بساط الٹ چکی ہے

اوریا مقبول جان  بدھ 25 جولائی 2012
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

اورنگ زیب عالمگیر سے شکست کھانے کے بعد جب اس کے بھائی شجاع کو ہندوستان میں کوئی جائے پناہ نہ ملی تو وہ بھاگ کر برما کے سرحدی صوبے ارکان میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ جا کر آباد ہوگیا۔ یہ ایک مسلمان اکثریتی علاقہ تھا جہاں مسلمان تاجر نویں صدی عیسوی یعنی ہجرت کے ڈھائی سو سال بعد ہی آ کر آباد ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اس وقت نہ برما نام کی کوئی چیز تھی اور نہ ہی اس کا بادشاہ۔

برمی سلطنت 1055 عیسوی میں انادرتھ نامی بادشاہ کے زمانے میں قائم ہوئی۔ چین کے یونان صوبے اور ایران سے بھی مسلمان یہاں آ کر آباد ہونے شروع ہوئے۔ ان مسلمانوں کو علاقائی زبان میں پاتھی کہتے تھے۔ تھائی لینڈ کے قریبی علاقوں میں بھی ان مسلمانوں کی آبادیاں وہاں کی بدھ قوم کے مقابلے میں زیادہ تھیں۔ جب شجاع وہاں پہنچا تو ارکان کے علاقے پر سندا تھو دام کی حکومت تھی۔ اس نے بادشاہ سے ایک بحری جہاز خریدنے کے لیے کہا تا کہ وہ بقیہ زندگی مکہ اور مدینہ میں گزارے۔ لیکن بادشاہ سندا تھو دام کی نظر شجاع کے اس سونے اور چاندی کے زیورات پر تھی جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔

شجاع نے اس کو جہاز کے بدلے کافی زیورات دینے کا کہا اور اس نے جہاز مہیا کرنے کا وعدہ کر لیا۔ لیکن اس نے شجاع کی بیٹی شہزادی گل رخ بانو کے ساتھ زبردستی کی جس کے بعد اس نے خودکشی کر لی۔ مغل شاہزادوں اور وہاں کے کچھ مسلمانوں نے بدلہ لینے کی کوشش کی لیکن قتل کر دیے گئے۔ شجاع کو پرتگالی قزاقوں نے وہاں سے فرار کروایا۔ دستمبر 1660 کی اس غیرت و حمیت کی جنگ میں ہر وہ مسلمان جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی قتل کر دیا گیا اور عورتوں کو جیل میں پھینک دیا گیا جہاں وہ بھوک سے مرگئیں۔ یہ ظلم ان مسلمانوں پر کیا گیا جو ہندوستان سے آ کر وہاں آباد ہوئے تھے۔

یہی وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں کو گائے، بکری، مرغی کھانے کی اجازت تو تھی لیکن مردہ۔ اسے حلال نہیں کرسکتے تھے۔ یہاں تک کہ انھیں عیدالاضحیٰ پر بھی قربانی کی اجازت نہ تھی۔ 1782 میں بود و داپیا بادشاہ بنا تو اس نے برما کے تمام مسلمان علماء کو اکٹھا کیا اور انھیں سؤر کھانے کے لیے کہا۔ انھوں نے انکار کیا تو سب کو قتل کر دیا گیا۔ برما کے مسلمان آج بھی اس بات کو سناتے ہیں کہ اس دن کے بعد سات دن تک سورج نہیں نکلا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جو وائٹ پیپر انگریز حکومت نے شایع کیا جو سائمن کمیشن کا ایک حصہ ہے اس میں ایک بہت بڑے قتل عام کا ذکر ہے جو وہاں کے ایک انگریز جج موریس کولس کی چشم دید شہادت کا حصہ ہے۔ 1938میں ایک بار پھر مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ یہ بڑا بھیانک طریقہ تھا۔ برما کے بدھ آزادی کے لیے لڑتے تھے تو برطانوی فوج کی گولیوں کے سامنے مسلمان قیدیوں کو ریت کی بوریوں کی طرح باندھ کر کھڑا کرتے۔

برما کی آزادی کے بعد 16 مارچ 1997 کو دوپہر ساڑھے تین بجے امن کے پجاری بدھ بھکشو مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کی آبادیوں میں داخل ہوئے، مسجدوں پر حملہ کیا، قرآن پاک اور مذہبی کتابوں کو آگ لگائی، دکانوں کو لوٹا اورگھروں کو مسمار کیا۔ یہ سب مندالے میں ہوا جہاں سے مسلمان ہجرت کر کے دوسرے شہروں میں چلے گئے۔ اگلا فساد 2001 میں تانگو میں ہوا۔ مسلمانوں کے قتل عام کے علاوہ ریلوے اسٹیشن تانگو کی مسجد کو بھی بلڈوزر سے شہید کر دیا گیا۔

موجودہ فساد تین جون 2012 کو اس وقت شروع ہوا جب برما کی فوج اور بدھ بھگشوئوں نے گیارہ مسلمانوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا۔ یہ روہینگا مسلمان تھے اور ارکان کے علاقے کے تھے جہاں شجاع کے خاندان کے ساتھ بربریت اور مسلمانوں کے قتل عام کا آغاز ہوا۔ موجودہ قتل عام کا تذکرہ چین اور بنگلہ دیش کے اخبارات میں مختصر طور پر ہوا۔

آج پورے پچاس دن ہو چکے ہیں۔ ان پچاس دنوں میں وہ لوگ جو انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں ان کے سامنے ایسے ایسے ہولناک مناظر کی تصویریں ہیں کہ ایک تصویر دیکھنے کے بعد دوسری دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جلے ہوئے جسم، معصوم بچوں کے مثلے ہوئے لاشے، جلتے ہوئے گھر، ایک ساتھ باندھ کر ڈرل کے ذریعے سوراخ کر کے موت تک پہنچانے کے مناظر۔ ان پچاس دنوں میں یہ کوئی عالمی خبر تھی اور نہ ہی کسی مسلمان ملک کا المیہ، یہ کسی انسانی حقوق کے علمبردار کا مسئلہ تھا اور نہ ہی کسی آزاد حریت پسند صحافی کا پسندیدہ موضوع۔ میں نے پورے پچاس دن انتظار کیا۔ صرف اس لیے کہ شاید کوئی ’’بااصول‘‘ صحافی آواز بلند کرے کہ میں تو ایک ’’متعصب، شدت پسند‘‘ مسلمان ہوں۔ مجھے تو موقع چاہیے مسلمانوں کی مظلومیت کا فائدہ اٹھا کر دنیا کا امن خراب کرنے کا۔ لیکن پچاس دن ساری زبانیں گنگ رہیں۔ مسلمان کی اذیت ناک موت کسی کا مسئلہ ہی نہیں تھی۔

لیکن وہ جو کل تک خود کو ابلاغ کا خدا سمجھتے تھے، انھیں اندازہ نہیں کہ اب ایک چھوٹے سے کمرے میں بوسیدہ سے کمپیوٹر پر بیٹھا نوجوان آپ کی کروڑوں روپے کی لاگت سے بنائی گئی میڈیا ایمپائزکا مقابلہ کر رہا ہے۔ بلکہ اب تو جیت اس کا مقدر ہونے لگی ہے۔ یہی وہ نوجوان ہے جس نے مجبور کر دیا کہ ٹی وی چینلوں اور اخباروں والے دبائے ہوئے سچ کو ظاہر کریں۔ اس سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ جن کو ہے ان کے منہ سے روز جھاگ نکلتی ہے اور وہ غصے سے کھولتے پھر رہے ہیں۔ گزشتہ سال میں بیروت کے کارنیگی انسٹیٹیوٹ میں تھا۔ تیونس اور مصر میں ہنگاموں کا آغاز تھا۔

سارا میڈیا چیخ رہا تھا کہ سب لبرل، سیکولر اور حقوق انسانی کے لیے لڑنے والے ہیں۔ پورے عالمی میڈیا نے مصر میں البرادی کو ہیرو بنانے کی کوشش کی۔ لیکن سوشل میڈیا کی طاقت نے اس اخوان المسلمون کو اقتدار پر لا بٹھایا جس کو یہ لوگ پچاس سال سے گالیاں دیتے رہے تھے۔ یہی تیونس میں ہوا۔ وہ جنھیں اس بات کا زعم تھا کہ ہم ہوائوں کا رخ بدل سکتے ہیں، ان کے ہاتھ پائوں پھول رہے ہیں۔ اس لیے کہ اب سوات کے کوڑوں والی کیسٹ چلا کر بدنام کرنے والوں کے مقابلے میں اینکروں والی کیسٹ بھی چلتی ہے اور پھر کسی کو ہمت نہیں ہوتی اپنے حق میں میڈیا استعمال کرنے کی۔

یہ مسئلہ عالمی میڈیا کا ہی نہیں ہم سب کا ہے۔ گزشتہ دس سال تک میڈیا کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے والوں کی حالت دیکھنے والی ہے۔ کیسے چیختے پھرتے ہیں ’’ہمیں بھارت اور امریکا کا ایجنٹ کہا جاتا ہے‘‘ تم نے ساٹھ سال لوگوں کو ایجنٹ کہنے اور الزام لگانے کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا۔ جس کو چاہا جو مرضی بنا دیا۔ اب تیر واپس آیا ہے تو چیخیں نکل گئیں۔ مدتوں تم نے لوگوں کے عیب اچھالے، تصویریں چھاپیں، اب اپنی تصویروں پر سیخ پا کیوں ہوتے ہو۔ کسے معلوم ہے یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہمارے پاس قلم تھا۔ زبان تھی ہم نے اس سے انصاف نہیں کیا۔ انصاف سے نہ رکھا اور نہ بولے ہمارے ذاتی تعصب ہمارے انصاف کو کھا گئے۔ ہم نے لوگوں کو غدار کہنے کی فیکٹریاں لگائیں۔ لوگوں کو ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ دیے۔ جیسی کالک چاہے کسی کے چہرے پر مل دی۔ ہمارا کنٹرول تھا، لیکن اب کنٹرول ہر اس شخص کے پاس ہے جو چھوٹے سے کمرے میں بوسیدہ سے کمپیوٹر پر بیٹھا ہے اور جو بساط الٹ سکتا ہے اور اس نے بساط الٹ کر دکھا دی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔