بھارتی جنگی جنون، حاصل کیا؟

شبیر احمد ارمان  منگل 4 اکتوبر 2016
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

بھارتی جنگی جنون اور بھارتی میڈیا کا پاکستان کے خلاف زہر افشانی کا مقصد بادی النظر میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی افواج کی حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں، انسانیت سوز مظالم سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا، بھارت کو عالمی تنہائی سے بچانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی خود ساختہ دہشت گردی کے ڈرامائی واقعات کی آڑ میں پاکستان کو غیر ذمے دار ریاست ثابت کرنا، کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو کچلنا، انھیں دہشت گرد ثابت کرنا، کشمیر میں اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں، جس کے تحت کشمیر میں رائے شماری ہونی ہے، سے فرار کا راستہ اختیار کرنا، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان سے مذاکرات سے فرار ہونا، جنوبی ایشیا کا مادرپدر آزاد داداگیر بننا، ان جیسے دیگر بھارتی مقاصد نئے نہیں ہیں۔

بھارت کا یہ دیرینہ وطیرہ رہا ہے کہ جب کشمیر میں اس کے مظالم پر عالمی برادری کی توجہ مبذول ہوجاتی ہے تو وہ اسی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے اور پھر امن و مذاکرات کی باتیں کرنے لگتا ہے اور جب مذاکرات کا وقت آتا ہے تو پھر کوئی نیا بہانہ کرتا ہے۔ بھارت اسی طرح سے مذاکرات کی میز سے راہ فرار اختیار کرتا رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے کئی جگہوں پر بھاری اور درمیانے درجے کے ہتھیار اگلے مورچوں پر پہنچادیے ہیں، جن مقامات پر بوفرز اور درمیانی رینج کی توپیں اور دوسرے بھاری ہتھیار نصب کیے ہیں وہاں سے آزاد کشمیر میں پاکستان کی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ بھارتی فوج کی اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل و حمل پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کے مترادف ہے۔ پاکستان ایک ذمے دار اور پرامن ملک ہے، لیکن اپنے دفاع اور ملک و قوم کی سلامتی سے غافل نہیں ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بروقت کہا ہے کہ وطن عزیز کے چپے چپے کا ہر قیمت پر دفاع کریں گے اور انشاء اﷲ کسی بھی خطرے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

کچھ روز پیشتر مقبوضہ کشمیر کے بارہ مولہ کے قصبے اڑی میں بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کواٹرز پر حملے، جس میں 17 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے، کے بعد بھارتی حکومت نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم اور جنگی تیاریاں تیز کردی ہیں۔ پاکستان اڑی حملے کے حوالے سے بھارتی الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دے چکا ہے۔ امریکا بھی بار بار بھارت سے کہہ رہا ہے کہ وہ خطے میں تناؤ نہ بڑھائے، اقوام متحدہ بھی کشیدگی کم کرنے اور باہمی اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دے رہا ہے۔

لائن آف کنٹرول پر بھارت کی بلااشتعال فائرنگ سے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جنوبی ریاست کیرالہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بڑی مہارت سے پینترا بدلہ اور پاکستان کو جنگ بھول کر غربت اور جہالت سے لڑنے کی دعوت دی، لیکن اس کے بعد بھارت نے بلااشتعال فائرنگ کی، جس کا انھیں بھرپور جواب ملا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کو پیغام دے دیا گیا ہے کہ تمام تصفیہ طلب امور مذاکرات سے طے کیے جائیں اور محاذ آرائی سے گریز کیا جائے۔ سفارتی حلقوں کو توقع ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کے متحرک ہونے اور اقوام عالم کے سفارتی دباؤ کے سبب جلد پاکستان سے مذاکرات بحال کرسکتا ہے۔

سفارتی ذرایع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کو مذاکرات سے مسائل حل کرنے کا پیغام دے دیا ہے۔ تاہم بھارت پر اقوام عالم کے دباؤ کے بعد اس کے جنگی جنون میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے امریکا کو آگاہ کردیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ محاذ آرائی میں اضافہ نہیں چاہتا، تاہم اگر بھارت کی جانب سے فوجی مہم جوئی کی گئی تو اس کا بھرپور اور موثر جواب دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے ہر موقع پر دو جوہری طاقتوں کے درمیان ممکنہ جنگ رکوانے کے لیے کبھی خفیہ اور کبھی اعلانیہ طور پر امریکا ہمیشہ سے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد دونوں ممالک جنگ کے قریب آگئے تھے، تاہم دونوں مواقعوں پر امریکا نے بھارت پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے کا آپشن استعمال نہ کرے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق بھارت کا سرجیکل اسٹرائیک کا جھوٹا دعویٰ خود بھارت کے اپنے گلے پڑگیا۔ بھارتی میڈیا اور حکومت سرجیکل اسٹرائیکس کا راگ الاپ رہے تھے لیکن اس جھوٹے دعوے سے خود بھارتی اسٹاک ایکسچینج کریش کرگئی۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی نسبت بھارت میں غربت کی سطح ڈھائی گنا سے بھی زیادہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ بھارتی وزیراعظم کو غربت کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے اپنے پاکستانی ہم منصب کی نسبت زیادہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کی 8.3 فیصد آبادی جب کہ بھارت کی 21.3 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کو غربت، بے روزگاری، ناخواندگی کے خلاف لڑائی کا چیلنج دیتے ہوئے کہا تھا کہ دیکھتے ہیں کہ یہ لڑائی کون جیتتا ہے، بھارت یا پاکستان؟

ناکامیاں بھارت کی مقدر بن گئیں، اڑی حملے کے بعد بھارت کو پہلے پاکستان پر حملہ کرنے کے حوالے سے منہ کی کھانا پڑی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ایک اور محاذ پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جب بھارتی ماہرین نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بلائے گئے اجلاس میں انھیں پاکستان کا پانی بند نہ کرنے کا مشورہ دیا کہ پاکستان کا پانی بند کرنے سے چین بھارت کا پانی بند کرسکتا ہے، اس قسم کی غلطی سے گریز کیا جائے۔ بعد ازاں چین نے دریائے برہما پترا کا پانی بند کردیا جس سے بھارت اور بنگلہ دیش متاثر ہوں گے۔

تبت میں برہماپترا پر زیر تعمیر مہنگے ترین ہائیڈرو پروجیکٹ کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ کی تعمیر کے لیے دریا کا پانی روکا گیا، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ دریا کی بندش سے بھارت اور بنگلہ دیش پر کیا اثر پڑے گا۔ یہ پروجیکٹ 2019 میں مکمل ہوگا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اس منصوبے سے دریائے برہماپترا کے پانی میں 36 فیصد کمی واقع ہوگی، جس کے نتیجے میں بھارت کی ارونچل پردیش سمیت 5 بڑی ریاستوں میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوجائے گی، جب کہ اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کو بھی پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سندھ طاس کمیشن کا کہنا ہے کہ بھارت کو آبی جارحیت بہت مہنگی پڑے گی، پانی کا معاملہ انتہائی حساس ہے اور بھارت کو کئی بار سوچنا ہوگا، وہ سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کرسکتا، معاہدہ دو حکومتوں میں طے پایا تھا اور اس میں ورلڈ بینک ضامن ہے۔ ایک فریق معاہدے کے خلاف ورزی کرتا ہے تو دوسرا فریق کسی بھی فورم پر آواز اٹھا سکتا ہے۔ معاہدے کے تحت پاکستان 144 ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل کرتا ہے، پاکستان یہ پانی سندھ، جہلم اور دریائے چناب سے حاصل کرتا ہے، کسی کو اپنا حق مارنے نہیں دیں گے۔

آبی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو کالعدم قرار دے سکتا ہے نہ اس میں یکطرفہ تبدیلی کرسکتا ہے، سندھ طاس تفصیلی معاہدہ ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی شق نہیں، اگر ایسا کیا گیا تو یہ ایک جارحانہ اقدام تصور ہوگا جسے امن اور سلامتی کے لیے خطرے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے ستلج، بیاس اور راوی کے 26 ملین ایکڑ فٹ پانی کی قربانی دے کر سندھ، جہلم اور چناب کا پانی استعمال کرنے کا حق حاصل کیا، اگر ہم قربانی نہ دیتے تو انڈیا راجستھان میں پانی کیسے پہنچا سکتا تھا؟ بھارت پہلے بھی حیلے بہانوں کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو متنازع بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ بہرکیف وقت کا تقاضا ہے بھارت کو یہ پیغام دیا جائے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور پوری پاکستانی قوم ملکی سلامتی اور بقا کے معاملے پر ایک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔