بے مثل تخلیق کار ریاض شاہد

شاہد سردار  اتوار 2 اکتوبر 2016

ریاض شاہد بھی ہمارے ہاں کے ایسے ہی معدودے چند تخلیق کاروں میں سے ایک تھے جو یکم اکتوبر 1972 کو ہمیں داغ مفارقت دے گئے تھے۔ وہ بلاشبہ ہمارے ملک کے نڈر اور قلندر لکھاری تھے جن کی تحریر ہر دور کے غلط لوگوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی۔ وہ دنیائے ادب و صحافت میں ایک نمایاں مقام اور اہمیت کے حامل تھے،ان کا ناول ’’ہزار داستان‘‘ ادب میں ہمیشہ نمایاں اہمیت کا حامل گردانا جائے گا۔

وہ بلاکسی پرواہ، لالچ اور خوف کے لکھتے اور سچ اور جھوٹ کی سرحد پر اکیلے کھڑے سپاہی تھے قلم سے مسلح۔ جرأت، بے خوفی، بے باکی، استبداد اور اقتدار کے خلاف نبرد آزما ہونے کا دوسرا نام ریاض شاہد تھا۔ان کے نزدیک قلم کی تجارت عزت کی تذلیل سے کم تر نہیں تھی۔ ریاض شاہد لوگوں کی پیشانیوں سے موضوع تلاش کرتے اور ان کی نظروں سے ان کے دلوں کے جذبات پڑھتے۔ کوچہ ادب و صحافت سے ہوتے ہوئے فلم جیسے سب سے موثر ذریعہ ابلاغ پر انھوں نے جوکام کیے وہ کبھی فراموش نہیں کیے جائیں گے۔

ہماری مردہ حال فلم انڈسٹری کی تباہی کا بنیادی سبب فلموں کا کمرشل ازم اور مقصدیت کے دھارے میں بہنا ہے۔ پاکستانی فلمی صنعت میں صرف اورصرف ریاض شاہد ہی ایک ایسے صاحب طرز اور جدت طراز مصنف، فلم ساز اور ہدایت کار تھے جنھوں نے فلموں میں ملکی اورغیرملکی حوالوں سے ایسے موضوعات منتخب کرکے پاکستانی سینما پر پیش کیے جن میں معقولیت اور مقصدیت کے پہلو تھے۔

ریاض شاہد اداکاروں کوکبھی خاطر میں نہ لانیوالے فلم میکر تھے انھیں صرف اپنی تحریر کی پرواہ ہوتی تھی کیونکہ انھیں خود پر اعتماد تھا کہ ان کی کہانی اور مکالموں میں جان ہے اور اسی کے بل پر ایک اچھی فلم بنتی ہے۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ریاض شاہد پاکستان کے پہلے فلمی مصنف تھے جنھوں نے کہانی لکھنے والوں کے وقار، معاوضے اور اہمیت میں ہوشربا اضافہ کیا، بڑے سے بڑا فلم ساز اور ہدایت کار ان کے کام کے سحر میں مبتلا اور ان کے کام میں مداخلت سے دور رہتا تھا۔

یوں تو ریاض شاہد کو فلم کے بیشتر بڑے اور اہم ترین شعبوں پر دسترس حاصل تھی لیکن کہانیوں اور ان کے کرداروں کے مکالمے لکھنے میں انھیں ملکہ حاصل تھا۔ ان کے مکالموں کی تراش سب سے انوکھی تھی، ان کا اسلوب جدا تھا ان کا رنگ ہی مختلف تھا لوگوں نے نہ صرف ان مکالموں کی بے پناہ داد دی بلکہ انھیں یاد بھی رکھا۔ بلاشبہ ریاض شاہد مکالمہ نگاری میں اپنے طرز تحریر کے موجد بھی تھے اور انھی پر یہ فن ختم ہو گیا۔

ریاض شاہد جب کہانی نویس اور مکالمہ نگاری سے ہوتے ہوئے فلم ساز اور ہدایت کار بنے تو انھوں نے اپنے فنی کیریئر میں کبھی کوئی فارمولا اور بے مقصد فلم نہیں بنائی۔ ریاض شاہد کو بہترین مصنف، بہترین مکالمہ نگار اور ہدایت کار کے جتنے ایوارڈ ملے وہ آج تک کسی اور تخلیق کار کو میسر نہ آسکے۔

بھروسہ، نیند، کلرک، ڈاکو کی لڑکی، شہید، سسرال، قانون، شکوہ، خاموش رہو، فرنگی، رواج، مجاہد، آگ کا دریا، باغی سردار، بدنام، شعلہ اور شبنم، گناہگار، مفرور، دوسری شادی، میں زندہ ہوں، زرقا، غرناطہ، خاک اور خون، زخمی، سماج، حیدرعلی، بہشت اور امن وغیرہ ان کے ذہن اور قلم سے نکلے فن پارے تھے۔ریاض شاہد کے حوالے سے یہ سچائی بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ انھیں گستاخ قلم مصنف کہا جاتا تھا۔ ان کی کہانیاں، منظر نامے اور مکالمہ دلوں میں اتر جانے والے اور روح کو زخمی کردینے والے ہوتے تھے۔

ریاض شاہد چونکا دینے والے موضوعات پر فلمیں تحریر کرنے کے حوالے سے بہت شہرت یافتہ تھے۔ریاض شاہد نے اپنے فنی کیریئر کے آغاز سے انجام تک ذریعہ ابلاغ کی حرمت اور اہمیت کا پاس اپنی فلموں کے ذریعے رکھا، جو لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستانی فلمیں غیر معیاری ہوتی ہیں انھیں یہ علم بھی نہیں ہے کہ پچاس ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں کس قدر معیاری اور خوبصورت فلمیں بنائی گئیں جنھیں بڑے فخر کے ساتھ بڑی بڑی بھارتی فلموں کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا تھا اور اکثر موضوع اور ٹریٹ منٹ (پیش کش) کے اعتبار سے ہمارے ماضی کی پاکستانی فلموں کا پلڑا بھاری ہوتا تھا۔

ریاض شاہد کا المیہ یہ رہا کہ کسی دورکی سرکار نے ان کی اہمیت کا خیال نہیں کیا، کسی بھی حکومت نے ان کی فلموں کی سرکاری سطح پر پذیرائی نہیں کی۔ ان کی آخری فلم ’’امن‘‘ تھی جو انھوں نے کشمیریوں کی جنگ آزادی کے بارے میں بنائی تھی انھوں نے اپنی ساری جمع پونجی اس پر لگادی لیکن اس وقت کی حکومت نے اس پر پابندی لگادی تھی۔

’’امن‘‘ بعد میں ہزار دقتوں اور سفر کی بے پناہ کاٹ چھانٹ کے بعد ’’یہ امن‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی۔ کتنے ستم،کتنی شرم اورکتنے دکھ کی بات ہے کہ ’’نواب زادہ‘‘ جیسی فلم کے سینما کی کھڑکی ہاؤس فل کے بورڈ سے چھپی ہوئی تھی اور ریاض شاہد کی یادگار اور بامقصد بین الاقوامی معیار کی فلم ’’یہ امن‘‘ کی کھڑکی تماشائیوں کی عقل سلیم کا کھلے بندوں ماتم کر رہی تھی۔

یہ غم یہ دکھ ریاض شاہد کو خون کے کینسر میں مبتلا کرگیا۔ ایک تخلیق کارکو، ایک قلم کارکو، ایک محب وطن ہنرمند کو ہماری قوم نے اور ہمارے نظام نے اس کی زندگی بھر کی کاوشوں کا یہ صلہ دیا جس ذہن نے ’’امن‘‘ جیسی لافانی فلم تخلیق کی تھی اسے فراموش کردیا گیا، جن انگلیوں نے خون دل میں ڈوب کر لکھنے کی غلطی کی تھی بالآخر وہ بے جان ہوگئیں۔

ریاض شاہد کے ساتھ روا رکھی گئی ستم ظریفی اس بے حس قوم اور کرم خوردہ نظام طرز عمل اور سلوک کا جیتا جاگتا نمونہ ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سچ سامنے لانیوالوں کو سچ چھپانیوالوں کا سامنا ہے، جو موالی کو مولائی، ڈرائیورکو استاد، جاہل کو سر،استاد کو ماسٹر، وڈیرے کو سائیں اور داداگیرکو کامریڈ سمجھے۔

اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ریاض شاہد کی موت محض ایک شخص یا انسان کی موت نہیں، ایک عہد، ایک زمانے کی موت ہے، ایک شناخت کی موت ہے جو ان کے نام کی وجہ سے اس ملک کی فلم انڈسٹری کو حاصل تھی۔ یہ ایک مثال کی موت ہے جو ان کی شکل میں تھی جو بلاشبہ ایک عظیم اور بے مثل تخلیق کار تھے جنھوں نے تیر دشنام بھی سہے، روز ناکام بھی دیکھے، صبح ناشاد بھی کاٹی اور رسم الزام کا شکار بھی ہوئے پھر بھی ان کے نام اورکام کا ڈنکا چہار سو بجا۔

کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے نام ان کی زندگی ہی میں ان کی پہچان بن جاتے ہیں اور جو اپنے قدموں کے نشان تاریخ کے صفحات پر چھوڑجاتے ہیں۔ریاض شاہد انھی معدودے چند لوگوں میں سے ایک تھے۔

ریاض شاہد کے ساتھ اس ملک کی صنعت فلم سازی کا ایک زریں دور ختم ہوگیا، ایک انداز فکر تمام ہوگیا،کاٹ دارالفاظ کا تراشنے والا قلم نہ رہا، نہ وہ تیکھے جملے کہنے والی زبان رہی اور نہ وہ عام روش سے ہٹ کر سوچنے والا ذہن۔ غرض یہ کہ ایک روایت تھی جو ختم ہوگئی۔ لیکن پاکستان کی فلمی صنعت کے ہر شعبے پر ریاض شاہد نے جو چھاپ لگائی ہے وہ مٹائے نہیں مٹ سکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔