احساسِ ذمے داری اِنسانی حقوق کی ضمانت

اپنے بچوں کو اخلاق سوز مواقع سے دور رکھیے اور ان میں احساسِ ذمہ داری پیدا کیجیے:فوٹو : فائل

اپنے بچوں کو اخلاق سوز مواقع سے دور رکھیے اور ان میں احساسِ ذمہ داری پیدا کیجیے:فوٹو : فائل

نبی اکرمؐ کا ارشادِ گرامی ہے ’’ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک اپنی رعیت (ماتحتوں) کے بارے میں جواب دہ ہے، پس لوگوں پر مقرر حاکم، ان کا نگران ہے، وہ اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے، اور مرد اپنے گھر والوں پر نگران و محافظ ہے، وہ اپنی رعیت کے بارے میں مسؤل ہے، اور عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران و محافظ ہے، اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا، اور آدمی کا خادم اپنے آقا و مالک کے مال کا نگران ہے، اس سے اس کی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا، تم میں سے ہر کوئی ذمے دار ہے اور ہر ایک اپنی رعیت پر (نگرانی اور ذمے داری) کے بارے میں مسؤل ہے۔‘‘
(صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القری والمدن)

نبی اکرمؐ کے اس ارشادِ گرامی سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ ہر مسلمان مرد و عورت ذمہ دار ہے۔ اب ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذمے داری کو پہچانے، اپنے اندر اس کی بجا آوری کا احساس پیدا کرے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ میری ذمے داریاں کیا ہیں؟ میری شخصیت و حیثیت سے کن لوگوں کے حقوق وابستہ ہیں تاکہ ہر ذمہ دار شخص اپنی ذمے داری سے عہدہ بر ہوسکے اور مستحقین کو ان کے حقوق مل سکیں۔ جب کسی کی حق تلفی و نا انصافی کا سوال باقی نہیں رہے گا تو کائنات کے اندر شر و فساد جنم نہیں لے گا اور حقیقی چین و سکون کا معاشرہ میسر آجائے گا، جو فطرتِ اِنسانی کا اَوّلین تقاضا اور شریعت اِسلامیہ کا عین منشا ہے۔

ہر مسلمان کو یہ فکر ہونی چاہیے کہ اگر وہ افسر ہے تو ماتحت و ملازمین کے اس پر کیا حقوق ہیں؟ اگر وہ بادشاہ، صدر یا حاکم ہے تو اس پر یہ فرض ہے کہ اپنی رعایا کے حقوق جانے اور ادا کرے اور اگر کسی پر حکومت کی ذمہ داری نہ ہو تو کم از کم گھریلو ریاست کا ذمے دار اور گھریلو رعیت کا حکم ران تو ہر فرد ہوتا ہی ہے، اس حکومت کا سربراہ تو کسی حال میں ذمہ داری سے بے بہرہ نہیں ہوسکتا۔

ان کے بارے میں آپ جواب دہ ہیں، ان کے متعلق آپ سے سوال ہوگا کہ ان کے حقوق ادا کیے یا نہیں، یہ رعیت تمہاری حفاظت میں تھی، تم نے اس کی حفاظت کی یا اسے تباہی و بربادی کی دہکتی آگ میں دھکیلا اور چھوڑ دیا ؟ یہ آل و اولاد تمہارے پاس امانت تھی، تم نے اس امانت کی حفاظت کی یا اسے ضایع کیا ؟ گھر والوں کا اَوّلین حق یہ ہے کہ آپ انہیں خیر کے اسباب و مواقع مہیا کریں۔ اس امانت کا، اس رعیت و ریاست کا جس کے ہم حاکم، حکم ران اور نگران ہیں، یعنی بیوی، بچے، ہمارے ذمہ ان کے حقوق کیا ہیں؟ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ جن کا ہم سے سوال ہوگا۔

بیوی، بچوں، آل و اولاد کا ہم پر اَوّلین حق یہ ہے کہ ہم اولاد کو وہ مواقع، ذرایع اور اسباب مہیا کریں جن کے ساتھ ان کی دنیوی اور اخروی کام یابی و کام رانی اور سرخ روئی وابستہ ہو، قرآنِ کریم میں حق تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

’’ اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اہل خانہ کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے، اس پر غضب ناک، سخت مزاج فرشتے (بہ حیثیت داروغہ مقرر) ہوں گے، (وہ ایسے ہیں کہ) اﷲ جو حکم کریں، اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ کر گزرتے ہیں جو انہیں حکم ہوتا ہے۔‘‘ (التحریم)

یعنی اپنے بیوی، بچوں کو ہول ناک آگ سے بچائیں۔ اﷲ کے حکموں کو خود بھی بجا لائیں اور انہیں بھی اس کا حکم کریں، اﷲ کے منہیات سے خود بھی رکیں اور انہیں بھی روکیں۔

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے اس آیت کریمہ کی تفسیر منقول ہے۔

’’ یعنی اپنے نفسوں اور گھر والوں کو بھلائی کی بات سکھاؤ اور انہیں ادب سکھاؤ۔ مفسر فرماتے ہیں کہ اہل کا لفظ بیوی، بچے، خادم اور خادمہ سب کو شامل ہے۔‘‘ (روح المعانی)

اسی آیت کریمہ کے پیش نظر علما فرماتے ہیں کہ صاحب خانہ پر لازم و واجب ہے کہ اپنے اہل خانہ کو علم دین، ادب اور تہذیب سکھائے، ان کی دینی و اخلاقی تربیت کرے ، اور انہیں وہ مواقع مہیا کرے جہاں وہ علم دین، اِسلامی تہذیب، ادب و احترام کے سرمایۂ گراں مایہ سے مشرف اور اِسلامی تشخص و اقدار سے رُوشناس ہوں۔

اس تعلیم و تربیت کا ابتدائیہ نماز ہے، اپنے بچوں کو نماز سکھاؤ، اپنے ساتھ مسجدوں میں لاؤ، جب سات سال کے ہوں تو انہیں نماز سکھاؤ، جب بالغ ہونے کو ہوں تو سختی سے پڑھواؤ۔ حدیث شریف میں آتا ہے ’’ اپنے بچوں کو نماز کا حکم کرو جب وہ سات سال کے ہوں اور نماز (نہ پڑھنے) پر انہیں مارو (سزا دو) جب وہ دس سال کے ہوں اور ان کے بستر بھی الگ الگ کردو۔‘‘ ( سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ )

یہ ہے اسلام کا کمال کہ خیر کے حصول کے لیے جبر و اکراہ کو بھی روا رکھتا ہے، جب کہ شر کے لیے احساسات و خیالات کے راستے بھی بند کرتا ہے اور یہ حکم دیتا ہے کہ بچے جب بلوغ کے مراحل کو پہنچنے لگیں تو شیطانی خیالات سے حفاظت کے لیے ان کی خواب گاہیں الگ کردیں، تاکہ بُرے خیالات مسلمان بچوں کے قریب سے بھی نہ گزریں اور مسلمان بچے عفیف و پاک دامن رہیں۔

تعلیم و تربیت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اپنے گھروں میں وعظ و نصائح کا اہتمام کرو، اس میں اپنے اہل خانہ کے علاوہ اہل محلہ کو بھی شریک کرو۔ اسی طرح گھر میں تعلیم کے لیے کسی اچھی کتاب کا انتخاب کرو اور اس کی تعلیم کے لیے وقت مقرر کرو۔ اچھی تربیت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے بچوں کی ہم نشینی و صحبت پر پوری توجہ دی جائے۔ کیوں کہ انسان بہ ذاتِ خود کتنا ہی دین دار، شریف النفس اور نیکوکار ہو، اگر اس کے ہم نشین و مصاحب اچھے لوگ نہ ہوں، بے دین ہوں، حیا سے عاری ہوں، تو ان پر بھی اثر انداز ہوجائیں گے۔

حدیث شریف میں آتا ہے ’’نبی اکرمؐ نے مثال سے سمجھایا کہ اچھے مصاحب اور ہم نشین کی مثال عطر فروش کی ہے، اگر آپ اس کے پاس بیٹھ جائیں، عطر نہ بھی خریدیں، تب بھی آپ کو خوش بو آتی رہے گی، جب کہ بُری صحبت کی مثال بھٹیار کی بھٹی کی سی ہے، جس میں بیٹھنے سے کسی نہ کسی درجے میں آپ ضرور نقصان اٹھائیں گے، یا تو بھٹی کی چنگاریاں آپ کے جسم و کپڑوں کو جلائیں گی یا اگر ایسا نہ ہوا تو اس کی بدبو سے بچاؤ تو ممکن نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)

اپنے بچوں کو اخلاق سوز مواقع سے دور رکھیے اور ان میں احساسِ ذمہ داری پیدا کیجیے، اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا صحیح صحیح حق ادا کرو، ان کے ساتھ ظلم و ناانصافی نہ کرو، یہ بچے امانت ہیں، ا ن کی حفاظت کرو ورنہ کل حق تعالیٰ شانہ کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان اگر اپنی ذمے داری کو نبھائے تو دنیا میں حق تلفی، ناانصافی اور معاشرتی خرابیوں کا کوئی سوال باقی نہیں رہے گا، گھروں کا انفرادی نظام سدھر گیا تو قومی ریاست کا اجتماعی نظام بھی درست ہوجائے گا۔

اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی امانت میں خیانت نہ کریں، اس کی حفاظت کریں اور اس کے حقوق ادا کریں اور ان کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری نبھائیں، اﷲ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔