پہاڑوں کا دل وادی ناران کا سفر (پہلا حصہ)

ضمیر آفاقی  اتوار 9 اکتوبر 2016
پاکستان کی زمین پر جہاں قدرت نے سب سے بڑے برف پوش پہاڑ ایستادہ کر رکھے ہیں وہیں بہترین موسم، ندیاں، دریا، سمندراور دلفریب وادیاں غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کشش بھی رکھتی ہیں۔

پاکستان کی زمین پر جہاں قدرت نے سب سے بڑے برف پوش پہاڑ ایستادہ کر رکھے ہیں وہیں بہترین موسم، ندیاں، دریا، سمندراور دلفریب وادیاں غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کشش بھی رکھتی ہیں۔

گزشتہ چند دن پاکستان کے طویل پہاڑی سلسلے اور خوبصورت ترین وادیوں ناران، کاغان میں گزرے۔ یوں تو یہ سفر بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے تنظیموں کے فوکل پرسن کی کیپسٹی بلڈنگ کے لئے تجویزکیا گیا تھا، تاکہ سارا سال کام کرنے والے ان ’’محنت کشوں‘‘ کی ’’مضمر صلاحتیوں‘‘ کو اجاگر کیا جاسکے اور یہ لوگ تازہ دم ہو کر خدمتِ خلق کے کاموں میں یکسوئی کے ساتھ حصہ لے سکیں۔

فوکل پرسن کی مضمر صلاحیتوں کی تربیت اس لئے بھی ضروری ہوتی ہے کہ انہوں نے معاشرہ کی تربیت کرنے کے ساتھ حکومتی عہدہ داروں اور قانون سازوں کو احساس دلانا ہوتا ہے کہ ان کی حکومت اور انتظام و انصرام میں عوام کے لئے کیا کچھ مزید بہتر کیا۔ انسان اور انسانیت کی فلاح چاہنے والے اس ضمن میں بھاری مالی امداد کے ساتھ دیگرسہولتیں بھی فراہم کرتے ہیں جس کا بنیادی مقصد انسانیت کو اس کا شرف لوٹانا اور اس کی صلاحتیوں کی نشوونما کے راستے میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ  صحت، تعلیم، ماحول اور انفراسٹراکچر کو بہتر کرنا ہوتا ہے۔

جس کے لئے سالانہ اربوں ڈالر، پاؤنڈز کا بجٹ رکھا جاتا ہے جو ترقی پذیر ممالک کے عوام کی حالت زار کو بہتر کرنے میں خرچ کرنے کے لئے دیا جاتا ہے مگر کرپشن کی دلدل میں لت پت اوپر سے لیکر نیچے تک وہ حکومتی اشرافیہ اور دیگر تقسیم کاروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ جس کا اندازہ عوام کی بد ترین حالت زار سے لگایا جاسکتا ہے۔  ترقی یافتہ دنیا اپنے دیئے ہوئے پیسے سے کس طرح عوام کا معیارِ زندگی بلند کرتی ہے اس کا اندازہ لگانے کیلئے ناران کی ہی مثال لے لیجیئے جہاں پہاڑوں پر برف گرتی ہے اور قابل کاشت زمین نہ ہونے کے برابر ہے، وہاں آلو اور مٹر کی فصل اگانے کے لئے تربیت سے لیکر مالی مدد تک دی گئی۔ ایک مقامی رہاشی اور لاہور کے معروف صحافی جنہوں نے اس علاقے میں کافی عرصہ بی بی سی کی جانب سے رپورٹنگ کی، ان کے مطابق صرف ناران سے آلو اور مٹر پاکستان کی 70 فیصد ضرورت پوری کرتے ہیں۔ یہاں کے رہاشیوں کو مٹر اور آلو کی کاشت کے جدید طریقوں کی تعیلم اور آگاہی کے ساتھ کافی عرصہ محفوظ رکھنے کے لئے اسٹوریج بھی قائم کرکے دیئے گئے ہیں۔

ہم لوگ لاہور سے رات 11 بجے ناران کی جانب عازم سفر ہوئے براستہ موٹر وے، حسن ابدال سے ایبٹ آباد، مانسہرہ، بالا کوٹ کاغان سے ہوتے ہوئے اگلے دن تقریباً پونے 12 بجے پہاڑوں کے دل وادی ناران پہنچے۔ 14 گھنٹوں کے تھکا دینے والے سفر کے بعد مواصلاتی نظام کے کام نہ کرنے کے سبب مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں موبائل کے نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کے کام کرنے کی استعداد نہ ہونے کے برابر ہے جس کی بناء پر آپ اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ رابطہ نہیں رکھ پاتے ہیں۔

 

10 ہزار سے 17 ہزار فٹ کی بلندیوں پر موجود پہاڑوں میں موجود حسین وادیوں کے حسن کو ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بدولت داد اور وہاں کے مقامی مکینوں کو روزگار نصیب ہوتا ہے، جن کی جانب نہ ہی حکومت کی کوئی خاص توجہ ہے اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کاروں کو کوئی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ان وادیوں کے حسن کومزید دلفریب، دلکش بنانے کے لئے یہاں سرمایہ کاری کریں۔

سیزن کے ان دنوں میں بھی میں نے وہاں کوئی غیرملکی سیاح نہیں دیکھا۔ یہ بات حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیئے کہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد و رفت سے یہ وادیاں کیوں محروم ہیں، اور اس سوال کو پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا جانا چاہیئے کہ ہماری وہ کون سی پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سی یہاں غیر ملکی سیاح آنے سے گھبراتے ہیں حالانکہ صرف سیاحت کو ہی فروغ دے کر ہم اپنے سالانہ قومی بجٹ سے زیادہ زر مبادلہ حاصل کرکے بیرونی قرضوں سے نجات پا سکتے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی زمین پر جہاں قدرت نے دنیا کے سب سے بڑے برف پوش پہاڑ ایستادہ کر رکھے ہیں وہیں بہترین موسم، ندیاں، نالے، آبشاریں، جھرنے اور نہریں، دریا، سمندر، مہبوت کر دینے والی جھیلیں اور دلفریب وادیاں دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے کی نہ صرف کشش رکھتی ہیں بلکہ یہ سلسلہ زلف یار کی طرح دراز ہونے کے ساتھ ملکی زر مبادلہ میں بے پناہ اضافے کا سبب اور لاکھوں افراد کے بہترین روزگار کا سبب بن سکتا ہے جس کے لئے حکومت کی توجہ اور نیت بہت ضروری ہے، اور اگر منصوبے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئی تو پاک چائنہ اقتصادی راہداری ان علاقوں کی قسمت بدل دے گی۔ جھیل سیف الملوک ہو، وادی کاغان، لالہ زار، شوگران، کاغان جھل کھنڈ یا پہاڑوں کی بلند قامت چوٹیاں، ہم پاکستانی، وہاں اپنا آپ ’’کچرے‘‘ کی صورت میں ضرور چھوڑ آتے ہیں۔

ان وادیوں کا سفر حالت زار اور مسائل، کوشش کروں گا کہ تمام عوامل اگلے چند بلاگز میں بیان کرسکوں تاکہ عوام الناس کے ساتھ حکومتی اشرافیہ کو بھی آگاہی ہوسکے۔ ذاتی سواری پر اسلام آباد سے براستہ حسن ابدال ہم ایبٹ آباد کوئی دو گھنٹوں میں پہنچتے ہیں۔ مانسہرہ تک سڑکیں صاف ستھری اور ہموار ہیں۔ ایبٹ آباد سے بالا کوٹ تک تقریباً چار گھنٹوں کا سفر ہے، بل کھاتی سڑک پر ایک جانب پہاڑ اور دوسری جانب دریائے کنہار ساتھ ساتھ چلتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ پہاڑوں کے گرد ہی گھوم رہے ہیں۔

بالا کوٹ سے آگے وادی کاغان میدانی علاقوں سے نزدیک ترین ہے، یہاں پہنچنا نسبتاً آسان ہے۔ گو کہ بہتر سفری اور رہائشی سہولتیں موجود ہیں مگر حفاظتی نقطہ نگاہ سے ابھی بہت کام ہونے والا ہے۔ خصوصاً سڑک کے ساتھ حفاظتی جنگلوں کی تنصیب بلا تاخیر ہوجانی چاہیئے۔ وادی کاغان میں دلکش جھیلیں، خوبصورت آبشاریں، قدرتی چشمے، سرسبز چراگاہیں، گلیشیئرز، دریا اور گھنے جنگلات سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ یہ وادی بالاکوٹ سے لے کر بابوسر ٹاپ تک 161 کلومیٹر طویل ہے۔ وادی کے درمیان میں لہراتا بل کھاتا دریائے کنہار اپنے جوبن پر نظر آتا ہے۔ یہاں سیر و تفریح کے لیے آنے کا بہترین موسم جون سے لے کر نومبر تک ہوتا ہے۔

وادی کاغان صوبہ خیبر پختون خواہ کے ہزارہ ڈویژن میں شامل ہے۔ یہ راولپنڈی سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اگر آپ راولپنڈی سے عازم سفر ہیں تو پیر ودہائی کے بس اڈّے سے ایبٹ آباد یا مانسہرہ والی کوچ میں سوار ہوجائیں۔ وہاں سے بالاکوٹ تک کے لئے کوچ بآسانی دستیاب ہیں۔ اس سفر میں براستہ ٹیکسیلا، خانپور، نوشہرہ، حسن ابدال، ایبٹ آباد، مانسہرہ سے ہوتے ہوئے 4 سے 5 گھنٹے میں بالاکوٹ پہنچتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی سینئر صحافی، انسانی حقوق خصوصاً بچوں اور خواتین کے حقوق کے سرگرم رکن ہیں جبکہ سماجی ٹوٹ پھوٹ پران کی گہری نظر ہونے کے ساتھ انسانی تکریم اوراحترام کے لئے جدو جہد ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔