’’ن‘‘ کا نقطہ صحیح نہ لگانے پر کراری چپت پڑی

غلام محی الدین  جمعرات 29 ستمبر 2016
 چاہنے والے پریشان رہتے ہیں، عالمی شہرت یافتہ خطاط عبدالرشید بٹ کی اسراری باتیں۔ فوٹو: ایکسپریس

 چاہنے والے پریشان رہتے ہیں، عالمی شہرت یافتہ خطاط عبدالرشید بٹ کی اسراری باتیں۔ فوٹو: ایکسپریس

اسلام آباد: پاکستان کے ممتاز خطاط عبدالرشید بٹ نے میٹرک کے بعد خطاطی کا فن روزی کمانے کے لیے سیکھا تھا۔’’بچپن سے میرا ہینڈ رائٹنگ اچھا تھا مگر کبھی سوچا نہیں تھا کہ خطاطی بھی کر سکتا ہوں‘‘۔

رشید بٹ کے والدین چھے سال کی عمر میں دارفانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ انہوں نے میٹرک جہلم سے کیا، مزید پڑھنا چاہامگر وسائل کی کمی آڑے آئی اور ٹائیپسٹ کی نوکری کر لی۔ ’’اُس وقت مجھے اِس فن کی قدروقیمت کا اندازہ نہیں تھا، اخبار میں کتابت کے لیے تین ماہ کے اندر خط نستعلیق سیکھا، یوں مجھے معقول معاوضے پر نوکری مل گئی۔ اسی دوران میں خطاطی پرایک کتاب مل گئی۔

کتاب پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ خطاطی کا فن سمندر ہے، میں نے جو سیکھا ہے، یہ توقطرہ بھر بھی نہیں۔ مزیدپڑھنا شروع کیا تو مجھے اِس فن کو جاننے کے علاوہ اپنی زندگی کا مقصد بھی سمجھ میںآنے لگا، بہت سے سوالوں کے جواب ملنے لگے۔ اس فن کی پہلی باریکی جومیری سمجھ میں آئی، یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اِس فن کی عظمت اپنے کلام میں واضح کردی ہے کہ یہ کتنا عظمت والا کام ہے۔

اللہ نے قلم کو اپنا سب سے اہم ترین’’انسٹرومنٹ‘‘ قراردیا ہے، پھراِس کی قسم کھائی، حدیث شریف گواہ ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم تخلیق کیا۔ اللہ نے قلم کے نام سے سورت بھی نازل کی۔ بطورخطاط میں نے قلم کی عظمت کے متعلق سوچنا شروع کیا تو علم کے ایسے ایسے در وا ہوئے کہ میں دنگ رہ گیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے متعلق معلوم ہوا کہ وہ اپنے وقت کے بہت بڑے خطاط تھے۔

اُن کا ایک جُملہ ’’اپنی اُولاد کو معاشرے میں کتابت کے ذریعے معزز بناؤ، بے شک یہ اعلیٰ مرتبت کاموں میں سے ایک ہے اور اِس میں انسان کے لیے سُرور ہے‘‘۔ 15 سو سال پہلے کہی بات آج بھی سچ کا درجہ رکھتی ہے۔ میں اِس کا گواہ ہوں،آج جو ہوں، اِس فن کی وجہ سے ہوں۔ میرا ساٹھ سالہ تجربہ ہے کہ یہ فن واقعی انسان کو ایسی مستی عطا کرتا ہے کہ اِس کی مثال ممکن نہیں۔ جب میں محسوس کرتاہوں کہ میں اللہ کے الفاظ کو لکھ رہا ہوں تو میں ایک کیف و مستی میں اتر جاتا ہوں، یہ بڑی عطا ہے کہ اُس نے مجھے اپنا لفظ لکھنے کے لیے چُنا۔

میں جب بھی لفظ اللہ لکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ مجھے دیکھ رہاہے، ایسے میں اللہ اورمیرے درمیان فاصلے سمٹنے لگتے ہیں۔ یہ سرور کی وہ کیفیت ہے جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ کیا اِس سرور کی کیفیت سے سب خطاط گزرتے ہیں؟ ’’مجھے دوسروں کا علم نہیں مگر میں اِس کیفیت سے بارہا گزراہوں البتہ یہ کہ سکتا ہوں کہ جو اِس فن کو کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، وہ اِس مستی سے دور رہے، یہ خلوص اورخلوص نیت کا علم ہے، اِس بارے میں مجھے تب آگاہی ملی جب اُس نے میری توقع سے مجھے کہیں زیادہ عطا کردیا‘‘۔

72 سالہ عالمی شہرت یافتہ کیلی گرافر رشید بٹ کا دعویٰ ہے ’’اِس فیلڈ میں قدم رکھنے کے بعد میں دباؤ والی زندگی سے آزاد ہوچکا ہوں، میں ہردن کا ہر لمحہ انجوائے کرتا ہوں۔ اب میں نے خواہش کرنا چھوڑ دی ہے، توقعات ختم ہو گئی ہیں، سچ کہوں تو میں اپنے کام میں اتنا مگن رہتا ہوں کہ مجھے مسائل کا ہوش ہی نہیں رہتا۔ایک بار میںامریکا میں ایک تقریب میں تھا، وہاں مجھے اپنے متعلق بولنے کی دعوت ملی، میں نے جب کہاکہ میں انتہائی خوش و مطمئن ہوں اور مجھے کوئی مسئلہ درپیش نہیں، تو حاضرین محفل پریشان ہو گئے۔

ایک امریکی نے اِسی پریشانی کے عالم میں ہاتھ کھڑا کر دیا، کہا کہ جب آپ کو کوئی ٹینشن نہیں تو آپ کے جینے کا مقصد کیا ہے؟ اس سوال کا میرے پاس کوئی شافی جواب نہ تھا لیکن ایک لمحے میں مجھ پرجواب الہام ہوا، میں نے کہا ’’میں آپ کو ہرگز  دعوت نہیں دوں گا کہ آپ مسلمان ہو جائیں، میں آپ کو یہ بھی نہیں کہوںگا کہ جائیں پہلے قرآن مجید پڑھیں، میں آپ کو اپنے متعلق بتاؤں گا۔۔۔ مجھے صد فی صد یقین ہے کہ میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں بل کہ ’’بلنڈر‘‘ کیے لیکن میں نے اُن سے یہ سبق حاصل کیا کہ کسی بھی کام کا نتیجہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا، میں آپ کو قرآن مجید کا صرف چار الفاظ پر مبنی ایک فقرہ سناتا ہوں، جس نے میری زندگی بدل دی، پہلے آپ اِسے سن لیں اوراس پر غور کریں، قرآن کی آیت ہے ’’اے میرے بندے، اپنے سارے کام میرے حوالے کردے، بے شک اللہ اپنے بندوں کو بہتر دیکھنے والا ہے‘‘۔

اِس آیت کو پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اللہ نے تو میرا کام آسان کر دیا، میں نے محسوس کیا کہ اگر میں اپنا کام محنت، ایمان داری اور خلوص نیت سے کروں اور نتائج اللہ پر چھوڑ دوں تو میں پریشانی سے بچ جاؤں گا، اب میں اسی لیے پریشان نہیں ہوتا، مجھے اسی لیے کوئی مسئلہ درپیش نہیں، اسی لیے میں دباؤ کی کیفیت میں نہیں رہتا، جینے کے مقصد کے متعلق وہ پریشان رہتے ہیں، جو نتائج اپنی مرضی کے مطابق حاصل کرنا چاہتے ہیں، جب میں اپنے کام اور کوشش کے نتائج اپنی مرضی کے مطابق طلب ہی نہیں کرتا تو میرے جینے کا مقصد کیسے متعین ہوگا؟

اِس محفل میں جانے سے پہلے میں نے اللہ سے دعا کی تھی کہ میں بہت زیادہ پڑھا لکھا نہیں، اگر کسی نے مجھ سے کوئی ایسا سوال پوچھ لیا، جس کا میں شافی جواب نہ دے سکا تو اس سے میری اور میرے فن کی بے عزتی تو ہو گی، وہیں تیرے نبی ﷺ کے دین کی بھی بے توقیری ہو گی،اس لیے میری مدد کرنا، مالک نے شاید میری دعا قبول کر لی تھی، میرا جواب سن کر وہ امریکی محفل سے چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا‘‘۔

رشید بٹ عالمی سطح پر اپنی مقبولیت کے حوالے سے کہتے ہیں ’’خود میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ مجھ سے اچھا کام کرنے والے فارغ بیٹھے ہیں، جب کہ میری پذیرائی ہو رہی ہے، کیوں؟ میں نے اس بارے میں متعدد لوگوں سے پوچھا بھی، لیکن مجھے میرے سوال کا جواب تب ملا، جب میں نے اسلام آباد میں اپنا گھر بنایا۔ گھر کا کام جاری تھا، گیٹ کے سامنے ایک ٹیکسی رکی، اُس میں سے ڈرائیور نے اتر کر مجھ سے ایک گلی کا نمبر پوچھا، میں نے ڈرائیور کو راستہ سمجھا دیا،  اُسی ٹیکسی میں ایک اور موٹا سا شخص بیٹھا ہوا تھا، وہ بھی باہر نکل آیا، سلام دعا کے بعد پوچھنے لگا کہ یہ گھر آپ بنا رہے ہیں؟

میں نے کہا ، اللہ بنا رہا ہے جس نے یہ جہان بنایا ، اُس نے دوسرا سوال کیا، اِس میں رہے گا کون؟ میں ترنگ میں تھا کہا، بناتا کوئی ہے، رہتا کوئی ہے، یہ فیصلہ بھی اللہ ہی کرے گا۔ اُس نے کہا، کیا میں گھرکو اندر سے دیکھ سکتا ہوں؟ میں نے کہا ضرور دیکھیں۔ جب وہ بیسمنٹ سے ہوتا ہوا دوسری منزل کی چھت پر گیا، تو کہنے لگا اِس گھر کو بیچنا نہیں، اِس گھر میں تیری ماں کی دعائیں پھر رہی ہیں۔

اِس دوران مجھے ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا تھا کہ یہ سائیں منش ہے اور اِس کو بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور بڑے بڑے جرنیل اکثر اپنے پاس بلا کر باتیں کرتے رہتے ہیں، جب وہ شخص چلا گیا تو میری آنکھوں کے سامنے وہ سین گھومنے لگا، جب میری ماں جہلم میں ایک وبائی مرض کا شکار ہوگئی تھی۔1950 میںاس مرض کی وجہ سے ہر گھر سے جنازہ اٹھ رہا تھا، میں اُس وقت چھ سال کا یتیم بچہ تھا، میرے رشتہ دار مجھے والدہ کے قریب جانے نہیں دیتے تھے کہ کہیں مجھے مرض نہ لگ جائے۔

میرے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ میری والدہ کو گاؤں شفٹ کر دیا جائے تاکہ دوسرے لوگ وباء سے محفوظ رہیں، گاؤں جا کر والدہ نے آہ و زاری شروع کردی کہ رشید کو بلاؤ، رشتے داروں نے بہت انکار کیا مگر جب ماں نے بہت اصرار کیا تو وہ مجھے گاؤں لے گئے اور والدہ کی چارپائی سے کافی فاصلے پر کھڑا کرکے میری والدہ سے بات کرائی۔ دو دن کے بعد والدہ اللہ کو پیاری ہو گئیں، جب میں اُن سے بچھڑ رہا تھا، تو اُن کی آنکھوں میں جو درد اور محبت میرے لیے موجود تھی، وہ دعا کی شکل میں آج تک میرے ساتھ ہے‘‘۔

معروف کیلی گرافر رشید بٹ ایک بارحضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے مزار پرگئے اورآنکھیں بند کر کے تسبیح کر نے لگے ۔آنکھ کھولی تو دیکھا کہ ایک سفید کپڑوں والابزرگ کھڑا ہوا ہے اور لوگ جھک جھک کے اُس سے مل رہے ہیں۔ سوچا، بھیڑ کم ہو توان سے ملاقات کرنی چاہیے، آنکھیں بند کردوبارہ تسبیح شروع کر دی، پونے گھنٹے بعد جب بٹ صاحب فارغ ہو ئے تو بزرگ وہاں نہیں تھے۔ سوچا، گڑبڑ ہو گئی۔ جب نظر دوڑائی تو وہ بزرگ مسجد کے ایک ستون کے نیچے بیٹھے تھے۔

یہ اُن کے پاس چلے گئے اورسوچنے لگے کہ عربی میں بات کی جائے یا انگریزی میں؟ عربی میں کہا ’’میں رشید ہوں اور آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں، پاکستان سے آیا ہوں‘‘۔ بات سن کر بزرگ اردو میں بولے، اردو میں بات کیوں نہیں کرتے؟ یہ ڈر گئے اور سہم کر پوچھا ’’آپ پاکستان سے ہیں؟ بزرگ نے جواب دیا، الحمداللہ ، پشاور سے تعلق ہے۔ آپ کتنے عرصے سے یہاں ہیں؟جس عقیدت سے عراقی لوگ آپ سے مل رہے تھے، وہ میرے لیے حیرت انگیز تھا؟

بزرگ مسکرائے اور کہا ’’میں چالیس سال پہلے یہاں آیا تھا اور پھر واپس نہیںجا سکا، عرض کیا قبلہ میں خطاط ہوں اور ایک کام شروع کرنے والا ہوں دعا کر دیں‘‘۔ بزرگ نے بٹ صاحب کے کندھے پر تین بار ہاتھ مار کر کہا ’’جاؤ سب ٹھیک ہوگا، اور سچ مچ سب ٹھیک ہو گیا۔ میں آپ کو کیا بتاؤں کہ اب مجھے اللہ کی رحمت واضح محسوس ہوتی ہے، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ میں اِس عمر میں بھی کوئی دوا نہیں کھاتا، جسمانی لحاظ سے تندرست ہوں‘‘۔

رشید بٹ نے 1961 میں کیلی گرافی سیکھنا شروع کی۔ اُس وقت اُن کی عمر 17 سال تھی۔ خواجہ محمود اختر سے تین ماہ میںخطاطی سیکھی۔ خواجہ صاحب، حضرت تاج الدین زریں رقم کے شاگرد تھے ’’میں نے ان جیسا شفیق استاد کوئی اور نہیں دیکھا البتہ ایک بار پِٹا تھا، بات یوں ہے کہ مجھ سے لفظ ’’نون‘‘  کا نقطہ صحیح مقام پر نہیں لگتا تھا، اُن کے قریب بیٹھ کر لکھتا، تو نقطہ درست جگہ پر بیٹھتا تھا، وہ موجود نہ ہوتے اور میں لکھتا تو نقطہ صحیح مقام پر نہ پڑتا، دودن تو انہوں نے برداشت کیا لیکن تیسرے دن ایک کراری سی چپت رسید کردی، اُن کا ہاتھ خاصا بھاری تھا، کہنے لگے اب تُو کبھی نقطے کی جگہ نہیں بھولے گا۔

اس کے بعد میں نے لاکھوں ’’نون‘‘ لکھے، جب بھی نون کا نقطہ ڈالنے لگتا ہوں، استاد محترم کی بات یاد آ جاتی ہے۔ اِس کے بعد میں نے حافظ شمس الدین صدیقی صاحب سے مزید سیکھنے کے لیے رابطہ کیا۔ انہوں نے بھی بہت شفقت سے خطاطی کے اسرار ورموز سکھائے۔ ایک دن میں چلتا پھرتا لاہور میں فیروز سنز کے کتب خانے کی طرف جا نکلا، وہاں مجھے کیلی گرافی کے بارے میں ایک کتاب نظر آئی۔ افغانستان کے کسی مصنف کی لکھی ہوئی اس کتاب کی قیمت 200 روپے تھی۔ میرے پاس 180 روپے تھے، میں نے ان سے کہا کہ 100 روپے ایڈوانس رکھ لو، اگلے ہفتے باقی رقم دے کر کتاب لے جاؤں گا۔

انہوں نے انکار کر دیا۔ میں مایوس ہو کر حافظ صاحب کے پاس چلا آیا، میرا اترا ہوئے چہرہ کو دیکھ کر انہوں نے پوچھا، تو میں نے ماجرا سنا دیا۔ انہوں نے میری بات کو تحمل سے سنا، وہ چاہتے تو مجھے کتاب خرید کر دلا سکتے تھے، حد درجے فیاض بھی تھے مگر چپ رہے، پھر کچھ لمحوں کے بعد بولے، رشید کتابوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دے۔ پہلے خود کچھ بن جا، یہ کتابیں تیرے پاس خود چل کر آیا کریں گی۔ آج میرے پاس سیکڑوں کتابیں ہیں، یقین کریں، پانچ پانچ سو ڈالر تک کی کتابیں خود چل کر آئی ہیں۔ اگر میں انہیں حافظ شمس الدین صدیقی رحمتہ اللہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا، ان کی کہی ہوئی بات پوری ہوئی‘‘۔

رشید بٹ نے خطاطی کے فن کی ایک باریکی کے بارے میں بتایا کہ دنیا میں آج کل کیلی گرافی بہت تیزی سے مقبول ہو رہی ہے مگر یہ فن ریاضت کا متقاضی ہے، اس کا ہاتھ کی بناوٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ تخلیقی صلاحیت ہر انسان کو اللہ نے ودیعت کر رکھی ہے، یہ بندے پر منحصر ہے کہ وہ اُس صلاحیت کو استعمال کرتا ہے یا نہیں۔ میرے خیال میں جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا، اپنی پہچان، اپنی صلاحیتوں کی پہچان ہے، کیا ہوں، کیا کر سکتا ہوں اور کیا نہیں کر سکتا؟

جو شخص اِس پہچان کے بعد بھی وہ کام نہیں کرتا ،جس کا وہ اہل ہے، تو ہمیشہ گھاٹے میں رہتا ہے، مثلاً میں نے جب اپنے آپ کو بطور خطاط پہچانا تو میرے اندر سے آواز آئی کہ اگر اللہ نے تجھے اس کام کے لیے چنا ہے، تو اب اللہ کے اس فیصلے کو ثابت کرنے کے لیے محنت کر، یقین کریں اس کے بعد میں نے صرف 6 سے 10 ماہ کے اندر اتنا کام کیا کہ وہی میری پہچان بن گیا۔ اُس عرصے میں میرے پاس اتنا کام تھا کہ صبح 9 بجے سے رات 2 بجے تک میرے دروازے پر دستکیں رہتی تھیں۔ فراز جیسا شاعر بیس دن میری دہلیز سے چمٹا رہا، جب اُس کی کتاب کی کتابت مکمل ہوگئی تو گیا۔

اِس کے بعد میں نے مزید محنت کی تو پورے ملک میں میری شہرت پھیل گئی۔ 1968 میں کچھ لوگوں کو پرائیڈ آف پرفارمنس ملا، اُن میں سے ایک شخص کو میں جانتا تھا، اُسے دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ یہ اعزاز مجھے بھی ملنا چاہیے، میں نے مزید محنت کی تو مجھے بھی مل گیا۔ اِس کے بعد عالمی شہرت کا خیال دل میں آیا تو اللہ نے اپنی صفت ’’مسبب الاسباب‘‘ کے تحت میری راہ آسان کر دی۔ جب میں نے یہ منزل بھی طے کر لی تو سمجھ میں آیا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو انعام سے نوازتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اُس انعام کے اثرات بندے میں دنیا کو نظر آئیں، اُسے دیکھ کرلوگ کہیں اِس پر تو اللہ کا فضل ہے، میں اِس منزل سے بھی گزرا ہوں‘‘۔

رشید بٹ نے خطاطی کی مختلف اقسام سے متعلق ایک سوال کا یوں جواب دیا ’’آپ ﷺ کے دور میں جو خط لکھا جاتا تھا، اُسے خطِ ہیری کہاجاتا تھا، ’ہیری‘ ہیرا  (Haira) سے نکلا ہے اور ہیرا عراق کے ایک علاقے کا نام تھا، اسی میں کوفہ بھی شامل تھا۔ آپ کے زمانے میں یہ علاقہ علم و فضل کا گہوارہ تھا۔ جب حضرت علیؓ نے کوفہ کو مسلمانوں کا دارالخلافہ قرار دیا، تو اُس وقت یہاں خط ہیری عروج پر تھا، جب کوفی خطاطوں نے اس میں متعدد اضافے کیے تو یہ آہستہ آہستہ خطِ کوفی کہلانے لگا۔

عالمی شہرت یافتہ کیلی گرافر رشید بٹ کا داتا دربار کی مسجد میں کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آج کل وہ اسلام آباد میں حضرت شاہ عبداللطیف بری سرکار کے مزار پر ’کام‘ کر رہے ہیں، یہ کام نئی ٹیکنالوجی کے تحت ہورہا ہے۔

پاکستان میں خط نستعلیق کی جگہ خط نسخ کو نصاب کی کتب میں رائج کرنے کے حوالے سے کہنے لگے ’’یہ فیصلہ جس نے بھی کیا، اُس نے پاکستانی بچوں کی ہینڈ رائٹنگ تباہ کر کے رکھ دی، اُس وقت کے ارباب اختیار کو کوئی سمجھانے والا نہیں تھا کہ خط نسخ کو تو عربوں نے بھی لکھنے پڑھنے کے لیے منتخب نہیں کیا تھا، یہ خط پیغام پہنچانے کے لیے تھا مگر ہمارے ذہنوں پر ایک جعلی سے غلبۂ اسلام نے نصاب کی عبارت کو نسخ میں بدل دیا اور جب اس کا خاطر خواہ فائدہ نظر نہ آیا تو افسرشاہی نے خطاط کو حکم دیا کہ نسخ اور نستعلیق کو مکس کرکے کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے، اُس سے مزید مسئلے پیدا ہوگئے، آخر کار دوبارہ خط نستعلیق کو جاری کرنا پڑا کیوں کہ خطِ نسخ نے بچوں کو پڑھنے لکھنے سے دور کر دیا تھا، میں اُن دنوں پاکستان ٹیلی ویژن میں تھا ، مجھے بھی حکم ملا تھا کہ نستعلیق کی بجائے نسخ میں لکھنا ہے۔

بچوں نے جب نسخ کے بجائے دوبارہ نستعلیق میں سیکھنا اور لکھنا شروع کیا تو ایک بار پھر مسائل کا شکار ہوگئے، اس طرح چند سال میں قوم کے بچوں کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ ہم تو پہلے ہی قوم نہیں تھے کیوں پاکستانیوں کو ایک قوم بنانے کے لیے کسی رہنما نے آج تک کام نہیں کیا، ہم آج بھی (بھٹکے ہووں کا) ہجوم ہیں۔ میں نے جو دیکھا وہ یہ ہے کہ قائداعظمؒ کے بعدکسی حکم ران نے قوم کو ترقی کے راستے پر لے جانے میں رتی برابر دل چسپی نہیں لی‘‘۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔