پاکستان کی ترقی کا خواب

عابد محمود عزام  منگل 20 ستمبر 2016

پاکستان کو معرض وجود میں آئے تقریبا پون صدی بیت چکی، لیکن آج تک ملک کی ترقی تاحال ایک خواب ہی ہے اورعوام بنیادی ضروریات تک سے محروم اور مختلف بااثرطبقات کی مفادات کی چکی میں پس رہے ہیں، حالانکہ قدرت نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ یہاں بہترین محل وقوع، چاروں موسم، عمدہ پھلوں کے باغات، وافر اورعمدہ فصلیں، سمندر، دنیا کی پانچ بڑی چوٹیاں، لامحدود پہاڑی، میدانی اور صحرائی سلسلے، سونا، تانبا،المونیم، تیل،گیس،کوئلے اورنمک وغیرہ کے وسیع ذخائرموجود ہیں۔

پاکستان میں ٹیلنٹ کی بھی کوئی کمی نہیں۔ یہاں کے باصلاحیت اور محنتی طلبا کم عمری میں ہی تمام تر درپیش مسائل کے باوجود دنیا بھر میں اپنی صلاحیت، ذہانت اور فوقیت کا لوہا منوا کرکامیابیوں کے جھنڈے گاڑچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ملک کے ہرعلاقے کو الگ ہی نوعیت کی خصوصیات سے مالامال کیا ہے۔ بلوچستان میں قدرتی گیس،کاپر، سونے کے ذخائر، قیمتی پتھر سمیت بیش بہا قدرتی وسائل وسیع پیمانے پر پائے جاتے ہیں۔ شمالی علاقہ جات انتہائی قیمتی پتھروں سے بھرپور ہیں۔اپنی خوبصورتی کے اعتبار سے منفرد صوبہ خیبرپختوانخوا بہترین پھلوں اور دیگر بہت سی اشیا میں اپنا الگ مقام رکھتا ہے۔

پنجاب میں زراعت کا ایسا بہترین انتظام موجود ہے، جس کی بدولت نہ صرف ملک بھرکی غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں، بلکہ متعدد ممالک کو بھی یہیں سے غذا مہیاکی جاتی ہے۔ سندھ میں بھی بڑے معدنی ذخائرموجود ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں سے ہے جو قدرتی وسائل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے، لیکن یہ ملک اس کے باوجود ترقی سے محروم ہے،کیونکہ ہمیں ایسی مخلص اور فکر مند قیادت میسر نہیں، جو ملک کے ان وسائل کو کام میں لاکر پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈال سکے اور جو اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے ملک وقوم کی بہتری کا سوچے۔ جو اپنی جیبیں بھرنے کے بجائے ملک کے خزانے بھرنے کو اپنی ذمے داری سمجھے۔

ہمارے ملک میں صاحب اقتدار طبقے نے کبھی ملک کے لیے مخلص ہوکر کام نہیں کیا۔ ان کو ہمیشہ اپنے خزانے بھرنے کی فکر ہوتی ہے۔ ملک و قوم کے مفادات سے ان کو کوئی غرض نہیں۔ ان کے نزدیک نہ تو ملک کے قوانین کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی ملک کے مفادات عزیز ہیں، یہ لوگ دھڑلے سے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے قانون کو خرید بھی لیتے ہیں۔ جعلی ڈگریوں والے قانون کو مذاق بنا کر نہ صرف الیکشن میں حصہ لیتے ہیں، بلکہ اسمبلیوں میں پہنچ کر عوام کی قسمت کے فیصلے بھی کرتے ہیں۔ یہی نااہل اور مفاد پرست لوگ مختلف حکومتی اور انتظامی عہدوں پر پہنچ کر ملک کی دولت کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور سرکاری دولت اور وسائل کو ہڑپ کرنا اپنا حق تصورکرتے ہیں۔

ملک میں عوام کے اصل مسائل بے روزگاری، غربت، مہنگائی، بدامنی،کرپشن، بدعنوانی، رشوت، میرٹ کی تذلیل، تعلیم میں امیر وغریب کی تقسیم، ناانصافی، عوام کی وسائل ضروریہ سے محرومی، ملک پر غیرملکی قرضے اور صاحب اقتدار طبقے کا وسائل کا بے جا استعمال اور اسی قسم کے دیگر بہت سے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے سیاست دانوں نے پوری قوم کو صرف اپنے مفادات کی خاطر احتجاج، دھرنے اور جلوسوں پر لگا رکھا ہے۔ حکمران طبقہ اگر واقعی ملک کے لیے مخلص ہے تو ملک کے عوام کو درپش مسائل سے نجات دلائے۔عوام کو درپیش مسائل سے چھٹکارہ دلائے، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے، بلکہ خالی خولی نعروں کے ذریعے عوام کو ٹرخاتے رہتے ہیں۔

ملک کو ان حالات تک پہنچانے میں صاحب اقتدار طبقے کے ساتھ عوام بھی برابر کے شریک ہیں، عوام خود کو ان حالات سے بری الذمہ نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ عوام ہی ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو ملک کے لیے مخلص نہیں ہوتے، جعلی ڈگری کے حامل کرپٹ اورخائن امیدواروں کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجنے والے بھی عوام ہی ہوتے ہیں، اگر عوام اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے باکردار اور مخلص امیدواروں کا انتخاب کریں تو پاکستان بھی ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے، لیکن ایسا ہونا مشکل ہے،کیونکہ سیاست دانوں اورحکمرانوں نے اپنے رویوں سے دیانت، امانت اور فرض شناسی کا ثبوت نہ دینے کی قسم کھائی ہوئی ہے، جب کہ عوام نے ہمیشہ آنکھیں بند کرکے ان کے جھوٹے نعروں پر ایمان لانے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ ہمیشہ تبدیلی کاآغازعوام سے ہوتاہے اوراگر عوام ہی ملک میں تبدیلی لانے کے لیے تیار نہ ہوں تو تبدیلی کیسے آسکتی ہے۔

آخرکارسترسال گزرنے کے باوجود بھی ملک میں ایسی تبدیلی کیوں نہیں آسکی ، جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھااورقائداعظم نے جس کا نقشہ کھینچا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ عوام نے ہمیشہ آنکھیں بند کیے رکھی ہیں۔عوام ہمیشہ سیاست دانوں کے مفادات کی چکی میں پستے رہے ہیں۔ سیاست دان جھوٹے نعرے لگاتے ہیں اورعوام آنکھیں بند کر کے ان نعروں پر یقین کرلیتے ہیں۔ اگر عوام اسی طرح سیاست دانوں کے پیچھے آنکھیں بند کرکے لگے رہے تو پاکستان میں مثبت تبدیلی کبھی نہیں آسکتی،کیونکہ سیاست دانوں کو ملک اورعوام کے نہیں، بلکہ اپنے مفادات عزیز ہیں۔اپنے مفادات کے حصول کی خاطر وہ ملکی مفادات اورقوانین کو روندنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں جن ممالک نے بھی ترقی کی ہے، وہاں کے حکمرانوں نے خود کو ہمیشہ ریاستی قوانین کا پابند بنائے رکھا ہے اور ذاتی مفادات کو فراموش کرکے قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ہر سطح پر میرٹ، دیانت داری اور ملک سے وفاداری کو رواج دیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ترقی و خوشحالی کی بڑی وجہ قانون کی حکمرانی ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں حکمرانوں اور عوام کے لیے قوانین یکساں ہوتے ہیں،اگر جرم کی پاداش میں کسی عام آدمی کو سزا ملتی ہے تو اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے حکمران کو بھی وہی سزا بھگتنا پڑتی ہے، بلکہ حکمرانوں کو عوام سے زیادہ سزا اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاناما پیپرز میں نام آنے کی وجہ سے کئی ممالک کے وزرائے اعظم کی جانب سے دیے گئے استعفے اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں ہر ادارہ خود مختار ہوتا ہے۔ کوئی بااثر شخصیت کسی ادارے پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، لیکن پاکستان میں معاملہ برعکس ہے۔یہاں بااثر افراد ملکی قوانین کو گھرکی لونڈی سمجھتے ہیں، وہ جب چاہیں قوانین کی دھجیاں اڑادیں، ان کوکوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک آج بھی ترقی سے کوسوں دور ہے، کیونکہ وہ ملک ترقی کیا کرتا ہے، جہاں قانون کی بالا دستی قائم ہو اور انصاف کا بول بالا ہو اور جہاں ناانصافی ہو اورقانون کی حکمرانی نہ ہو، وہ ملک افراتفری کا شکار ہوکر تباہی کے دہانے پر آکھڑا ہوتا ہے۔

ملک کے ان سنگین حالات سے دوچارکرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے آج تک اسلام کے سنہری اصولوں کو نہیں اپنایا، اگر ہم اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنا لیں تو کچھ ہی عرصے میں دنیا کی سب سے مضبوط قوم بن کر ابھرسکتے ہیں۔ ہم نے ملک تو دین کے نام پر حاصل کیا، لیکن ہم دین کے راستے پر چلنے کو تیار نہیں۔ ہمارا دین ہمیں عدل وانصاف، ایمانداری، سچائی، دیانتداری کا سبق پڑھاتا ہے۔ ہمیں جھوٹ، دھوکا، فریب، رشوت، سود کھانے، ناانصافی،کرپشن، بدعنوانی سے روکتا ہے ، لیکن جب ہم نے اسلام کے عمدہ قوانین کو پس پشت ڈالا تو ذلت ہمارا مقدر بن کر رہ گئی اور ہم ترقی سے دور ہوتے چلے گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔