ہے ادب شرط، منہ کھلوائیں

رئیس فاطمہ  اتوار 25 ستمبر 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ہمیں فخر ہے کہ ہم نے اپنی مادرعلمی کراچی یونیورسٹی سے پڑھا ہے۔ اس زمانے میں ہر استاد کا کیا رعب و دبدبہ تھا۔ راہداری سے گزرتے ہوئے یا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کسی بھی ڈپارٹمنٹ کے اساتذہ نظر آ جاتے تھے، تو طالب علم ایک طرف کھڑے ہو جاتے تھے، سلام کرنا تو جیسے ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ بہت سے لوگوں کے لیے لفظ ’’گھٹی‘‘ اجنبی ہو گا اور کوئی دوسرا کیوں؟ ہمارے کمپوزر حضرات بھی بیشتر ناواقف ہیں کیونکہ مطالعے کے فقدان نے حرف شناسی چھین لی ہے۔

رموز و اوقاف سے تو یہ سرے سے نابلد ہیں۔ اس لیے تشدید، کوما، زیر، زبر، جذم، ڈیش اور سوالیہ نشان (؟) ان کی اپنی لغت میں ناپید ہیں۔ اسی لیے اپنے کالموں میں جب ’’مضحکہ خیز‘‘ کو تہلکہ خیز‘‘، ’’گھورے‘‘ کو یہ لوگ ’’گھوڑے‘‘ اور’’جانشین‘‘ کو ’’جاں نشین‘‘ کمپوز کرتے ہیں تو سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ املا کی غلطیوں کو پڑھنے والے کالم نویس کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی اپنی مادر علمی جامعہ کراچی کی جس کے لیے یوں کہنا مناسب ہو گا کہ :

جو ذرّہ جس جگہ تھا، وہیں آفتاب تھا

کیسے کیسے نامور اساتذہ اور وائس چانسلرز نے اپنے تبحرِعلمی سے سرزمین جامعہ کو سیراب کیا۔ اس وقت کراچی یونیورسٹی شہر سے بہت دور تھی۔ ہر علاقے سے پوائنٹس چلتے تھے جو پہلے تو 25 پیسے کرایہ لیتے تھے۔ پھر یہ 50 پیسے ہو گیا۔ ریڈیو پاکستان کے پروگرام ’’بزم طلبا‘‘ میں شرکت کرنے والے زیادہ تر جامعہ کراچی کے مختلف شعبوں کے طلبا وطالبات اور پروفیسرز ہوا کرتے تھے۔

پروکٹر ڈپارٹمنٹ بہت فعال تھا۔ کوئی طالبہ یا طالبعلم بغیر گاؤن کے نظر نہیں آتا تھا۔ اگر کوئی طالب علم کسی پروفیسر کی کلاس اٹینڈ نہیں کرتا تھا تو اگلے دن وہ سب سے پچھلی نشست پہ بیٹھا تھا اور آج یہ حال ہے کہ طالب علم تو ہر طرح سے ’’آزاد‘‘ ہو گئے ہیں۔ جامعہ کے احاطے میں بنے ہوئے مکانوں کی دیواروں سے ٹیک لگائے گھنے درختوں کی چھاؤں میں چھپ کر کیا کھیل کھیلے جاتے ہیں۔

یہ بھی سب پر عیاں ہے۔ استاد کی کیا مجال کہ طلبا وطالبات کوکسی بات پہ سرزنش کر سکے۔ گاؤن کو تو مدت ہوئی دیس نکالا مل چکا ہے۔ خدا جانے یہ حکمت کس بقراط کی تھی کہ یونیورسٹی کے ریگولرطلبا اور باہر سے آنے والوں میں کوئی امتیاز نہ رہے۔ اس لیے جرم اگر ڈاڑھی والا کرے تو مونچھوں والے کو پکڑنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ گاؤن ایک وقار تھا جو یونیورسٹی کے طالب علم کو دوسروں سے الگ شناخت دیتا اور ممتاز کرتا تھا، لیکن گاؤن کی پابندی ختم ہونے سے ’’گلو بٹ‘‘ اور گلا بٹ‘‘ ایک ہی صف میں کھڑا ہو گئے۔

لیکن قصور وار تو اصل میں اساتذہ ہی ہیں جو علم بانٹنے اور تربیت کی رسی کو مضبوطی سے ہاتھ میں رکھنے کے بجائے دوسری مصروفیات میں مگن ہیں۔ یہ علم تو کیا بانٹیں گے البتہ اقتدار کی
بندربانٹ میں ضرورت سے زیادہ منہمک ہو گئے،کسی نے طالبات کے دربار سجا لیے۔ کسی نے مخالف اساتذہ کے کمروں میں بیٹھنے والے طلبا وطالبات کے نام نوٹ کرنا شروع کر دیے تاکہ سیمسٹر میں ان کی ’’کتھا کہانی‘‘ میں اپنی مرضی سے رد وبدل کیا جا سکے۔ جنھیں علم بانٹنا تھا وہ علم کی چوری کرنے لگے۔ دوسرے شہروں کی جامعات کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے، لیکن جن چار اساتذہ کے نام پی۔ایچ۔ڈی کے مقالوں کی چوری کے حوالے سے اخبارات کی زینت بن رہے ہیں، ان پر اب تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ خواہ جامعہ پنجاب ہو یا جامعہ کراچی اور جامعہ اردو یا کوئی اور یونیورسٹی۔ تھوک کے بھاؤ اساتذہ صرف تنخواہوں میں اضافے اور پی ایچ ڈی الاؤنس ملنے کے چکر میں چوری کے مقالوں پہ ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں۔

جب ان اساتذہ کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کے لیے زور ڈالا جاتا ہے تو انھیں اس لیے روک دیا جاتا ہے کہ پہلے بھی تو بہت سے پروفیسرز نے چوری کے مقالوں پہ ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ جب وہ ’’چوری اور سینہ زوری‘‘ کے مصداق اپنی اپنی سیٹوں پہ موجود ہیں تو یہ کیوں نہیں رہ سکتے۔ گویا جو ملک کا حال ہے وہی جامعات کا حال ہے۔ جس ملک کی جامعات میں جعلی ڈگریوں کے حامل اساتذہ جو باقاعدہ پڑھا رہے ہیں اور بھاری تنخواہیں وصول کر رہے ہیں، ان کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کر سکتے تو سپریم کورٹ اور دیگر اعلیٰ عدالتوں سے نیب کے افسران سے اور محکمہ جاتی انکوائری افسران سے کیونکر توقع کی جا سکتی ہے کہ مقالے چوری کر کے ڈگریاں لینے والوں کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے گا؟

یہاں ہر غلط بات کو مثال بنایا جاتا ہے مثلاً پہلے والوں نے اگر ملک لوٹا ہے تو ہم کیوں نہ لوٹیں؟ پہلے والوں نے جعلی ڈگریاں رشوتوں اور سفارشوں سے لی ہیں تو ہم کیوں نہ لیں؟ پی۔ایچ۔ڈی کے حوالے سے اگر تحقیق سامنے لائی جائے تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ چند ایک کو تو میں ذاتی طور پر جانتی ہوں۔ ایک صاحب جن کو ’’خاکے‘‘ کا مفہوم تک پتہ نہ تھا، جنھیں مشفق خواجہ نے سرے سے ڈاکٹریٹ کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا، وہ ماشا اللہ ایک ’’مہربان‘‘ گائیڈ کی بدولت اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا لاحقہ ٹانکے پھرتے ہیں۔ ایک اور صاحب جنھیں اردو کی انٹرمیڈیٹ کی کاپیاں جانچنی نہیں آتی تھیں وہ بھی انھی استاد محترم کی بدولت آج پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری لیے بیٹھے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ جس ملک کی ایک جامعہ کے وائس چانسلرکی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی جعلی ہو ، اس المیے کو آپ کا کیا نام دیں گے؟ ہر شاخ پہ …….!جس طرح اسمبلیوں اور عدالتوں میں جعلی لوگ سفارشوں اور رشوتوں کی بنا پر گھس آئے ہیں اسی طرح جامعات اورکالجوں میں بھی صوبائی اور لسانی بنیادوں پر ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں معقول معاوضے کے عوض بہت سے اساتذہ کے ٹوکروں سے باآسانی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ آگے کیا کیا لکھوں کہ:

ہے ادب شرط، منہ نہ کھلوائیں

ورنہ تو خوشامد اور پیسے کے بل بوتے پر بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں جن سے صرف میں ہی نہیں اکثریت واقف ہے۔ جس ملک میں مقالے چوری کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی، وہاں کسی خیر کی امید فضول ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔