چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ کے انقلابی فیصلے (3)

رحمت علی رازی  اتوار 25 ستمبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

حکمرانوں نے2014ء میں ’’قانونی و عدالتی اصلاحات پیکیج‘‘ کا آغاز کیا اور سینیٹ کمیٹی میں اس پر بحث شروع ہوئی تو اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس خواجہ امتیاز احمد نے لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ (موجودہ چیف جسٹس پنجاب)کو ریفارم جج مقرر کیا جنہوں نے انصاف کی جلد فراہمی اور سائلین کی مشکلات کے ازالہ کے لیے عدالتی نظام میں اصلاحاتی عمل کا آغاز کیا‘ابتدائی طور پر انھوں نے تمام اضلاع کے ججوں، وکلاء اور بار ایسوسی ایشنز سے اصلاحات کے لیے تجاویز طلب کیںاور اعلان کیا کہ عدالتی اصلاحات بشمول کیس اینڈ کورٹ مینجمنٹ‘ انتظامی اصلاحات بشمول فائلنگ سسٹم، احکامات کی تعمیل کے مراحل اور نقول برانچ وغیرہ سمیت موجودہ آٹومیشن سسٹم کی خامیاں دُور کرنے سے متعلق کوئی بھی شہری اپنی قابلِ قدر تجاویز و سفارشات ریفارم سیکریٹریٹ کو ارسال کر سکتاہے۔

ہم نے بھی عدالتی اصلاحات پر عوامی اُمنگوں کے مطابق تجاویز دی تھیں‘ یقینا ریفارم جج سیکریٹریٹ کواور بھی ہزاروںایسی تجاویز موصول ہوئی ہونگی لیکن افسوس کہ مزاحم نظام کی وجہ سے ان میں چند ایک پر ہی عمل ہو سکا ‘ اصل مسئلہ تجاویز یا سفارشات مہیا آنے کا نہیں بلکہ عمل نہ ہونے کا ہے۔ پاکستان میں سول سروس کی اصلاح بھی اسی لیے نہیں ہو پائی کہ عقیل و فہیم لوگوں نے ان اداروں کی بہتری کے لیے جتنی تجاویز بہم پہنچائیں ان پر سرے سے غور ہی نہیں کیا گیا‘اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اصلاحات متعارف کرانے کے لیے متعلقہ اداروں نے اپنی اپنی ریفارمز کمیٹیاں وضع کر رکھی ہیں جن کا سربراہ اتنا خود سر ہوتا ہے کہ وہ اپنی کمیٹی کی سفارشات کے علاوہ کالم نویسوں، ملازمین اور عوام الناس کی تجاویز کو آنکھ پر بٹھاتا ہی نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ کسی محکمہ کی ہزار کوششوں کے باوجود صفائی ستھرائی نہیں ہو پائی۔

اس پر مستزاد کہ ریفارمز کمیٹیاں بھی اپنے دستورالعمل سے ہٹ کرکچھ نہیں کر پاتیں‘ اس سے بھی بڑا ستم یہ کہ ان کمیٹیوں کی خودساختہ سفارشات پر بھی عمل نہیں ہو پاتا جن پر عوام کے اربوں روپے برباد کیے جاچکے ہوتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ جو حال سول سروس ریفارمز کمیٹی کا ہوا وہی گت وزیراعظم لیگل ریفارمز کمیٹی کی بھی ہوئی۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے عدالتی نظام کے تحت عوام کو انصاف نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو سالہاسال کے انتظار کے بعد۔ انگریز کے رائج کردہ قانونِ شہادت کے تحت جج صاحبان مقدمات کے فیصلے کرتے ہیں۔

اگر دوآدمی عدالت میں آ کر گواہی دیدیں کہ فلاں شخص نے قتل کیا گو کہ اُس نے قتل نہ بھی کیا ہو تو جج صاحبان شہادت کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں‘ قطع نظر اسکے، کہ لوگ دشمنی میں جھوٹی گواہیاں دیتے ہیں، چنانچہ سفارش یہ ہے کہ ایسے جھوٹے مقدمات میں بھاری جرمانہ تجویزہونا چاہیے۔ یہ بات تجربے میں آئی ہے کہ لوگ غلط طور پر حکمِ امتناعی حاصل کر لیتے ہیں، اس پرہم قانون میں تبدیلی کرکے بھاری جرمانہ اور سزا کی سفارش کرتے ہیں‘ اسی طرح جھوٹے مقدمے قائم کرنیوالوں کے لیے بھی سزا تجویز کرتے ہیں۔

دیوانی مقدمات برسوں چلتے ہیں مگر عدالت کی طرف سے فیصلہ نہیں ہوتا‘ بعض دفعہ تو اتنے کا مقدمہ نہیں ہوتا جتنے مقدمہ کرنیوالے کے اس پر اخراجات اُٹھ جاتے ہیں‘ اس سلسلے میں ہم مقدمات کے فیصلوں کے لیے کم سے کم مدت کے تعین کی تجویز دیتے ہیں‘ اس کے لیے قانون میں تبدیلی کرنا ہو گی جس کی رُو سے ماتحت عدالتوں کو چھ ماہ کے اندر اندر فیصلہ کرنے کا پابند کیا جائے اور فیصلہ ہوجانے کی صورت میں ڈگری کے بعد عدالت ازخود اجراء کا عمل شروع کرے تا کہ سائل کو پریشانی نہ ہو۔ جومعاملات مقامی طور پر محلے کی بنیاد پر طے ہو سکتے ہیں انکو لوگ عدالتوں میں لے جاتے ہیں جس سے عدالتوں میںمقدمات کی بھرمار ہوجاتی ہے‘ جج صاحبان پر بھی ضرورت سے زیادہ بوجھ ہوتا ہے۔

اس کے لیے ایک تو ہم زیادہ سے زیادہ ججوں کے تقرر کی سفارش کرتے ہیں‘ دوسرا پنچایتی سسٹم کو بھی لاگو کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک جونیئرجج صاحبان کے کام کا تعلق ہے تو ان کو کم ازکم ایک سال تک اکیڈمی تربیت اور سینئر ججوں کے ساتھ عدالتی کام کی ٹرنینگ دی جانی چاہیے‘ انھیں پیشہ وارانہ اخلاقیات کے مضامین لازمی طور پر پڑھائے جائیں اور اس کے لیے ورکشاپ اور سیمینارز منعقد کیے جائیں۔ فوجداری مقدمات کی بابت فوجداری عدالت کو پابند کیا جائے کہ کریمینل ٹرائل ترجیحا ً روزانہ کی بنیاد پر ہو‘ بہت غیرمعمولی حالت میںدو دن سے زیادہ التواء نہ دیا جائے اور غیرضروری تاخیر کے مرتکب فریق پر جرمانہ عائد کیا جائے۔ مارکیٹ میں مشہور ہے کہ چیک تو کاغذ کا ٹکڑا ہے۔

دھوکا دینے کے لیے مارکیٹ میں چیک کا لین دین ہوتا ہے‘ ڈس آنر چیک کی برسوں ادائیگی نہیں ہوپاتی، ان میںچیک کی مالیت کے حساب سے سخت سے سخت سزا ہونی چاہیے تاکہ ڈِس آنر چیک دینے کی حوصلہ شکنی ہو۔ ایک خاص تجویز یہ ہے کہ تفتیش کے شعبہ کو انتظامی یا آپریشنل شعبہ سے الگ کر دیا جائے‘ دہشت گرد اپنے خلاف گواہوں کو قتل کرتے رہے ہیں بلکہ ان کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ کراچی میں 21 مئی کے واقعات کا مقدمہ سننے والی عدالت کو ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے گھیر لیا تھااور وہ مقدمہ نہ سن سکی‘ اس لیے ضروری ہے کہ سنگین جرائم اور دہشتگردی کے مقدمات سے متعلق جج صاحبان، پراسیکیوٹرز اور گواہوں کوحکومت کی طرف سے فول پروف سیکیورٹی دی جائے اور ایسے مقدمات کا ٹرائل ویڈیو کانفرنس کے ذریعے عمل میں لایا جائے تا کہ مجرم مقدمہ کے متعلقان کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔

کچھ لوگ جعلی ڈگریوں پر وکالت کرتے ہیں‘ بارکونسلوں سے ہر نئے وکیل کو لائسنس جاری کرنے سے قبل اس کی ڈگریوں کی تصدیق کروائی جائے‘ اس سے جعلی وکلاء کی روک تھام ہو گی۔ آج کل وکلاء ذرا سی بات پرہڑتال کر دیتے ہیںجس سے عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے‘ اس کو ختم کرنے کے لیے بار کونسل ایکٹ میں ترمیم کی جائے کہ کوئی بارکونسل یا بار ایسوسی ایشن ایسی صورت میں ہڑتال نہیں کر سکے گی‘ عدالتوں کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو لازمی سروس کے زمرے میں شامل کیا جائے۔ ہڑتال کے باوجود جج صاحبان عدالتوں کو بند نہیں کرینگے اور وکیل بھی بہرحال عدالتوں میں پیش ہونگے۔ عدالتوںمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بھرپور استعمال کے لیے قانون سازی اور انتظامی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عدالت کی اوّل و آخرکارروائی ویب سائٹ پر مہیا ہونی چاہیے۔

مدعی، مدعاعلیہان اور وکلاء کواَپ ڈیٹ رکھنے کے لیے ایم ایم ایس، وٹس اَیپ، ای میل اور میسج کا سافٹ ویئر بنائیں، اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ اگر کسی دعویٰ میں تاریخ تبدیل ہونی ہے یا فیصلہ ہونا ہے، اس سے عوام خوار ہونے سے بچ جائینگے‘اگر وکلاء اور کسی جج کا جھگڑا ہو تو قانون ہاتھ میں لینے کے بجائے اس کے لیے وکلاء اور عدلیہ کی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی جائے‘ جو بھی قصوروار ثابت ہو اسے عبرتناک سزا دی جائے تاکہ آیندہ اعادہ نہ ہو‘ واقعہ میں وکلاء ملوث ہوں تو انھیں تاحیات بلیک لسٹ کردیا جائے‘ عوام سے بھی رائے طلب کی جائے کہ عدلیہ میں مزید کیا ٹھوس اور قابلِ عمل اصلاحات کی جائیں تاکہ فوری اور سستے انصاف کی راہ ہموار ہو اور یہ نظام آئیڈیل بن سکے‘ عدالتی اشتہارات اخبارات کو جاری کرنے کے ناقص طریقہ کار کی وجہ سے بہت زیادہ بدعنوانی بڑھ چکی ہے جس سے عدالت ِ عالیہ کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔

اخبارات کو اشتہارات دینے کا طریقہ کار تبدیل ہونا چاہیے‘ عدالتی اشتہارات کا سیٹ اپ تبدیل کرکے اسے ہیڈکوارٹر میں سینٹرلائز کیا جائے اور تمام اضلاع کی عدالتوں کے اشتہارات بذریعہ ایم ایم ایس‘ ای میل اور واٹس ایپ ہیڈآفس میں بھیجے جائیں اور وہاں سے ہی پورے پنجاب کی عدالتوں کے اشتہارات منصفانہ طریقے سے تقسیم ہوں‘ جس ضلع کے اشتہارات ہوں وہاں کے اے پی این ایس کے ممبر اخبارات کو اشتہار تقسیم کیے جائیں اور اشتہار شایع ہونے کی صورت میں ہیڈآفس سے اشتہارات کی ادائیگی کے چیک جاری ہوں‘ اس سے بدعنوانی کا مکمل طور پر خاتمہ ہوسکتا ہے کیونکہ آدھی رقم تو ریڈر لیجاتے ہیں‘ اشتہار کی قیمت کم ازکم بارہ سوروپے کردی جائے جس میں سے دوسو روپے ڈویلپمنٹ فنڈ کے نام پر کاٹ لیے جائیں۔

اس مقصد کے لیے جو ہیڈآفس قائم ہوگا اس کے ملازمین کی تنخواہوں و دیگر اخراجات کے لیے اضافی رقم بھی خرچ نہیں ہوگی‘ اس منصوبے کو جامع اور قابل عمل بنانے کے لیے ہم آپ کی رہنمائی بھی کر سکتے ہیں۔ بعض محکموں کے جن افسروں پرمحکمہ انسدادِ رشوت ستانی نے اربوں روپے غبن کے مقدمات درج کررکھے ہیں، محکمہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کرتا جس سے ان کی مزید حوصلہ افزائی ہوتی ہے، ایسے مقدمات میں عدالت ِ عالیہ واضح اور دوٹوک فیصلہ کرے کہ جس بدعنوان افسر یا اہلکار کے خلاف مقدمات درج ہوں انھیں ازخود ہی معطل سمجھا جائے۔

جیسا کہ محکمہ اطلاعات میں متعدد افسران غبن کے سنگین مقدمات میں ملوث ہیںجواعلیٰ حکام کی آشیرباد سے کلیدی عہدوں پر بھی براجمان ہیں، انھیں فوری معطل کیا جائے اور ان اعلیٰ افسروں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے جو ان بدعنوان افسروں کی پشت پناہی کر رہے ہیں‘ اس سے ہر محکمہ چوکس رہیگا اور اپنی غلطیاں نہیں دہرائے گا‘ بعض ایسے سنگین واقعات پر سوموٹو ضرور لیں‘ پاکستان کے موجودہ فوجداری نظام میں بیشمار فنی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے ہمارا جوڈیشل سسٹم معصوم اور بیگناہ شہریوں کے لیے عذاب بن کر رہ گیا ہے‘ فوجداری نظامِ انصاف میں اصلاحات کے بغیر معاشرے کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی ناممکن ہے۔

فوجداری نظامِ انصاف کے تین اہم شعبے عدلیہ، پولیس اور پراسیکیوشن ہیں‘ مقدمے کے اندراج، تفتیش، گواہان کے تحفظ سے شہادت پیش کرنے کی ذمے داری پولیس کی ہے جب کہ امن و امان کی ذمے داری بھی اسی ادارے کی ہے‘ عوام اپنی شکایت کے اندراج کے لیے پولیس سے رجوع کرتے ہیں۔ عام شکایت کنندہ ایک طرف چوری، ڈکیتی، قتل اور جائیداد، مکان، دکان پر ناجائز قبضہ سے متاثر ہوتا ہے اور دوسری طرف پولیس اس کی شکایت کا اندراج نہیں کرتی‘ ایس ایچ او تھانہ جوکہ ہر قابلِ دست اندازی جرم کی رپورٹ تحریر کرنے کا قانوناً پابند ہے۔

جان بوجھ کر اپنے فرائض سے پہلوتہی کرتا ہے۔اندراج مقدمہ میں تاخیر یا اندراج مقدمہ سے انکار کی مسلسل شکایات کے بعد مجموعہ ضابطہ فوجداری میں ترمیم کرکے ہرضلع کے سیشن ججز اور ایڈیشنل سیشن ججز کو دفعہ22-A اور 22-B(ف) کے تحت جسٹس آف پیس کے اختیارات دیے گئے ہیں اور اس کے تحت شکایت کنندہ کی اندراج مقدمہ کی داد رسی اگر ہوبھی جائے تو نہ تو کرائم سین محفوظ ہوتا ہے، نہ جائے وقوعہ سے فنگرپرنٹ سمیت کوئی شہادت اکٹھی کی جا تی ہے جس سے ملزم کے خلاف ثبوت اور ٹھوس سائنسی انداز میں شہادت جمع کرنے کا بہترین موقع ضایع ہو جاتا ہے‘اندراج مقدمہ میں اس تاخیر کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مظلوم فریق شکایت کی دادرسی نہ ہونے پر قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتا ہے‘ بااثر ملزمان کمزور اور مظلوم فریق کو دادرسی سے محروم کرنے کے لیے دھمکیوں سمیت تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔

کرائم سین سے ابتدائی اور سائنسی انداز میں شہادت جمع نہ کرنے اور اندراج مقدمہ میں تاخیر کا تمام فائدہ بااثر ملزمان کو ہوتا ہے اور وہ عدالت سے ضمانت اور ٹرائل میں شک کا فائدہ حاصل کرتے ہوئے بری ہو جاتے ہیں‘اندراج مقدمہ کے بعد تفتیش کا مرحلہ آتا ہے‘ اگرچہ تفتیشی افسر کے شعبہ کو واچ اینڈ وارڈ سے علیحدہ کر دیا گیا ہے لیکن عملاً تفتیشی افسران سے تمام کام لیے جا رہے ہیں‘ تفتیشی افسر قتل، اقدامِ قتل اور دہشتگردی سمیت تمام جرائم کے مرتکب ملزمان کو بیگناہ قرار دینے سے لے کر ملزم کو مستغیث اور مستغیث کو ملزم بنانے تک کا اختیار رکھتا ہے۔

اگرچہ مستغیث فریق دادرسی کے لیے پولیس کے اعلیٰ حکام سے رجوع کر سکتا ہے لیکن اس طرح کی تفتیش یا تو اپنے پولیس افسران کے حکم سے ہوتی ہے یا کسی دوسرے دنیاوی فائدے کے لیے، نتیجتاً مستغیث کو ناکامی کامنہ دیکھنا پڑتا ہے‘ تفتیشی افسران تفتیش کے بنیادی نکات سے ناواقف ہوتے ہیں اور جدید سائنسی ٹیکنیک بشمول فنگر پرنٹس، ای ایم آئی سی اور کال ڈیٹا ریکارڈ، فرانزک شہادت کے حصول کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے‘ زیادہ ترتفتیشی افسران یا تو ان جدید سائنسی ٹیکنیکس کے استعمال کا طریقہ کار نہیں جانتے یا کام کی زیادتی اور پیشہ وارانہ صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے کام سے کتراتے ہیں‘تفتیشی افسران کا یہ رویہ صرف معمولی جرائم کی تفتیش کے دوران نہیں ہوتا بلکہ اغواء، اغواء برائے تاوان، قتل، ڈکیتی، دہشتگردی اور ناجائز قبضہ کے مقدمات میں بھی تفتیش کا انداز یہی ہوتا ہے۔

تفتیشی افسران اور پولیس کی یہ بے حسی مظلوم فریق میں مخالفانہ اور انتقامی جذبات پیدا کرتی ہے اور معاشرے میں انتہا پسندی کا موجب بنتی ہے‘ تفتیشی افسران پر چیک اینڈبیلنس اور احتساب کے نظام کو بہترسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے‘ فرانزک سائنسی لیبارٹری کا تحصیل اور ضلع کی سطح تک قیام بھی کرائم سین کو محفوظ رکھنے کے لیے ازحدضروری ہے‘ تفتیشی افسران کی فرانزک لیبارٹری، نادرااور بینک ریکارڈ تک رسائی سے تفتیش میںخاصی بہتری پیدا ہو سکتی ہے، البتہ پولیس کو سیاست سے پاک کیے بغیر بہتری کی توقع بے سود ہے‘ پولیس میں ہر سطح کی بھرتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میرٹ پر کی جانی چاہیے‘ پولیس ملازمین اور افسران کو جدید خطوط پر تربیت دینے کا آغاز کیا جانا چاہیے۔

ان کی تنخواہ میں بہتری کرکے احتساب کا سخت نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کے دوران ڈاکٹر عاصم کو بھی گرفتار کیا گیا‘ صوبائی حکومت کی طرف سے ڈاکٹر عاصم کی رہائی کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے گئے‘تفتیشی افسر کے اختیارات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشتگردی کی دفعات ختم کرکے متعلقہ تفتیشی افسر نے ملکی تاریخ میں پہلی بار دفعہ497 ضابطہ فوجداری کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم کو ضمانت پر رہا کرنے کا پورا منصوبہ ترتیب دیکر اس پر عمل بھی کر دیا تاہم صوبائی حکومت اور پیپلزپارٹی کی قیادت کا خواب متعلقہ جج انسداد ِدہشتگردی نے چکناچور کر دیا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت پولیس کو صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے، اسے عام آدمی کے مسائل اور امن و امان کی بہتری سے کوئی لگاؤ نہیں۔ محکمہ پراسیکیوشن فوجداری نظامِ انصاف میں ریڑھ کی حیثیت رکھتا ہے‘ محکمہ پراسیکیوشن میں تجربہ کار، اہل اور محنتی افراد کی کمی نہیںمگر کم تنخواہ و مراعات کی وجہ سے محکمہ پراسیکیوشن کے مختلف معاملات میں اثرورسوخ کے استعمال نے پراسیکیوٹرز کو محکمہ پراسیکیوشن کی باندی بنا دیا ہے‘ ڈاکٹر عاصم کیس میں اسپیشل پراسیکیوٹر کی تبدیلی، کیس کی واپسی کی کوششوں اور سندھ کریمنل پراسیکیوشن ایکٹ 2009 میں تبدیلی کے لیے قانون سازی کی کوششوں نے سیاسی قیادت کے ذاتی مفادات اور اقرباء پروری کے سارے ایجنڈے بے نقاب کر کے رکھ دیے ہیں‘ عدالتوں کی رہنمائی اور امداد کے لیے لائق ومحنتی پراسیکیوٹرز پر مشتمل ایک نیا، آزاد، سیاست سے پاک اورغیرجانبدار محکمہ قائم کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم کی بھی صوبائی حکومتوں نے دھجیاں بکھیر دی ہیں۔

سبین محمود قتل کیس میں ڈرائیور گواہ کا قتل اور ولی بابر کیس میں چھ گواہان کا قتل ظاہر کرتا ہے کہ یہاں گواہان کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے‘ دہشت گردی اور خوفناک جرائم کی تفتیش میں ابتدائی طور پر پولیس کرائم اور فرانزک کی مدد سے شواہد اکٹھے کرنے میں ناکام رہتی ہے اور گواہان کو خطرناک ملزمان ڈرادھمکا کر اپنے خلاف گواہی دینے سے بازرکھتے ہیں‘زین قتل کیس میں تمام گواہان کا منحرف ہونا ظاہر کرتا ہے کہ بااثر افراد کس طرح گواہان کو اپنے حق میں شہادت دینے پرمجبور کرتے ہیں‘ سندھ حکومت نے گواہان کے تحفظ پر قانون سازی توکی ہے لیکن طویل عدالتی عمل میں اتنے عرصہ تک گواہ کو علیحدہ جگہ رکھ کر مسلسل سکیورٹی دینا ممکن نہیں‘ ان حالات میں سندھ میں بھی ایک ایسے محکمہ پراسیکیوشن کی ضرورت ہے جو اہم گواہان کی شہادت قانون کے مطابق محفوظ کر سکے‘محکمہ پراسیکیوشن میں محنتی، اہل اور دیانتدار افراد کی بھرتی، بہتر تربیت اورمناسب سیلری پیکیج کے ذریعے ایک آزاد اور غیرجانبدار ادارہ بنانے کی سخت ضرورت ہے تا کہ کوئی بااثر شخص بشمول کوئی حکومت کسی فردِ واحد کے لیے تمام نظام اور ادارے کو بدنام کر کے اپنے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل نہ کر سکے‘محکمہ پراسیکیوشن اور پولیس میں ایک قریبی تعلق اور رابطہ کی ضرورت ہے۔

محکمہ پراسیکیوشن کی بھی محکمہ پولیس کی طرح نادرا، بینک ریکارڈ اور کال ڈیٹاریکارڈ تک رسائی ضروری ہے‘ فوجداری نظامِ انصاف میں مجسٹریٹ سے سیشن جج تک کی عدالت کی اہمیت مسلمہ ہے‘ پولیس اپنی تمام رپورٹس بذریعہ پراسیکیوٹر عدالت میں ٹرائل کے لیے بھجواتی ہے‘ شواہد اور گواہان پیش کرنا پولیس کی اور جرم کو ثابت کرنا پراسیکیوشن کی ذمے داری ہے‘اگر شواہد ناقص ہوں اور گواہان ملزمان کے خلاف شہادت نہ دیں تو عدالت کسی ملزم کو سزا نہیں دے سکتی۔ فوجداری عدالتوں کو وکلاء نے بھی بار اور بنچ کو ایک گاڑی کے دوپہیوں کے نام پر یرغمال بنایا ہوا ہے‘ آخر وکلاء تحصیل، ضلع، ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن، صوبائی بار کونسل اور پاکستان بارکونسل کے صدر اور ممبر منتخب ہونے کے لیے رقم کا بے دریغ استعمال کیوں کرتے ہیں؟ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ ان عہدوں کی بناء پر عدالتوں کو یرغمال بنایا جائے اور من پسند فیصلے حاصل کیے جائیں۔

مجسٹریٹ اور ایڈیشنل سیشن ججز کی عدالتوں کی یہ صورتحال ہے کہ گواہان برسوں عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں لیکن ان کی شہادت کبھی ایک فریق کے وکیل کبھی دوسرے وکیل اور کبھی ہڑتال کی وجہ سے قلمبند نہیں ہوسکتی حالانکہ سیشن ٹرائل کی شہادت شروع ہونے کے بعد اسے مسلسل سیشن ہی میں مکمل ہونا چاہیے، اگر قانون کی روح کے مطابق حل ہو تو ایک سیشن ٹرائل کا دوہفتوں کے اندر فیصلہ ہو جانا چاہیے لیکن صورتحال یہ ہے کہ سالوں سیشن کیس کا فیصلہ نہیں ہوپاتا‘ اگر کوئی جج کسی کیس کا جلد ٹرائل کرنے کی کوشش کرے تو یاتو اس پر جانبداری کا الزام لگا دیا جاتا ہے، اس سے کیس ٹرانسفر کروا لیا جاتا ہے یا جج کو ہی ٹرانسفر کروا دیا جاتا ہے‘ فوجداری عدالتوں کا پورا ڈسپلن ایک نائب کورٹ پر منحصر ہوتا ہے‘ریکارڈ کی ترتیب سے ریکارڈ کی فراہمی تک نائب کورٹ کی سیکڑوں ذمے داریاں ہیں، وہ وکلاء کے مضبوط اور طاقتور گینگ کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔

ایڈیشنل سیشن ججز اور مجسٹریٹس مقدمہ قتل سے لے کر ڈکیتی جیسے سنگین جرائم تک کا فیصلہ کرنے کے بعد پیدل گھروں کو جاتے ہیں‘ ججز کو نہ تو کوئی گارڈ مہیا کیا جاتا ہے نہ ہی گھریلو ملازم‘ ان حالات میں ججز کس طرح بے خوف ہوکر آزادانہ فیصلے کرسکتے ہیں؟ مجسٹریٹ سے عدالتِ عظمیٰ تک ججز کا ایک کوڈآف کنڈکٹ ہے جسکے تحت ججز نہ تو بازار جاسکتے ہیں،نہ کسی سے میل ملاپ رکھ سکتے ہیں‘ان تمام حالات میں ضروری ہے کہ ان کے نجی امور کی بجاآوری کے لیے ’’پرسنل سروس اسٹاف‘‘ اور دیگر جائز مراعات کا بندوبست کیا جائے ورنہ مجسٹریٹس اور ججز سے آزادانہ و بے باک انداز میں انصاف کی توقع خودفریبی ہی ہوسکتی ہے۔ یہ اَمر انتہائی تاسف ناک ہے کہ ہمارے ملک میں قبضے، قتل اور مقدمے سے متعلق قوانین صدیوں پرانے ہیں‘ ضابطہ دیوانی اور ضابطہ فوجداری ایک صدی سے زائد جب کہ تعزایرت کا قانون کم و بیش ڈیڑھ سوسال پرانا ہے۔

اگرچہ ان قوانین میں مختلف ادوار میں تر امیم ہوتی رہی ہیں تاہم یہ ترامیم ناکافی ہیں اور مقننہ کو اب بھی بہت سا کام کرنا باقی ہے کیونکہ ناجائز قبضے کی شکل میں ہونیوالے قتل اور پھر ان کا مقدمہ درج ہو نے اور فیصلے آنے میں جو تاخیر ہورہی ہے اور اس کے باعث لوگوں کی ذہنی پریشانی کے علا وہ جو بھی مالی، وقتی اور ذہنی نقصان ہورہا ہے،اس میں انتظامیہ، مقننہ کے ساتھ ساتھ سارا نظامِ عدل برابر کا شریک ہے‘ جب ایک جائز قابض و مالک شخص سے غیرقانونی طور پر زبردستی یا جعلسازی کرکے قبضہ چھین لیا جاتا ہے تو اس کے پاس دادرسی کے دوہی طریقے ہیںکہ یاتو وہ دیوانی عدالت میں قبضہ بحالی کا مقدمہ دائر کرے یاپھر فوجداری مقدمہ کا سہارا لے کیونکہ جب کبھی غیرقانونی طور پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو نقصِ امن کا نہ صر ف خدشہ ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات فریقین میں سے کسی کی جان تک چلی جاتی ہے۔

ایسی صورت میں فوجداری مقدمہ ہی دائر کیاجاتا ہے تاہم اگرملزمان بااثر ہوں تو گرفتاریاں جلدعمل میں نہیں آتیں اور مقدمہ تفتیشی مراحل میں ہی کمزور ہوجاتا ہے، ملز مان بھی ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں، ایک دفعہ ضمانت ہوجانے کی صورت میں مدعی مایوس ہوکر گھر بیٹھ جاتا ہے اور پھر پولیس عرصہ دراز تک چالان جمع نہیں کرواتی حالانکہ سپریم کورٹ کے لاتعداد فیصلے موجود ہیں کہ پولیس ہر صورت میں مکمل چالان قانونی مدت 14دن میں ہی پیش کر ے لیکن فوجداری مقدمات بھی دیوانی مقدمات کی طر ح برسوں چلتے ہیں۔مقننہ قانون بناتی، عدلیہ قانون کی تشریح کر تی اور مقدمات کا فیصلہ سناتی ہے جب کہ فیصلوں پر عملدرآمد انتظامیہ کا کام ہے، مقدمات میں تفتیش کا کام بھی انتظامیہ کا ہی ہے، خاص طور پر فوجداری مقدمات میں سزاوجزا کا انحصار تفتیش پر زیادہ ہوتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ مقننہ جدید دور سے ہم آہنگ قانون سازی کرے اور پرانے قوانین میں ترامیم لائے‘ تفتیش کا نظام بہتر بنایا جائے‘ مقدمات کی تفتیش کو جدید سطح کے ذرایع سے استوار کیا جائے‘جدید آلات اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔

اہم مقدمات کی تفتیش ان پیشہ وارانہ تفتیشی افسروں کے سپرد کی جائے جو واقعی خوفِ خدا بھی رکھتے ہوں‘ غیرضروری ہڑتالوں اور چھٹیوں کو کم سے کم کیا جائے‘ ججوں کی تعداد میں اضا فہ کیا جائے اور بار اور بنچ ملکر مقدمات کے فیصلوں میں ہونے والی  تاخیر کے اسباب ختم کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل بنائیںتا کہ جلد اور سستے انصاف کی راہ ہموار ہوسکے‘ ہمارے موجودہ سسٹم میں ایف آئی آر کے اندراج کا دوسرا نام نامزد شخص کی گرفتاری ہے لیکن اگر نظامِ انصاف میں اصلاحات لانی ہیں تو پولیس تفتیش کے بعد ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے کسی بھی شخص کی شکایت پر پہلے ایف آئی آر درج ہونی چاہیے جب کہ گرفتاری پولیس تفتیش کے بعد ہو تو سسٹم میں بہتری کے امکانات ہیں‘ پولیس کی خودسری کے باعث عدالتوں پر کام کا بے تحاشہ بوجھ ہے۔

عدالتوں میں ایف آئی آر کے اندراج کے لیے سیکڑوں درخواستیں دائر ہوتی ہیں تو دوسری طرف سے ان کے خلاف بڑی عدالتوں میں درخواستیں دائر کردی جاتی ہیں چنانچہ عدالتی اصلاحات سے قبل پولیس کے نظام کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ عوام ہمیشہ پستے رہیں گے اور عدالتوں کا بھی پولیس اور بیوروکریسی پر کوئی زور نہ چل سکے گا‘ایف آئی آر کے اندراج کے حوالے سے کوئی بھی تبدیلی لانے سے قبل ضابطہ فوجداری کی دفعہ154کو بھی تبدیل کرنا ہو گا۔ اصلاحات سے قبل اگر پولیس کا قبلہ درست نہ کیا گیا تو معاملہ عوام کی گردن پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں دیے رکھنے کے مترادف ہوگا‘ پنجاب میںتو پہلے ہی ایف آئی آر کے اندراج کے لیے عدالتوں سے روزانہ ایک ہزار سے زائد مقدمات پر احکامات جاری ہوتے ہیں۔

اگر پولیس تفتیش کے بعد ایف آئی آر درج کرنے کا قانون لایا جاتا ہے تو پھر یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ کسی بھی درخواست پر پولیس 24یا 48گھنٹوں میں فیصلہ کرے اور اگر درخواست مسترد کی جائے تو وجوہات بھی بتائی جائیں ورنہ یہ پولیس کو مزید طاقتور اور بے لگا م بنانے کے مترادف ہو گا۔ معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کو سزاکا ڈر نہیں رہا کیونکہ یہ افراد سمجھتے ہیں کہ وہ قانون کی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر بچ جائینگے‘ ایسے حالات میں فوجداری قوانین کو جدید زاویوں پر پرکھنے اورمعاشرہ کو ایسے جرائم اور مجرموں سے بچانے کے لیے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے‘ فوجداری نظامِ انصاف میں بامعنی اصلاحات لائے بغیر معصوم لوگوں سے جیلیں بھرتی رہیں گی‘ بیگناہ پھانسیوں پر جھولتے رہیں گے اور بااثر مجرم قانونی پیچیدگیوں اور خامیوں سے فائدہ اٹھا کر عدالتوں سے رہا ہوتے رہیں گے۔

(جاری ہے، باقی اگلے اتوار کو پڑھیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔