بارڈر مینجمنٹ کے ساتھ واٹر مینجمنٹ بھی ضروری!

شبینہ فراز  اتوار 2 اکتوبر 2016
پاکستان کو خدشہ ہے کہ یہ افغان پروجیکٹس پاکستان کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان کو خدشہ ہے کہ یہ افغان پروجیکٹس پاکستان کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان ہر قیمت پر افغانستان کے ساتھ بارڈر مینیجمنٹ چاہتا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اس سرحد پر پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ تیس لاکھ مہاجرین گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

بارہ جون رات دس بجے طورخم پر افغانستان کی طرف سے فائرنگ کی گئی جس میں پاک فوج کے ایک میجر شہید ہوگئے تھے۔ ان حالات میں پاکستان کا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں کی ناموس کی مکمل پاس داری کی جائے اور سفری دستاویزات کے بغیر آمدورفت ناممکن قرار دی جائے اور یہ کہ وہ طورخم بارڈر پر گیٹ تعمیر کرکے کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کررہا۔ یاد رہے کہ پاکستان افغانستان کے بارڈر پر 78 کراسنگ ہیں۔

بی بی سی کے مطابق 123 برس قبل طے پاجانے والے معاہدے کے مطابق تقریباً 2200 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔

افغانستان سے سرحدی تنازعات کے باعث ہم اپنی سرحدوں کے حوالے سے محتاط ہوچکے ہیں اور ہر قیمت پر بارڈر مینیجمنٹ چاہتے ہیں۔ اسی طرح شاید ارباب اختیار کو اندازہ ہو کہ افغانستان کے ساتھ آگے چل کر آبی تنازعات بھی سر اٹھاسکتے ہیں، کیوںکہ افغانستان میں یہ تاثر اب عام ہوچکا ہے کہ افغانستان کی ترقی کو لاحق تمام مسائل کا حل صرف آب پاشی اور توانائی کے شعبوں پر ہی منحصر ہے اور نیز یہ کہ ان دونوں شعبوں کی ترقی کے لیے پانی کی وافر مقدار میں دست یابی کا واحد حل ڈیموں کی تعمیر ہے۔

افغانستان کے اہم آبی منصوبوں میں سے ایک کابل، انڈس بیسن ترقیاتی منصوبہ ہے۔ افغانستان کا اہم ترین دریا، دریائے کابل اور اس کے معاون دریا افغانستان سے نکلتے ہیں اور مشرق کی جانب سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ دوسرا اہم دریا، دریائے کنر ہے، جو دریائے سندھ کا سب سے بڑا معاون دریا ہے۔ افغانستان کی کئی مغربی نہریں یا معاون دریا، دریائے کنر سے ملتے ہیں، جو پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے جلال آباد سے گزرتا ہے۔ دریائی طاس سے افغانستان کو 25 فی صد پانی فراہم ہوتا ہے، جس میں سے75 فی صد صرف دریائے کنر فراہم کرتا ہے۔

افغان حکومت نے2003ء میں 12آبی منصوبے یا ڈیم تعمیر کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ ان ڈیموں کی تعمیر کا بنیادی مقصد آبی توانائی کا حصول ہے، ان ڈیموں سے ممکنہ طور پر 1,890 میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکے گی اور 16,400 ہیکٹر زمین سیراب ہوسکے گی، جب کہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ جائے گی اور سطح زمین پر دست یاب سالانہ پانی (Surface Water)کی دست یابی میں 3 سے 24 فی صد اضافہ متوقع ہوگا۔

ان ہائیڈرو پاور پروجیکٹس سے افغانستان میں بجلی کی طلب ورسد کے درمیان فرق کم ہوگا۔ اس وقت افغانستان میں پیدا کی جانے والی بجلی کی مقدار 670 میگاواٹ ہے جب کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے درکار بجلی کی مقدار 3,571 میگاواٹ ہے۔ ان منصوبوں سے افغانستان کی کان کنی کی صنعت کو بھی درکار پانی میسر آسکے گا، واضح رہے کہ کان کنی کی صنعت افغانستان کی معاشی ترقی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ کابل میں شہریوں کو گھریلو استعمال کے لیے بھی پانی میسر آسکے گا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے ایک طویل عرصے سے حکومت پاکستان اور متعلقہ ادارے تشویش سے دوچار ہیں۔ ہمارے آبی ماہرین 2003ء سے ہی ان افغان منصوبوں کے حوالے سے آواز اٹھا رہے ہیں کہ اگر افغانستان نے دریائے کابل پر بڑے ڈیم تعمیر کیے تو ہمارے پاس نئے ڈیم بنانے کے لیے پانی نہیں ہوگا۔ اس صورت حال میں پاکستان کی حکومت، پاکستان کے آبی حقوق کے تحفظ اور مستقبل میں تنازعات سے بچنے کے لیے افغانستان سے ایک معاہدے کی ضرورت پر زور دے رہی ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے مابین آبی وسائل کے تنازعات سے بچنے کے لیے عالمی تنظیموں مثلاً ورلڈ بینک اور یو ایس ایڈ نے بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان آبی شراکت کے معاہدے کے خیال کی حمایت کی اور 2006ء میں ورلڈ بینک نے دونوں ممالک کے درمیان مشاورت اور مصالحت کی پیشکش بھی کی لیکن افغان حکام نے پانی کے حوالے سے اعدادوشمار کی عدم موجودگی اور صلاحیتوں کی کمی کا کہہ کر انکار کردیا۔

اس حوالے سے کئی عالمی سروے اور رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پانی کی کمی ، دونوں پڑوسیوں کے مابین جلتی پر تیل کا کام کرسکتی ہے اور ایک خطرناک تناؤ جنم لے سکتا ہے، لہذا صورت حا ل کو بگڑنے سے بچانے کے لیے کئی بین الاقوامی اداروں نے پانی کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان بین السرحدی ڈائیلاگ کے لیے مشترکہ کوششیں شروع کی تھیں لیکن خارجہ امور اور توانائی و پانی کی وزارت سے وابستہ سنیئر افغان حکام نے پانی کے حقوق سے متعلق کوئی بھی گفتگو کرنے سے انکار کردیا، حتیٰ کہ انہوں نے بین السرحدی اثرات مطالعے سے بھی انکار کردیا۔

افغانستان میں اثرورسوخ کے لیے پاکستان اور بھارت مقابلہ پاکستان کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ ایک دہائی قبل مجوزہ12 افغان ڈیمز کے متعلق جو خدشات تھے ان کا تعلق اس بات سے تھا کہ بھارت مبینہ طور پر ان منصوبوں کی تکمیل میں افغان حکومت سے تعاون کر رہا تھا۔ بہت سے تحقیقی اداروں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کی افغانستان سے معاونت کے پس پردہ دو مقاصد کارفرما تھے، ایک تو یہ کہ افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھایا جائے، دوسری طرف پاکستانی کی جانب دریائی پانی کی فراہمی میں کمی کی جائے۔

پاکستان کو خدشہ ہے کہ یہ افغان پروجیکٹس پاکستان کے لیے ایک خطرہ ہیں۔

1999ء سے2010ء تک بگلیہار ڈیم کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات شدید اختلاف کا شکار رہے، جو جموں و کشمیر میں دریائے چناب پر تعمیر کیا گیا ہے۔ ایک بین الاقوامی آبی ماہر کے مطابق بھارت کے پاکستان کے خلاف آبی اقدامات کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو افغانستان کے منصوبوں کے حوالے سے نرمی نہیں دکھانی چاہیے تھی ۔

اس سارے پس منظر کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان آبی تعاون بہت مشکل نظر آتا ہے البتہ ایک آدھ کیس میں ایسا ممکن ہو چکا ہے اور یہ بات ہے اگست 2013ء میں نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے دو ماہ بعد، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خزانہ نے ایک معاہدے پر دست خط کیے جس کے تحت 1,200 میگاواٹ پیداوار کا ہائیڈروپاور پروجیکٹ دریائے کنرپر تعمیر کیا جائے گا۔ اس کی مالیت 2.7 بلین ڈالر ہوگی۔

یہ معاہدہ کابل میں غیرملکی مشیروں کے لیے ایک سرپرائز کی صورت میں سامنے آیا ۔ البتہ کئی غیرملکی مبصرین کے مطابق یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرنے کے لیے پہلا مثبت قدم ثابت ہوسکتا ہے۔

اس دوران پاکستان نے ورلڈ بینک سے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے مالی معاونت کی کوششوں کو جاری رکھا۔ 4,320 میگاواٹ کی پیداوار کا یہ پروجیکٹ چوںکہ دریائے سندھ پر واقع ہے، اس لیے یہ افغانستان کی جانب پانی کے بہاؤ کو متاثر نہیں کرتا، لیکن اس کے باوجود اس کی تعمیر کے حوالے سے افغان حکومت کو فروری 2014ء میں ابتدائی نوٹیفیکیشن بھیجا گیا۔

مارچ میں افغان نیشنل سیکیوریٹی کونسل نے داسو پروجیکٹ کے حوالے سے اعتراض اٹھایا۔ داسو اور دیا مر بھاشا ڈیم (دریائے سندھ پر) کی تعمیر سے پاکستان میں بجلی کے بحران کا دباؤ کم ہوگا۔ لہذا یہ بھی ممکن ہے کہ کنر دریا پر تعمیر ہونے والا ڈیم پاکستان کی ترجیحی فہرست سے خارج ہوجائے ۔

کنر ڈیم کے تعمیر نہ ہونے سے افغان پالیسی سازوں کی بڑی تعداد کے الگ تھلگ ہونے کا امکان ہے جو پہلے ہی پاکستانی کی طرف سے بداعتمادی کا شکار ہیں، اور جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ افغانستان کے مقابلے میں اس کے پڑوسی ممالک کے بڑے امداد دہندگان جیسے ورلڈ بینک وغیرہ سے زیادہ بہتر تعلقات ہیں۔

دہرے معیار کا خیال پہلے ہی ماہرین تعلیم اور سیاسی تجزیہ کاروں کے ذہنوں میں پروان چڑھ رہا ہے، جنہوں نے اس کا اظہار کابل میں منعقدہ ایک سیمینار کے دوران کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ورلڈ بینک ہائیڈرو پاور ڈیمز کی تعمیر کے لیے افغانستان کی فنڈز کی متواتر درخواستوں کو مسترد اور پاکستان کی قرضے کی درخواستوں کو منظور کرچکا ہے۔

ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ افغان حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ وسائل کو زبردستی حاصل کرنے کی حکمت عملی جاری رکھے گی۔ پاکستان مخالف اس حکمت عملی کے تحت River Basin پر سلمیٰ اور کمال خان ڈیم کی تعمیر میں مدد ملے گی جو ایران کے ساتھ شراکت داری پر مبنی ہیں، لیکن اس سب کے باوجود افغانستان کابل دریا پر صرف دو چھوٹے پروجیکٹس بنانے میں کام یاب ہوسکا ہے جس کے لیے مالی اعانت افغان حکومت ہی نے فراہم کی، یہ منصوبے اتنے چھوٹے ہیں کہ ان منصوبوں میں بین السرحدی مشترکہ آبی وسائل کا عنصر بھی نہیں ہے۔

اے آر ای یوAfghanistan Research and Evaluation Unit (AREU) کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی ایک بڑی تعداد اب افغانستان کی آبی حکمت عملی کے بارے میں سوالات اٹھا رہی ہے۔

افغانستان میں یہ عام خیال ہے کہ مجموعی طور پر گذشتہ دہائی افغانستان کے لیے کابل اور انڈس بیسن میں بین السرحدی آبی وسائل کی ترقی کے حوالے سے ضائع ہی گئی۔ لیکن اب بھی آبی منصوبوں کی تعمیر کے لیے ایک تعمیری اور نتیجہ خیز ڈائیلاگ کا آغاز کرنے میں دیر نہیں ہوئی۔ جیسے دریائے کنر کا منصوبہ جو کہ خاص طور پر دونوں ممالک کے لیے اشتراکی فوائد مثلاً سیلاب سے حفاظت، تلچھٹ سے حفاظت اور پن بجلی کے لیے اہم ذریعہ سمجھا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔