انڈیا، ایم کیو ایم اور عمران

اقبال خورشید  منگل 27 ستمبر 2016

’’خان سے پھر تعزیت‘‘ صاحب، ہم تو پہلے ہی پی ٹی آئی کے کراچی یونٹ کی شکست و ریخت پر عمران خان سے تعزیت کرچکے ہیں۔ایسا نہیں کہ مخلص لوگوں کی کمی ہے ان کے ہاں، مگر قیادت کے فیصلوں میں پختگی نظر نہیں آتی۔ اہل کراچی نے 2013 میں اِس پارٹی پر جس اعتماد کا اظہارکیا تھا،کیا اگلے الیکشن میںبھی اِس کا مظاہرہ کریں گے؟ فی الحال تو یہ مشکل نظرآتا ہے۔

عمران خان کو معراج محمدخاں اور جسٹس وجیہہ الدین جیسے کھرے اورمحنتی لوگ ملے تھے، مگر اب انھیںاپنا کیس لڑنے کے لیے فیصل واوڈا اور علی زیدی پرانحصار کرنا پڑتا ہے۔ اول الذکرکوشہر کے باسی شارع فیصل کے بدترین ٹریفک جام کے لیے یاد رکھیں گے، آخر الذکرکو بلدیاتی الیکشن میں شکست کے بعد اُن کی جھنجھلاہٹ کے لیے، جب وہ صدمے کے زیر اثر یہ کہہ گئے ’’ ایم کیو ایم کو ووٹ دینے والوں کا شرم آنی چاہیے‘‘ 6ستمبر کو ہونے والا جلسہ، جسے فاروق ستار نے طنزاً ’’جلسی‘‘کہا، اِن ہی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔اب تو جسٹس وجیہہ الدین نے بھی استعفیٰ دے دیا ۔ جن روایتی اورکرپٹ سیاست دانوں سے دور رہ کر خان نے اپنا اعتماد قائم کیا تھا، وہی اُس کے پاؤں کی زنجیر بن گئے۔

ایک پیش گوئی: راؤنڈ مارچ اور اُس سے جڑی پھرتیاں، ڈنڈا بردارگروہ، وعدے دعوے۔۔۔ یہ سب بے نتیجہ رہیں گے، اگرچہ ن لیگ کی بھی سبکی ہوگی، مگر پی ٹی آئی شاید اِس معاملے میں پھرسبقت لے جائے۔

’’منزل چاہیے یا رہنما؟‘‘:گو سازشی نظریات میں دلچسپی رکھنے والے تجزیہ کار اب بھی ایم کیو ایم کی پاکستان اور لندن قیادت کی بڑھتی دوری کو ’’اسکرپٹ‘‘ قرار دینے پر بضد،مگر جب ہم مصطفیٰ کمال کو فاروق ستار پر، جنھیں کل تک وہ معصوم اور مظلوم کہا کرتے تھے، کڑی تنقید کرتے دیکھتے ہیں،تو یہ احساس قوی ہونے لگتا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں کراچی کی سیاست خاصی بدل گئی ہے۔

آئین میں تبدیلی، جھنڈے سے تصویرہٹانا، اس پر مستزاد، بانی تحریک پر غداری کا مقدمہ چلانے کی قرار داد(جس کی اوروں نے حمایت بھی کردی )، محو حیرت ہوں، دنیا کیا سے کیا ہوگئی۔ اس معاملے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈیویلپمنٹ ہورہی ہیں۔ لندن قیادت کی جانب سے استعفوں کا مطالبہ ہوا میں اڑا دیا گیا۔خواجہ اظہارالحسن اور فیصل سبزواری کا دو ٹوک موقف۔ ادھر ن لیگ اور پی پی کے اہم ترین رہنماؤں، بشمول وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کو موقع دینے کا بیان۔۔۔ صاحب، اگر یہ ایک اسکرپٹ ہے، تو سمجھ لیجیے، اِس کے نتائج اسکرپٹ رائٹرکی منشا کے عین مطابق تو نہیں نکلنے والے۔ اور ویسے بھی حقیقی زندگی اور ہچکاک کی فلم میں ذرا فرق ہوتا ہے۔ معروضی حالات منصوبوں کو بدلتے رہتے ہیں۔

اگر آپ اسکرپٹ والے مفروضے پر مصر، تو ہمیں کیا اعتراض۔ البتہ یاد رکھیں، ایم کیو ایم کے کیس میں گزشتہ ڈھائی عشرے سے طاقت کا مرکز لندن رہا ہے۔اب جو اچانک کراچی قیادت کو اپنی طاقت کا احساس ہوا ہے، وہ کسی بھی ’’معصوم ‘‘کو نیا اسکرپٹ لکھنے پر اُکسا سکتا ہے۔

ایک اور پیش گوئی: گو ایم کیو ایم پاکستان کا امتحان ختم نہیں ہوا، مگر وہ دشوار ترین گھاٹی عبور کرگئی ہے۔شایدیہ فاروق ستار وہ نہیں، جو 22 اگست سے پہلے تھے اور یہ پی ٹی آئی اور پاک سرزمین،دونوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

’’لبرل، اسلامسٹ اور ایٹمی جنگ‘‘: بھارت کی جنونیت نے ایک بار پھر جنگی ماحول پیدا کردیا ۔ دو ایٹمی قوتوں کا تصادم گزشتہ دنوں موضوع بحث رہا۔بھارتی دیوانگی کے جواب میں ہمارے سیاست دانوں، دانشوروں اور رائے عامہ کے نمایندوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستانی قوم متحد ہے، وہ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے گی، فوج کے شانہ بہ شانہ لڑے گی۔۔۔بے شک ہمارے عوام کاحوصلہ بلند ۔ وہ جذبے سے سرشار۔ البتہ سیاسی جماعتوں کی اپنی صف میں دراڑ ہے اور المیہ یہ کہ دانشور، رائے عامہ کے نمایندے اور تجزیہ کار بھی بٹے ہوئے ہیں۔

ایک گروہ خود کو لبرل کہتا ہے، دوسرا اسلامسٹ۔دونوں ہی کی نصف درجن ویب سائٹس موجود۔ دونوں کو بڑے بڑے کالم نگاروں کی خدمات حاصل۔ دونوںکے پاس تھوک کے حساب سے لکھاری۔ قاری بھی ہزاروں۔ یعنی سوشل میڈیا پر گھمسان کا رن پڑا ہے۔ الزامات سے بات دشنام طرازی تک جا پہنچی ۔ افسوس، ہمارے نام نہاد اسکالرز اپنی دکانیں چمکانے کے لیے اِس تقسیم کو بڑھانے میں جٹے ہیں۔ اس خلیج کو گہرا کر رہے ہیں۔ کوئی روشن خیالوں کا گروہ، کوئی مذہب پسندوں کا استاد۔ یہ متوسط طبقہ ہے، جوتبدیلی کا پہیا چلاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ طبقہ 80 اور 90 کے جمود سے دھیرے دھیرے نکل رہا تھا کہ ہمارے قلم کار اِسے تقسیم کر کے پھر جمود کی طرف دھکیلنے لگے ۔

’’قوم متحد ہے‘‘ یہ جملہ ایک کلیشے ۔ ہم لسانی ، مذہبی اور فکری طور پر بٹے ہوئے ہیں۔ پہلے ہی بدترین طبقاتی نظام ہے۔ اب یہ اسلامسٹ اور لبرل کا نعرہ۔ کچھ غیروں کی سازش، کچھ اپنوں کی غلطیاں، متوسط طبقہ بھی تقسیم ہوا۔ جب ہم ادیبوں،اساتذہ اورمحققین کو مرکزی دھارے سے نکال باہر کریں گے، سماجی، ثقافتی اور فکری معاملات میں اُن کی رائے کو درخوراعتنا نہ سمجھیں گے،کتب خانے مٹا دیں گے، تو ایسے ہی نام نہاد افراد ہمارے فکری گرو بن جائیں گے۔

’’گڈ جاب سرفرازـ‘‘: اور آخر میں ٹی 20 کے کپتان، سرفراز احمد کو ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز جیتنے پر مبارک باد۔ ساتھ ہی محتاط رہنے کا مشورہ۔ سفر ابھی شروع ہوا ہے، منزل دُور ہے۔ اگلا ورلڈکپ پیش نظر ہونا چاہیے۔ ہمارا ذاتی خیال کہ ون ڈے کی قیادت کے اصل حق دار سرفراز ہی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اظہرعلی کو باہرکا راستہ دکھا دیا جائے۔ اظہر ایک باصلاحیت کھلاڑی ہیں۔ ون ڈے اور ٹیسٹ ٹیم کو اُن کی ضرورت۔اگر انھیں یقین دلایا جائے کہ وہ ٹیم کا حصہ رہیں گے، تو شاید وہ رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دیں۔ عامر کی شمولیت کے موقعے پربھی وہ ایک ایسی پیش کش کرچکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔