سمندر زمین کھا رہا ہے

شبینہ فراز  اتوار 18 ستمبر 2016
یہ غیرمشینی حل کافی مدد فراہم کرسکتا ہے اور وفاقی اکائیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات کو بھی کم کرسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

یہ غیرمشینی حل کافی مدد فراہم کرسکتا ہے اور وفاقی اکائیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات کو بھی کم کرسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

پچھلے دنوں واپڈا کے سابق چیئرمین نے مختلف اخبارات میں کالا باغ ڈیم پر مضامین کی پوری ایک سیریز لکھی ہے، جس میں انہوں نے کالا باغ ڈیم پر اپنی رائے بل کہ اس کی افادیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

ہم ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں لیکن واپڈا جیسے ادارے کی کلیدی نشست پر رہ کر کسی بھی متنازعہ منصوبے پر اپنی رائے دینا بہت سے تنازعات کو جنم دے سکتا ہے اور بہت سے سوالات جنم لے سکتے ہیں۔ تاہم ہمارا موضوع فی الحال یہ نہیں ہے لہذا آگے بڑھتے ہیں۔

ہمارے ارباب اقتدار اور اختیار شاید یہ جانتے ہوں کہ دنیا کے بڑے ڈیلٹاؤں میں سے ایک، انڈس ڈیلٹا میں تہذیب و ثقافت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ دریا ئے سندھ کے میٹھے پانی کی بہ تدریج کمی اور پھر ناپیدگی نے سمندر کو بھرپور دراندازی کا موقع فراہم کردیا ہے اور ڈیلٹا کی زرخیز زرعی زمینیں سمندر برد ہوگئی ہیں۔ ایسے میں ملک کے بالائی علاقوں میں کالا باغ ڈیم کی بازگشت اور ڈیلٹا میں اڑتی ریت یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ آج بھی فیصلہ سازوں میں رابطوں کی کمی اور بالائی علاقوں کے لوگ نشیبی علاقوں کے مسائل سے بے خبر ہیں۔ کم از کم انڈس ڈیلٹا کے حوالے سے تو ایک کڑا سچ نظر آتا ہے۔

انڈس ڈیلٹا تاریخ کا وہ سچ ہے جو صدیوں میں تشکیل پاتا ہے۔ یہ دوچار برس کا قصہ نہیں ہوتا ہے، دریا کو ڈیلٹا تشکیل دینے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ تاریخی حوالوں سے ثابت ہے کہ دریائے سندھ کے کناروں پر دنیا کی قدیم ترین تہذیب نے جنم لیا اور یہیں ارتقا کے مراحل طے کیے۔ اسی دریا نے اپنی مٹی سمندر کے قدموں میں بچھا کر دنیا کے زرخیز ترین ڈیلٹا کو جنم دیا اور انسانیت کی ایک اور خدمت کی۔ محقق ثابت کرچکے ہیں کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں (مصر، با بل، چین اور سندھ) میں سے ایک وادیٔ سندھ کی تہذیب دریائے سندھ کے کنارے پروان چڑھی اور پھولی پھلی۔

یہاں وادی سندھ سے مراد صرف صوبہ سندھ نہیں ہے، کیوںکہ ہزاروں برس پر محیط اس تہذیب کے نشانات سندھ کے علاوہ پنجاب، بلوچستان اور سرحد میں بھی پائے گئے ہیں۔ دنیا کی قدیم ترین کتاب رگ وید بھی دریائے سندھ کے کناروں پر لکھی گئی۔ اس میں بھی سات دریاؤں کا ذکر ملتا ہے، جن میں دریائے سندھ شامل ہے۔ دوسری کتاب رامائن ہے جس میں کورؤں اور پانڈؤں کے ساتھ ساتھ سندھ کے راجا جئدراتھ کا ذکر بھی بڑی تفصیل سے ملتا ہے۔ پارسیوں کی مقدس کتاب ’’زندہ وستا‘‘ میں بھی مہران ندی کا ذکر موجود ہے جو دراصل سندھو ہے۔ اس کی شاعری میں دریائے سندھ کا ذکر ملتا ہے۔

قدامت کے لحاظ سے پاکستان کے اس خطے کے ہم عصر ممالک عراق اور مصر میں ہزار ہا سال پہلے علوم فنون نے آنکھ کھولی اور خوب ترقی کی، بڑے بڑے علما، مفکر اور دانش ور پیدا ہوئے۔ جب ایک ایک اور دو دو دریاؤں کے ملکوں مصر اور عراق میں یہ صورت حال تھی تو سات عظیم دریاؤں کی سرزمین (سندھ، جہلم، چناب، راوی، بیاس، ستلج اور سرسوتی یعنی دریائے ہاکڑا پر مشتمل) پاکستان کی سرزمین کتنی مردم خیز اور علوم فنون کی اہلیت اور صلاحیت سے کتنی مالا مال ہوگی، اس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے۔

دیومالائی اہمیت کے حامل دریائے سندھ کی لمبائی 2,900کلو میٹر ہے جو تبت میں جھیل مانسرور سے 30 میل دور کیلاش کے برفانی پانیوں سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں سے بہتا ہوا یہ عظیم دریا ایک چھوٹے سے مقام ’’دم چک‘‘ سے لداخ میں داخل ہوجاتا ہے۔ لداخ میں اسے ’’سنگھے کھب‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سنگھے کا مطلب ہے شیر اور کھب کا مطلب ہے منہ یعنی شیر کا دہانہ۔ پاکستان بھر میں اس شیر کے دہانے والے دریا کے مختلف نام ہیں، یہ جن جن بستیوں کو سیراب کرتا اور ان کے دامن میں خوش حالی انڈیلتا گزرتا ہے، وہاں کے رہنے والے اسے محبت اور شکرگزاری کے تحت مختلف نام دیتے ہیں۔ مثلاً پشتو میں اسے ’’ابا سین‘‘ یعنی دریاؤں کا باپ، سندھ میں اسے ’’مہران‘‘ اور سندھو ندی بھی کہا جاتا ہے۔

لفظ سندھو سنسکرت کا لفظ ہے جس کی بنیاد ’’سیند‘‘ پر ہے، جس کے معنی بہنے کے ہیں، لیکن سدا بہنے والے اس سندھو کا پانی اب کہیں راستے میں ہی کھو جاتا ہے اور اس کے بعد تو صرف ریت ہی ریت رہ جاتی ہے ، ہر طرف اڑنے والی اور آنکھوں میں بھر جانے والی ریت!

دنیا کے بڑے دریاؤں میں ’دریائے نیل‘ اور ’دریائے سندھ‘ قابل ذکر ہیں، جو اپنے پانی کے بہاؤ کے ساتھ بڑی مقدار میں ریت اور مٹی لاتے ہیں۔ ڈیلٹا کی قدامت پر ایک رائے یہ ہے کہ جب ’سکندراعظم‘ 325 ق م میں ’پٹالہ‘ (پاتل۔ پاتال) پہنچا تھا تو سمندر یہاں ڈیلٹا بنا چکا تھا۔ ’پٹالہ‘ اسی جگہ پر تھا جہاں سے ڈیلٹا کی ابتدا ہوتی تھی۔ تاریخ کی گواہی اپنی جگہ بہرحال پچھلی ایک صدی تک کا تو ریکارڈ عام موجود ہے کہ جب بیسویں صدی کے اوائل میں دریائے سندھ کے بہاؤ پر بند باندھے جانے کا تصور تھا اور نہ ہی بیراج تعمیر ہوئے تھے، اس وقت ایک درجن سے زیادہ معاون نہروں اور کھاڑیوں کے ذریعے اوسطا سالانہ 150ملین ایکڑ فٹ سے بھی زیادہ پانی سمندر میں جا گرتا تھا۔

جب اس پانی کا اخراج بحیرۂ عرب میں ہوتا تھا تو دریائی پانی کے منہ زور تھپیڑوں سے سمندری روئیں ساحل سے 5 سو کلو میٹر دور تک اثرانداز ہوتی تھیں اور دریا کا میٹھا پانی سمندر کے نیلگوں کھارے پانی کو کئی کلو میٹر دور تک سرمئی کر ڈالتا تھا۔ سمندر اور دریا کی اس کشمکش کے نتیجے میں ہزاروں سال میں دریائے سندھ کا ڈیلٹا وجود میں آیا اور اسے انڈس ڈیلٹا کہا جانے لگا۔ قدیم نقشوں کے مطابق ہاتھ کی ہتھیلی اور انگلیوں کی شکل والے اس ڈیلٹا سے سترہ کھاڑیاں نکلتی تھیں۔ یہ کھاڑیاں کراچی سے لے کر بھارتی سرحد رن آف کچھ تک پھیلی ہوئی تھیں۔

دریا کا پانی سمندرکو آگے آتا دیکھ کر چھوٹے پنکھے کی شکل میں پھیل جاتا اور اپنے ساتھ لائی ہوئی ریت پھیلاتا جاتا جو آہستہ آہستہ زمین بنتی جاتی اور جیسے جیسے زمین بنتی جاتی ہے، سمندر پیچھے کی طرف ہٹتا جاتا ہے، مگر اس کی سطح وہی رہتی ہے۔ جب تیز ہواؤں کے دنوں میں سمندر کی مدافعت بڑھتی ہے تو دریا شاخوں میں بٹ جاتا ہے۔ لیکن اپنی ریت سمندر کے اندر پھینکتا رہتا ہے اور اسی طرح سمندر پیچھے ہٹتا جاتا ہے اور دریا کی لائی ہوئی مٹی بچھ کر ایک زرخیززمین بنتی جاتی ہے۔

دریائے سندھ کے پانی میں ریت اور مٹی کی مقدار دریائے نیل سے تین گنا زیادہ ہے۔ یہ ریکارڈ بھی موجود ہے کہ 1873ء تک دریا نے تقریباً 97 مربع میل نئی زمین بنائی تھی۔ اچھے دنوں میں ڈیلٹا سالانہ اپنے ساتھ40 بلین ٹن مٹی بہا کر لاتا تھا۔

ابتدا میں انڈس ڈیلٹا کا رقبہ 752,966 ہیکٹرز سے زیادہ تھا، لیکن اب افتاد زمانہ کے باعث اس کا رقبہ سکڑ کر6,0000 ہیکٹرز سے بھی کم رہ گیا ہے۔ انڈس ڈیلٹا کا شمارزرخیز ترین ڈیلٹاؤں میں ہوتا ہے۔ یہاں لاکھوں ایکڑ رقبے پر تیمر کے جنگلات موجود تھے جو میٹھے پانی کی کمی سے ناپید ہوتے چلے گئے۔ 1998 میں سیٹلائٹ کی مدد سے کیے گئے مشاہدے کے مطابق ڈیلٹا کے جنگلات کم ہوکر صرف 4لاکھ ایکڑ پر باقی رہ گئے ہیں۔ ان میں سے بھی صرف ایک لاکھ 25ہزار ایکڑ پر واقع درخت اچھی حالت میں موجود ہیں جب کہ مزید ایک لاکھ 25 ہزار ایکڑ پر مشتمل جنگلات تباہ حالی کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق1999میں آنے والا سمندری طوفان صرف تیمر کے جنگلات کے باعث کراچی تک نہیں پہنچ پایا تھا۔

انڈس ڈیلٹا کی تباہی میں قدرتی مظاہر سے زیادہ انسانی غفلت کارفرما نظر آتی ہے۔ یہ طے ہے کہ ڈیلٹا کو اپنا وجود برقرار رکھنے اور سمندر سے خود کو محفوظ اور اپنا منفرد ماحولیاتی نظام برقرار رکھنے کے لیے ایک خاص مقدار میں دریا کے میٹھے پانی کی ضرورت تھی مگر ایسا نہ ہوسکا اور ڈیلٹا میں دریا کا پانی کم یا نہ ہونے سے سمندر کو اس میں داخل ہونے کا راستہ مل گیا۔ میٹھے پانی کے اس ماحولیاتی نظام میں سمندر کے کھارے پانی نے تباہی مچادی اور سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ گیا۔

1991کے معاہدۂ آب (واٹر ایکارڈ) کے مطابق تمام صوبوں کو پانی کا حصہ طے کردیا گیا تھا۔ انڈس ڈیلٹا کی بحالی کے لیے یہ طے پایا تھا کہ کوٹری بیراج سے نیچے سمندر میں اخراج کے لیے کم از کم سالانہ 10 ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑا جائے گا۔ 2002 میں اس کی مقدار صرف1.04ملین ایکڑ فٹ تھی جو کہ ڈیلٹا کی تاریخ میں سمندر میں اخراج ہونے والے پانی کی اب تک سب سے کم مقدار تھی۔ اب تو صورت حال اور ابتر ہوچکی ہے۔

پانی کی کمی سے سمندر کو ڈیٹا میں داخل ہونے کا موقع مل گیا اور ڈیلٹا کی زرخیز اراضی کھارے پانی سے تباہ ہوگئی۔ بدین اور ٹھٹھہ اضلاع کی کل اراضی کے 33%کے برابر ہے۔ سمندر کی اس دراندازی کے نتیجے میں کھارے پانی کا تناسب بڑھ گیا اور میٹھا پانی پینے کے لیے بھی جنس نایاب ٹھہرا۔ اس سے تیمر کے جنگلات پر بھی خراب اثر پڑا، ان جنگلات کو بھی اپنی بقا کے لیے کھارے پانی کے ساتھ ساتھ میٹھے پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

بدین ڈسٹرکٹ کی زمینیں ہمیشہ اپنی زرخیزی کے حوالے سے مشہور رہی ہیں، یہاں کی زمینوں میں اول نمبر پر ’لال چاول‘ کی فصل ہوتی تھی، خاص کر لوئر بدین میں ’ماندھر‘ اور ’ولاسو‘ مشہور ایریا تھے، جہاں دھان کی فصل کی کٹائی کے لیے لوگ کم پڑ جاتے تھے۔ زراعت کے علاوہ یہاں کی ایک اہم سرگرمی ماہی گیری تھی۔ ایک تازہ ترین سروے کے مطابق’’ انڈس ڈیلٹا کے علاقے سے ماہی گیری کے وسائل میں پچھلی چند دہائیوں سے 70فی صد تک کمی آچکی ہے، جب کہ جھینگوں کی ایکسپورٹ سے جو سالانہ 100ملین ڈالر حاصل کیے جاتے تھے وہ بھی اب خواب و خیال ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ جھینگوں کا زیادہ تر حصول ڈیلٹا ہی کے علاقے سے ہوتا ہے، کیوںکہ یہ تیمر کے درختوں کی جڑوں میں افزائش نسل کرتے ہیں اور یہیں پائے جاتے ہیں۔ کورنگی، کھڈی، ہجامرو اور ترشن کریک اور دیگر کھاڑیوں میں شکار کرنے والے ماہی گیروں نے ماہی گیری کے وسائل میں بدترین کمی کی نشان دہی کی ہے۔ بوڑھے ماہی گیروں کی آنکھوں میں آج بھی گزرے زمانوں کی یاد روشنی بن کر چمکتی ہے۔

’’ماہی گیروں کے اہم روزگار یعنی ماہی گیری کے انحطاط نے گویا ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے ذرائع کے مطابق گلہ بان100فی صد، چھوٹے کاشت کار67 فی صد، مزدور پیشہ63  فی صد اور 49 فی صد ماہی گیر غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مجموعی طور پر ضلع ٹھٹھہ کی56 فی صد آبادی غربت کے اندھیرے سائے تلے سانس لے رہی ہے۔ بدین میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے، جب کہ ڈیلٹا کے زیادہ پس ماندہ علاقوں کاروچھان اور کیٹی بندر میں پینے کے صاف پانی کی قلت نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔

انڈس ڈیلٹا اپنی ماحولیاتی، معاشی اور تاریخی اہمیت کے باعث عالمی اہمیت کی حامل آب گاہوں یعنی رامسر سائٹ کی فہرست میں شامل ہے۔ حکومت پاکستان نے آب گاہوں کے تحفظ کے عالمی معاہدے ’’رامسر کنونشن‘‘ پر 1971 میں دست خط کیے تھے اگر وہ چاہے تو اس عالمی معاہدے میں شامل ممبر کی حیثیت سے ڈیلٹا کی بحالی اور تحفظ کے لیے رامسر کے عالمی ادارے سے بھی مدد لے سکتی ہے۔ مقامی لوگ اور بہت سے ادارے تو اپنی بساط بھر ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن ایک مربوط اور موثر تبدیلی کے لیے حکومت کا ان کوششوں میں شامل ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اپنے اس تہذیبی ورثے کی بحالی 2010 کی ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے۔

پاکستان میں پانی کے وسائل کی خطرناک قلت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کیوںکہ تین بڑے ذخائر کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوکر صرف 27 فی صد رہ گئی ہے۔ یہ مسئلہ بلاامتیاز فوری اصلاحی اقدامات کا تقاضہ کرتا ہے۔ اگر اس معاملے میں کوتاہی کی گئی تو مسئلہ مزید پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ پانی ایک بھڑکتا ہوا مسئلہ ہے اور وفاقی اکائیوں کے درمیان خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے درمیان مسلسل تنازعہ کا باعث ہے۔ اس کی وجہ سے شدید سیاسی بداعتمادی، انتظامی اداروں کے مابین بگاڑ، سرکاری کارکردگی میں خرابی پیدا ہورہی ہے۔ بہتے پانی پر بالائی اور نشیبی حق داروں کا تنازعہ صرف پاکستان ہی میں نہیں ہے دنیا میں بے شمار مشترکہ نہریں اور دریا بہت سے ممالک اور صوبائی اکائیوں کے درمیان بدمزگی کا باعث ہیں۔

پاکستان میں، اقتصادی اور سماجی نظام کی تشکیل زراعت کی مرہون منت ہے، جو کہ ملک کی معیشت اور غذائی تحفظ کا سرخیل ہے۔ دیہی علاقے براہ راست اور شہری علاقے بالواسطہ طور پر زراعت پر مبنی معیشت پر انحصار کرتے ہیں۔ اس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ زمین اور پانی پاکستانی معاشرت اور سیاست کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ زمیندار اشرافیہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ہی سے اس کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے۔ سیاست اور کاروبار میں شہری سرمایہ دارانہ قیادت اس وقت ایک نوخیز رجحان ہے۔ اس پس منظر میں پانی کی تقسیم ہمیشہ ایک آگ بھڑکانے والا معاملہ رہا ہے۔ اس حوالے سے متعلقہ ادارے اپنی کارکردگی پیش کرنے میں فیل نظر آتے ہیں اور ایسے عالم میں پالیسی سازی کا عمل کئی دہائیوں پیچھے چلا گیا ہے۔

سندھ کے ساحلی اضلاع میں بیس لاکھ ایکڑ سے زاید زمین میں سمندر دراندازی کرچکا ہے۔ کچھ عرصے پہلے سائنس اور ٹیکنالوجی سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو ماہرین نے بتایا تھا کہ اگر اس مسئلے کا فوری حل نہ نکالا گیا تو ٹھٹھہ اور بدین 2050 تک زیرآب آجائیں گے اور کراچی جیسا ساحلی شہر بھی اس خطرے سے مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ ایسا ہی ایک انتباہ سمندری سائنس کے قومی ادارے کے ماہرین کی طرف سے بھی دیا گیا تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق این آئی او کے حکام نے بتایا تھا کہ ایک سال میں 300 دنوں تک پانی سمندر میں نہیں جاتا جو سمندری در اندازی کا سبب ہے۔

سمندر میں اضافی بہاؤ کی فرضی اوسط کے باعث ماحولیاتی تباہی کی یہ تصویر مبہم ہے۔ بہر حال تیزی سے گرتی ہوئی ذخائر کی گنجائش بھی ایک بڑا چیلینج ہے۔ تربیلا، منگلا اور چشمہ ڈیم کٹاؤ کی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کی 27 فی صد تک صلاحیت کھوچکے ہیں۔ البتہ منگلا ڈیم کی گنجائش کو بڑھانے اور اس کے بنیادی ڈیزائن میں ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں 5۔34 سے بڑھاکر 7۔16ملین ایکڑ فٹ کرنے سے کچھ مداوا ہوا ہے۔

جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ پانی کے بحران کا واحد حل ڈیم ہیں انہیں تھوڑا سا وقت نکال کر انڈس ڈیلٹا کی حالت دیکھ لینی چاہیے، جہاں دریا کے پانی کی کمی نے ہر طرف تباہی پھیلادی ہے۔ اس کے علاوہ اس منظر نامے کو موسمیاتی تغیرات مزید بگاڑ رہے ہیں۔ پانی کے بحران کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کرنے کے لیے ہفت پہلو حل کی ضرورت ہے۔ اولین حل کے لیے واٹر مینجمنٹ مارک کنزرویشن کے اصول اپنائے جائیں۔ کم زور آب پاشی کے بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے پانی کے رساؤ سے سالانہ نقصانات40ملین ایکڑ فٹ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

ماحولیاتی تحفظ کو برقرار رکھنے کے لیے اس کی آدھی مقدار کو ضروری سمجھیں۔ باقی مقدار ملک میں دست یاب موجودہ ذخائر سے زیادہ ہے اور تین کالاباغ ڈیم کی گنجائش سے زیادہ ہے۔ نہری نظام کی انتظام کاری، فارموں کے ساتھ پانی کے چشمے، زمین کی ہم واری، زیادہ پانی چوسنے والی فصلوں سے گریز اور پانی کے منصفانہ استعمال سے پانی کی کافی مقدار محفوظ کی جاسکتی ہے۔ اس طرح موجودہ کمی پوری کی جاسکتی ہے۔ یہ غیرمشینی حل کافی مدد فراہم کرسکتا ہے اور وفاقی اکائیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات کو بھی کم کرسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔