ازدواج مطہرات حیات وخدمات (پہلا حصہ)

نسیم انجم  اتوار 25 ستمبر 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ایک بہت اچھی اورخوبصورت کتاب میرے  مطالعے میں رہی۔ ڈاکٹرحافظ حقانی میاں قادری نے بہت عرق ریزی اورمختلف مفکرین کی آراء کو بھی درج کیا ہے، عنوان ہے ’ازدواج مطہرات‘ حیات و خدمات ۔ یہ تحریر ان لوگوں کے اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی ہے جو حضور پاک صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی شادیوں کے بارے میں اعتراضات  کرتے اور ان کی مبارک حیات اور اسلام کے لیے ایثار و قربانیوں کو بھول جاتے ہیں۔

’عرض مولف‘ میں لکھتے ہیں کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ و تسلیمات کی  ازدواج مطہرات کی حیات وخدمات اور سیرت و کردار  تاریخ اسلام کا مثالی شاہکارہے،ازدواج مطہرات کے حجرات درحقیقت علوم اسلامی کی ترویج و اشاعت کی جامعات اور علوم نبوی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم  کی امامت گاہ تھیں ، جہاں سے اسلامی دنیا کسب فیض کیاکرتی تھی۔ کتاب پر لکھا گیا مقدمہ بھی بہت سے حقائق اورکینہ پرور دشمنان اسلام کی آرا پر درج ہے۔ مصنف ڈاکٹرحافظ محمدحقانی ہیں جن میں چند کے  نام یہ ہیں (1)Mair,sir williamکتاب کا نام Muhammad and Islam

(2) Will  Durant کی کتاب کا نام The Age Of Faith

(3)Erich Bethmanکی کتاب کا نامBridge to Islam

(4)اور عصر حاضر کے رسوائے زمانہ سلمان رشدی کا نام جو بدنام زمانہ ہے۔ رشدی ملعون جس کا ناول  statnic verses (شیطانی آیات) ہے اس جھوٹے، گمراہ اور بزدل انسان نے رسالت ماب صلی اﷲ علیہ والہ وسلم  کی شان میں شرمناک، بے ہودہ اور نازیبا الفاظ استعمال کیے اور پھر جب ایران کے مذہبی و روحانی پیشوا امام خمینی نے اس کے قتل  کا فتویٰ جاری کیا اور پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ممالک کی طرف سے بھی اسے کیفر کردار تک پہنچانے کی بات گئی تو وہ روپوش ہوگیا۔ اگر وہ سچا تھا تو اسے چھپنے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ بہرحال منافقین اور مفاد پرستوں کا حال ایسا ہی ہے۔

مختلف مذاہب کی قانونی و مذہبی تاریخی سند اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام سے قبل بھی  تعدد  ازدواج کی رسم رائج تھی۔ معروف فرانسیسی محقق گتاؤلی  زبان اپنی تصنیف De Arabs Civilizationمیں تعدد ازدواج پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مورخین یورپ کی نظروں میں تعدد ازدواج گویا عمارت اسلامی کی بنیاد کا شہر اور اشاعت دین اسلام کا بڑا سبب ہے۔

تعدد ازدواج کی رسم اسلام سے بالکل الگ ہے کیونکہ یہ رواج کل اقوام مشرقی، یہود وایرانیوں اور عربوں میں سے موجود تھی ۔اسی طرح انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق مشہورماہر لسانیات جارج مرڈاک (Murdock)کی رپورٹ 1949ء کے مطابق دنیا کی 554 قوموں میں سے 415 میں تعدد ازدواج کا رواج پایا جاتا ہے، مذاہب عالم کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ تعدد ازدواج تمام مذاہب میں خواہ وہ الہامی ہوں یا غیرالہامی ہمیشہ رائج رہا ہے۔ اسے صرف پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم  کو پوری دنیا کے لیے رحمت للعالمین  بن کر آئے ان سے منسوب کرنا محض جہالت،کوتاہ عقلی ، تنگ نظری کے سوا کچھ نہیں، دل کا بعض و عناد جو مسلمانوں سے ہے اسے اپنے قول وفعل کے ذریعے تشہیرکرنا گویا اپنے آپ کو رسوا کرنا ہے۔جو حق ہے وہ ازل سے ابد تک رہے گا۔

جس کے ثبوت اور روشن مثالیں  آخری کتاب قرآن مجید  میں موجود ہیں لیکن جو اس پر ایمان نہیں لائے یہ ان کا ذاتی فعل ہے۔ اگر اپنے آپ کو ہی سچا جانتے ہیں تو ایسے لوگوں کو مقابلے کے لیے سامنے آجانا چاہیے۔ اﷲ نے خود فرما دیا ہے ’’اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بنالے بلکہ یہ تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں ‘‘  پھر اﷲ نے قرآن پاک میں اپنے پیارے محبوب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم  کے بارے میں سوال کیا ہے کہ کیا لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے (قرآن) خود بنالیا ہے تو کہہ دیجیے کہ اگر  ایسا ہے تو (تم بھی) اس جیسی ایک  سورۃ بنا لاؤ اگر تم سچے ہو۔(سورہ یونس)

’’اور ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں  کو جہنم کے ہی لیے پیدا کیا ہے۔ ان لوگوں کے دل  تو ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں، اور ان کی آنکھیں بھی ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان بھی ہیں مگر وہ بھی بڑھ کر گمراہ ہیں  یہی لوگ غافل و بے خبر ہیں ۔‘‘ (سورہ الاعراف)

غیر الہامی مذاہب میں سب سے زیادہ قابل ذکر ’’ہندو مت‘‘ ہے ان کی مذہبی کتابوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعدد ازدواج ہندو مذہب میں ہمیشہ سے رائج رہی ہے۔ ہندو دھرم میں قدیم زمانے سے موجودہ زمانے تک اس کی اہمیت مسلم ہے۔ The position of woman in hindu civilizationکے رائٹر (Dr.A.S.Altekar)اس سچائی کو بیان کرتے ہیں کہ ویدک لٹریچر میں تعدد ازدواج ( polygamy ) کے حوالے قطعی طور پر زیادہ ہیں۔ ہندو دھرم کے ماننے والے ’’رام چندر جی‘‘ کو اپنا بھگوان  مانتے ہیں ان کے والد راجہ دسرتھ کی متعدد بیویاں تھیں۔

(1) پٹ رانی کوشلیا۔ رام چندر جی کی والدہ

(2) رانی سمترا ۔ والدہ کچھن جی

(3) رانی کیتکی۔ والدہ بھرت جی ۔

سری کرنشن جی کی جو اوتاروں میں سولہ کلاں سبپورن تھے اور بے شمار بیویاں تھیں۔

معروف مسلمان مورخ  ابو ریحان البیرونی نے اپنی کتاب تحقیق ’’ماللھند‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اہل ہند میں سے بعض کی نظر میں طبقاتی اعتبار سے متعدد عورتیں ہوسکتی ہیں چنانچہ برہمن کے لیے چار (چھتری) کشتر کے لیے تین ویش کے لیے دو اور شودر کے لیے ایک بیوی ہوگی‘‘ جبکہ الہامی مذاہب  یہودیت، عیسائیت اوردین اسلام تعدد کثرت ازدواج کے قائل ہیں۔ یورپی مصنف ویسٹر مارک (Westermarck) اور یہودی مصنف ابراہیم لیون نے بھی اپنے دلائل اور مذہبی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بتایا ہے کہ خدا نے زیادہ  شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے۔ توریتی قانون نے اس کی ممانعت نہیں کی عیسائیت میں بھی اس امرکی گواہی ملتی ہے۔

دین اسلام کے دشمنوں کے حوالے سے ڈاکٹر حافظ محمد حقانی نے بے حد خوب صورت اور موثر انداز میں سچائی کو اس طرح آشکارا کیا ہے لیکن درمیان میں ایک بات اور کرتی چلوں کہ اندھیروں میں رہنے والے کو روشنی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرپاتے ہیں انھیں چمگاڈر کی طرح تاریکی ہی راس آجاتی ہے اور وہ  اپنے بنائے ہوئے مقام پر خوش ہیں۔

اگر خوش اور مطمئن کرنے کے لیے مذاہب عالم کا ضرور مطالعہ کرتے  اور جب حق اپنی تابانیوں کے  ساتھ ان کی بصیرت  و بصارت کے سامنے جلوہ گر ہوتا تو وہ یقیناً اپنا سر اس خدائے برتر کے حضور ضرور خم کرتے ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم عرب کے اس گرم خطے سے تعلق  رکھتے تھے۔ جہاں فطری خواہشات انسان پر غالب ہوتی ہیں (اس سرزمین پر جہاں جلد سے جلد اپنی  تمنا کی تکمیل کے لیے شادی کرنا ضروری ہوجاتا ہے لیکن اسی سرزمین پر رہتے ہوئے حضور پاک صلی اﷲ علیہ والہ وسلم(جن پر میں قربان جاؤں) نے 25 برس تک شادی نہ کی۔ گزرے برس طہارت ، پاکیزگی اور اعلیٰ و ارفع کردار کی پختگی کے ساتھ گزارے اور جب شادی ہوئی تو اپنے سے 15برس  بڑی خاتون حضرت خدیجہ ؓ سے کی۔           (جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔