ذرایع ابلاغ کے لیے لمحہ فکریہ

مقتدا منصور  پير 19 ستمبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے کی بات ہے، تحریک انصاف کے کراچی میں ہونے والے جلسے سے ایک رات قبل ایک ٹیلی ویژن چینل نے میرا Beeper لیا۔ خاتون نیوز اینکر نے مجھ سے سوال کیا کہ کل کراچی میں تحریک انصاف ’’بڑا جلسہ‘‘ کرنے جا رہی ہے، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ میں نے خاتون سے سوال کیا کہ آپ کو پہلے سے یہ علم کیسے ہو گیا کہ جلسہ بڑا ہو گا؟ مگر اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ کیونکہ وہ سوال تو انھیں لکھ کر دیا گیا تھا، جو انھوں نے پڑھ دیا تھا۔ پرنٹ میڈیا میں اس قسم کی مبالغہ آرائی شاذونادر ہی شایع ہوتی ہے، لیکن الیکٹرونک میڈیا میں یہ تقریباً روز کا معمول ہے۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، مبالغہ آرائی اس کی قدیمی روایت ہے۔ جسے چاہتے ہیں، فرشتوں سے بڑھ کر درجہ دیدیا جاتا ہے، جس سے خفا ہو جائیں، اسے شیطان سے بھی بدتر بنا دیتے ہیں۔ ان رویوں کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں روز ہی کا معمول ہے۔ یہ طرز عمل گو جہل آمادگی اور نفسیاتی عدم توازن کو ظاہر کرتا ہے، لیکن عام زندگی میں انفرادی سطح پر کسی حد تک قبول کر لیا جاتا ہے۔ مگر ذرایع ابلاغ میں یہ طرز عمل معاشرے میں مختلف نوعیت کی پیچیدگیاں پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ کیونکہ ذرایع ابلاغ میں اس طرز عمل کے تسلسل کے ساتھ جاری رہنے کی صورت میں مبالغہ آرائی کے Institutionalise ہو جانے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ عمل تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ذرایع ابلاغ کی اصل ذمے داری کیا ہے؟ معنوی اعتبار سے ذرایع ابلاغ کا بنیادی کام عوام کو درست اور صحیح اطلاعات اور معلومات فراہم کرنا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہر خبر کا مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے جائزہ لینا بھی اس کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کا حصہ  ہے۔ لیکن کسی خبر پر فیصلہ صادر کرنا ذرایع ابلاغ کی ذمے داری نہیں ہوتی۔

اسی طرح کسی خبر یا جائزے میں اسم صفت (Adjectives) کا استعمال بھی قابل قبول نہیں ہوتا، یعنی ذرایع ابلاغ صرف کیفیت بیان کرنے کے پابند ہوتے ہیں، تاثرات نہیں۔ مثلاً موسم کا حال بیان کرتے ہوئے یہ لکھا اور کہا جاتا ہے کہ آج اتنے ڈگری درجہ حرارت ہے۔ اب یہ قاری یا ناظر پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس درجہ حرارت کو گرم، سرد یا واجبی تصور کرتا ہے۔ ’’آج بہت گرمی ہے‘‘ یا ’’بہت سردی ہے‘‘ جیسے جملوں سے پرہیز کیا جاتا ہے۔

کیونکہ ہر فرد کا گرمی یا سردی کے حوالے سے اپنا الگ احساس ہوتا ہے۔ یہی کچھ معاملہ عظیم الشان، بہت بڑا، قابل رشک وغیرہ جیسے الفاظ کے استعمال کا ہے، کیونکہ ان الفاظ سے مبالغہ آرائی اور جانبداری کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی جلسے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے رپورٹر کو یہ بتانا چاہیے کہ ’’فلاں میدان یا پارک میں اتنے لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ میرے اندازے کے مطابق اس وقت جلسہ گاہ میں اتنے لوگ موجود ہیں‘‘۔ اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ اس تعداد کو ’’بڑا‘‘ سمجھتے ہیں یا ’’چھوٹا‘‘۔ ’’اس وقت‘‘ کہنا اس لیے ضروری ہے، کیونکہ جلسہ کے دوران شرکا کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔

دوسری بات یہ کہ اپنی طرف سے کوئی اضافی جملہ شامل نہیں کرنا چاہیے۔ خبر جتنی ہو اور جس قدر معلومات مہیا ہوں وہی بیان کی جائیں۔ خبر دیتے ہوئے اس میں اپنا تبصرہ شامل کرنے سے گریز کیا جائے۔ خبر کا جائزہ لینا رپورٹر کا نہیں، تجزیہ نگار کا کام ہوتا ہے، جو خبر کے شایع یا نشر ہونے کے بعد اس کا جائزہ لیتا ہے۔ رپورٹر کی جانب سے اضافی جملوں کا استعمال بعض اوقات سنگین سیاسی، سماجی اور بسا اوقات انتظامی مسائل پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے، جس کی ایک مثال 2002ء میں ہونے والے گجرات فسادات ہیں۔ گودھرا اسٹیشن پر کھڑی ٹرین کے کچھ ڈبوں میں آگ لگی تو ایک گجراتی اخبار اور چینل کے رپورٹر نے اپنی ابتدائی رپورٹ کچھ یوں بھیجی۔ ’’متھرا سے آنے والی ٹرین، جس میں یاتری سفر کر رہے تھے، اس کی کچھ بوگیوں میں گودھرا اسٹیشن پر اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ اسٹیشن کے قریب ہی مسلمانوں کی بستی بھی ہے‘‘۔

اب اگر اس رپورٹ کا پیشہ ورانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو اس میں اضافی جملوں کے علاوہ کئی نقائص نظر آئیں گے، جو رپورٹر کی پیشہ ورانہ غیر ذمے داریوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اول، رپورٹ ابتدائی تھی، اس لیے صرف اتنا بتا دینا کافی ہوتا کہ اسٹیشن پر کھڑی ٹرین کے کچھ ڈبوں میں آگ بھڑک اٹھی، جس کی وجوہات کا ابھی تعین نہیں ہو سکا ہے اور تفتیش جاری ہے۔ یاتریوں کی موجودگی اور اسٹیشن کے قریب مسلمانوں کی بستی کا تذکرہ اضافی جملے تھے۔ ان جملوں سے  فطری طور پر یہ تاثر پیدا ہوا کہ قریبی بستی کے مسلمانوں نے یاتریوں کی ٹرین کو آگ لگائی۔ حالانکہ تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ آگ شارٹ سرکٹنگ کے نتیجے میں لگی تھی۔ مگر اس وقت تک گجرات کی پوری ریاست تاریخ کے بدترین فسادات کا شکار ہو چکی تھی، جس میں20 ہزار کے قریب انسان لقمہ اجل بنے اور اربوں روپے مالیت کا نقصان ہوا۔

کچھ اسی نوعیت کا معاملہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے جلسوں کی کوریج کے دوران پیش آتا ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے جلسوں اور جلوسوں میں شرکا کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔ ان کی پریس ریلیزیز مبالغہ آرائی کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں۔ اپنی پریس ریلیزیز کی من وعن اشاعت یا نشر کیے جانے کے لیے دباؤ بھی ڈالتی ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ سیاسی ومذہبی جماعتوں کی پریس ریلیز کے ساتھ رپورٹر کی فائل کردہ رپورٹ بھی شایع اور نشر کریں ۔ اگر رپورٹر کی رپورٹ کسی سبب شایع یا نشر نہیں کی جا رہی تو کم از کم قارئین و ناظرین کے علم میں یہ بات لائی جائے کہ جس میدان میں یہ جلسہ یا ریلی ہو رہی ہے اس کا رقبہ کتنا ہے اور اس میں کتنے لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ یہ معلومات قارئین یا ناظرین کو اصل صورتحال سے آگاہ کرنے کا سبب بن جائیں گی۔

ایک دوسرا پہلو جس پر ان صفحات پر کئی بار اظہار کیا، وہ یہ کہ آج کل شام 7 بجے سے 11 بجے کے دوران جو مذاکرے پیش کیے جاتے ہیں، وہ عوام کی معلومات میں اضافے اور انھیں Educate کرنے کے بجائے فکری آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ کیونکہ یہ پروگرام ٹھوس حقائق پر گفتگو کے بجائے سنی سنائی خبروں یا پروپیگنڈے کو بنیاد بنا کر کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اینکرز جس انداز میں شرکا سے جرح کرتے ہیں، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ میزبان نہیں بلکہ عدالت میں کھڑے وکیل استغاثہ ہیں اور جو سامنے بیٹھا ہے، وہ مہمان نہیں ملزم ہے، جس پر فرد جرم عائد کرنا بہرصورت ان کی ذمے داری ہے۔ یہ طرز عمل مختلف طبقات اور کمیونٹیز کے درمیان نفرتوں کی خلیج پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

اکثر و بیشتر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کسی ایک شہر میں بیٹھے اینکرز اور تجزیہ نگار کسی دوسرے شہر یا صوبے کی کسی کمیونٹی کی منتخب کردہ قیادت کو نشانہ بنا کر دراصل اس کمیونٹی کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اینکروں کی تاریخ اور سیاست پر معلومات انتہائی واجبی ہیں۔ ان کا پروگرام دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ٹھوس معلومات کے بجائے صبح کا اخبار پڑھ کر یا ریسرچر سے حاصل کردہ سطحی معلومات کی بنیاد پر شام کو پروگرام کرنے بیٹھ گئے ہیں۔ یوں ذرایع ابلاغ کی غیر جانبداری اور اعتبار دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔ ذرایع ابلاغ سے متعلق ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مذاکروں (Talk Shows) کا طریقہ کار تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے اینکروں، رپورٹروں اور پروڈیوسروں کی تربیت اور ریفریشر کورسز ضروری ہو گئے ہیں۔

تیسرا پہلو یہ ہے کہ آج کی دنیا انفارمیشن اور سٹیلائٹ ٹیکنالوجی کی دنیا ہے، جو گلوبلائزیشن کی سب سے مؤثر اور حقیقی شکل ہے۔ بات اب رسمی ذرایع ابلاغ سے نکل کر سوشل میڈیا تک جا پہنچی ہے، جو اظہار اور مکالمہ کا طاقتور ذریعہ بن گیا ہے۔ وہ گفتگو جو روایتی میڈیا پر نہیں ہوسکتی، سوشل میڈیا پر کھل کر ہو رہی ہے۔ کئی چینل اب سیٹلائٹ کے بجائے ویب کے ذریعے عوام تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس میں انھیں کامیابی بھی حاصل ہو رہی ہے۔ اغلب گمان یہی ہے کہ آنے والی دہائیوں کے دوران ویب چینلز کا رجحان زیادہ فروغ پائے گا، کیونکہ ان پر زیادہ کھل کر بات کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہے کہ رسمی میڈیا حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی تنظیم نو یعنی Re-structuring کرے اور خود کو پروپیگنڈے تک محدود کرنے سے گریز کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔