بک شیلف

یہ کتاب محبت سے زیادہ محبت نبھانے کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ فوٹو : فائل

یہ کتاب محبت سے زیادہ محبت نبھانے کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ فوٹو : فائل

ہزارہ کے مظلوم عوام اور علامہ عبدالرحیم پوپلزئی

مصنف: ڈاکٹر عبدالجلیل پوپلزئی،قیمت: 300 روپے

ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اردوبازار لاہور

جنگ آزادی 1857ء دراصل برصغیر پاک وہند کی غالب اکثریت کی جدوجہدِ آزادی تھی جسے غیرملکی آقاؤں نے اپنے پروردہ مٹھی بھر جاگیرداروں کے ذریعے غلام بنا رکھاتھا۔ قصہ خوانی کا معرکہ، معرکہ حریت غلہ ڈھیر، مردان کے کسانوں کا معرکہ آزادی، ہزارہ کے مزارعین اور گجروں کا حریت نامہ، صوبہ سرحد کے خاکروبوں کا حریت نامہ… یہ اس جدوجہد آزادی کے اہم ابواب ہیں۔

زیرنظرکتاب سرزمین ہزارہ کی عام آبادی کے ان دکھوں، آہوں اور سسکیوں کی داستان الم ہے جس کو قانون رواج نے انتہائی بھیانک بنا رکھاتھا۔ انگریز حکمرانوں کے وفادار جاگیرداروں اور خوانین نے ہزارہ کے غریب عوام کو رواجی قوانین کے ایسے شکنجوں میں جکڑ رکھاتھا جس کا ذکر سنتے ہوئے بھی ہول آتاہے۔ قدم قدم پر مزارعین اپنے مالک اراضی کے عائد کردہ نت نئے ٹیکسوں کے پابند بنا دئیے گئے تھے۔ خواتین نے عام آبادی کو جو زراعت پیشہ تھی، بیگار کا پابند بنا رکھاتھا۔ ان لوگوں کو وحشیانہ سزاؤں اور مارپیٹ کا نشانہ بنایاجاتاتھا۔

علامہ عبدالرحیم پوپلزئی اور ان کے ساتھیوں نے ان مظلوم لوگوں کو عزت سے جینے کا حق دلانے کے لئے تحریک شروع کی، دیگرمعاشرتی گروہوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا، ایک سیاسی و آئینی جدوجہد کے ذریعے اس ظلم کے آگے بند باندھ دیا۔ یہ کتاب اسی عظیم جدوجہد کا مفصل احوال ہے۔ ایسے تذکرے مظلوم ومقہور اقوام کے لئے روشنی ثابت ہوتے ہیں، انھیں ہمت وحوصلہ ملتاہے اور ظلم سے نجات کا سبق بھی۔

جام آرزو(ناولٹ)

مصنف: مہوش افتخار،قیمت:600 روپے

ناشر: القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ، چوک اردوبازار، لاہور

زیرنظر کتاب میں دو ناولٹ’ جام آرزو‘ اور’ ضبط عشق‘ ہیں۔ ان میں ایسے کردار ہیں جن کی زندگیوں میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی، کوئی تشنگی ضرور رہ گئی ہے جو انھیں حقیقی زندگی سے قریب تر کرتی ہے، جہاں کبھی کسی کو پورا جہاں نہیں ملا۔ ایسی ہی کسک آپ ان دونوں کہانیوں کے انجام میں بھی محسوس کریں گے۔

بنیادی طور پر یہ دنوں کہانیاں ہی ’ہیرو اورئنٹیڈ‘ ہیں۔ یہ ہیروز اخلاقی طورپر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے نظر آتے ہیں۔ دو ہیرو انسانیت اور اچھائی کی بلندی پہ اور دو ان کے برعکس یکسر ہستی میں اترے ہوئے۔ مردوں کے کردار کی یہ مضبوطی اور کمزوری ان سے جڑی صنف نازک کی زندگیوں پر کیسے اثراندازہوتی ہے، اس کا اندازہ آپ کو یہ دونوں کہانیاں پڑھ کر بخوبی ہوجائے گا۔

یہ کتاب محبت سے زیادہ محبت نبھانے کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس میں آپ کو وفا، قربانی اور درگزر تینوں ہی اوصاف نظر آئیں گے جو اہل عشق اور اہل وفا کی پہچان ہوتے ہیں۔ یہ اصحاب عزیمت ہوتے ہیں جنھیں ان کی قربانیوں اورصبر وہمت کا میٹھا پھل ایسے اندازمیں ملتاہے کہ ایک دنیا عش عش کرتی ہے۔ یہ کہانیاں قاری کو بہت سے اسباق دیتی ہیں۔ آپ ان کہانیوں کا مطالعہ کریں گے تو ایک طویل عرصہ تک ان کے سحر سے نہیں نکل سکیں گے۔

تاریخ چترال کے بکھرے اوراق

مصنف: پروفیسر اسرارالدین،قیمت:400 روپے

ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اردوبازار، لاہور

زیرنظرکتاب کی صورت میں مصنف نے واقعتاً چترال کی تاریخ کے بکھرے موتیوں کو ایک دھاگے میں پرو دیاہے۔ کتاب تیرہ ابواب پر مشتمل ہے۔ چترال، چترال کی آرکیالوجی سر آرل سٹائن کے مشاہدات، چترال کی آرکیالوجی( موجودہ دور)، چترال کا کلاش قبیلہ( سیگر کی تحقیق)، چترال کے بعض پرانے باشندے، درد یا پساچہ زبانیں، چترال کی زبانیں( جارج مارگنسٹین کی رپورٹ)، برطانوی ہند کی پالیسی بابت شمالی سرحدات، مہترچترال( لارڈکرزن کے تاثرات، برطانوی حکام اور چترال کے حکمرانوں کے درمیان خط ، قائد اعظم کے نام خطوط اور چترال میں ذمہ دار حکومت قائم کے قیام کی تیاریاں۔ یہ ہے اس کتاب پر ایک سرسری نظر۔ مصنف نے چترال کے جغرافیہ، تاریخ، انساب، ثقافت، تہذیب و تمدن، لسانیات، سیاسیات اور حکمرانی وغیرہ پر مفصل اندازمیں لکھاہے۔ انھوں نے چترال کی تزویراتی حیثیت پر بھی خوب بحث کی ہے۔ تاریخ کے طلبہ اور چترال سے دلچسپی رکھنے والے ہرفرد کے لئے یہ کتاب ایک بیش قیمت خزانہ ہے۔

حرف آغاز

مصنف: ڈاکٹر اظہر وحید

قیمت : 400 روپے،صفحات: 239

پبلشرز: در احساس، جوہر ٹاؤن، لاہور

افکار اور خیالات کی جولان گاہ ایک وسیع دنیا ہے، جسے ترو تازگی ہمیشہ فکر درویش رکھنے والے اصحاب سے ملتی ہے، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پانی کے چند قطرے کسی ندی میں جا ملیں، گویا وہ قطرے بھی اپنا وجود کھو کر ندی بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اظہر وحید نے جس درویش ہستی سے فیض حاصل کیا ہے وہ افکار عالی کی ایک وسیع کائنات رکھتے ہیں، حضرت واصف علی واصفؒ نے تصوف کے رموز کو جس سادہ اور دلنشین انداز میں خاص وعام کے سامنے بیان کیا ہے ایسا شرف بہت کم شخصیات کو حاصل ہو ا ہے، یوں لگتا ہے جیسے انسان زندگی کے کسی ایک پہلو کو نئے انداز میں پرکھ رہا ہو، حالانکہ واصف علی واصفؒ کو پڑھنے سے قبل بھی وہ زندگی کے اس پہلو سے آشنا ضرور ہوگا مگر انھوں نے پہلو کے چھپے ہوئے گوشوں سے روشناس کرایا۔ ڈاکٹر اظہر وحید کے مضامین پر بھی تصوف کی گہری چھاپ نظر آتی ہے وہ دماغ کے ساتھ ساتھ دل کو بھی چھونا چاہتے ہیں جس میں وہ کامیاب رہے ہیں، جیسے ’’علم اور اخلاص ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ اخلاص ، کرامت ایجاد کر تا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور آج کے دور کی سب سے بڑی کرامت یہی ہے کہ عمل علم کے مطابق ہو جائے۔ استقامت صرف اخلاص کے نصیب میں ہے ۔ اخلاص ۔ ۔ ۔ ۔ جرات اظہار پیدا کرتا ہے۔ اگر اخلاص نہ ہو تو سچ کا اظہار کسی فتنے کے ظاہر ہونے سے کم نہیں۔‘‘ علم اور اخلاص کے بارے میں ایسے افکار کا اظہار صرف اور صرف درویشانہ فکر رکھنے والی شخصیات سے ہی ممکن ہے، ایسی تحریریں ہی نظر سے گزرکر دل و دماغ کو چھو لیتی ہیں۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

الرائد فی التحریر العربی والأِملاء

مؤلف:عبدالحیٔ چترالی

صفحات:144،ناشر: دار خدمۃ اللغۃالعربیۃ،کراچی

پاکستان میں عربی کی تدریس کی جانب مدارس عربیہ نے خاص طور پر توجہ دی ہے ۔ یونیورسٹیوں میں عربی زبان میں ماسٹرز اور اس کے بعد کی اعلیٰ ڈگریاں تو دی جاتی ہیں لیکن عربی زبان وادب کے حوالے سے نمایاں نام کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ مدارس عربیہ میں پڑھائی جانے والی عربی کا توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ وہاں ابھی تک صرف ، نحو اور انشاء کی قدیم ترین اسلوب میںلکھی گئی کتابوں کی فلسفیانہ انداز میںتدریس پر اصرار کیا جاتا ہے اور طلبہ کو ’’نکات بعد الوقوع ‘‘ میں اُلجھا کر رکھا جاتا ہے ۔ مدارس عربیہ میں بہت کم کتابیں ایسی ہیں جن میںسلیس اور آسان انداز میں انشاء عربی کی تمرین کا سامان ہوتا ہے تاہم بعض مدارس میں ’’العربیہ بین یدیک‘‘ اور ’’النحو الواضح ‘‘ جیسی رواں اور غیر اہم پیچیدگیوں سے کافی حد تک پاک کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ زیر نظر کتاب کراچی کے ایک فاضل عبد الحیٔ چترالی نے اسی ضرورت کے پیش نظر ترتیب دی ہے ۔ مؤلف نے اس کتاب میں عربی گرائمر کے رموز اور ان کی تمرینات کے ساتھ ساتھ معاصر عربی کے مختلف اسالیب کو موقع محل کی مناسبت سے مثالوں کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔روزمرہ کے کثیرالاستعمال محاوروں کو انگریزی ترجمے کے ساتھ کتاب میں شامل کیا گیاہے ۔عربی زبان میں مضمون نگاری کے اصولوں کو مثالوں کی مدد سے واضح کرنے کے علاوہ عربی زبان میںخطوط اور درخواستیں لکھنے کا آسان طریقہ بھی کتاب میں شامل ہے۔ عربی املاء اور ترقیم کے قواعد کو اشکال کی مدد سے آسان انداز میں پیش کیا گیا ہے۔آخر میں بولنے اور لکھنے میں کی جانی والی عام غلطیوں کی نشاندہی کے بعد ان کی تصحیح بھی کی گئی ہے۔ کتاب کے شروع میں مفتی محمد تقی عثمانی، ڈاکٹرعبدالرزاق اسکندر،الشیخ محمود التیونسی ،عبد المعز بن علی المنصور التیونسی اورجامعہ الآزھر کے استاد الدکتور علی علی احمد شعبان کے تعریفی کلمات شامل ہیں۔کتاب کے آخر میں کچھ عملی مشقوں کے بعد حوالہ جات بھی شامل کیے گئے ہیں ۔ مجموعی طور پر یہ کتاب عربی زبان سیکھنے والوں کے لیے مفید معلوم ہوتی ہے ۔عربی زبان و ادب کے شائقین کے علاوہ بالخصوص وہ عام قارئین بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں جو بلاد عرب میں تلاش روزگار کے لیے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔کتاب عمدہ کاغذاور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔

ماہ نو لاہور(احمد ندیم قاسمی نمبر)

صفحات372 : ،قیمت: 400 روپے

ناشر :وزارت اطلاعات،نشریات وقومی ورثہ

وزارت اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ کے زیر اہتمام شائع ہونے والے معروف ادبی مجلے ’’ماہ نو لاہور‘‘ نے اس بار معروف شاعر احمد ندیم قاسمی مرحوم پر خصوصی نمبر شائع کیا ہے۔ اس خاص نمبر کے پہلے حصے میں معروف اہل ادب کے احمد ندیم قاسمی کی شخصیت اور فن سے متعلق لکھے گئے مضامین شامل ہیں ۔ ان نمایاں اہل قلم میں ابراہیم جلیس،میرزا ادیب ،ابن انشاء، آغا محمد سہیل، اعزاز احمد آذر،اشفاق احمد، ڈاکٹر انوار احمد، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر جمیل جالبی ،حسن عسکری کاظمی، خدیجہ مستور، زاہدہ حنا،ڈاکٹر فتح محمد ملک،گلزار،مسعود اشعر،محمد حمید شاہد سمیت چالیس سے زیادہ افراد شامل ہیں۔ دوسرے حصے میں معروف شعراء کے احمد ندیم قاسمی کو پیش کیے گئے منظوم خراج عقیدت شامل ہیں جبکہ آخری حصے میں احمد ندیم قاسمی کے منتخب مضامین،فکاہی کالم ،مولانا چراغ حسن حسرت کا تحریر کردہ خاکہ،چار منتخب افسانے، قاسمی صاحب کی نعتیں ، منتخب نظمیں اور غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ماہ نو لاہور کا زیر نظرخصوصی شمارہ عمدہ آرٹ پیپر پر خوبصورت ڈیزائن کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔ اس کی ترتیب اور انتخاب دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کافی محنت اور عرق ریزی سے احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس خصوصی شمارے کے سرورق پر احمد ندیم قاسمی کی ایک یادگار تصویر جبکہ دوسری جانب احمد ندیم قاسمی کے افسانوں، غزلوں اور نظموں پر مشتمل کتابوں کی تصاویر شامل ہیں ۔اس خصوصی نمبر میں شامل مضامین کی اہم سطور کو سرخیوں کی صورت میں نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے ۔ اردو ادب سے شغف رکھنے والے قارئین کے لیے ’’ماہ نو،لاہور‘‘ کا یہ خصوصی نمبر کسی تحفے سے کم نہیں ہے۔

سفرنامہ ابن جبیر

مترجم: حافظ احمد علی خاں شوق

قیمت:800 روپے،ناشر: بک کارنر ، جہلم

اندلس سے تعلق رکھنے والے محمد ابن جبیر تاریخ انسانی کے ان چند سیاحوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی سیاحت کے ذریعے ایک دنیا کی خبر لوگوں کو دی۔ کم وبیش 800 برس قبل انھوں نے سفرحج کیا۔ اس کے لئے وہ صیقلیہ، شام، مصر، فلسطین، عراق، لبنان اور حجاز مقدس کے مکمل احوال وآثار کو سمیٹتے ہوئے غرناطہ واپس پہنچے۔

اس سفرنامے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ دوسری صلیبی جنگوں کے زمانے کی مستند تاریخی دستاویز ہے۔ ابن جبیر جہاں جہاں سے گزرے، انھوں نے وہاں کے سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مذہبی عقائد ونظریات اور رسوم ورواج تک سب کچھ تفصیل سے بیان کیا۔ جس انداز اور اسلوب میں یہ سفرنامہ لکھا گیاہے اس سے پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ ابن بطوطہ جیسے سیاح عالم نے اپنے شہرہ آفاق سفرنامے میں متعدد جگہوں پر ’ سفرنامہ ابن جبیر‘ کو بہ طورحوالہ پیش کیا۔

سفرنامہ فصیح عربی زبان میں تھا، قریباً تمام ترقی یافتہ زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے لیکن اردو قارئین اس سے محروم تھے چنانچہ قریباً ایک صدی قبل حافظ احمدعلی خاں شوق( جو مولانامحمد علی جوہر اور مولاناشوکت علی کے تایازاد بھائی تھے) نے ترجمہ کیا اور اپنے دور کی زبان وبیان کے تقاضوں کو پورا کیا۔ اب ’بک کارنر‘ نے اس ترجمہ کو از سرنو زندہ کیا ہے، اردو کے متروک الفاظ کی جگہ نئے الفاظ شامل کرکے شائع کیاہے۔ سفرنامہ بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ آغاز سفر، قاہرہ، قوص، عیذاب، مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، کوفہ، بغداد، موصل تابزاؑعہ، حلب تاحمص، دمشق اور پھرمراجعت اندلس۔ میں سمجھتاہوں کہ انسان کو یہ سفرنامہ پڑھے بغیر مرنا نہیں چاہئے۔

Handbook Of Pakistan China Relations

صفحات: 420،قیمت:850 / =  روپے

ناشر ۔ دوست پبلشرز، اسلام آباد

پاکستان چین دوستی دو ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کی ایک منفرد اور اپنی نوعیت کی واحد مثال کے طورپر پیش کی جاسکتی ہے جو دنیا کے دو سرے کسی بھی دو ہمسایہ ممالک میں دکھائی نہیں دیتی ۔ دوستی کا سفر جو باہم اعتماد ، اخلاص ، بے غرضی اور ایثا رکے پوتر جذبات کے زادِ راہ کے ساتھ شروع ہوا تھا وہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے پوری گرم جوشی کے ساتھ جاری ہے اور اس میں ہرآنے والے دن مضبوطی اور استحکام پیدا ہوتا چلا جارہاہے ۔حالیہ پاک چین اقتصادی راہداری کا عظیم الشان منصوبہ بھی اسی لازوال دوستی کا ہی شاہکار ہے ۔دوستی کا یہ رشتہ ایسے دو ہمسایہ ممالک کے درمیان قائم ہے جن کا نہ تو مذہب ایک ہے ، نہ ثقافت ، نہ زبان اور نہ ہی رسم ورواج میں کوئی مطابقت پائی جاتی ہے لیکن اس بظاہر تفاوت کے باوجود دونوں ممالک کی حکومتیں اور عوام آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اس حدتک پیار کے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی دوسرے دو ممالک کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ۔زیر نظر کتاب میں دونوں ممالک کے درمیان تاریخی روابط ، دوستی کے مختلف پہلووں اور جہتوں کو اجاگر کیاگیا ہے ۔اس کتاب میں شامل مضامین ملک کے ماہرین کے رشحات ِ فکر ہیں جنہیں پوری تحقیق ، محنت اور عرق ریزی کے ساتھ سپرد ِ قلم کیاگیا ہے۔کتاب کا تعارف مشاہد حسین سید نے تحریر کیاہے ۔دیگر مقالہ نگاروں میں اکرم ذکی ، حسن عسکری رضوی، لیو شولن ،جنرل (ر) طلعت مسعود ،شہزاد چوہدری ، پروفیسر زاو رونگ ، بریگیڈیئر (ر) نجیب احمد ، سراج الدین عزیز، معراج فہیم چوہدری ، فیصل مشتاق شامل ہیں ۔انگریزی زبان میں لکھی گئی اس کتاب کو پاکستان چائنہ انسٹیٹیوٹ نے مرتب کیا ہے جس کے روح رواں سابق سینیٹر اور معروف دانش ور مشاہد حسین سید ہیں ۔کتاب میں دونوں ممالک کے تعلقات میں پیش رفت کی تاریخی ترتیب کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان ابتک طے پائے جانے والے معاہدوں کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں ۔اس طرح یہ کتاب سیاست کے طلباء کے ساتھ ساتھ عام قاری کے لیے بھی دلچسپی کے بے شمار مواقع لیے ہوئے ہے اور یقیناً ایسی کتاب ہے جس کا ہر گھر میں ہونا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔