ماہ رمضان ، چند یادیں

نصرت جاوید  بدھ 25 جولائی 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں۔ ’’بالم‘‘ کو بھگت لیتے ہیں مگر وینا کو ’’استغفار‘‘ بھی نہیں کرنے دیتے۔ اپنے بچوں کو بڑی ڈھٹائی سے بتایا کرتے ہیں کہ رمضان کے مبارک مہینے میں شیطان کہیں بند کردیا جاتا ہے۔ مگر بازار میں نکلیں تو مفروضہ طور پر’’بند‘‘ شیطان عام دنوں سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ بہت سارے روپ دھارے ہر طرف عمل پیرا نظر آتا ہے۔ وہ پھلوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کراتا ہے۔

خیرپور میں اُگائی کھجوروں کو بصرہ یا سعودی عرب سے برآمد شدہ بتا کر’’مقدس‘‘ اور مہنگا کر دیتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں حاضری نہ ہونے کے برابر کر دیتا ہے۔ وہ سارے لوگ جو ریاست سے تنخواہیں لے کر میری اور آپ کی ’’خدمت‘‘ پر مامور ہیں، اکثر ’’نماز پڑھنے گئے‘‘ ہوتے ہیں۔ اپنی سیٹ پر موجود ہوں تو آپ کی بات غور سے نہیں سن سکتے۔ انھوں نے روزہ رکھا ہوتا ہے۔

روزہ رکھنے کے نام پر اپنے رزق کو حلال بنانے والی فرض شناسی سے کوتاہی برتنے والے یہ ’’پارسا‘‘ افسران یاد ہی نہیں رکھتے کہ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان جو پہلی باقاعدہ جنگ ہوئی تھی وہ اسی مہینے میں بدر کے محاذ پر لڑی گئی تھی۔ اسلام کے اولین دنوں کے مسلمان ’’روزہ رکھنے‘‘ کی وجہ سے کاہلی اور بددلی میں پناہ لے لیتے تو دین کی بات آگے بڑھانے میں شاید بے تحاشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایک مسلمان کے لیے روزہ فرض ہے۔ اسے منافع خوری اور دُنیاوی فرائض اور لوازمات سے بھاگنے کا بہانہ نہیں بنایا جا سکتا۔

اسکول کے دنوں میں مجھے بتایا گیا تھا کہ سری لنکا سے ایک جہاز آ رہا تھا۔ اسے سندھ کے ساحلوں پر ڈاکوئوں نے لوٹا۔ جہاز میں موجود مسلمان خواتین اپنی بے بسی پر واویلا کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ ان کی دردبھری کہانی بغداد میں بیٹھے امیر المومنین تک پہنچی۔ انھوں نے سترہ سالہ محمد بن قاسم کو سندھ کے راجہ داہر کو سبق سکھانے کے لیے روانہ کر دیا۔ اس نوجوان نے دیبل کو فتح کیا۔

سندھ باب الاسلام بن گیا اور رفتہ رفتہ پورے برصغیر میں چاروں طرف اسلام پھیل گیا۔ مجھے محمد بن قاسم کی آمد اور دیبل کی فتح کی کہانی تو بارہا بتائی گئی۔ مگر کالج پہنچنے تک یہ نہ جان پایا کہ محمد بن قاسم کی واپسی کیوں اور کن حالات میں ہوئی تھی۔ محمد بن قاسم کی واپسی کی کہانی میں نے نصابی کتابوں کے ذریعے نہیں اپنے شیطانی ذہن میں متحرک تحقیق کو مجبور کرنے والے خنّاسی کیڑے کی بدولت جانی۔

ویسے بھی تاریخ جو چاہے بتاتی رہے۔ مجھے اکثر یہ گمان ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ’’اصل اسلام‘‘ غازی ضیاء الحق کے دنوں میں نافذ ہونا شروع ہوا تھا۔ رمضان میرے بچپن کے دنوں میں بھی آیا کرتا تھا۔ میرے پاس ٹھوس اعداد و شمار تو نہیں ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں اکثر یہ شک پڑتا ہے کہ ضیاء الحق کے آنے سے پہلے ہمارے روزہ رکھنے والے فی کس افراد کی تعداد اتنی ہی ہوا کرتی تھی جتنی آج کل ہو سکتی ہے۔

فرق بس اتنا ہے کہ ان دنوں روزہ رکھنے والے اپنی پارسائی کا رعونت بھرا ڈھنڈورا نہیں پیٹا کرتے تھے۔ ہمارے لاہور کی گلیوں میں کچھ نوجوان ہوا کرتے تھے جو ٹولیاں بنا کر لوگوں کو سحری کے لیے جگایا کرتے۔ ان سے کہیں زیادہ پر اثر وہ ملنگ نما فقیر ہوتے جو سارنگی یا اک تارہ پر حمد و نعت گاتے لوگوں کو روزہ کی تیاری کے لیے التجائیں کیا کرتے۔ میرے آبائی گھر کے نیچے بھی کئی برسوں سے ایک ایسا ہی فقیر آیا کرتا تھا۔ اتفاق کی بات یہ بھی ہے کہ وہ جب بھی ہمارے ہاں پہنچتا تو ایک ایسے مصرعے پر پہنچ چکا ہوتا جہاں شاعر انسانوں کو اکسا رہا ہوتا تھا کہ وہ اُٹھ کر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ اس فانی دُنیا میں کیوں اور کیسے آئے۔ پھر انھیں یہاں سے جانا بھی ہے۔ بالآخر ایک دن آئے گا جب آپ کا اس دنیا میں کیے جانے والے اعمال کا حساب کتاب ہوگا۔

اپنی درد بھری آواز اور سادہ ترین پنجابی مصرعوں میں وہ کہیں بھی آپ کو گناہ گار قرار دے کر دوزخ کی آگ کی تپش سے دہشت زدہ نہ کرتا۔ بس علی الصبح اُٹھ کر تھوڑا سوچنے پر مجبور کر دیتا۔ افطار کا اعلان ریڈیو اور ٹیلی وژن پر نہیں کیا جاتا تھا۔ بس ایک سائرن ہوتا۔ جسے ہم ’’گھگو‘‘ بولتے تھے۔ اس کی آواز سے افطار ہو جایا کرتی۔ میرے بچپن میں کھانے پینے کی دکانیں اور ریستوران بند نہیں ہوا کرتے تھے۔

بازاروں میں سرعام لوگ رضا کارانہ طور پر کھانے پینے سے اجتناب برتتے۔ سگریٹ پینا ہو تو کسی دیوار کی اوٹ میں چلے جاتے۔ ریستوران کھلے ہوتے۔ مگر ان کے باہر بوریوں سے بنے پردے لٹکے ہوتے۔ ان کے اندر موجود لوگوں کو نفرت وحقارت کا شکار بنانے کے بجائے عمومی طور پر فرض کر لیا جاتا کہ بوریوں کے پیچھے کھانے پینے والے یا تو مسافر ہوں گے یا بیمار، کچھ بزرگ بھی ہو سکتے ہیں جو شاید اپنی عمر کی وجہ سے روزہ رکھنے سے قاصر ہیں۔

ضیاء الحق کے دنوں میں ’’اسلام کی آمد‘‘ کا اندازہ تو مجھے اسلام آباد آ کر ہوا۔ نوجوانی کے دن تھے اور والدین سے دور تھا۔ ملازم رکھنے کی توفیق نہ تھی اور خود کھانا بنانا نہیں آتا تھا۔ ایک دن بھوک نے بہت ستایا تو اسلام آباد کے ان دنوں کے واحد پنج ستارہ ہوٹل کے سوا کوئی جگہ نہ ملی۔ وہاں جا کر بیٹھا تو میرے آرڈر دینے سے پہلے بیرا ایک فارم لے آیا، اس پر مختلف خانے بنے تھے جن میں سے کسی ایک پر ٹک کر کے آپ کو یہ بتانا تھا کہ آپ ایک مسافر ہیں یا بیمار اور غیر مسلم۔ اسی لیے اس ریستوران میں بیٹھ کر کھانے کا آرڈر دے رہے ہیں۔

میں ان میں سے کسی ایک پر بھی نشان لگانے کی ہمت نہ کرسکا اور شرم بھرے غصے سے اُٹھ کر باہر آ گیا۔ اس ایک بہت ہی ذاتی تجربے سے میں نے اگرچہ یہ جان لیا کہ ریاست کی طرف سے ’’نافذکردہ اسلام‘‘ لوگوں کو جھوٹ اور منافقت کے راستوں پر چلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ پتہ نہیں ہر وقت کیوں محسوس ہوتا رہتا ہے کہ ضیاء الحق کے چلے جانے کے بعد بھی ہم مسلسل اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ واپسی کی اُمید وہمت بھی کھو بیٹھے ہیں ۔

اب تو رمضان صرف’’ ریاست‘‘ کا نہیں رہا‘ میڈیا کا بھی ہوگیا۔ جس نے رمضان کے ایام کو Infotainment کے نام پر بنائے گئے شوز کے نام کر دیا ہے۔ ایرانی نژاد ولی نصر نے ایک امریکی جریدے میں ہفتے کو ایک مضمون لکھا اور بتایا کہ پوری عرب دُنیا میں کمرشل ٹی وی والے اپنے پورے سال کے اشتہاروں سے حاصل ہونے والے منافع کا 20 سے 30 فیصد صرف اسی مہینے میں رمضان کے نام پر بنائے گئے پروگراموں کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔

رمضان کے دنوں میں صرف مسلمان ہی منافع نہیں کماتے۔ آسٹریلیا والوں کی بھیڑیں اس مہینے میں سال کے باقی ایام سے 77 گنا زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ رمضان کے دنوں میں تقریباََ پورے سال کے برابر منافع کمانے کے بعد ہمارے کاروباری لوگ رمضان کے آخری عشرے میں ’’فائیو اسٹار عمرے‘‘ پر جاکر اپنے گناہوں کی معافی تلافی کرانے کے بعد ایک اور سال منافع خوری کی نظر کرنے کے لیے گویا ’’تازہ دم‘‘ ہو جایا کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میںمیڈیا والے اپنے شہرنہ سجائیں تو اور کیا کریں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔