سال پہلے اتارا گیا تھا اورصدیوں پہلے نامعلوم وقت میں،کائنات کی تخلیق سے پہلے ہی لوح محفوظ پر تحریرکیا گیا تھا۔

روایتوں میں آیا ہے کہ اﷲ رب العزت نے پورے قرآن شریف کو رمضان کی ایک شب قدر میں کائنات کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے آسمانی دنیا پر نازل فرمایا اور وہاں سے حضرت جبرائیل امین آہستہ آہستہ حسب ضرورت اور حسب الحکم رب تعالیٰ ہمارے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر تقریباً 23 سال میں نازل فرماتے رہے۔

قرآن پاک خدا کی  آخری کتاب ہے جو ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس کے ساتھ ہی جہاں نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہوا وہاں دنیا پر پھر کبھی کوئی الہامی کتاب نازل نہ ہوگی ، جب تک یہ دنیا قائم ہے یہ کتاب ہمیشہ کے لیے بنی نوع انسان کی رہنمائی اور ہدایت کا فریضہ سرانجام دیتی رہے گی۔

یہ ایک مسلم امر ہے کہ دنیا کی تاریخ کسی بھی کتاب کے بارے میں اتنی مستند معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ یہ کتاب رشد و ہدایت کی سب سے بڑی اور مکمل کتاب ہے، یہ علوم کا خزینہ ہے۔ انسان کی دینی اور دنیاوی رہنمائی کے لیے اس سے بڑھ کرکوئی کتاب نہیں یہ بلاشبہ فرمودہ خداوندی ہے اور تمام ادیان کی تکمیل کرتی ہے۔ 14 صدیوں سے قرآن پاک کی وجہ سے دنیا میں جو نور پھیلا ہے اس کی مثال پوری انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ گمراہی، تاریکی اور جہالت کے ہر دور میں قرآن نے انسانوں کی رہنمائی کی ہے اور تا ابد رہنمائی کا فریضہ ادا کرتا رہے گا۔ کیوں کہ کسی کتاب کو یہ رتبہ اور فرض نہیں سونپا گیا جو قرآن کو حاصل ہے۔

قرآن پاک کی تعلیم واحد تعلیم ہے جسے کبھی کسی دور میں ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اپنے تمام نظام ہائے تعلیم کے ساتھ اگر ہم چاہیں بھی تو قرآن کی تعلیم سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ (سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے محابہ ترقی یا استعمال کے باوجود بھی) اور نہ ہی کسی بشر میں یہ طاقت ہے کہ وہ قرآن سے بہتر نظام قرآن پاک دنیا کی وہ واحد منفرد کتاب ہے جس کے تراجم دنیا کی ہر زبان میں موجود ہیں۔ پوری دنیا کی تاریخ پر قرآنی اثرات بے حد گہرے ہیں۔اس لیے قرآن پاک دنیا میں مسلمانوں میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقدس کتاب ہے، اس لیے اسے خود میں اتارنے، دل و دماغ میں محفوظ کرنے کا جذبہ بھی ودیعت ہوا، تمام انسانوں میں ان لوگوں کو افضلیت یا اولیت حاصل ہے کہ جو قرآن کو حفظ کرتے ہیں اور’’حافظ قرآن کہلاتے ہیں‘‘ انھی انسانوں کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:

قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

قرآن پاک کو مکمل طور پر ضابطۂ حیات کہا جاتا ہے اسے سرچشمہ ہدایت بھی مانا گیا ہے۔ تدبیر و تفکر مسلمانوں پر قرآن مجید کا بہت بڑا حق ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کو محض سجا، سنوار کر، خوشبو لگاکر اسے خوبصورت اور قیمتی غلافوں میں لپیٹ کر رکھ چھوڑنے سے اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا ہمیں تلاوت الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے معنی کو بھی سمجھنا چاہیے اور اپنے آپ کو اس کلام کے رنگ میں رنگنا ہوگا اور خود کو اس کا تابعدار اور فرماں بردار بنانا ہوگا تاکہ ہم اﷲ تعالیٰ کی اس آخری ہدایت اور اس کے انوار و برکات سے فیض یاب ہوسکیں اور جہالت کی تاریکیوں سے نکل کر اس راہ ہدایت اور صراط مستقیم پر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں، جس کو اپنانے والوں پر اﷲ تعالیٰ نے خصوصی انعام فرمایا اور راہ حق سے روگردانی کرنے والوں کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ’’مغضوب‘‘ اور ’’ضالین‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔

افسوس صد افسوس! ہمارے معاشرے میں قرآن پاک برسہا برس سے جھوٹی قسمیں کھانے کے لیے کثرت سے استعمال ہورہا ہے اور اب نوزائیدہ بچوں کے نام رکھنے کے کام بھی آرہا ہے بعض معروف اسکالرز اور دانشوروں کے مطابق قرآن انسانوں کے نام رکھنے کی کتاب نہیں ہے۔ قرآن میں ہمارے تمام تر مسائل کا حل، تمام تر مصیبتوں اور بیماریوں کا علاج تک موجود ہے لیکن ہم نے کبھی اس کی اہمیت اور معنویت کو صدق دل سے پڑھا اور سمجھا ہی نہیں۔ لہٰذا اس پر عمل کرنا تو بہت دور کی بات ہوگی۔

عدل، انصاف، قوموں کی فلاح و بہبود، ان کی بقا ہر چیزکا اس میں ذکر اور حل موجود ہے لیکن ہماری اکثریت اور ہمارے حکمرانوں اور ارباب اختیار اس پر عمل پیرا نہ ہوئے (سوائے اسے ایک مقدس کتاب گرداننے یا ماننے کے) حکومتی ایوانوں اور عدالتوں میں اس پر ہاتھ رکھ کر یا اس کی قسمیں کھا کر (حلف اٹھا کر) اپنے اپنے اُلو سیدھے کیے جا رہے ہیں نتیجے میں ہم الٹی سمت میں ہی سفر کررہے ہیں یعنی ترقی معکوس۔ جس طرح سگریٹوں کے ہر پیکٹ پر کھلی وارننگ وزارت صحت کی جانب سے دی یا لکھی گئی ہے کہ سگریٹ نوشی مضر صحت اور کینسر اور دل کی بیماریوں کا سبب ہے لیکن اس پر کوئی دھیان نہیں دیتا بالکل اسی طرح قرآن کھلی ہدایت ہے ہم مسلمانوں کے لیے لیکن ہم میں سے اکثریت نے اسے کبھی ہدایت کا ذریعہ سمجھ کر بھی نہیں سمجھا۔ بس اسے بند کرکے غلافوں میں اونچی جگہ رکھ چھوڑا ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اکثر گھروں، دفاتر اور اداروں میں اسے طاق نسیاں یا اونچی جگہ پر رکھ  دیا گیا ہے گھروں، دفاتر اورکارخانوں وغیرہ کی جھاڑ پونچھ کرتے وقت اسے جھاڑ کر پھر اسے وہیں رکھ دیا جاتا ہے۔ ہماری دانست میں کتاب ہو یا انسان اسے اونچے چبوترے پر بٹھا دینا یا اسے رکھ چھوڑنا اس کی عزت افزائی یا تکریم نہیں بلکہ اس سے فائدہ حاصل کرنا، اس کو سمجھنا احسن طریقہ ہوتا ہے۔ہم اور آپ نے اس کے مظاہر اسی دنیا میں دیکھے ہیں کہ لوگ دنیاوی تعلیم حصول رزق کے لیے حاصل کرنے کے لیے قرض لے کر گھر کی قیمتی اشیا فروخت کرکے ڈگریاں یا اسناد لے لیتے ہیں لیکن قرآن کی تعلیم حاصل نہیں کرتے بیشتر لوگ قرآن پڑھے یا سیکھے بغیر زمین کی آغوش میں جا سوتے ہیں۔

یہ بجا کہ معاشرے میں شہرت، دولت، مرتبہ اور اختیار انسانوں کی فطری خواہشات ہیں اور خاکی انسان اس قدرکمزور اور ناتواں واقع ہوا ہے کہ اکثر اوقات شہرت، دولت، مرتبہ اور اختیارکے پیچھے یوں سرپٹ بھاگتا ہے کہ اس کی خواہش پر ہوس کا گمان ہوتا ہے۔ قرآن میں اسی لیے تزکیہ نفس پر بہت زور دیا گیا ہے اور تزکیہ نفس کا مطلب قلب اور باطن کو ہر قسم کی ہوس سے پاک اور صاف کرنا ہے سچ یہ ہے کہ تزکیہ نفس کھٹن ترین اور مشکل ترین منزل ہے ۔

افسوس ہم اکیسویں صدی میں سانس لیتے ہوئے بھی اب تک قرآن کی اہمیت، فضیلت، افادیت اور معنویت سے نابلد ہیں، ہمارے پاس آج سبھی کچھ ہے صرف عقل و شعور نہیں ۔ اس لیے بھی کہ ہمارے ہاں جن کی کھوپڑیوں میں دماغ ہے وہ دھکے کھاتے پھرتے ہیں اور جن کی کھوپڑیاں خالی ہیں وہ تو بڑے بڑے عہدے سنبھالے بیٹھے ہیں یا پھر ان کے سروں پر انعام مقرر کردیے جاتے ہیں۔ اللہ ہمیں قرآن کو باقاعدگی سے پڑھنے، اسے سمجھنے اور بعد ازاں اسے اپنی ذات میں جذب کرنے کی استقامت عطا فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔