افلاس کے مارے لوگ

جاوید قاضی  جمعـء 30 ستمبر 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یوں تو دوستووسکی کے ناول کا نام Insulted and Injured یا اردو میں ’’ذلتوں کے مارے لوگ‘‘ ہے۔ حقیقتاً وہ اس کی جڑ افلاس میں دیکھتا ہے۔ افلاس جو خدا کی نہیں انسانوں کو انسانوں کی طرف سے ملی ہے۔ وہ افلاس جو چند سکے خیرات میں دینے سے نہیں جاتی بلکہ بنیادی ڈھانچے و سوچ کی تبدیلی سے جاتی ہے۔

ریاست کی نفسیات میں اس کے قانون کے پس منظر میں وہ قانون جو عمل میں ہے وہ نہیں جو ہم نے آئین کی صورت میں دیا ہے اور اس پر عمل نہ ہونے کی کوکھ سے پھوٹتی ہے افلاس ، وہ افلاس جو دنیا کے نظام سے ابھرتی ہے۔ سرمایہ اور اس کی سوچ کے پروان سے ابھرتی ہے۔ جنگی جنون کی کوکھ سے پھوٹتی ہے۔ محب وطن و غدار کی سوچ سے نمودار ہوتی ہے۔

کسے کیا خبر جب پیٹ میں روٹی نہیں ہوتی تو تپتا سورج بھی تندور سے تازہ نکلی روشنی کی مانند لگتا ہے۔ بین کرتے ہوئے بچے جب آنگن میں بھوک سے بدحال پڑے ہوتے ہیں گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑا ہوتا ہے یا خدا ’’کیا اس لیے یہ دھرتی کا گولا تم نے بنایا تھا‘‘ بیماریوں سے لدے اجڑے لوگ جو دنیا کی کل آبادی کے آدھے ہوں گے۔

یہ خدا نے تو نہیں کہا کہ تم غریب ہو اور وہ امیر، جو امیر ہے وہ ان میں 90 فیصد میرٹ سے امیر نہیں بنے اور جو غریب ہے اس میں 90 فیصد قسمت سے غریب نہیں بنے۔ ریاست کی لاپرواہی سے بنے ہیں۔

شام اجڑ گیا۔ دنیا کے امیر ملکوں کی لاپرواہی خود غرضی سے اور اپنے حکمرانوں کی وجہ سے۔افریقہ خانہ جنگیوں کی نذر ہوگیا اور گدھوں vultures نے وہاں ڈیرا ڈال دیا ہے ۔ پناہ گزینوں کے قافلے ہیں جو در بدر بھٹک رہے ہیں ان کے گھر شام میں اجڑ گئے اور پرانے سوشلسٹ بلاک یورپی ممالک سربراہ اور وہ لوگ کہتے ہیں ان میں سے صرف کرسچن یہاں آئیں نہ کہ مسلمان۔‘‘

اور بالآخر امریکا میں بھی ایک ٹرمپ نامی شخص جمہوریت کی کوکھ سے ظہور پذیر ہوتا ہے جو ہٹلر کی طرح نعرے اور نفرتیں بیچتا ہے۔ ادھر روس میں پوتن نامی شخص ابھرتا ہے جو انسانیت کی انسیت سے بھی عاری ہے اور اگر یہ ماجرا دیکھنا ہو تو ذرا اس کی فوجوں کو گروزنی و چیچنیا کے بعد شام میں دیکھو۔ اب تو ہر روز نعرے بیچے جاتے ہیں۔ عزت و غیرت کے نعرے۔ جس طرح غریب غیرت میں آکر اپنے گھر میں رہتی عورت کو کالی کرکے مار دیتا ہے۔

موئن جو دڑو پر غیرت کے نعرے بیچے جاتے ہیں۔ عجیب محب وطنی کے تمغے سجائے جاتے ہیں مگر اصل حقیقت افلاس ہے۔ بھوک میں رہتی اماں اپنے بچوں کے پاس بیٹھی کیا جانیں کہ محب وطنی کیا ہے۔ کیا جانیں کہ غیرت کیا ہے عزت کیا ہے۔ باغیرت و بے غیرت کیا ہے۔ افلاس کے مارے لوگ ہی ذلت کے مارے لوگ ہوتے ہیں۔

اور اب لائن آف کنٹرول پر پھر کچھ بے منزل خوابوں کا خون ہوا ہے اور اس پر ابھرتی ہے مودی سرکار کی اکھنڈ بھارت کی کہانی۔ بندے ماترم کی کہانی۔ معاملہ سرحد کی طرف اس پار نہیں ہے۔ ادھر بھی ہے۔ آگ ہے دونوں جگہ برابر لگی ہوئی۔ وہاں دہقانوں کی خودکشیاں ہیں اور یہاں آئے روز خبر ہے کہ ایک ماں نے اپنے بچوں کو پہلے مارا پھر خود کو بھی ماردیا۔ افلاس کے مارے، ذلتوں کے مارے، ظلمتوں کے مارے۔

سنا ہے لائن آف کنٹرول پر گولوں کی گرج ہے، دھواں دھواں سا فلک ہے۔ گولیوں کی بارش ہے چیرتی چبھتی سینوں سے گزر گئیں اور مودی سرکار اکھنڈ بھارت، بندے ماترم کے خواب لوگوں کو مقتل میں لے کے بیٹھی ہے۔ جنگ کے طبل بجا رہی ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح ہٹلر نے بجائے تھے۔ فرق صرف زماں و مکاں کا ہے۔

ہم حکمرانوں کو غدار کہتے ہیں۔ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے اندر امن کی آرزو رکھتے ہیں۔ اور وہ مودی کو محب وطن کہتے ہیں۔ اب آپ ہی جانیے، ’’اے دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے‘ آخر اس مرض کی دوا کیا ہے۔‘‘

وہ ہندوستان کی غدار ہے جسے ہم اروند دھتی رائے کے نام سے جانتے ہیں ۔ وہ جو کہتی ہے کہ کشمیر کو آزاد کرو، وہ جو چبھتی ہے کانٹے کی طرح مودی و انتہا پرستوں کے دل ودماغ میں۔ لیکن نڈر اروند دھتی رائے کو کوئی فکر نہیں کہ وہ آج کے لیے نہیں وہ تو رقم ہونے کے لیے ہے ۔ تاریخ کی طرف کھڑی ہے۔

تبھی تو فیض نے کہا تھا ’’آج بازار میں پہ بجولاں چلو ان کا اپنے سوا ماسوا کون ہے، شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے، رخت دل باندھ لو، دل فگارو چلو، پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو۔‘‘ غربت کے سرطان میں غرق ہندوستان و پاکستان میزائلوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ کتنے سادہ ہیں کہ وہ حقیقت سے منکر ہیں۔

یہ سب افلاس کے سوداگر ہیں یہ سب غربت بیچتے ہیں۔ اسکولوں کو اسپتالوں کو بھسم کرتے ہیں۔ یہ سب شعلہ بیاں مقرر ہیں۔ لفظوں سے کچلتے ہیں۔ لیکن لفظوں سے اسکول تو نہیں بنتے اسپتال تو نہیں اگتے۔ افلاس تو نہیں مرتا۔ بس صرف افلاس زدہ مرجاتے ہیں۔ خواب مر جاتے ہیں، کھلونے ٹوٹ جاتے ہیں، بچے یتیم ہوجاتے ہیں۔

آپ بیچیے جنگوں کو بیچیے، دھوم دھام سے، ڈنکے کی چوٹ پہ بیچیے۔ کتنا آسان ہے محب وطن بننا۔ کتنا مشکل ہے سچ بولنے پر کنکریاں کھانا ، غدار کے لبادے اوڑھے ’’روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں رلائے کیوں۔‘‘

’’سرحد پر کل رات سنا ہے چلی تھی گولی سرحد پر کل رات سنا ہے کچھ خوابوں کا خوں ہوا تھا۔‘‘

پاکستان ایک حقیقت ہے تو ہندوستان بھی ایک حقیقت ہے۔ نہ وہ ٹوٹتا ہے نہ یہ ٹوٹتا ہے۔ اپنے اصلی مسائل پر توجہ دو نا کہ اس سے بھاگنے کے لیے جنگوں کو بے لگام کرو اور پناہ لو حب الوطنی میں۔ اس حب الوطنی میں تو پھر بھیڑیے بھی پناہ لیتے ہیں اور جو پھر غداری کے نام سے سولی چڑھ جاتے ہیں تاریخ انھیں پھر کسی اور نام سے رقم کرتی ہے۔

آئیے ہندوستان پاکستان اپنے آیندہ کی نسلوں میں امن کاری کریں۔ نہ ہندوستان کے لوگ جنگ چاہتے ہیں نہ پاکستان کے لوگ جنگ چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔