پر امن افغانستان اور مسئلہ کشمیر کا حل خطے میں امن کی ضمانت ہے!!

سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں اور ماہرین امور خارجہ کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔  فوٹو : ایکسپریس

سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں اور ماہرین امور خارجہ کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

جنوبی ایشیاء شروع سے ہی نہ صرف بڑی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے بلکہ یہ طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے یہاں کردار ادا کرہی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک یہاں حالات معمول پر نہیں آسکے۔

افغانستان میں کشیدگی، پاکستان اور بھارت کے مسائل، سوویت یونین اور امریکا میں لڑائی ، چین اور امریکا کے درمیان سپر پاور کی نئی دوڑ اور اس طرح کے بہت سارے ایسے محرکات ہیں جن کے اثرات اس خطے پر براہ راست پڑے ہیں اور پڑتے رہیں گے۔ پاکستان میں بھارتی مداخلت، افغانستان میں بھارتی کردار، مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی نئی تحریک اور نریندر مودی کی ہرزہ سرائی سے خطے کا ماحول ایک مرتبہ پھر خاصہ گرم ہوچکا ہے۔ اس صورتحال کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات
( ماہربین الاقوامی امور)
امریکی صدر اوباما نے 8سال قبل انتخابات کے وقت اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان سے فوج نکال لیں گے لیکن انہیں وہاں فوج کی تعداد بڑھانا پڑی جس کی وجہ افغانستان میں جاری سول وار ہے۔ یہ سول وار، پشتون اور دیگر قبائل کے درمیان ہورہی ہے۔ تاجک، ازبک، ہزارہ جات اور ترکمان ایک طرف ہیں جبکہ پشتون دوسری طرف۔ اگر آبادی کے لحاظ سے دیکھیں تو 40فیصد پشتون ہیں لہٰذا انہیں سائڈ لائن کرکے معاملات کو حل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ایسا ممکن ہے کہ انہیں شامل کیے بغیر وہاں امن قائم ہو جائے۔

اس حوالے سے پاکستان نے سب کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کردار ادا کیا، مری مذاکرات ہوئے لیکن طالبان لیڈر مار دیا گیا جس کی وجہ سے معاملات خراب ہوئے، اگر یہ مذاکرات آگے بڑھتے تو اس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوتے اور حقانی نیٹ ورک بھی اس میز پر آجاتا۔ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ انہیں طاقت کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سوچ غلط ہے۔ امریکا نے جب عراق پر حملہ کیا اور افغانستان میں پھنس گیا تو اس کے اپنے ملک میں 1930ء کی طرز کا بحران آگیا تھا، تمام انڈسٹری اور بینک خسارے میں چلے گئے اور پھر امریکا نے بلین ڈالرزکا قرض لیا ، ابھی بھی اس کی معاشی حالت بہت بری ہے حالانکہ اوباما نے ملک کو کافی سنبھالا دیا ہے۔

اس لیے امریکا اس چیز کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ وہ افغانستان میں چلتا جائے اور وہاں معاملات میں مزید گرمی آئے کیونکہ اس طرح افغانستان کا حل کبھی نہیں نکلے گا۔افغانستان کا مسئلہ حل کرتے ہوئے دیکھنایہ ہے کہ ازبک اور تاجک ، جنہوں نے وہاں قبضہ کیا ہوا ہے ، وہ اپنا کردار کتنا کم کریں گے اور پشتونوں کو وہاں کتنی طاقت دی جائے گی۔اس لیے افغانستان کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے لہٰذا ہمیں اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تاہم معاملات کی بہتری کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ افغانستان کا معاشرہ بہت مختلف ہے، ہم کہتے تو ہیں کہ بڑی بڑی طاقتیں افغانستان میں کامیاب نہیں ہوسکیں لیکن ہم وہاں کردار بھی ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

سوویت یونین اور امریکا نے افغانستان میں سرمایہ کاری سے بہت نقصان اٹھایا، بھارت اب ایسی غلطی کررہا ہے لہٰذا اسے بھی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ پہلی مرتبہ طالبان کا وفد مسائل کے حل کے لیے چین گیا، پاکستان کو اکیلے اس مسئلے میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ چین، ترکی، ایران و دیگر ممالک کو شامل کرکے علاقائی سطح پر ایک گروپ کی صورت میں افغانستان کے مسئلے کا حل نکالا جائے۔مودی نے بلوچستان کے حوالے سے بیانات سے ایران اور چین کو الرٹ کردیا ہے اور دنیا کے سامنے یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت، پاکستان میں مداخلت کررہا ہے۔

ہم نے چین کو اپنے پارٹنر کے طور پر چن لیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب امریکا کے ساتھ ہماری جنگ ہے، امریکا ایک بڑا ملک ہے لیکن اب ہم اس کے سٹرٹیجک پارٹنر نہیں بن سکتے کیونکہ اس نے بھارت کو اپنے پارٹنر کے طور پر چن لیا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر بھارت خطے کا ماحول گرم کرے گا تو اس کا معاشی طاقت بننے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا کیونکہ ایسی صورتحال میں سرمایہ کار بھارت سے بھاگ جائیں گے۔اس وقت ہمیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، معاملات بہتر ہیں تاہم ہمارے اندرونی مسائل خطرناک ہیں اور ہمیں اپنی لیڈر شپ سے خطرہ ہے۔

ہمیں بیڈ گورننس سے نقصان ہورہا ہے، حکومت کو معاملات بہتر کرنے چاہئیں۔ جب بھارتی وزیراعظم کوئی بات کرتے ہیں تو ہمارے وزیراعظم کو بھی کشمیر کے معاملے پر بیان دینا چاہیے لیکن ان کی خاموشی سمجھ نہیں آتی۔ ترکی اور چین کے ساتھ تعلقات کی پالیسی بہتر ہے، ہمیں ایران کے ساتھ بھی تعلقات بڑھانے چاہئیں۔چابہار ٹیکس فری زون ہے، کوئی بھی وہاں سرمایہ کاری کرسکتا ہے لہٰذا پاکستان کو اس میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے تھی۔ گوادر چابہار سے بہت بڑا ہے، ایران پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے،پاک ،ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو آگے بڑھانا چاہیے، اس سے میں کوئی تیسرا ملک بھی شامل نہیں ہے لہٰذا اس سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔

ڈاکٹر مسرت عابد
( ڈائریکٹرشعبہ پاکستان اسٹڈیز ،جامعہ پنجاب)
پاکستان، بھارت اور افغانستان ایک ایسے خطے میں واقع ہیں جو ہمیشہ سے ہی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ 1947ء میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت بھی پاک، افغان تنازعات موجود تھے، جنہیں افغانستان میں سنجیدگی سے دیکھا گیا مگر پاکستان نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ افغانستان وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے پاکستان کو بطور ملک تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ افغانستان چاہتا تھا کہ ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو از سر نو دیکھا جائے کیونکہ اس پر اسے تحفظات تھے۔ اس وقت پختونستان کا سوال بھی اٹھایا گیا۔

اس کے علاوہ افغانستان چاہتا تھا کہ صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کے لیے آزاد ریاست کی تجویز بھی رکھی جائے ۔ تنازعات تو روز اول سے ہی موجود تھے ، 48ء میں تو یہ نوبت آگئی تھی کہ پاکستان اور افغانستان تقریباََ حالت جنگ میں چلے گئے ۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہی کوشش ہے کہ افغانستان کو سہولت دی جائے کیونکہ یہ ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیاقت علی خان کے دور سے لے کر آج تک ہم افغانستان کو ٹرانزٹ سہولت دینے کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ شروع سے ہی افغانستان بڑی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے جبکہ 9/11کے بعد حالات تبدیل ہوئے اور یہاں دہشت گردی کا سنجیدہ مسئلہ پیدا ہوا جس کے اثرات پاکستان میں بھی نظر آئے۔

میرے نزدیک معاشی طور پرمستحکم اور پر امن افغانستان، خطے میں امن کے لیے بہت ضروری ہے، افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں بھی امن آئے گا اور پھر ہم پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے صحیح معنوں میں مستفید ہوسکیں گے جو ہمارے لیے گیم چینجر ہی نہیں بلکہ ہمارا مقدر بھی بدلے گا۔ اگر دونوں ملک ایک دوسرے سے تعاون کریں گے تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں اور اس سے دونوں ملکوں کی تقدیر بدل جائے گی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں ایک فریق بھارت بھی ہے، وہ اپنے مفادات کے لیے وہاں بھرپور کام کررہا ہے، وہ خود کوخطے کی بڑی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے اس لیے افغانستان میں سرمایہ کاری سے اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہا ہے اور وہ اپنا واضح کردار جاری رکھنا چاہتا ہے۔

ہر ملک اپنے مفادات کے لیے ہی کام کرتا ہے اس لیے ہمیں اس سے ایسی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ افغانستان کے حق میں کوئی بہتر کام کرسکتا ہے۔ پاکستان، ماضی میں افغانستان کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے سرمایہ کاری کرتا ہے لیکن بھارت ایک بڑی اقتصادی قوت ہے، اس کے پاس وسائل زیادہ ہیں اور اس کا مفاد اس وقت یہی ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے پاؤں جما کر خطے میں اپنا کردار بڑھائے۔بھارت کا رویہ جارحانہ ہے جس کے اثرات پاک، بھارت تعلقات پر پڑ رہے ہیں۔ بلوچستان میں مداخلت، سرمایہ کاری، افغانستان میں کردار سمیت دیگر اقدامات سے بھارت 71ء والی صورتحال پیدا کرنا چاہتا ہے، یہ بہت خطرناک صورتحال ہے کیونکہ پہلے ہماری فوج ایک بارڈر پر تھی اب افغانستان کے ساتھ بھی اور آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ہماری فوج مختلف آپریشنز میں مصروف ہے لہٰذا حکومت کو تمام معاملات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔

بریگیڈیئر(ر) عمران ملک
(دفاعی تجزیہ نگار)
جنوبی ایشیاء کو غیر مستحکم کرنے میں بڑی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ امریکا ، بھارت کے ساتھ جبکہ چین، پاکستان کے ساتھ معاہدے کررہا ہے ، اس طرح دنیا کی دو بڑی طاقتیں اس خطے میں آچکی ہیں۔ خطے کے تین اہم ممالک، پاکستان، افغانستان اور بھارت، عدم استحکام کے مختلف مراحل میں ہیں، افغانستان سب سے زیادہ غیر مستحکم ہے، وہاں حکومتی رٹ نہیں ہے،اس کے علاوہ افغان نیشنل فورسز، امریکی و نیٹو افواج، القاعدہ، طالبان، داعش، ٹی ٹی پی، جرائم پیشہ افراد و دیگر متضاد قوتیں فعال ہیں جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں افغانستان مستحکم ہوتا دکھائی نہیںد یتا جس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔

پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک کی مدد کرتے ہیں، کیا حقانی نیٹ ورک کے خاتمے سے افغانستان مستحکم ہوجائے گا؟ کیا داعش ، القاعدہ و ہ دیگر نیٹ ورکس ختم کا خاتمہ ہوجائے گا؟وہاں امن آجائے گا؟ حکومتی رٹ قائم ہوجائے گی؟حقیقت تو یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت میں اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ معاملات حل کرسکے اور نہ ہی وہاں کوئی ایسی قوت ہے جو حکومت رٹ قائم سکے۔

ڈیڑھ لاکھ سے زائد نیٹو افواج افغانستان کے حالات پر قابو نہیں پاسکیں تو اب ان کے چند ہزار فوجی کس طرح کنٹرول کریں گے۔ اگر امریکا یا افغانستان ، پاکستان کی مدد چاہتا ہے تو پھر یہ یک طرفہ نہیں بلکہ باہم مفادات پر ہونی چاہیے، اگر پاکستان ان کی مدد کرتا ہے تو امریکا اور نیٹو ہمارے لیے کیا کریں گے، وہاں ہمیںکیا ملے گا؟ کیا وہاں بھارتی اثرورسوخ ختم کیا جائے گا؟ افغانستان پر امن بنایا جائے گا؟ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی گارنٹی دی جائے گی؟ ملا فضل اللہ کے خلاف کارروائی ہوگی؟ اگر امریکا واقعی افغانستان میں امن چاہتا ہے تو اسے ایماندار ’’بروکر‘‘ کا کردار ادا کرنا ہوگا۔

بدقسمتی سے امریکا اس وقت پاکستان کے خلاف جارہا ہے، وہ افغانستان میں اپنی شکست کا سبب پاکستان کو ٹہراتا ہے،حالانکہ امریکا کو وہاں جتنی بھی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ان میں پاکستان کا بہت بڑا ہاتھ ہے، اگر امریکا کو افغانستان تک راہداری نہ دی جاتی تو وہ کیسے وہاں کارروائی کرتا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ فاٹا، بلوچستان میں دراندازی اور مداخلت سمیت سی پیک منصوبے کو لاحق خطرات کا خاتمہ ہو، ہماری مغربی سرحد پر امن ہو، بھارتی اثرو رسوخ ختم ہو، ’’را‘‘ کا پاکستان میں قلع قمع ہو لیکن امریکا اس حوالے سے کوئی کام نہیں کررہا۔حکومت کا رویہ عجیب ہے، مودی، کابل میں پاکستان کے خلاف بولتا ہے اور اس کے بعد یہاں تقریب میں شرکت کے لیے آجاتا ہے ، حکومت ثابت کرے کہ وہ پاکستانی ہے۔

نریندر مودی، کشمیر، پاکستان اور بلوچستان کے حوالے سے زہر اگل رہے ہیں۔ بھارت نے بلوچستان آپریشن کے لیے ’’را‘‘ کو 300 ملین ڈالر دیے ہیں لیکن ہماری حکومت خاموش ہے۔ اس ساری صورتحال میں پاکستانی حکومت کو بھارتی جارحیت کا جواب دینا چاہیے۔ اگر تمام حالات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور ہماری پوزیشن مضبوط ہے۔ بھارت کی براستہ پاکستان طورخم تک رسائی کی خواہش ہے، یہ منصوبہ بھارت کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے ، میرے نزدیک طورخم سے واہگہ لنک دے دینا چاہیے اورا س کے لیے بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کی شرط رکھی جائے اور اس سے کم کسی چیز پر معاملہ طے نہ کیا جائے۔

اگر بھارت اس پر متفق نہیں ہوتا تو پھر واہگہ، طورخم کو بھول جائے، اسے چابہار کی طرف جانے دیا جائے، جب تک چابہار بنے گا اس وقت تک افغانستان سی پیک منصوبے کا حصہ بن ہوچکا ہوگا۔ اس وقت افغانستان کے معاشی معاملات پاکستان سے منسلک ہوجائیں گے ۔اگر افغانستان کو بلوچستان، پھر وہاں سے مکران کوسٹ تک لنک کردیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ انڈسٹریل زونز بنا دی جائیں، جہاں مکران کوسٹ سے ایکسپورٹ ہو، تو پاک، افغان تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ خطے میں امن بھی قائم ہوجائے گا۔

نذیر حسین
(سابق ایڈیشنل خارجہ سیکرٹری)
افغانستان میں سیاسی سٹرکچر غیر مستحکم ہے۔اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں شراکت اقتدار ہے اور وہاں حکومت کابل سے باہر نہیں ہے۔ امریکا اور بھارت کی پوری کوشش ہے کہ دنیا یہ مان لے کہ افغانستان میں سیاسی سٹرکچر پائیدار ہے جو کہ حقیقت میں نہیں ہے۔ طالبان کے لوگ آج بھی ایسی پوزیشن میں ہیں کہ وہ افغانستان کی حکومت کو مستحکم نہ ہونے دیں۔

اس کا ذمہ دار امریکا خود کو ٹہرانے کے بجائے ہمیں مورد الزام ٹہرا رہا ہے۔ 9برس میں امریکا نے 686بلین ڈالر افغانستان پر خرچ کیے جبکہ نیٹو و دیگر افواج کے اخراجات الگ ہیں جبکہ ری کنسٹرکشن پر 113بلین ڈالر خرچ ہوئے، 103 ارب ڈالر سے پورا یورپ خاص کر جرمنی کی ری کنسٹرکشن ہوئی لیکن 113 ارب ڈالر سے افغانستان مستحکم نہیں ہوسکا۔ اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے بعد ان کے لیے حقیقت تسلیم کرنا خاصہ مشکل ہے، اب ناکامی کا الزام پاکستان پر لگایا جارہا ہے کہ ہم طالبان یا حقانی نیٹ ورک کی مدد کرتے ہیں جس کی وجہ سے افغانستان میں امن قائم نہیں ہوا۔

حقیقت یہ ہے کہ 40فیصد افغان، پشتون ہیںاور انہیں حکومت میں کردار دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں وہاں کس طرح امن آسکتا ہے ۔ طاقت کے ذریعے طالبان کو شکست نہیں دی جاسکتی لہٰذا اب امریکا یہ چاہتا ہے کہ پاکستان معاملات بہتر کر دے۔ میرے نزدیک افغانستان کے مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر ہی ہوسکتا ہے۔اس وقت ہمارے ملکی معاملات بہتر ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کا کردار بہترین ہے لیکن ابھی جو الزامات کا سلسلہ افغانستان کی طرف سے جاری ہے، یہ بھارتی ایماء پر ہو رہا ہے۔

افغانستان اور بھارت، بلوچستان کے راستے ایک کوریڈور عرب ممالک تک لیجانا چاہتے ہیں۔ بلوچستان کے معاملات کے حوالے سے ’’یو کے‘‘ کی ملٹری بیس کے اندر لوگوں کو باقاعدہ تربیت بھی دی جاتی رہی، انہیں بلوچی زبان بھی سکھائی گئی، انہیں بلوچستان میں بھیجا جانا تھا لیکن وہ پکڑے گئے اور اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یورپ میں بلوچستان کے حوالے سے میٹنگز کی جاتی ہیں، وہاں قراردادیں پاس کی جاتی ہیں جس کا نقصان ہمیں ہو رہا ہے۔ بھارت اپنے نیٹ ورک کے ذریعے بھی اس حوالے سے کام کررہا ہے ۔

اس وقت ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ گورننس کا ہے، جب تک عام آدمی تک اس کے مثبت اثرات نہیں پہنچیں گے معاملات میں بہتری نہیں آئے گی۔ فوج معاملات کو آگے لیکر بڑھ رہی ہے، اس کے پاس ’’ایس او پیز‘‘ اور موثر منصوبہ بندی ہے لیکن حکومت میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ وفاق اور صوبوں کو ساتھ لیکر چل سکے۔ میرے نزدیک 18 ویں ترمیم کے ہوتے ہوئے ریاست کے اندر چار نئی ریاستوں کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اب وفاق کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ حکومت ڈیلور کرے، گڈ گورننس کے ذریعے معاملات کو بہتر کیا جائے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اپنے لوگوں کا احساس محرومی ختم کرکے اندرونی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔