سرزمین انبیاء لہو لہو

عابد محمود عزام  پير 10 دسمبر 2012
عابد محمود عزام

عابد محمود عزام

فلسطین،جسے سرزمین انبیاء کہا جاتا ہے۔ اسے ایک دو نہیں ،کئی انبیاء و رسل کا مسکن بننے کا شرف حاصل رہا ہے۔ یہ مقدس سرزمین اپنی عزت وعظمت کے باوجود لہو لہو ہے۔ عرصہ دراز سے یہاں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ آئے روز یہود اہل اسلام کا قتل عام کرتی ہے۔ نہ صرف جوانوں کو بلکہ مسلم خواتین و بچوں کو بھی تہ تیغ کردیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں اسرائیل نے ایک بار پھر بے تحاشا بمباری کر کے سیکڑوں معصوم ونہتے فلسطینیوں کو شہید کردیا، ہزاروں پوری زندگی کے لیے معذور ہو گئے۔ آگے بڑھتے ہوئے اس داستان الم کی جھلکیاں ملاحظہ کیجیے۔’’ جہاد مشراوی‘‘ایک فلسطینی شہری ہے۔ وہ اپنے گیارہ ماہ کے بچے ’’عمر مشراوی‘‘ کی جلی ہوئی لاش اٹھائے ہوئے ہے۔

عمر ایک اسرائیلی حملے میںشہید ہوا ہے۔ کسی بھی باپ سے آپ پوچھیں تو وہ یہی کہے گا: ’’ان کے بچے خوبصورت ہیں، لیکن عمر تو ’’پوسٹر بے بی‘‘ یعنی کسی کتابی تصویرکی مانند تھا۔‘‘ وہ ایک گول مٹول بچہ نیلے لباس میں ملبوس ہے۔ کالی آنکھیں، چوڑی پیشانی، نفیس بھورے بال جو اس کی پیشانی تک آ رہے تھے، لیکن اسے بھی ظالم صہیونیوں نے بے دردی سے شہید کردیا۔ گیارہ ماہ کے اس ننھے شہیدنے تو ابھی صرف مسکرانا سیکھا تھا۔ عمر کو ابھی صرف دو الفاظ’’ بابا‘‘ اور ’’ماما‘‘ کہنے آتے تھے۔ اسی ننھے سے پھول کی ایک تصویر اس کے والد کے پاس ہے جو کہ ایک دلدوز چھوٹی سی جلی ہوئی مسخ شدہ لاش کی ہے۔ اس میں عمر کا مسکراتا گلاب سا چہرہ جو تقریباً جل چکا ہے۔ وہ بال جو اس کی پیشانی پر جھوما کرتے تھے، اب اس جلے سر سے چپکے ہوئے ہیں۔’’جہاد‘‘ کا چار سالہ بیٹا علی بھی ہے۔ جو اکثر پوچھتا ہے کہ اس کا چھوٹا بھائی عمر کہاں چلا گیا ہے؟

ایک اور تصویر دیکھیے۔ پانچ سالہ شہید بچی کی لاش چار پائی پر رکھی ہے۔ یہ اسرائیلی راکٹ حملے میں شہید ہو چکی ہے۔ اس کا تین سالہ بھائی اس کی چار پائی کے نزدیک کھڑا اپنی بہنا کو زور زور سے پکارتے ہوئے کھیلنے کی دعوت دے رہا ہے۔ اس بچے کو یہ نہیں معلوم کہ اس کی بہن اب کبھی بھی نہیں اٹھے گی، کیونکہ اسرائیلی جارحیت نے اسے ہمیشہ کی نیند سلادیا ہے۔ ادھردیکھیے۔ یہ متحدہ عرب امارات کے اخبار ’’گلف نیوز‘‘ کا پہلا صفحہ ہے، جس پر ایک بڑی سی تصویر ہے۔ اس میں چار معصوم فلسطینی بچوں کی لاشیں نظر آرہی ہیں۔ دو لڑکے ہیں اور دو لڑکیاں۔ چاروں کی عمریں چھ اور دس سال کے درمیان ہیں۔ چاروں نے سردیوں سے بچنے کے لیے رنگین سوئٹر پہن رکھے ہیں۔ دو کی آنکھیں نیم وا ہیں اور دو کی بند۔ ان کے گورے بازوؤں اور دودھیا چہروں پر خون کے بڑے بڑے دھبے نمایاں ہیں۔ تصویر ایک ہی خاندان کے چار بچوں کی ہے جو غالباً بہن بھائی ہیں۔

آخراسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والے ان بچوں کا کیا قصور تھا؟مشرقی یروشلم میں ہر روز کسی فلسطینی بچے کو پولیس پکڑ کر لے جاتی ہے۔ انھی میں یہ گیارہ سالہ ’’اودھے‘‘ ہے جو اب تک چار مرتبہ اسرائیلی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوچکا ہے۔ یہ اور اس جیسے مناظر فلسطین میں آئے روز پیش آرہے ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ان مظالم کا پس منظر کیا ہے؟ ان سنگین احوال پر افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بہیمیت کے تاریخی حوالے ضرور ذہن نشین ہونے چاہییں تاکہ ہم کسی موثر اقدام کی طرف بڑھ سکیں۔ ہوا یوں کہ اعلان بالفور کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فیصد بھی نہ تھی۔ 1917ء میں یہودی آبادی جو صرف 25 ہزار تھی 1939ء تک ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ صہیونی ایجنسی نے فلسطین میں یہودیوں کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی طریقے سے بے تحاشہ گھسانا شروع کیا۔ مسلح تنظیمیں قائم کیں اور ہر طرف مار دھاڑ کر کے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکیت کی حد کر دی۔

نومبر1947ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کیا۔ تقسیم کی جو تجویز مختلف ہتھکنڈوں سے پاس کرائی گئی، اس کی رو سے فلسطین کا 55 فیصد رقبہ 33 فیصد یہودی آبادی کو اور 45 فیصد رقبہ 67 فیصد عرب آبادی کو دیا گیا۔ یہودی اس تقسیم سے بھی راضی نہ ہوئے اور انھوں نے قتل و غارتگری کا بازار گرم کر کے ملک کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ دیریا سین میں 9 اپریل 1948ء کو عرب عورتوں، بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس نکالا گیا۔ یہودی لاؤڈ اسپیکر لگا کر جگہ جگہ یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے :’’ہم نے دیریا سین کی عرب آبادی کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے۔ اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو تو یہاں سے نکل جاؤ۔‘‘ 14 مئی 1948ء کو یہودی ایجنسی نے رات دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا۔

اس اعلان کے وقت تک 6 لاکھ سے زیادہ عرب گھر سے بے گھر کیے جا چکے تھے۔ اقوام متحدہ کی تجویز کے بالکل خلاف ’’بیت المقدس‘‘ کے آدھے سے زیادہ حصے پر اسرائیل قبضہ کر چکا تھا۔ تسلط و طاقت کے نشے میں مدہوش اسرائیل نے 1967ء میں پورے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور مقامی باشندوں کو بے دخل کر دیا۔ یوں اس سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن،لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔14 مئی 1948ء کو دنیا پر ناجائز وجود پانے والی بدمعاش ریاست اسرائیل کے حکمرانوں نے اپنے قیام کے 64 برسوں میں خون آشامیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے، تاریخ کے صفحات اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ کون سا ظلم ہے جو مقدس فلسطین کے بے گناہ، معصوم اور مظلوم باسیوں پر روا نہیں رکھا گیا۔ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نہتے فلسطینی پتھروں اور غلیلوں سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ ارض فلسطین کی آزادی کے لیے 64 برسوں میں ہزاروں قیمتی لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔دنیا میں57 اسلامی ممالک ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کسی کو فلسطین میں اسرائیل کی دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ نجانے کیوں ایک ارب کے لگ بھگ مسلمان بھی بے حس و بے بس ہوچکے ہیں۔خدا جانے کب فلسطین پہ چھائی ظلم کی شام صبح میں بدلے گی؟

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔