حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (دوسری قسط)

ذیشان الحسن عثمانی  ہفتہ 1 اکتوبر 2016
آپ مانیں یا نہ مانیں عورت ہمارے معاشرے میں ہر حال میں مظلوم ہے۔ اس غریب کے پاس ایک ریال نہیں ہوتا اور اگر وہ اپنے محرم سے بچھڑ جائے تو آدھا حج فون پر ایک دوسرے کو ٹریک کرنے میں ہی گزر جاتا ہے۔

آپ مانیں یا نہ مانیں عورت ہمارے معاشرے میں ہر حال میں مظلوم ہے۔ اس غریب کے پاس ایک ریال نہیں ہوتا اور اگر وہ اپنے محرم سے بچھڑ جائے تو آدھا حج فون پر ایک دوسرے کو ٹریک کرنے میں ہی گزر جاتا ہے۔

 

جدّہ آمد

PIA کی فلائٹ حیرت انگیز طور پر بہترین تھی صاف ستھری، شاندار کھانا، با ادب میزبان اور ہم چار گھنٹے، چالیس منٹ میں جدّہ پہنچ گئے۔

جہاز سے متصل واک وے پر چلتے ہوئے پوری فلائٹ کو ایک بڑے سے ہال میں بند کردیا گیا۔ ظہر پڑھ کر چلے تھے، ٹائم کے فرق کی وجہ سے عصر کا وقت باقی تھا سو ہینڈبیگ سے سفری جائے نماز نکالی اور نماز ادا کی۔ انتظار، انتظار، انتظار، یا اللہ یہ امیگریشن کب شروع ہوگی؟ مغرب پڑھ لی، عشاء پڑھ لی مگر امیگریشن شروع نہ ہوئی۔

جو لوگ لاہور اور پشاور سے اسلام آباد پہنچے تھے انہیں تو کافی وقت ہو چلا تھا گھر سے نکلے۔

مردوں کیلئے احرام کو سنبھالنا ایسا ہی ہے جیسا عورتوں کیلئے ساڑھی سنبھالنا۔ خصوصاََ جب وہ پہلی بار پہنی جائے۔ احرام ٹائٹ باندھا ہو تو ٹانگیں چلتے ہوئے نہ کھل پائیں۔ احرام ڈھیلا چھوڑو تو کھل جانے کا خطرہ۔

خیر کوئی 6 گھنٹے کے انتظار کے بعد امیگریشن شروع ہوئی۔

سُست روی اور کام کے دوران سیٹ سے اُٹھ کہ چلے جانے، SMS کرنے اور فون پر گپّیں لگانے کا عالمی مقابلہ ہو تو سعودی بلا مقابلہ فاتح قرار پائیں۔

لوگوں کی حالت پتلی تھی۔ حج کی قبولیت سے زیادہ خشوع و خضوع سے ہر ایک کی دعا تھی کہ امیگریشن سے جان چھوٹے اور ہوٹل پہنچ کر کچھ آرام کرسکیں۔

ایئر پورٹ سے نکلتے ہی موبائل سم حاصل کرنے کے کئی آؤٹ لیٹ نظر آئے۔ STC, Mobily اور Zain اور ایک مخلوق خدا جو سم لینے کیلئے قطار در قطار کھڑی تھی۔ عبد اللہ سوچنے لگا کہ ابھی کچھ گھنٹوں پہلے ہی تو گھر سے آئے ہیں۔ جہاز کو حادثہ ہوجاتا تو جیو نیوز گھر والوں کو بتا چکا ہوتا اور آپ اپنی موت کی کنفرمیشن کے قابل نہ رہتے۔ تھوڑا دم لے لو۔ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب آنے کا واحد مقصد سم کا حصول ہو۔

خیر، دیکھا دیکھی عبد اللہ بھی لائن میں لگ گیا۔ اسی وقت اس کے ضمیر نے انگڑائی لے کر آنکھیں کھول دیں۔

”کیوں عبد اللہ، کیا کر رہے ہو؟ سم لے لو، اچھی بات ہے۔ مگر دیکھو، انٹرنیٹ پیکیج ضرور لینا تاکہ فیس بک اپڈیٹ کرسکو اور انٹرنیشنل ڈائیلنگ اور SMS تو لازمی ہیں کہ فیملی سے in-touch رہ سکو۔ 1000 منٹ فی الحال کافی رہیں گے Talk Time کیلئے۔ بعد میں ری فل کروالینا۔“

عبداللہ نے اندازہ لگایا کہ یہ تو وہ فوکس لوز کر رہا ہے۔ ایک گھنٹہ سم لینے میں لگے گا تو ساڑھے سولہ گھنٹوں کا Talk Time توحج کب کروں گا؟ عبداللہ نے تہیہ کرلیا کہ وہ SIM نہیں لے گا۔ ایمرجنسی کی صورت میں وہ اپنے U.S. فون سے WhatsApp کردے گا۔

حج ٹور والوں نے تمام حاجیوں کا WhatsApp پر ایک علیحدہ گروپ بنا دیا تھا۔

بس ٹرمنل کی طرف روانگی ہوئی وہاں پاکستان حج مشن کے اسٹاف نے ریسیو کیا اور تمام حاجیوں کو کھانا پیش کیا۔ ایک جوس، ایک ڈبل روٹی، ایک ٹافی، ایک بسکٹ اور پانی کی بوتل۔

اب بس کا انتظار شروع۔ اتنے میں عبداللہ کے پاس ایک عرب آیا اور کہا کہ میں سعودی منسٹری کی طرف سے ہوں، میرے iPad  پر ایک سروے ہے آپ سے چند سوال پوچھ لوں؟ عبداللہ نے حامی بھر لی۔

اُس نے عربی سروے فِل کرنا شروع کردیا۔ وہ انگریزی میں سوال کرتا اور عربی میں ِفل کرتا۔

سوال: آپ کو جدہ ایئرپورٹ پر ویکسین لگی؟

نہیں۔

نہیں سنتے ہی عربی نے ٹائپ کرنا چھوڑ دیا اورکہنے لگا میں بعد میں فل کرلوں گا۔ عبد اللہ نے مسکراتے ہوئے کہا، کوئی بات نہیں میں سمجھ سکتا ہوں، آپ نے PTV نیوز کی طرح سب اچھا ہے کی ہی رپورٹ کرنی ہے۔

سوال: کیا باتھ روم صاف تھے؟

جی نہیں

سوال: کیا بس ٹرمینل پر باتھ روم صاف ہیں؟

جی میں ابھی یہاں گیا نہیں۔

سوال: کیا آپ 2 گھنٹوں میں باہر آگئے تھے؟

جی، 6 گھنٹوں میں۔

سوال: کیا امیگریشن آپ کی توقعات سے بڑھ کر تھا؟

جی بالکل، اتنے سست رفتار تو ہمارے سرکاری ملازم بھی نہیں ہوتے۔ کہیں مسئلہ کشمیر آپ کے ہاتھ میں تو نہیں ہے؟

عربی مع اسلامۃ کہے بغیر واپس چلا گیا اپنی مرضی کی انفارمیشن فل کرنے کو۔

ابھی وہ گیا ہی تھا کہ حج گروپ آرگنائزر کے دو چیدہ چیدہ بندے آپس میں لڑ پڑے۔ تُو تُو میں میں کی وہ گردان کہ پروفیشنل لڑاکے معلوم ہوں۔ لوگوں نے بیچ بچاؤ کروادیا ورنہ شاید سر پھٹ جاتے۔ کچھ پتہ نہیں لگا کہ دو صاحب عقل و صاحب احرام آدمیوں کو اس حد تک آنے پر کس بات نے مجبور کیا۔

لڑنے والوں میں سے ایک صاحب تو وہ تھے جو حج ٹریننگ کے دوران صبر و برداشت کی تلقین میں سب سے آگے تھے۔ قدرت کا اُصول ہے کہ دعویٰ دلیل مانگتا ہے۔ جتنا بڑا دعویٰ اتنی بڑی دلیل۔ اللہ کو غرور پسند نہیں۔ اِسی لئے وہ غرور توڑ کر ملتا ہے۔ خواہ وہ غرور اپنی ذات کا ہو یا خود پر کنٹرول کا ہو۔ نیکیوں کا ہو یا نیک نامی کا۔ عبداللہ نے سوچا چلو وانی صاحب تو فارغ ہوگئے اب آرام سے ہلکے پھلکے اپنے رب سے مل سکیں گے بغیر کسی دعویٰ کے۔

بس میں روانگی ہوئی۔ سعودی حکومت موسم حج میں آس پاس کے ملکوں سے ڈرائیور منگوا لیتی ہے جنہیں راستے یاد نہیں ہوتے۔ تو ہم ایک دو آفسز میں رکتے ہوئے فجر سے 4 منٹ پہلے، 4 ذی الحجہ، 6 ستمبر، بروز منگل عزیزیہ میں اپنے ہوٹل میں پہنچے۔

حج ٹورز والوں نے شام عصر کے بعد حرم جانے کا اعلان کیا کہ لوگ عمرہ ادا کرسکیں۔

عبد اللہ نے کمرے میں آکر سونے کی کوششیں شروع کردیں۔ چہرے کی آنکھیں بند ہوتے ہی دل کی کھل گئی۔

کیوں عبد اللہ! کیسا جا رہا ہے حج؟ کتنے نفل پڑھ ڈالے؟ اور ذکر، تسبیح، قرآن، دعائیں؟

تک تک تک ۔۔۔ کچھ نہیں ہو۔ یعنی 24 گھنٹوں میں سوائے نکتہ چینی کی سوچ کے کچھ نہ کرسکے۔

عبد اللہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔

دل نے پھر صدا لگائی کہ عبد اللہ حج پر آئے ہو، فیکٹ فائینڈنگ مِشن پر نہیں۔ فوکس کرو فوکس۔ اس سفر میں حضوری سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں۔ یہ تعلق اور دل کا معاملہ ہے اور کیا کہنے تعلق کے۔

تعلق

انسانی زندگی میں سب سے زیادہ پیش آنے والا معاملہ تعلق ہوتا ہے۔ ازل سے ابد تک، گود سے لحد تک، بچپنے سے لڑکپن اور جوانی سے بڑھاپے تک اس کا دورانیہ چلتا ہی رہتا ہے۔ اَن دیکھے احساسات کی مالا، انجانے خوف کی کہانی، زندگی تیاگنے کا کارن، دنیا لُٹا دینے کی داستان، رشتوں کو روند دینے کی آپ بیتی اور نیک نامی کا سائبان۔ سب اسی ایک لفظ سے ہی تو شروع ہوتے ہیں۔

تعلق کی اتنی قسمیں ہیں جتنے انسانی احساسات۔ یہ پاک بھی ہوتا ہے اور ناپاک بھی، معتبر بھی اور نامعتبر بھی، جائز بھی اور ناجائز بھی، جھوٹا بھی اور سچا بھی، دل کے لئے بھی اور دکھاوے کے لئے بھی، دین کے لئے بھی، دنیا کے لئے بھی، خالق کے لئے بھی اور مخلوق کے لئے بھی، رونے کے لئے بھی، ہنسنے کے لئے بھی۔

ان کا وقفہ طویل بھی ہوتا ہے اور مختصر بھی۔ ماں کی گود سے شروع ہونے والا تعلق قبر کے بعد حشر تک قائم رہتا ہے۔ مالی منفعت کی خاطر بنایا گیا تعلق خسارے کی پہلی چوٹ پر ٹوٹ جاتا ہے۔

تعلق یک طرفہ بھی ہوتا ہے اور دو طرفہ بھی۔ سیانے یک طرفہ تعلق کو محبت اور دو طرفہ کو بزنس کہتے ہیں۔

کچھ لوگ تعلق کے بیوپاری بھی ہوتے ہیں اور جوڑنے توڑنے کا کام کرتے ہیں۔ تو کچھ لوگ تمام عمر اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی آکے ان سے بھی تعلق جوڑے۔ کسی کا مرتبہ ایسا بلند کہ ایک دنیا تعلق جوڑنا چاہے اور کوئی مفلوک الحال ایسا کہ تعلق والے بھی لا تعلق ہوجائیں۔

تعلق کسوٹی بھی تو ہوتی ہے رشتوں کی، جذبات کی۔ جو اچھے بُرے وقت میں اپنی مضبوطی کو ناپتا ہے۔ تعلق کسی کو بنا ڈالتا ہے تو کسی کو برباد کردیتا ہے اور کوئی زندگی بھر کسی در پر بیٹھا تعلق کی بھیک مانگتا رہتا ہے۔

ہم زندگی بھر سوکھے ہوئے تالاب پر بیٹھے ہوئے ہنس کی طرح تعلق نبھاتے نبھاتے مرجاتے ہیں۔ کہانی ختم ہو نہ ہو کردار ختم ہوجاتے ہیں۔ تعلق ٹرانسفر بھی تو ہوجاتے ہیں۔ اِس کا عشق اُس کے گھر، اُس کے خواب اِسکی جنت اور ایک کی لگن دوسرے کی کامیابی۔

انسان جب تعلق بنانا چاہے تو کچھ نہ کچھ کرکے بنا ہی لیتا ہے اور پھر عمر اس تعلق کو پختہ کرنے میں گزار دیتا ہے۔ ان تمام تعلقات میں جو سب سے اہم تعلق تھا وہ بھول جاتا ہے۔ اسے کمزور کر چھوڑتا ہے، وہ یک طرفہ رہ جاتا ہے، ادھورہ چھوٹ جاتا ہے۔ ایسا تعلق جو اس کے وجود میں آنے سے پہلے شروع ہوا تھا۔ جسکی گواہی الست بربکم، قالو بلیٰ سے دی تھی۔ خدا بندے کو نہیں بھولتا، بندہ ہی خدا کو بھول جاتا ہے۔ کوئی وقت کوئی گھڑی مخلوق سے بچا کر اپنے خالق سے بھی بات کرنی چاہئے۔ اس تعلق پر بھی غور کرنا چاہیے۔ کبھی رات بستر پر چادر اوڑھ کر موبائل کے نائٹ پیکجز کی طرح اپنے رب سے بھی گفتگو کرنی چاہیے۔ جو ہمیشہ سنتا ہے۔

دنیا کے تعلقات بندے کو کمزور کردیتے ہیں۔ چلنے پھرنے کی سکت تک چھین لیتے ہیں۔ ایسے میں مالک سے کنیکٹ ہونا ہی پڑتا ہے۔ یہ ایک تعلق سب سے سچا ہے۔ اللہ دھتکارتا نہیں ہے، دھتکارے ہوؤں کو سہارا دیتا ہے، دلاسہ دیتا ہے، وعدے کرتا ہے، بشارت دیتا ہے، اپنی پہچان دیتا ہے، اپنی نسبت دیتا ہے۔

نیکی اللہ سے ایک تعلق ہی تو ہے اور گناہ بھی۔ اُسی کی تو نا فرمانی کرتا ہے بندہ اور کسی کی تو نہیں۔ جو چاہے سزا دے۔ چاہے تو معاف کردے، چاہے تو مسکرادے اور سارے دھو ڈالے۔ حق اس کا ہے جو حق ہے۔ آپ کیوں بولتے ہیں؟ بندے اور مالک کے بیچ گفتگو میں کمینٹری کرنے والے ”لا تعلق“ رہ جاتے ہیں۔ اس ستارے کی طرح جس کا کوئی مدار نہیں، اس لاؤڈ سپیکر کی طرح جسکی کوئی مسجد نہیں، اور اس دل کی طرح جسکا کوئی محبوب نہیں۔

یہ وہ تعلق ہے جس پر کام کرنا چاہئے۔ بندہ رب سے دور جائے ہی کیوں؟ رب کے آس پاس رہنا چاہئے۔ جانے کب کونسا کام لے لے اور تعلق میں شکایت نہیں ہوتی۔ غیروں سے گلا کرنا محبت کا شرک ہے۔ چلیں، کوئی دل گرفتہ اپنے رب سے مخلوق کا گلا کرے تو کچھ سمجھ میں بھی آتا ہے کہ غریب آدمی روئے بھی نہ تو کیا کرے۔ مگر مالک کا گلا مخلوق سے، بڑی کم ظرفی کی بات ہے۔

اور لوگوں کو اپنی خود ساختہ بنائی گئی پالیسیوں میں تولنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ ہمارا اپنا جو HR مینوئل قرآن کی صورت میں آیا ہے اس سے کب کب انحراف کیا؟اس حج پر کچھ حضرات کسی مسلک کے لوگوں کے نہ آنے پر بڑے خوش تھے اور حج کو نورانی حج قرار دے رہے تھے۔ غیر مسلم ہی سہی، کافر ہی سہی، معذور ہی سہی، بد صورت ہی سہی، ہے تو اسی کا بندہ۔ کیا پتہ کب کسی کا کیا تعلق ہو؟ اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے کہ آئندہ آنے کی توفیق ہی نہ چھِن جائے۔

ظلم کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہئے کہ مظلوم کی جس دن رسائی آپ سے زیادہ طاقتور تک ہوگئی وہ آپ کا کیا کرے گا۔ اگر وہ جاء نماز پر بیٹھ گیا تو کہاں سے ملے گی پناہ؟

ایسے بندے کو کبھی کچھ نہیں کہنا چاہیے جس کا اللہ کے سوا کوئی نہ ہو۔

ہمارے معاشرے میں عجیب لوگ ہیں۔ اللہ کے نام پر اللہ کی مخلوق سے اللہ کے لئے نفرت کرتے ہیں۔ اگر اللہ نے کہہ دیا کہ وہ تو اس سے محبت کرتا ہے تو کیا ہوگا؟

تعلقات کی اِس پُر فریب دنیا سے متعلق رہ کر اس سے تعلق کا دعویٰ تو وہ کرے جسکی آنکھوں کے حلقے اسکی بن بادل برسات کی گواہی دیں۔ جسکی کمر بستر کی گرمی کو ترسے اور جسکا دل صرف ایک تعلق کی فکر میں گُھل جائے۔ باقی میرے جیسے بندوں کو تو ڈرنا ہی چاہئے۔ کسی دن کوئی تعلق والا زبان کے نیچے آگیا تو آہوں کے حصار میں دعائیں راکھ کردے گا۔

عبد اللہ نے دونوں کانوں میں انگلیاں ڈال دیں مگر دل کی زبان سنوائی کے لئے کانوں کی محتاج کب ہوتی ہے۔ عبد اللہ ہوٹل سے حرم جانے کے لئے نکل پڑا۔ ٹیکسی نے 30 ریال چارج کئے جو عام دنوں میں 5 ریال ہوتے ہیں۔

بیت اللہ

مسجد الحرام میں ملک بن عبدالعزیز گیٹ سے داخل ہوتے وقت عبداللہ پر رقت طاری ہوگئی اور کعبتہ اللہ پر نظر پڑتے ہی وہ ساری دعائیں بھول گیا۔ بس اتنا ہی کہہ سکا کہ ”اللہ بخش دے!“

اِس دعا کی گردان ختم ہوئی تو عبداللہ نے دعا کو ہاتھ اُٹھائے۔

”یا ربِ کعبہ، یا ذوالجلالِ و الاکرام، یا ارحم الراحمین، یا مسبب الاسباب مجھے دعا مانگنا سکھا دے، مستجاب الداعوات کی دعا مانگتے ڈر لگتا ہے کہ اِتنا علم و عقل نہیں کہ کیا مانگوں اور میرے لئے کیا خیر ہے۔ میرے مولا، میرے آقا، یا رب، اے پالنھار، مجھے باعث برکت بنا، بارش کردے کہ گرمی بہت ہے۔ مجھے اپنے کسی ولی سے ملوا۔ مجھے قبول کرلے۔ میری بیوی بچوں کو صحت دے، ان کی زندگی اور کاموں میں برکت و فضل فرما۔ مجھے ان سے تقویت و راحت دے۔ میرے اللہ مجھے بخش دے۔ میں نے ہر ایک سے یہی سُنا ہے کہ تُو بخش دیتا ہے، مجھے بھی بخش دے۔ تُو نے کہا کہ تو عذاب نہیں دے گا اگر ہم شکر ادا کرتے رہے اور ایمان لائے۔ میرے اللہ میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تیرے پہ ایمان لایا۔ اِس شکر و ایمان کے بیچ میں جتنے گناہ کئے وہ سب نیکیوں سے بدل دے۔

اے بادشاہوں کے بادشاہ، تیری شان نہیں کہ سوالی ہاتھ پھیلائے اور تو خالی لوٹا دے۔ میری زبان، تحریر، ذات، گفتگو اور خاموشی میں اثر کر دے کہ لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنوں۔ مجھے اپنے لئے قبول کرلے۔

انتَ مولانا! میں تجھ سے تجھ کو مانگنے آیا ہوں، تو مجھ کو مجھ سے بچا لے۔

آمین یا ارحم الراحمین!“

عبداللہ کا وجود ریزہ ریزہ ہو رہا تھا۔ اس نے طواف قدوم (شکرانے) کا ادا کیا اور پھر عمرے کا طواف کیا۔ آبِ زمزم پینے اور مقامِ ابراہیم ؑ  کے سامنے شکرانے کے نفل پڑھنے کے بعد اس نے اُپراتلی دو سعی کیں۔ ایک عمرے کی اور ایک ایڈوانس میں طوافِ زیارت کی جو حج کے بعد ہوتا ہے۔

سر کے بال نہیں کٹوائے کہ حجِ قرٰن تھا اور احرام حج کے بعد کھلنا تھا۔

عبداللہ بیس ریال کی ٹیکسی میں واپس ہوٹل پہنچا تو ظہر کا وقت ہو رہا تھا۔

عبداللہ نماز پڑھ کر لمبی تان کر سوگیا۔ عصر پر آنکھ کھلی تو نماز پڑھ کے پھر حرم روانہ ہوا۔ اس بار ٹیکسی بیس ریال کی ہی ملی۔

حرم پہنچ کر مغرب ادا کی اور حطیم کے سامنے ایک بڑی اچھی جگہ مل گئی۔ ابھی وہ نمازِ نفل شروع کرنے ہی والا تھا کہ بارش ہوگئی۔ دس منٹ کی اس مختصر بارش نے سب کچھ جل تھل کردیا۔ عبداللہ نے چاہا کہ میزابِ رحمت کے نیچے کھڑا ہوجائے مگر لوگوں کا ہجوم و ولولہ دیکھ کر وہ اپنی جگہ بیٹھا رہا۔

خیالوں کی یلغار پھر شروع ہوگئی۔ یہ سعودی ایئرپورٹ پر جو مسافروں کے لئے کیمرے لگے ہیں امیگریشن پر، یہ SLR کیوں ہیں جبکہ نیویارک ایئرپورٹ پر یہی کام عام سے ویب کیم سے ہوجاتا ہے۔ ایسا صرف پیسوں کی زیادتی اور عقل کی کمی کی وجہ سے ہے یا کوئی فائدہ بھی ہے اور حکومت پاکستان نے جو کتابچہ دیا ہے اس میں پروف ریڈنگ کی کتنی غلطیاں ہیں۔ حج کے ایام 21 ذی الحجہ تک لکھے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے آگے ﷺ لکھ دیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

دل نے پھر کچوکا مارا کہ فوکس کرو بھائی فوکس۔ اِتنے میں سامنے طواف کے دوران ایک بوڑھا بوڑھی نظر آئے، بابا جی اماں جی سے کسی بات پر دورانِ طواف ناراض ہوگئے اور ان کا ہاتھ جھٹک کر طواف سے باہر۔ اب وہ بوڑھی اماں منت سماجت کرے کہ طواف تو پورا کرو مگر بابا جی ٹس سے مس نہ ہوں۔ خیر اللہ اللہ کرکے اُن کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے بیوی پر رحم کھایا اور طواف دوبارہ شروع کیا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں عورت ہمارے معاشرے میں ہر حال میں مظلوم ہے۔ اس غریب کے پاس ایک ریال نہیں ہوتا اور اگر وہ اپنے محرم سے بچھڑ جائے تو آدھا حج فون پر ایک دوسرے کو ٹریک کرنے میں ہی گزر جاتا ہے۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ جیسے یہاں لوگ جگہ جگہ کھڑے ہوکر پانی والی بوتلوں سے منہ پر چھڑکاؤ کرتے ہیں ایسی بوتلیں ہماری بہو بیٹیوں کو جہیز میں دینی چاہئیں کہ جب شوہر کو غصہ آئے اس کے منہ پر چھڑکاؤ شروع کر دیں۔

بے چاری عورتیں مجازی خُدا کی عبادت سے فارغ ہوں تو اصل خُدا کی عبادت بھی کریں۔

عبداللہ نے سوچ کو بریک لگائی اور نفل پڑھنے لگا۔ اُس نے ایڈوب فوٹو شاپ کی طرح تمام لوگ بیت اللہ اور اپنے بیچ میں سے صاف کردئیے۔ اب سامنے حطیم تھا، بیت اللہ تھا اور عبداللہ۔ مسجد، لوگ، شور، ظالم و مظلوم سب غائب ہوگئے۔ کتنی ہی دیر عبداللہ اِس کیفیت میں مشغول رہا اور اس کا فوکس عشاء کی اذاں نے توڑا۔ عشاء کے فوراََ بعد طواف میں ہلچل ہوئی۔ کوئی 40 سے اوپر عرب فوجیوں نے ایک دائرہ بنا رکھا تھا اور کچھ خصوصی حجاج مغرور انداز میں چلتے ہوئے اس دائرے کے بیچوں بیچ طواف کر رہے تھے۔ یہ پاکستانی وفد تھا۔ عبداللہ نے سر پیٹ لیا۔ وہ سوچنے لگا کہ حدیث میں آیا ہے کہ مغرور لوگ یومِ حشر میں کیڑے مکوڑے بنا دئیے جائیں گے اور لوگ انہیں کچلتے پھریں گے۔ حج تو میں سے تُو کا سفر ہے۔ اگر آج بھی یہی رنگ دکھانے ہیں تو آنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ کیا ہی عجیب بات ہے کہ کچھ لوگوں کی اخلاقیات کا ستر احرام کی چادریں بھی نہیں ڈھانپتی۔ پاکستانی شاید دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو ظلم کو اپنا حق سمجھ کر کرتی ہے۔ عبداللہ نے ذہن کو جھٹکا اور پھر سے نوافل شروع کئے۔ کافی وقت گزرنے کے بعد وہ کچھ دیر کو بیٹھا تو دور سے ایک درمیانے قد کے آدمی کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ گورا چٹا رنگ۔ لمبی زلفیں، بھڑکتا ہوا جامنی شلوار قمیض۔ وہ ہر لحاظ سے Mismatch تھا۔ ایک تو طواف کی اُلٹی سمت سے چلا آ رہا تھا، احرام میں بھی نہ تھا اور بالوں کی لمبائی سے کم ہی گمان ہوتا تھا کہ عمرہ کرچکا ہے، اور جامنی رنگ کا انوکھا لباس۔ خیر، آنے والے نے زبردستی عبداللہ اور دوسرے شخص کے درمیان جگہ بنا ہی لی اور نماز شروع کردی۔ اتنی لمبی نماز، اتنے لمبے سجود، پتہ نہیں نفل پڑھ رہا تھا کہ صلوۃ التسبیح۔ عبداللہ نے پھر سے نفل شروع کردئیے۔ جب وہ فارغ ہوا تو نئے شخص کو اپنی جانب متوجہ پایا۔

اُس نے سلام کہا اور اُردو میں مخاطب ہوا۔ میرا نام نجیب اللہ ہے میں یہیں رہتا ہوں۔

اُردو کا تلفظ ایسا جیسے کوئی انگریز اُردو بولنا چاہے۔ عبداللہ کو تجسس ہوا۔ اس نے کہا میرا نام عبداللہ ہے، میں سکھر سے ہوں۔ آپ کہاں سے ہو؟

اس نے جواب دیا کہ وہ افغانستان سے ہے مگر تعلیم کراچی سے حاصل کی۔ مولانا احتشام الحق تھانوی سے تجوید اور (کوئی نام بتایا جو عبداللہ بھول گیا) سے قرأت سیکھی ہے۔

عبداللہ نے پوچھا آپ یہیں رہتے ہیں مطلب سعودی عرب میں؟

جی نہیں، بس یہیں

اچھا مکۃ المکرمہ میں؟

جی نہیں، بس یہیں

مسجد الحرام میں؟ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

جی نہیں، بس یہیں

ارے بھائی کیا صحنِ کعبہ میں رہتے ہو؟

جی، آس پاس۔

اچھا آپ میری بات سنو، اس نے عبداللہ کے انٹرویو کو کاٹتے ہوئے کافی درشت لہجے میں کہا۔

اُمتِ مسلمہ کے لئے دعا کیا کرو۔ یہ جو کرتے ہیں اِن کا کام۔ ہمارا کام تو صرف دعا ہے۔ کشمیر، فلسطین، شام دیکھو کیا کیا ہو رہا ہے۔

عبداللہ کو لگا اس کے دل کے چور کو کسی نے پکڑ لیا ہو وہ ہر بار اُمتِ مسلمہ کی حالتِ زار کو اِن کی اپنی حرکتوں کا نتیجہ خیال کرتا۔

عبداللہ نے کہا، جی ٹھیک ہے۔ اب سے کروں گا۔

اور ہاں! ہندوؤں سے دور رہو۔ کچھ نہیں سیکھو گے۔ ایک سے قریب آؤ تو دوسرے سے دور جانا ہی پڑتا ہے۔ محبت بہت حساس ہوتی ہے۔ تمہیں زیب نہیں دیتا۔

اب عبداللہ کے اوسان خطا، کیونکہ وہ پچھلے ماہ ہی امریکہ میں آرٹ آف لیونگ کے بانی سری سری روی شنکر سے مل کر آیا تھا۔ اس نے ان سے متاثر ہوکر ناتھ یوگی کا مطالعہ شروع کردیا تھا اور وہ انڈیا جانے کی پلاننگ کر رہا تھا۔ اب اس بات کا علم نجیب اللہ صاحب کو کیسے ہوا یا یہ سب کچھ محض اتفاق تھا؟

اور قرآن پڑھو، سمجھ کر۔

جی سمجھ نہیں آتا۔ کو شش کرتا ہوں۔ سمجھ آجائے تو مر نہ جاؤں کہ قرآن کا بوجھ کون اُٹھا سکتا ہے۔

اب نجیب اللہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ کہنے لگا، کلمہ سے شروع کرو۔ پہلا حصہ لا اِلٰہ اِلااللہ یہاں مل جائے گا۔ دوسرے حصہ کیلئے مدینے جانا ہوگا۔ نماز پڑھو تو سمجھو کہ سیدھے ہاتھ پر جنت اور اُلٹے ہاتھ پر جہنم ہے۔

اچھا اب میں چلتا ہوں، کوئی خدمت، کوئی کام ہو تو بتا دو۔ میں یہیں رہتا ہوں۔

جی میں چاہتا ہوں اللہ مجھے بھر دے۔

بھرے ہوئے برتن میں کوئی کیسے پانی ڈالے؟ تمہیں دشمنیاں عزیز ہیں، محبتوں کا شوق ہے، خطابت کا چسکہ ہے، لکھنے پر زعم ہے۔ کچھ کر دکھانے کا جنون ہے، کر گزرنے کی لگن ہے، نیتوں کا خمار ہے، نیکیوں کا بھرم ہے، دعاؤں پر ناز ہے۔ جاؤ خالی ہو کر آؤ۔ اللہ تمہیں بھر دے گا۔ بہت زیادہ، بہت زیادہ۔

یہ کہہ کر نجیب اللہ ہجوم میں غائب ہوگیا۔ عبداللہ کی دنیا تتر بتر ہوچکی تھی۔

اس کے بائیں بازو پر بیٹھے شخص نے اپنی کرسی کا رخ موڑا اور کعبے کی طرف پشت کرکے بیٹھ گیا اور بیگ سے سیلفی اسٹک نکال کے تصویریں کھینچنے لگا۔

عبداللہ نے اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھی، پھر فوٹو شاپ اور سوائے بیت اللہ اور عبداللہ کے کوئی باقی نہ رہا۔

فجر سے کچھ پہلے عبداللہ نماز سے فارغ ہوا تو چہرے پر بہنے والے آنسووں نے نشان بنا دئیے تھے۔ اس نے دعا کو ہاتھ اُٹھا دئیے۔

”یا ذوالجلال والاکرام، یا اللہ، یا رب یا رب یا رب۔۔

زندگی بھر کی محبتیں، دشمنیاں، علم، عمل، نیتیں، سچ، جھوٹ، راہبری اور پیروی، ڈگریاں اور سرٹیفکیٹ۔ میری لائف کی To Do List (TDL) سب پوٹلی بنا کر آج یہاں حطیم کے سامنے چھوڑے جاتا ہوں۔ تو گواہ رہنا۔ آج کے بعد پیسہ، علم، عمل، نیت، عزت، شہرت سب تیری ہیں۔ نہ کسی تعریف پر خوش ہوں گا نہ ظلم پر بدلہ لوں گا۔

سب کچھ تجھ سے منسوب، تو بس خالی کردے۔ سب لے لے۔

اپنا قرب دے دے۔ مجھے بھر دے۔ مجھے بھر دے۔ آمین!“

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔