ہم کچھ نہیں کر سکتے

اوریا مقبول جان  جمعـء 23 ستمبر 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

کیا یہ پرویز مشرف کا دور نہیں تھا جس سے 1999 کے ابتدائی دور میں سیاستدانوں‘ تاجروں اور بیورو کریٹس کی نیندیں حرام ہو گئی تھیں۔ کسی شخص کے خلاف کاغذات کے چند پرزے بھی میسر آ جاتے تو اس کا پہاڑ بن جاتا ‘ اسے اٹھایا جاتا اور لاہور کے چنبہ ہاؤس اور کوئٹہ کے ایم پی اے ہاسٹل کے اندر بنائے گئے عقوبت خانوں میں ٹھونس دیا جاتا۔ میںنے عقوبت خانے اس لیے کہا کہ جو سیل ملزموں کو رکھنے کے لیے بنائے گئے تھے وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہاتھ آنے والے جنگی قیدیوں کو رکھنے والے عقوبت خانوں کی طرح تھے۔ دیواروں کو کاغذ لگا کر سیاہ کر دیا گیا تھا۔

روشن دان اور کھڑکیاں بند‘ دروازے مقفل اور ان میں نوے روز کی قید تنہائی۔ انھیں پوری دنیا کے انصاف کے معیارات کے مخالف قانونی اختیارات دیے گئے تھے۔ دنیا بھر میں گزشتہ کئی صدیوں سے انصاف کا ایک اصول محترم سمجھا جاتا ہے کہ ہر کوئی بے گناہ ہے اس وقت تک جب تک اس کو گناہگار ثابت نہیں کیا جاتا جب کہ مشرف دور کا قانون تھا کہ ہر کوئی جس پر کوئی الزام ہے تو وہ مجرم ہی تصور ہو گا جب تک اپنی صفائی میں ثبوت پیش کر کے خود کو بیگناہ ثابت نہیں کرتا۔ ان ’’عظیم‘‘ اور ’’جامع‘‘ اختیارات کے بعد اگر ’’جمہوری پاکستان‘‘ کے سب سے بااختیار فورم پارلیمنٹ کی پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کے سامنے یہ عذر پیش کیا جائے کہ پانامہ لیکس دراصل اخباری رپورٹیں ہیں اور ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود نہیں اس لیے ہم کارروائی نہیں کر سکتے اور جمہوریت کے علمبردار اس پر داد و تحسین دیں اور اگر کوئی رکن اسمبلی مخالفت کرے تو سب اس پر پل پڑیں تو اس قوم کو آیندہ ایک صدی میں بھی تبدیلی کی خواہش نہیں کرنا چاہیے۔

کیا گزشتہ سترہ سالوں میںاخباری رپورٹوں‘ آڈٹ پیروں‘ یہاں تک کہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں پر کارروائیاں نہیںہوئیں۔سچ روتے تھے بلوچستان والے‘مشرف انقلاب کے آغاز میں وہاں کے تقریباً اسی فیصد بڑے افسران کے خلاف فائلیں کھل گئی تھیں اور سیاستدان تو سب گھبرائے پھرتے تھے۔ ایک ایسا خوف کا عالم تھا کہ ہر کوئی سوچتا تھا کہ اگر مجھے صرف نوے روز کے لیے گرفتار کر کے یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ تم پاک ہو تو میں کس کس کو سمجھاؤں گا کہ میں بددیانت نہیں۔ پاکستان کے تین صوبوں کے کل ملا کر جتنے کیس بنتے تھے اکیلے بلوچستان میں اتنے کیس بنائے گئے تھے۔ مشرف کو سیاسی پارٹی بنانے کی سوجھی تو پاکستان بھر سے سیاستدانوں کی فائلیں کھولیں اور پھر ان سے جس طرح سودے بازی ہوئی وہ تاریخ کا بدترین باب ہے۔ ایک واقعہ جس میں مشرف بلوچستان کے ایک سابق وزیراعلیٰ کو نوازنا اور اس کے ماتحت وزیر کو سزا دلوانا چاہتے تھے‘ وہاں وزیراعلیٰ کے دستخطوں والے حکم نامے کو ریکارڈ سے ہی حذف کر دیا اور فوٹو اسٹیٹ کاپی پیش کر دی جس پر صرف وزیر کے دستخط تھے۔

میرے پاس اصل دستاویز کی فوٹو کاپی موجود تھی جس پر دونوں کے دستخط تھے۔ میری کاپی کو فوٹو اسٹیٹ کہہ کر مسترد کر دیا گیا اور عدالت نے دوسری فوٹو اسٹیٹ کو اصل مان لیا‘ کسی نے سوال تک نہ کیا کہ اصل دستاویز تمہارے ریکارڈ سے غائب کیسے ہو گئی۔ وزیراعلیٰ صاف نکل گئے اور وزیر کو سزا سنا دی گئی۔ یہ ہے کرپشن اور اس کے خلاف کارروائی کی کہانی جس میں آپ کو ہر سیاست دان کے ساتھ وابستہ ایسے سچ نظر آئیں گے کہ آپ کی حیرت بھی حیرت میں گم ہو جائے گی۔ جن اداروں میں تفتیشی افسران اور پراسیکوٹر کو حکومت لاکھوں روپے کے پیکیج پر ملازم رکھواتی ہے‘ ان کے پیچھے ان کے ضمانتی موجود ہوتے ہیں کہ اسے رکھوا دیں یہ آپ کے خلاف کاغذ تو دور کی بات ہے گفتگو بھی نہیں کرے گا اور نہ کرنے دیگا۔

ایسے حالات میں کوئی یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف قانون کے مطابق پانامہ لیکس میں جن کا بھی نام آیا ہے وہ مجرم ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک وہ ٹھوس ثبوت فراہم کر کے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت نہیں کرتے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انکم ٹیکس کسٹم اور دیگر اداروں میں موجود وہ سارا ریکارڈ قبضے میں لیا جائے اور  ان سب افراد سے متعلق جن کے نام پانامہ لیکس میں آئے ہیں۔ ان سب کو نوے روز تک کے لیے گرفتار کیا جائے ۔ اب یہی ہو رہا ہے جو اس ملک میں گزشتہ ستر سالوں سے کیا جا رہا ہے یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں‘ یہ صرف اخباری رپورٹس ہیں‘ کل کوئی اگر دوسری حکومت آ جائے جو آزادانہ انکوائری کرانے کا ہی کہہ دے تو پھر پھرتیاں دیکھنے والی ہوں گی۔

کیا یہ وہی ایف آئی اے ہے جو اگر کسی بینک میں گھس جائے‘ کسی منی چینجر کی دکان پر جا نکلے‘ کسی کسٹم‘ انکم ٹیکس یا پبلک ورکس کے چیف انجینئر کے دفتر میں گھس جائے تو خوف کے مارے بڑے بڑے افسران کی حرکت قلب بند ہو جاتی ہے۔ اس کے اہلکاروں کی خوفناکی دیکھنا ہو تو ہوائی اڈوں‘ بیرونی ملکوں پر آنے اور جانے والے مسافروں پر عقاب کی طرح جھپٹتے ہوئے ان کے کارندوں کو دیکھ لیں۔ پورے پاکستان کو یہ اپنا میدان عمل تصور کرتے ہیں اور جس کو جب چاہیں جیسے چاہیں خوفزدہ کر سکتے ہیں کسی مل میں گھس کر اس کے کھاتوں کو قبضہ میں یا کسی کسٹم انسپکٹر یا انکم ٹیکس آفیسر کے دراز سے مخصوص فائلیں اٹھائیں‘ انسانی اسمگلنگ کی سرپرستی کریں یا کسی غریب کو بیرون ملک جاتے ہوئے پکڑ کر یہ ثابت کریں کہ ہم نے غیر قانونی تارکین وطن کو روک لیا ہے۔

انھیں اشارہ ملنے کی دیر ہے، ان کا ڈائریکٹر جنرل خود پانامہ روانہ ہو جاتا اور وہاں سے ثبوت ڈھونڈتا، لندن، دبئی اور سعودی عرب کے بینکاروں کے ذریعے شواہد اکٹھا کرتا، لندن کے متعلقہ حکام سے پراپرٹی کی خرید و فروخت کی دستاویز حاصل کرتا۔ ظاہر ہے اس کے پاس حکومت پاکستان کا اجازت نامہ موجود ہوتا۔ اس سے پہلے وہ ملک بھر کے کونے کونے سے تحقیقات کرتا اور کہتا پھرتا کہ یہ ایف آئی اے ہی کا تو کیس ہے۔ منی لانڈرنگ کو ہم نہیں دیکھیں گے اور تو اور کون دیکھے گا۔ لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے ان کی بے بسی اور مجبوری دیکھ کر ان پر نہیں، اس ملک پر رونا آتا ہے۔

کیا یہ وہی ایف بی آر ہے جس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی شخص کی جائیداد، اس کے بیرون ملک سفر، اس کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور اس کی بظاہر آمدنی سے زیادہ ہوں تو وہ اس پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ کیا پانامہ لیکس میں سب کے اخراجات ان کی بظاہر آمدنی کے مطابق تھے۔ کیا ان کے کاروبار کی وسعت معمول کے مطابق تھی۔ لیکن کس قدر مجبور اور بے بس ہے یہ ایف بی آر اور اس کے افسران۔ یہ اس ملک کی انتظامیہ کا المیہ ہے۔ یہ سیاستدان یا ملٹری حکمران دونوں سے خوفزدہ انتظامیہ ہے۔

اس کو دونوں نے مل کر بددیانت، ناکارہ اور نااہل بنایا ہے۔ یہ سائل کو کتنی ڈھٹائی سے کہتے ہیں ’’یار دیکھو تمہارا کام جائز ہے، تم حق پر ہو، لیکن میں اس لیے نہیں کر سکتا کہ فلاں حکمران وزیر، وزیراعلیٰ، وزیراعظم، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، سینئر بیوروکریٹ نہیں چاہتا۔‘‘ تم ایسا کرو جا کر عدالت سے آڈر لے آؤ میں عملدارآمد کرا دوں گا۔ لیکن حالت اس بددیانتی کی یہ ہے کہ وہ غریب عدالت سے اگر بمشکل آرڈر لے بھی آئے تو ان کے حربے دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ یہ عام آدمی کو اپنے ظلم سے خودکشی پر مجبور کر سکتے ہیں۔

حکمرانوں کے سامنے سب بے بس، لاچار، مجبور، بے اوقات، کمزور، کمتر اور بدترین غلام ہیں اور یہ غلامی ہم نے اپنی مرضی سے قبول کی ہے۔ غلامی کی زنجیریں توڑ دیں تو اداروں کے خوف سے ہر بددیانت حکمران کانپنے لگ جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔