فاتح ارض مقدس، امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق ؓ

مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی  اتوار 2 اکتوبر 2016
آپؓ کے عہدِ خلافت میں محاصل کے حصول، نظامِ آب پاشی، بیت المال کی وسعت اور اس کا نظم و ضبط، تعلیم اور اشاعتِ قرآن و حدیث کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا
 فوٹو : فائل

آپؓ کے عہدِ خلافت میں محاصل کے حصول، نظامِ آب پاشی، بیت المال کی وسعت اور اس کا نظم و ضبط، تعلیم اور اشاعتِ قرآن و حدیث کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا فوٹو : فائل

آپؓ کا نام عمر، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص تھی۔ والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام عنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھا۔ آپؓ کا رنگ سفیدی مائل بہ سُرخ، رخساروں پر گوشت کم اور قد دراز تھا۔ آپؓ کا تعلق قریش کی ایک شاخ عدی سے تعلق تھا۔ سلسلۂ نسب عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداﷲ بن قرط بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک تھا۔ آپؓ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور ﷺ سے جا ملتا ہے۔ آپ583ء میں پیدا ہوئے۔ عرب ماحول میں تربیت حاصل کی۔ فن سپہ گری میں دست رس حاصل کی۔ شہہ سواری اور پہلوانی میں بھی مقام حاصل کیا۔ آپؓ کے گھرانے میں سب سے پہلے آپ کے بہنوئی حضرت سعدؓ اور پھر بہن فاطمہؓ نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد آپؓ نے نبوت کے چھٹے سال اسلام قبول کیا۔

ایک مرتبہ رسول کریمؐ نے رب سے التجا کی کہ یااﷲ اپنے دین کی مضبوطی کے لیے یا تو ہشام کا بیٹا دے یا خطاب کا بیٹا۔

نبی کریمؐ کی دعا قبول ہوئی اور اﷲ پاک نے خطاب کے بیٹے کو چُن لیا۔ تمام صحابہؓ مُرید رسولؐ ہیں، مگر حضرت عمرؓ مراد رسولؐ ہیں۔ آپؓ کے اسلام لانے پر حضرت جبرائیل ؑنبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو مبارک باد دی اور فرمایا کہ آسمان والے ایک دوسر ے کو عمر کے اسلام لانے کی خوش خبری سنا رہے ہیں۔

آپ ؓ کے بارے میں فرامین رسول ﷺ ہیں کہ جس راستے سے عمرؓ گزرتا ہے، شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

عمرؓ کی زبان پر اﷲ نے حق جاری کر دیا ہے۔ (بیہقی)
میرے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کی اقتدا کرنا۔ (مشکٰوۃ)

ہجرت نبویؐ کے کچھ عرصہ بعد حضرت عمرؓ نے بیس افراد کے ساتھ ا علانیہ مدینہ کو ہجرت کی۔ تمام غزوات میں حصہ لیا۔634ء میں خلافت کے منصب پہ فایز کیے گئے اور 644ء تک اس منصب پر رہے۔ آپؓ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22 لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھی۔ آپؓ کے اندازِ حکم رانی کودیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ اگر عمر کو 10سال خلافت کے اور مل جاتے تو دنیا سے کفر کا نام و نشان مٹ جاتا۔ حضرت عمرؓ کا زمانہ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔ اس میں دو بڑی طاقتوں ایران و روم کو شکست دے کر ایران، عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میں شامل کیا۔ بیت المقدس کی فتح کے بعد آپؓ خود وہاں تشریف لے گئے۔

ایک مرتبہ ایک یہودی اور ایک منافق کا جھگڑا ہوگیا۔ منافق ظاہراً مسلمان تھا اس نے کہا کہ رسول کریمؐ کے پاس ہم اپنا تنازع لے کے جاتے ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گے ہم دونوں منظور کرلیں گے۔ دونوں نبی کریمؐ کے پاس گئے، نبی کریم ﷺ نے دونوں کی بات سنی اور فیصلہ یہودی کے حق میں فرما دیا۔ اس منافق نے کہا کہ ہم اپنا جھگڑا حضرت عمر ؓکے پاس لے کے چلتے ہیں۔ چناںچہ حضرت عمر ؓ کے پاس گئے۔ اس یہودی نے کہا کہ ہمارے درمیان فیصلہ آپ کے پیغمبر نے کر دیا ہے۔ جب آپ ؓ نے یہ سنا تو آپؓ اپنے گھر گئے، اندر سے تلوار لے کے آئے اور فرمایا جو میرے نبیؐ کے فیصلے کو نہیں مانتا اس کا فیصلہ عمر کی تلوار کرتی ہے۔ حضرت عمر ؓنے تلوار چلائی اور اس منافق کا سر تن سے جدا کر دیا۔ جب اﷲ کے رسولؐؐ کو اس بات کا علم ہوا تو آپؐ نے فاروق (حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا) کا لقب عطا فرمایا۔

حضرت عمر فاروق ؓ بہت ہی بارعب اور نڈر تھے لیکن انصاف ہمیشہ آپ کی عدالت سے ہی ملتا تھا۔ حضرت عمر ؓایک مرتبہ منبر رسول ﷺ پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اے عمر! ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے لباس پہنا ہوا ہے یہ زیادہ ہے اور جب کہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ اس مجمع میں میرا بیٹا موجود ہے، اس بات کا جواب میرا بیٹا دے گا۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ کھڑے ہوئے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ بیٹا بتاؤ کہ تمہارا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداﷲ ؓ نے فرمایا کہ جو میرے بابا کو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا لباس نہیں بن سکتا تھا اور ان کے پاس جو لباس تھا وہ بہت خستہ حال تھا، اس لیے میں نے اپنا کپڑا بھی اپنے والد کو دے دیا، جس سے ان کا پورا لباس بن گیا۔

کیا عظیم لوگ تھے، جن کے سامنے ایک غریب آدمی بھی کھڑا ہوکر کہ کہہ سکتا تھا کہ اے امیرالمومنین تقریر بند کیجیے، ذرا یہ بتائیے کہ جو تن پہ لباس پہنا ہوا ہے یہ کہاں سے آیا ہے؟ آپؓ کا مشہور قول آج بھی درد دل رکھنے والے ہر مسلمان کے کانوں میں گونجتا ہے اور دل پہ نقش کیے ہوئے ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاس کی وجہ سے مرگیا تو قیامت کے دن اس کی پوچھ گچھ عمر سے ہوگی۔

جب آپ ؓخلیفہ بنے تو راتوں کو مدینے کی گلیوں میں پہرا دیا کرتے تھے تاکہ معلوم ہوسکے کہ رعایا کو کوئی تکلیف تو نہیں۔ ایسا حکم ران ملنا آج کے اس دور میں مشکل ہے جو اپنی رعایا کے لیے اپنا سکون بھی قربان کر دے۔

جب مدائن فتح ہوا تو مال غنیمت کا ڈھیر مسجد نبویؐ میں لگایا گیا تو حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے ایک، ایک ہزار درہم حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو دیے اور پھر اپنے بیٹے حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کو پانچ سو درہم دیے تو حضرت عبداﷲ ؓ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی قیادت میں غزوات میں حصہ لیا جب کہ اس وقت حسنینؓ بہت چھوٹے تھے لیکن آپ نے انہیں زیادہ رقم عطا فرمائی ہے۔ فاروق اعظم ؓ کو یہ سن کر جلال آگیا اور فرمایا کہ ’’ عبداﷲ تم حسنین کے مقابلے میں اپنی بات پوچھتے ہو؟ تو جاؤ ان کے باپ (حضرت علیؓ) جیسا کوئی باپ لے آؤ۔ ان کی ماں (حضرت فاطمہؓ) جیسی کوئی ماں لے آؤ۔ ان کے نانا (تاج دار مدینہؐ) جیسا کوئی نانا لے آؤ۔ ان کی نانی (حضرت خدیجہؓ) جیسی کوئی نانی لے آؤ۔ ان کے چچا (حضرت جعفرؓ) جیسا کوئی چچا لے آؤ۔ ان کی پھوپھی (حضرت ام ہانیؓ) جیسی کوئی پھوپھی لے آؤ۔ ان کے ماموں (حضرت ابراہیمؓ ) جیسا ماموں لے آؤ۔ خدا کی قسم! عمر پر تم ان جیسا ایک رشتہ بھی نہ لاسکو گے۔‘‘

جب یہ سارا واقعہ حضرت علی ؓ تک پہنچا تو آپؓ نے فرمایا کہ عمر جنتیوں کا چراغ ہے۔ جب یہ بات سیدنا عمرؓ تک پہنچی تو عمر ؓ بے قرار ہوگئے اور حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ علیؓ میرے بھائی یہ بات مجھے لکھ کے دے دو۔ حضرت عمر ؓ نے وصیت فرمائی کہ میں مروں تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا اور ان کے وصال کے بعد اس وصیت پر عمل کیا گیا۔

حضرت عمر فاروق ؓ کے انصاف کی یہ حالت تھی کہ جب آپ ؓ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دور دراز علاقے کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا۔ لوگو! کیا حضرت عمرؓ کا انتقال ہوگیا ہے۔ لوگوںنے حیرت سے پوچھا کہ تم مدینے سے بہت دور جنگل میں تھے۔ تمہیں اس سانحہ کی اطلاع کس نے دی؟

چرواہا بولا! جب تک حضرت عمر فاروق ؓزندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا تھا لیکن پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر لے گیا۔ میں نے بھیڑیے کی جرات سے جان لیا کہ آج دنیا میں عمر فاروق ؓموجود نہیں ہیں۔ چناںچہ ان لوگوںنے جب تحقیق کی تو پتا چلا کہ اِسی روز حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا تھا۔

سیدنا عمر فاروق ؓ کا معمول تھا کہ نماز کے فرائض خود سرانجام دیا کرتے تھے۔ 27 ذوالحجہ23 ھ کو حضرت عمر فاروق ؓ حسب معمول صبح کی نماز کے لیے نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ فیروز نامی مجوسی بھی خنجر چھپائے کھڑا تھا اور موقع ملتے ہی اس ظالم نے امیرالمومنین ؓ کو زہر میں بجھے ہوئے خنجر کے وار کرکے گھائل کردیا۔ مراد رسول ﷺ کے عزم و ہمت کے کیا کہنے کہ زخموں سے چور امیرالمومنین حضرت عمر فاروق ؓ نے گرتے ہی مصلیٰ امامت حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے سپرد کیا۔ خون میں لت پت امیرالمومنین ؓ نے اشاروں سے نماز مکمل کی کہ کہیں امامت و خلافت میں حرف نہ آجائے۔ نماز کے بعد آپؓ نے پہلا سوال یہ کیا کہ میرا قاتل کون ہے؟ معلوم ہوا کہ وہ غیر مسلم ہے تو آپ ؓ نے بلند آواز سے کہا الحمدﷲ۔ گویا امیرالمومنین کی شہادت کی خواہش پوری ہونے کا وقت آگیا۔ فاروق اعظم ؓ کو یقین ہوگیا کہ میری خواہش ضرور پوری ہوگی۔

یکم محرم الحرام کو 63 برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں شہادت پاگئے۔ آپؓ کی تدفین حضرت عائشہ ؓ کی اجازت سے حضور ﷺ کے پہلو میں ہوئی۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صُہیب ؓ نے پڑھائی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔