چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ کے انقلابی فیصلے (4)

رحمت علی رازی  اتوار 2 اکتوبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

اعلیٰ و ماتحت عدلیہ کی تطہیر کا کام ججز بحالی تحریک کے فوراً بعد شروع ہونا چاہیے تھا جو بدقسمتی سے وکلاء گردی کیوجہ سے نہیں ہو سکا‘ وکلاء گردی کی شروعات جسٹس افتخار کے دور میں وکیلانہ خمار کیوجہ سے ہوئی مگر انھوں نے بدتہذیب وکیلوں کو ازخود نوٹس کے ذریعے اس لیے سزا نہ دی کہ ان کی بحالی ان ہی وکلاء کی مرہونِ منت تھی‘ یہی وجہ ہے کہ جسٹس چوہدری کے ریٹائر ہوتے ہی اعلیٰ عدلیہ اپنے پُرعافیت دور میں واپس لوٹ گئی۔

ہمارے ہاں ’’گردی‘‘ کے دو سابقے ’’غنڈہ گردی‘‘ اور ’’پولیس گردی‘‘ پہلے سے ہی بہت مقبول ہیں اور اب تیسری اصطلاح ’’وکلاء گردی‘‘ بھی کافی شہرت پذیر ہے‘ یہ تینوں ’’گردیاں‘‘ اپنے اپنے دائرہ کار میں نیم سماجی دہشتگردی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔

پاکستان میں کل تک اوّل درجہ کی بدمعاش پولیس گنی جاتی تھی جس کی بدمعاشی کو قانونی تحفظ حاصل ہے مگر اب یہ پوزیشن وکیلوں کو حاصل ہو چکی ہے جو پولیس پر بھی تشدد کرنے سے باز نہیں آتے‘ جس طرح تھانے میں پولیس کا ایک ادنیٰ سا کانسٹیبل بھی وزیراعظم سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے، بعینہٖ عدالتوں میں وکیل بھی خود کو ججوں سے زیادہ زورآور سمجھتے ہیں۔

آئے روز ججوں کو کمرہ ہائے عدالت میں بند کر کے باہر سے تالے لگا دینا اور من پسند فیصلے نہ دینے پر معزز جج صاحبان کو دشنام کرنا، خواتین ججوں کو بس اسٹاپ پر کھڑی آوارہ لڑکیوں کی طرح ڈیل کرنا اور نامناسب فقرہ بازی کرنا، مقررہ تاریخوں پر پیش نہ ہونا اور مقدمات کو دانستہ التواء کا شکار کرنا، قاضیوں کی سرزنش پر ان سے دست و گریباں ہونا اور ان پر جوتے پھینکنا، الغرض ہر طرح کی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرنا وکلاء حضرات کا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔

شاید اسی لیے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ کو کہنا پڑا، ’’صبح جج کو جوتے مارتے ہیں اور شام کو بار کا صدر معافی مانگنے آ جاتا ہے‘ بار ایسوسی ایشن کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کا خود ہی احتساب کریں۔ یورپی یونین نے بھی اعتراض کیا کہ پاکستان کی ماتحت عدلیہ میں 60 فیصد مقدمات وکلاء کی التواء کی درخواستوں جب کہ 30 فیصد وکلاء کی ہڑتالوں کی نذر ہو جاتے ہیں‘‘۔

عدالتوں میں ایسے بیشمار وکلاء ہیں جن پر درجنوں ایف آئی آرز اور مقدمات ہیں مگر ان میں پیش ہونا وہ اپنی تذلیل سمجھتے ہیں‘ بعض وکلاء چیمبرز جرائم کے اڈے بن چکے ہیں جہاں روزانہ پولیس کے جرائم پیشہ لوگ آ کر خطرناک مجرموں کے ساتھ ملی بھگت کرتے ہیں اور مدعیوں کو پھنسانے کے ٹاسک حاصل کرتے ہیں‘ ہمارا مشاہدہ کہتا ہے کہ ماتحت عدلیہ کے ججوں کو بدعنوان بنانے میں یہی لاء چیمبرز پیش پیش ہیں جو ہر چھوٹے بڑے مقدمے کی قیمت طے کر کے ججوں کو ان کا حصہ پہنچاتے ہیں۔

اگر کوئی جج رشوت لینے سے انکار کر دے یا بااثر وکیل کے خلاف فیصلہ سنا دے تو اسے مختلف حیلوں سے سرِعدالت ذلیل کیا جاتا ہے‘ درجہ جاتی مجسٹریٹوں سے لے کر ایڈیشنل سیشن ججوں تک وکلاء کی دھونس چلتی ہے‘ اس سے اوپر ان کا طریقۂ واردات بدل جاتا ہے‘ ماتحت عدلیہ کے معدودے چند کو چھوڑ کر باقی تمام ججز ان کے ریکٹ کا حصہ بننے پر مجبور ہیں‘ ایم آئی ٹی برانچ کی مختلف فائلوں کا جائزہ لیا جائے تو عجیب و غریب داستانیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ایڈیشنل سیشن ججوں کی اکثر ججمنٹس میں سخت ابہام پایا جاتا ہے‘ قتل جیسے اہم مقدمات میں چشم دید گواہوں کی موجودگی کے باوجود ملزمان کو غیرقانونی طور پر ضمانتوں کا ریلیف دیدیا جاتا ہے اور اس کے لیے کاؤنٹر کیس کا سہارا لیا جاتا ہے‘ کئی وکلاء بار کے صدر کا وکالت نامہ ایسے مقدمات میں پیش کر دیتے ہیں، پھر تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے حق میں فیصلہ نہ آئے کیونکہ سیشن جج کو بار اور بینچ کے تعلقات خوشگوار رکھنے کی مقدمے سے کہیں زیادہ فکر ہوتی ہے اور وہ بار اور بینچ کو ایک ہی گاڑی کے دو پہیے تصور کرتا ہے۔

اگر صدر بار یا اس کے آدمیوں کو ریلیف نہیں ملے گا تو وہ بہانہ تلاش کر کے ہڑتال کر دیگا، پریس کانفرنس کریگا اور ججوں کو پریشان کریگا‘ سیشن جج ضمانتوں کے معاملہ میں صوابدیدی اختیار کو بادشاہوں کی طرح استعمال کرتے ہیں‘ اگر یہی بات تھی تو پھر ضمانت کے اُصول وضع کرنے کی کیا ضرورت تھی‘ جو ضمانتیں سپریم کورٹ تک سے بھی منظور ہونے کی اُمید نہیں ہوتی وہ بھی صوابدیدی اختیار پر دیدی جاتی ہیں اور جس کاؤنٹر ایف آئی آر کا اس میں سہارا لیا جاتا ہے وہ اکثر و بیشتر جھوٹی ہوتی ہے۔

دوسری طرف لڑائی جھگڑے کے معمولی مقدمات میں دانستہ تاخیر اور درخواستوں کے مہینوں کے التواء کے بعد ضمانت مسترد ہو جاتی ہے، وجہ یہ کہ ایسے مقدمات میں ’’خاص‘‘ کے بجائے ’’عام‘‘ وکیل کیے گئے ہوتے ہیں جن کا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا، اس لیے ان کے کاغذات کے ساتھ پولیس فائل ہی نہیں ہوتی (جو پولیس انھیں دیتی ہی نہیں) اور مقدمات کی سماعت التواء کا شکار کر دی جاتی ہے۔

سیشن جج کے پاس پھانسی کی سزا کا اختیار ہے مگر معمولی تفتیشی افسر اور کورٹ محرر اس کے قابو میں نہیں آتے، یقینا اس میں باہم سازباز شامل ہوتی ہے‘ اس کے برعکس جو چند مخصوص قسم کے وکلاء کا سیشن ججز کے ساتھ چینل ہوتا ہے انھیں فی الفور ریلیف دیدیا جاتا ہے جب کہ ایک عام وکیل کے کیس کی طرف توجہ ہی نہیں دی جاتی، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بے رسوخ وکلاء اور ان کے مؤکلان کو جان بوجھ کر تنگ کیا جاتا ہے۔

ایم آئی ٹی کا ریکارڈ یہ ثابت کرتا ہے کہ ماتحت عدالتوں میں چند مخصوص عناصر ہی کو ریلیف ملتا ہے‘ ایسے مقدمات کی نوعیت آئین کی نظر میں غیرقانونی ہوتی ہے اور ان میں جو ججمنٹ آتی ہے اس میں ابہام ہوتا ہے‘ ایسے مقدموں کی ججمنٹ پر کئی بار اسٹرکچر پاس کی گئی ہیں جو ریکارڈ کا حصہ ہیں‘ ناتجربہ کاری کی بنیاد پر ججوں کو ٹریننگ بھی دی جا چکی ہے۔

بظاہر تو کیس مینجمنٹ کے جدید نظام کی وجہ سے اب کسی بھی جج کا ناانصافی پر مبنی فیصلہ سسٹم کی آنکھ سے اوجھل نہیں رہ سکتا کیونکہ ایم آئی ٹی مستقل بنیادوں پر فیصلہ جات کا خود مطالعہ کرتی ہے اور اپیل کے دوران ہائیکورٹ کی جانب سے زیریں عدالتوں کے فیصلہ جات پر منظور کیے گئے اسٹرکچر کسی بھی بدعنوان جج کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔

بہ ایں ہمہ ایم آئی ٹی کی نگہداشت ایک انتظامی جج مستقل بنیادوں پر کرتا ہے اور اس کا صرف ایک ہی کام ہے‘ یعنی عدلیہ سے کرپشن کا خاتمہ اور کارکردگی کی بنیاد پر ججز کی پروموشن وغیرہ، لیکن پھر بھی دورنِ خانہ کرپشن کا کھیل جاری ہے اور دامادوں، رشتہ داروں اور دوستوں کی سفارشوں پر پروموشن کا کام بھی دھڑلے سے چل رہا ہے، اس میں بار کونسلوں کی ملی بھگت بھی شامل ہے۔

پاکستان بار کونسل کو چاہیے کہ وہ ملک بھر کی صوبائی بار کونسلوں کی مدت پانچ سال سے کم کر کے دو سال کر دے ورنہ صوبائی بار کونسلیں مافیا بنی رہیں گی‘ حکومت کو چاہیے کہ وہ بجٹ میں سپریم کورٹ بار کے لیے فنڈز مختص کرے، اگر کسی بار کا صدر ججز کے ساتھ بدتمیزی کرنیوالے وکیل کا تحفظ کرے تو یہ ایک ناقابلِ معافی جرم تصور ہونا چاہیے‘ وکلاء کی طرف سے مقدمات کی سماعت میں غیرضروری رکاوٹیں اور بے جا دیر کا مطلب بھی انصاف کا نہ ملنا ہی تصور ہونا چاہیے۔

پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے عدلیہ پر اور بھی ذمے داری بڑھ گئی ہے کہ وہ عوام کے بنیادی حقوق دلوانے میں بلاخوف وخطر کام کرے‘ آج ججز پر کام کے بوجھ کی اصل وجہ وکلاء کی عدم دستیابی ہے‘ چھوٹے اضلاع میں چند ایک ہی اچھے دیوانی اور اتنے ہی فوجداری وکلاء ہوتے ہیں جب کہ بڑے اضلاع میں 10سے 12 دیوانی اور فوجداری کے اچھے وکلاء ہوتے ہیں‘ تمام لوگ اپنے کیسز ان وکلاء کو دینا چاہتے ہیں جس سے ان پر کام کا بوجھ بڑھ جاتا ہے‘ باوجود اس کے بھی وہ سول جج کی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک کے کیسز لے لیتے ہیں۔

اُصولاً توکوئی بھی کیس لاء کمپنی کے پاس ہونا چاہیے اور کسی ایک وکیل کی عدم موجودگی میں ساتھی وکیل کو پیش ہو کر اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں ادا کرنی چاہئیں یا سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے وکلاء کو صرف متعلقہ عدالتوں میں ہی وکالت کرنی چاہیے اور 10سے 15سال کی وکالت کے وکلاء کو ماتحت عدالتوں میں کام نہ کرنے کا پابند کیا جانا چاہیے‘ اس کے ساتھ ساتھ وکلاء کو بھی ٹریننگ دی جانی چاہیے اور انھیں بھی کسی ڈسپلن کا پابند کیا جانا چاہیے۔

حالات و واقعات میں تبدیلی کی بنیاد پر متعلقہ قوانین میں مناسب ترامیم کی ضرورت ہے‘ ماتحت عدلیہ کے مسائل کی اصل ذمے دار وکلاء برادری ہی ہے جو جوڈیشل مافیا کا روپ دھار چکی ہے، اسے لگام دیے بغیر جوڈیشل ریفارمز کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا‘ عدالتوں میں بدتمیزی کرنیوالے وکلاء کے لائسنس معطلی کا اختیار متعلقہ ڈسٹرکٹ جج یا ایک جوائنٹ کمیٹی کے پاس ہونا چاہیے جو متعلقہ عدالت سے اس کی اطلاع پر فوری کارروائی کرے۔

اس پر بھی پابندی ہونی چاہیے کہ کسی وکیل یا بااثر شخصیت کے ذریعے مدعی یا مدعاعلیہ کے لیے کوئی متعلقہ جج سے ملاقات نہ کر سکے‘ اس کے ساتھ ساتھ ججز پر حکومتی، سرکاری یا نام نہاد شخصیات کی طرف سے کسی قسم کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے‘ ان دونوں صورتوں میں جس پارٹی کی طرف سے جج تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے یا اس پر دباؤ ڈالا جائے تو جج کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اس پارٹی کے خلاف فیصلہ سنا دے۔

چیف جسٹس کے حکم پر 65 سال سے زیادہ عمر کے درخواست گزاروں کو ایک رعایت دی گئی ہے جسکے نتیجہ میں ان کی فائل ’’لال‘‘ کہلائے گی اور ان کی پیشی کا وقفہ کم ہو جائے گا مگر ہو یہ رہا ہے کہ تاریخ تو جلدی آ جاتی ہے لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر ان کا سیریل نمبر کافی بعد کا لگایا جاتا ہے تا کہ تب تک عدالت کا وقت ہی ختم ہو جائے، نتیجتاً بوڑھے لوگوں کو دی گئی اس رعایت پر عملدرآمد روک دیا جاتا ہے۔

جو متاثرین شکایات کا سہارا لیتے ہیں اور چیف جسٹس، رجسٹرار اور ڈائریکٹر (آئی ٹی) کو اس ضمن میں خطوط بھیجتے ہیں‘ ایسا لگتا ہے کہ اس پربھی کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا، شاید کہ متعلقہ عملہ اسے افسران بالا تک بھیجتا ہی نہیں یا پھر افسرانِ بالا اپنے فرائض سے اغماض برت رہے ہیں۔

عدالتیں سردی اور گرمی کی تعطیلات کو بھی استعمال میں لاتی ہیں جب کہ مقدمات کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ مہینوں کی چھٹیاںتو کیا، ایک ہفتہ کی چھٹی بھی مقدمات کے بوجھ کو دگنا کر سکتی ہے‘ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک آدھ سال اس رعایت پر پابندی لگا دی جائے تاکہ پرانے مقدمات نمٹائے جا سکیں؟

یہ اَمر انتہائی قابلِ ذکر ہے کہ ماتحت عدلیہ میں عدالتوں اور رہائشگاہوں کی بہت زیادہ کمی ہے، اس بابت چیف جسٹس منصور علی شاہ نے قاضی القضاۃ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے جھنگ اور گوجرانوالہ میں وکلاء سے خطاب میں خود کہا تھا، ’’پنجاب میں 1600 عدالتوں کی کمی ہے‘ اسطرح رہائشگاہیں بھی بہت کم ہیں‘‘۔

ایک سول جج کو چھوٹے شہر میں چار ہزار روپے جب کہ بڑے شہر میںچھ ہزار روپے کی اماؤنٹ ماہانہ ہاؤس رینٹ کی مد میں ملتی ہے جس سے گھر کرائے پر لینا انتہائی مشکل ہے‘ اتنی رقم میں تو آج کل ایک کمرا بھی کرایہ پر حاصل نہیں کیا جا سکتاچنانچہ 4 اور 6 ہزار کا خیراتی وظیفہ دیکر سول ججز کو کاسہ لیس بنانے کی بجائے سرکاری رہائش فراہم کی جائے یا ایک اچھے علاقہ میں گھر تلاش کر کے اس پر جتنا بھی کرایہ اٹھتا ہو حکومت اسے خود برداشت کرے۔

اعلیٰ نجی تعلیمی اداروں میں ججز کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات کی فیس بچوں کی تعداد اور اسٹینڈرڈ کے حساب سے ’’چلڈرن ایجوکیشن بونس‘‘ (سی ای بی) کی شکل میں تنخواہ کے ساتھ شامل کی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ ججز کے لیے فیملی میڈیکل الاؤنس کا انتظام اس لیے بھی کرنا ضروری ہے تا کہ ججز یہ اخراجات پورے کرنے کے لیے رشوت کا سہارا نہ لیں۔

لاہور جیسے بڑے شہر میں ماتحت عدلیہ کے ججز چھوٹے چھوٹے کمروں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں، جہاں انھیں واش روم اور ریٹائرنگ روم تک کی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں‘ لاہور کے ایوانِ عدل سے پنجاب کے دوسرے اضلاع کی کچہریوں میں سول ججز ریڈرز کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں کام کرنے پر مجبور ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ماتحت عدلیہ کے بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ کرے، اس کے علاوہ عدالتوں اور رہائشگاہوں کی کمی کو بھی دُور کرے۔

ہائیکورٹ کی طرف سے وکلاء کے لیے 300 چیمبر زیرتعمیر ہیں مگر افسوس کہ ججز کے لیے عدالتوں میں اوّل تو کم کم ہی چیمبرز موجود ہیں اور جو ہیں وہ بھی تنگ و تاریک اور انتہائی وحشتناک ہیں جن میں آسانی سے جج، اس کا عملہ اور متعلقہ سازوسامان بھی نہیں سما سکتا‘ ماتحت عدلیہ میں سیشن کورٹس اس معاملے میں کافی حد تک سہولت پذیر ہیں لیکن سول کورٹس کو مناسب اور پیشہ ورانہ سہولیات سرے سے میسر نہیں ہیں۔

اکثر شہروں میں سول جج کا کمرہ کسی اسکول ماسٹر کے کمرے سے بھی چھوٹا ہوتا ہے جس میں بیٹھ کر وہ ریلوے کا کوئی بکنگ کلرک نظر آتا ہے‘ یہ انتہائی عجیب بات ہے کہ ایسے غیرمثالی ماحول میں جج کا نہ تو اپنے عملے پر کوئی رعب رہ جاتا ہے‘ نہ ہی پولیس والے جج صاحب کو عزت کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور نہ ہی مدعی اور ملزمان کے دل میں عدالت کا کوئی خوف ہوتا ہے اور مقدمے کی کارروائی کے دوران دونوں پارٹیاں آپس میں سرِعدالت گالی گلوچ پر اُتر آتی ہیں اور جج صاحب بت بنے انھیں دیکھتے رہتے ہیں۔

اس سے بھی بڑا مسئلہ ماتحت عدلیہ کے ججوں کی سکیورٹی کا ہے‘ نامناسب عدالتوں اور رہائشگاہوں کی وجہ سے ماتحت عدلیہ کے ججز کو سکیورٹی کے شدید خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ سال اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج شہید ہوئے‘ راولپنڈی میں طاہر نیازی ایڈیشنل سیشن جج کو ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا اور ڈسکہ میں ایڈیشنل سیشن جج قاتلانہ حملہ میں شدید زخمی ہوئے جب کہ کوئٹہ اور مردان کے حالیہ واقعات میں 70 سے زائد وکلاء شہید ہوئے‘ حکومت ِ پنجاب اور محکمہ داخلہ کو چاہیے کہ ماتحت عدلیہ کے ججوں کو مناسب سکیورٹی فراہم کرے‘ ان کی عدالتیں اور رہائشگاہیں ایسی جگہوں پر تعمیر کی جائیں جہاں سکیورٹی کے خطرات کم سے کم ہوں۔

جہاں تک خطرناک ملزموں کے مقدمات کا تعلق ہے تو ایسے مقدمات کو جیل میں ہی سنا جانا چاہیے تا کہ وہ عدالتوں کی سکیورٹی کے لیے خطرہ کا باعث نہ بنیں‘ فوجداری مقدمات کے لیے جدید ڈیوائسزکے ساتھ ویڈیو کانفرنس اور فرانزک لیب کا استعمال بڑھایا جائے جس سے مقدمات کو تیزی سے چلانے میں ہرممکن مدد ملے گی۔

13 اپریل کو لاہور ہائیکورٹ میں مقدمات کی سماعت جاری تھی کہ یکایک ایک ہلہ مچ گیا، وکلاء کا ایک گروپ عدالتوں میں آیا اور اپنے کسی ساتھی وکیل کے انتقال کی خبر سناکر عدالت کو بند کرنے کو کہا اور دیکھتے ہی دیکھتے عدالت کی کارروائی روک دی گئی۔

ایک عدالت میں روزانہ عموماً ساٹھ ستر مقدمات لگے ہوتے ہیں‘ سائلین دُور دُور سے اس اُمید کے ساتھ عدالت آتے ہیں کہ شاید آج کچھ فیصلہ ہو جائے مگر سب کچھ چھٹی کی نذر ہو گیا‘ حد تو یہ ہے کہ جج صاحبان بھی یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں کیونکہ وکلاء کے ساتھ پاکستان بار کونسل کھڑی ہوتی ہے‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی حرکات پر پابندی لگائی جائے‘ اگر ایسی کوئی اطلاع موصول ہوتو عدالتوں کو مطلع کیا جائے کہ کام روک کر نصف گھنٹہ کا وقفہ ہو، مرحوم کی مغفرت کے لیے فاتحہ پڑھی جائے اور اس کے بعد عدالت کا کام جاری رہے۔

پنجاب کے 5 ڈویژن کے 22 اضلاع کے وکلاء تقریباً 6 ماہ سے مسلسل ہڑتالوں پر اُترے ہوئے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان 5 ڈویژنوں میںبھی ہائیکورٹ کے علیحدہ بنچ قائم ہونے چاہییں‘ اس ہڑتال کی وجہ سے عام سائلین پریشان اور مقدمات التوا کا شکار ہیں۔

ویسے تو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ اس بارے میں بے حد متفکر ہیں اور اس سلسلے میں انھوں نے کافی کام بھی کیا ہے تاہم اس ضمن میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ حکومتی تعاون کے بغیر ہرگز ممکن نہیں۔

پاکستان کی عدالتوں کا حال اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ یہاں نسلوں تک مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے لہٰذامقدمات کے ختم کرنے کے لیے ایک حد مقرر کی جانی چاہیے‘ سیدھے سیدھے مقدمات کا ایک ماہ میں فیصلہ ہو جانا چاہیے‘ پیچیدہ مقدمات کو بھی تین سے چار ماہ میں نمٹا دیا جانا چاہیے‘ فیملی اور کرایہ داری کے مقدمات میں حد مقرر کرنے کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

سول مقدمات کو ختم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ جب کہ فوجداری مقدمات کے لیے ایک سال کا عرصہ متعین ہونا چاہیے‘ دانستہ التواء یا خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ جج، وکیل اور فریقین پر جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے‘ مقدمات کا بوجھ ماتحت عدلیہ پر کم کرنے کے لیے معمولی نوعیت کے معاملات کو متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے اندر ہی ہینڈل کیا جانا چاہیے۔

پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں ہزاروں مقدمات نام درستی، تاریخ پیدائش درستی اور پیدائش و اموات کے سرٹیفکیٹ کے اجراء کے لیے دائر کیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے عدالتوں پر غیرضروری بوجھ پڑتا ہے، عوام الناس کے وقت اور پیسہ کا ضیاع اس کے علاوہ ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ اس کام کے لیے متعلقہ محکمہ جات کو ہدایات جاری کرے کہ وہ ایسے کاموں کے لیے اپنے ہاں ریزولوشن سیل قائم کریں جو ایک ہی دن میں درستی کر کے سرٹیفکیٹ سائل کے حوالے کریں یا پھر ایسا ایک ادارہ قائم کیا جائے جس میں بلدیہ، ٹاؤن کمیٹیاں، تعلیمی بورڈ اور اس طرح کے دیگر ادارے شامل ہوں جنھیں ریکارڈ درستی کے لیے نادرا کے ایک علیحدہ ’’ڈیپارٹمینٹل کرنچ یونٹ‘‘ (ڈی سی یو) کا تعاون حاصل ہو‘ اس طرح کے معمولی معاملات کو اپنے سر سے اتارنے کے لیے عدالتوں پر لادنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

عدالتیں چھوٹے موٹے ریکارڈ کی درستی کے لیے نہیں بلکہ انصاف فراہم کرنے کے لیے ہیں، انھیں بے جا کاموں میں اُلجھا کر اصل مقدمات سے توجہ ہٹانا بھی ایک جرم ہے، اس بارے میں سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے‘ ماتحت عدالتوں میں ہزاروں مقدمات بجلی کے بلوں اور اداروں سے متعلقہ ہیں، اس نوعیت کے کاموں کو مقدموں میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ متعلقہ اداروں کے اپنے کرنے کے کام ہیں جس کے لیے انھیں ہرحال میں ’’اِن ڈوریونٹ‘‘ یا ’’موبائل یوٹریکل‘‘ قائم کرنے چاہئیں تا کہ سائلین کو خواہ مخواہ کی پریشانی سے نجات دلائی جائے۔

حکومت کو چاہیے کہ محتسب ِاعلیٰ کے ادارہ کو مضبوط بنائے جس سے عدالتوں پر سے مقدمات کا غیرضروری بوجھ کم ہونے میں مدد ملے اور لوگوں کو سستا و فوری انصاف بھی میسر آئے‘ اسی طرح معمولی نوعیت کے مقدمات کو دیہاتوں اور شہروں میں پنچایتی نظام کے سپرد ہونا چاہیے‘ چونکہ نمبردار کا کردار دیہاتوں میں ختم ہو کر رہ گیا ہے اور اس کی حیثیت اب بے معنی سی ہو گئی ہے۔

ایسی صورتحال میں منتخب بلدیاتی نمایندوں کو چند مناسب سے نیم فوجداری اختیارات بھی تفویض کر دینے چاہئیں جو مقامی سطح پر فریقین میں صلح صفائی کروا کر اور لین دین کے معاملات کو بطریقِ احسن نمٹا کر عدالتوں کا آدھے سے زیادہ بوجھ کم کر سکتے ہیں‘ ایک لحاظ سے یہ فوری اور سستے بلکہ مفت انصاف کی ایک عملی شکل ہو گی جسے فی الفور نومنتخب بلدیاتی نمایندوں کی ذمے داریوں میں شامل کیا جانا ازحد ضروری ہے۔

کارپوریٹ اور دیگر مقدمات میں اے ڈی آر (تنازعہ کے حل کا متبادل نظام) کے ذریعے بھی لوگوں کو فوری اور سستا انصاف مہیا کیا جا سکتا ہے جس کے لیے فریقین کی طرف سے نامزد افراد پر مشتمل پنچایت نما ایک باڈی قائم کی جائے جو باہمی رضامندی سے تنازعہ کا حل تلاش کر کے فریقین کو مطمئن کرے۔

فوجداری کے معمولی نوعیت کے مقدمات کے لیے اسپیشل مجسٹریٹ کو اختیارات دیے جائیں جو ایک ماہ میں ان کا فیصلہ کرنے کا پابند ہو اور ہر مقدمہ پر سیشن کورٹ میں ایک حلف جمع کرائے کہ وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیگا اور نہ ہی کسی فریق سے رشوت لے گا، اس کے بعد بھی اگر وہ جانبداری ظاہر کرے یا انصاف میں ڈنڈی مارے تو متاثرہ فریق کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو شکایتی درخواست جمع کروانے کا پورا پورا حق ہونا چاہیے جس پر اے ڈی ایس جے کو چاہیے کہ وہ دو افراد پر مشتمل ایک نظرثانی ٹیم مقرر کرے جو متاثرہ فریق کے مقدمہ کی جانچ کر کے اسے دوسرے مجسٹریٹ کے پاس دوبارہ سماعت کے لیے بھیجے۔

دیوانی مقدمات میں بھی محکمہ مال کا ریکارڈ انتہائی خراب ہے‘ لاکھوں کی تعداد میں دیوانی مقدمات کی بڑی وجہ محکمہ مال کی کرپشن اور بدانتظامی ہے‘ محکمہ مال میں ریکارڈ درست طریقہ سے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دیوانی عدالت کا رُخ کرنا پڑتا ہے‘ لوگوں کی جائیدادوں کا فیصلہ بھی سالہاسال نہیں ہو پاتا‘ جب تک محکمہ مال کی مرمت اور صفائی ستھرائی نہیں ہو جاتی فوجداری کی طرح دیوانی عدالتوں کی صحت بھی خرابی کا شکار رہے گی اور سائلین انصاف کے لیے دَربدر ہوتے رہیں گے۔

ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو لوگوں کی جائیدادوں کا ریکارڈ درست طریقہ سے رکھنے کا پابند کیا جائے اور ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے عمل کو بھی تیز کیا جائے‘ اسی طرح جائیداد کی رجسٹریشن کے لیے بذریعہ کمیشن یا مختارنامہ منتقل ہونے پر پابندی ہونی چاہیے، جیسا کہ ڈی ایچ اے جیسے کامیاب منصوبوں میں ہوتا ہے‘ فیملی اور گارڈین کیسز میں حکومت نے بہت سی ترامیم کی ہیں، تاہم ان مقدمات کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے جس سے لوگوں، خاص طور پر خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ فیملی کیسز میں اجراء (تعمیل) کے عمل کو تیز کرنے کے لیے عدالتوں کی معاونت کرے‘ یہ ذمے داری عدالت ِ عالیہ کی ہے کہ گارڈین اور فیملی جج (جوکہ سینئر سول جج کے رینک کا ہو) تعینات کیا جائے تا کہ عائلی مقدمات کا فیصلہ جلدازجلد کیا جا سکے۔

تارکینِ وطن اپنی خون پسینے کی کمائی سے جو اربوں روپے وطنِ عزیزبھیجتے ہیں، ان کی وجہ سے ہی ملک چل رہا ہے اور اس کے بالعوض انہیں پاکستانی حکومت کی طرف سے کوئی سہولت نہیں دی جاتی اوراگر وہ اپنے بچوں کے لیے کوئی پلاٹ یا مکان خریدتے ہیں تو حکمرانوں کے گماشتے ان پر بھی قبضہ جما لیتے ہیں اور مجبور پردیسی اپنی باقی جمع پونجی اسے واگزار کرانے پر لگا دیتے ہیں مگر تمام تر کوششوں کے باوجود بھی نامراد رہتے ہیں۔

اگر عدالت ِ عالیہ ان کے لیے خصوصی عدالتیں بنا دے اور ان کے مقدمات کے فیصلوں کے لیے ایک ماہ کی مدت مقرر کر دی جائے تو تارکینِ وطن کے مسائل بآسانی حل ہو سکتے ہیں اور وہ پاکستان کے زرمبادلہ میں غیرمعمولی اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں۔

چیف جسٹس کے بقول 1966ء سے 2000ء تک کے تمام مقدمات کو 2016ء تک نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، بقیہ 40 ہزار مقدمات بھی جلد نمٹانے کا عندیہ ہے‘ اگر اس پر ہی سختی سے عمل ہو تو ہم سمجھیں گے کہ انصاف جلدازجلد ہوتا ہوا نظرآ نے لگا ہے مگر معذرت کے ساتھ عملی طور پر اس پر تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔

چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ عملی ابتداء اسی نیک کام سے کریں اور کل سے ہی زیر التواء مقدمات کی سماعت شروع کروائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں عدالتی تبدیلی کی جو انقلابی لہر عدالتِ عظمیٰ میں پیدا ہوئی تھی اسے عدالت ِ عالیہ اور ماتحت عدلیہ کی نچلی سطح تک رَوپذیر ہونا چاہیے مگر یہ تبھی ممکن ہے جب وکیل گردی کے کلچر کو جڑ سے ختم کرکے بار اور بینچ کے رشتے میں اخلاقی اور تہذیبی توازن پیدا کیا جائے۔

(جاری ہے‘ باقی آیندہ اتوارکوملاحظہ فرمائیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔