جنگیں ٹلتی رہیں تو بہتر ہے

مقتدا منصور  جمعرات 6 اکتوبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

سرحد کے دونوں جانب ایسے جنونی (Hawks) افراد کی کمی نہیں، جو جنگ کو کھیل اور کھیل کو جنگ سمجھتے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا تذکرہ اس طرح کیا جاتا ہے جس طرح بچے شب برات کے پٹاخوں کی بات کرتے ہیں۔ وہ شاید جانتے نہیں یا جاننا نہیں چاہتے کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں جنگوں نے نسل انسانی کو کتنے بھیانک نقصانات سے دوچار کیا ہے۔

انھیں شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ جنگ آج تک کسی مسئلے کا حل ثابت نہیں ہوئی ہے، بلکہ ہر جنگ کے بعد دونوں مضمحل فریقوں کو بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی تنازعات حل کرنا پڑے ہیں۔ یہ فریقین کی عقل و دانش پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ مذاکرات جنگ سے پہلے کرکے خود کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچا لیں یا جنگ کے بعد جب بہت کچھ تباہ و برباد ہوچکا ہو، تو مضمحل وجود کے ساتھ گفت و شنید پرآمادہ ہوں۔

اب جہاں تک جوہری جنگ کا معاملہ ہے تو یہ روایتی جنگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ خوفناک، خطرناک اور ہلاکت خیز ثابت ہوئی ہے۔ اس جنگ کا جو اولین تجربہ ہیروشیما اور ناگاساکی میں ہوا ہے، وہ پوری انسانیت کو لرزہ دینے کے لیے کافی ہے حالانکہ یہ پہلا تجربہ تھا، مگر اس کی شدت ہی نے انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر ان ہتھیاروں کے آزادانہ استعمال کو روکنے کے عملی اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ کرہ ارض نیست و نابود ہوجائے گا۔کیونکہ 71برسوں کے دوران ہیروشیما اور ناگاساکی میں گرائے جوہری بموں سے زیادہ طاقتور جوہری ہتھیار مختلف ممالک تیارکر چکے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر کیے گئے جوہری حملوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا صحیح تخمینہ نہیں لگایا جاسکا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیروشیما پر گرائے گئے بم کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ افراد فوری طورپر جاں بحق ہوگئے تھے۔1500 میٹر کے قطر میں موجود ہر شے جل کر خاکستر ہوگئی۔ دھاتی اشیا پگھل گئیں، چوبی اشیا میں شعلے بھڑک اٹھے، عمارتیں خاک کا ڈھیر بن گئیں۔ یعنی کچھ بھی باقی نہیں بچا۔

اطراف کے علاقوں میں تابکار شعاعوں نے زندہ بچ جانے والے افراد کو موت سے بدتر حالت میں پہنچادیا۔70 فیصد مریضوں کے جسم کا گوشت گل گیا تھا اور ہڈیاں بھربھری ہوکر جھڑنے لگی تھیں۔ بیشتر مریضوں کے جسم پر جلنے کے زخم پائے گئے جن سے مسلسل خون رس رہا تھا ۔ زخموں سے پیدا ہونے والی جلن اتنی شدید تھی کہ وہ موت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔

بیشتر مریضوں کی  آنکھیں ضایع ہوگئی تھیں۔ کچھ عرصے بعد جب اطراف کے علاقے کے لوگوں کا میڈیکل چیک اپ کیا گیا تو ان میں ہڈیوں، جلد، چھاتی اور خون کے کینسر کے آثار ملے۔ تابکاری کے اثرات نے آج بھی اس علاقے اور اطراف  کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں کے علاوہ نباتا ت اس سے متاثر ہوکر مختلف مہلک بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

تین روز بعد ناگاساکی (9اگست1945) پر اسی طاقت کا بم گرایا گیا  لیکن یہاں فوری شرح اموات75ہزار نفوس تھے، جب کہ زخمیوں کی تعداد بھی ہیروشیما کے مقابلے میںقدرے کم تھی  لیکن زخموں کی نوعیت وہی تھی، جو ہیروشیمامیں لوگوں کی تھی۔ناگاساکی میں قدرے کم نقصان کے بارے میں ماہرین کی رائے ہے کہ اس کے تین اسباب تھے۔

اول، ہیروشیما ایک ہموار میدانی علاقہ پر آباد تھا جب کہ ناگاساکی ایک وادی ہے، جس کے تین طرف پہاڑیاں ہیں اور سطح بھی غیر ہموار ہے۔ ہموار میدانی سطح کی وجہ سے ہیروشیما میں اموات کی شرح زیادہ تھی جب کہ ناگاساکی میں کم ہوئیں۔

دوئم، ہیروشیما پر جوہری بم کا حملہ جاپانیوں کے لیے پہلا تجربہ تھا۔ اس لیے حکومت اور اس کے اداروں کو سنبھلنے کا موقع نہیں مل سکا۔ ناگاساکی پر تین روز بعد حملہ ہوا، اس دوران حکومت اور عوام نے کچھ نہ کچھ حفاظتی تدابیرکر لیں۔

سوئم، ہیروشیما میں زیادہ اموت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ 90فیصد اسپتال تباہ ہوگئے اور ان میں موجود عملہ جاں بحق ہوگیا جس کی وجہ سے زخمیوں کو فوری طبی امداد مہیا نہیں کی جا سکی جب کہ ہیرو شیما کے سانحے کے بعد ناگاساکی سمیت بیشتر شہروں میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو پہلے ہی محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا جس کی وجہ سے مریضوں کی بروقت دیکھ بھال ممکن ہوسکی اور مقابلتاً کم نقصان ہوا۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ جوہری اسلحہ استعمال کرنے والا ملک امریکا جاپان سے ہزاروں میل کی مسافت پر ہے۔ اس لیے اسے جاپان میں پھیلنے والی تابکاری سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس کے برعکس پاکستان اور بھارت پڑوسی ممالک ہیں  جن کے درمیان2,912کلومیٹر طویل سرحد ہے، جو سندھ سے پنجاب اور پھر کشمیر تک پھیلی ہوئی ہے۔ ان دونوں ممالک میں سے کسی ایک کی جانب سے جوہری ایڈونچر پورے خطے کو تابکاری کی لپیٹ میں لینے کا باعث بنے گا۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ اس جنگ میں کوئی ایک ملک فتح مند ہوگا سوائے حماقت کے کچھ اور نہیں ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ محتاط اندازے کے مطابق جوہری جنگ کی صورت میں دونوں طرف 2 کروڑ سے زائد افراد کے فوری جاں بحق ہونے کے یقینی خطرات موجود ہیں۔ اس کی وجہ طویل سرحد اور شہروں کا ایک دوسرے کے نزدیک ہونا ہے۔ لاہور پر گرائے گئے بم سے صرف پاکستان کا وسطیٰ پنجاب متاثر نہیں ہوگا بلکہ مشرقی پنجاب کے کئی اضلاع بھی مکمل تباہ ہوجائیں گے۔

اسی طرح کراچی پر حملہ سے بحیرہ عرب میں تابکاری پھیلنے سے اس کے اثرات ایک طرف ریاست گجرات کی بندرگاہ سورت تک پھیل کر تباہی مچائیں گے، تو دوسری طرف مسقط سمیت کئی خلیجی ممالک کے متاثرہ ہونے کے خطرات بھی موجود ہیں۔ اسی طرح ممبئی پر گرایا گیا بم  بحیرہ ہند میں تابکاری پھیلادے گا اور جہاز رانی ممکن نہیں رہے گی۔

ایک اور مسئلہ جو ماہرین کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے، وہ ہے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے ماحولیات پر مرتب ہونے والے منفی اثرات ہیں۔ ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ ان دو ممالک کے درمیان جوہری جنگ چھڑنے کی صورت میں کرہ ارض کے گرد لپٹے ہوا کے غلاف کی اوپری سطح پر موجود اوزون (Ozone) گیس کا نصف حصہ فوری طور پر تحلیل ہوجائے گا۔ یہ وہ گیس ہے جو سورج اور کائنات کے دیگر سیاروں سے آنے والی زہریلی اشعاع کو فلٹرکر کے ہم تک پہنچاتی ہے۔

اس گیس کی سطح پتلی ہوجانے کی صورت میں درجہ حرارت میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہاہے جسے Global Warmingکہا جاتا ہے۔اب اگر یہ گیس مکمل طور پر یا اس کا نصف حصہ تحلیل ہوجاتا ہے، تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ زمین کا درجہ حرارت کہاںجا پہنچے گا۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک کے اہل دانش آگے بڑھیں اور اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ہر قسم کی جنگ بازی سے باز رہیں۔ بھارتی دانشوروں پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ مختلف نوعیت کی دھمکیوں کا آغاز بھارتی حکمرانوں کی طرف سے ہوا ہے۔

یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جب کوئی پانچ گنا بڑا ملک کسی چھوٹے ملک کا بازو مروڑنے کی بات کرتا ہے، تو اس کاردعمل فطری ہوتا ہے۔ پانی بند کرنے کی دھمکی، سرجیکل اسٹرائیک کا اعلان ایسے سنگین معاملات ہیں، جوجنگی جنون کو ہوا دینے کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تنازعات کو ہوا دینے اورانھیں بزور طاقت حل کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیاجائے، جس میںسب کی عافیت ہے۔

ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ ہم جس خطے میں بستے ہیں وہ صدیوں پر محیط خونی رشتوں میں گندھا ہوا ہے۔ پاکستانی بلوچوں کی ایرانی بلوچوں سے رشتے داریاں ہیں۔ پاکستانی پختونوں کے افغانستان کے پختونوں کے ساتھ صدیوں پر محیط خونی رشتے ہیں۔ بھارت کے مختلف صوبوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے1947 میں پاکستان ہجرت کی تھی، مگر ایک بہت بڑی تعداد نے وہیں رہنے کو ترجیح دی۔ یوں منقسم خاندان لاکھوں کی تعداد میں سرحد کے دونوں جانب موجود ہیں جن کے درمیان خونی رشتے ہیں۔

یہی کچھ معاملہ سندھ کے ہندوؤں کا ہے، جن کی ایک بڑی تعداد بھارت نقل مکانی پر مجبور ہوئی، مگر بیشتر خاندانوں نے اپنے مادر وطن کو چھوڑنے سے انکار کردیا۔ یہ منقسم خاندان گو کہ کم ہیں لیکن پھر بھی ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ ایک ایسی  صورتحال میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگوں اور ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کی باتیں سماجی و ثقافتی رشتوں اور انسانی جذبات و احساسات کے قتل عام  کے مترادف ہیں۔ ویسے بھی جنگیں تنازعات کا حل نہیں ہوتیں، بلکہ صرف فریقین کو مضمحل کر نے کا باعث بنتی ہیں۔ اس لیے دوستو! جب تلک جنگیں ٹلتی رہیں تو بہتر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔