نیا کیا تھا؟

ایاز خان  جمعرات 6 اکتوبر 2016
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

سیاست کے سیزن میں کرکٹ کا ایک اہم واقعہ یاد آرہا ہے۔ یہ فروری 1983ء ہے جب دنیائے کرکٹ کا ایک بڑا کھلاری ان فٹ ہو گیا۔ اس کی شہرت بولنگ آل راؤنڈر کی تھی۔ اس کی پنڈلی میں فریکچر ہوا تو ڈاکٹروں نے اسے کھیل کے میدان میں اترنے سے منع کر دیا۔ لیکن صرف چار ماہ بعد ہی ورلڈ کپ آگیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ٹیم کی قیادت کرے گا۔ اس نے ڈاکٹروں کی رائے کے برعکس کھیلنے کا فیصلہ کر لیا۔

وہ میدان میں اترا تو اس نے خود پر ایک رحم کیا اور صرف بطور بیٹسمین کھیلا۔ بولنگ اس نے نہیں کی۔ اس کی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچنے میں کامیاب رہی۔ اس کے بعد وہ سوا دوسال کے لیے کرکٹ کے میدانوں سے دور ہو گیا۔ بولنگ تو وہ پہلے ہی نہیں کر سکتا تھا اب بیٹنگ کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے جب اسے دوبارہ کھیلنے کی اجازت دی تو اکتوبر 1985ء آچکا تھا۔ وہ اپنی ہوم گراؤنڈ پر کھیل رہا تھا مگر آسٹریلیا کے اخبارات نے اسپورٹس پیج پرلیڈ لگائی تھی۔

“He is back” سرخی میں اس کا نام نہیں تھا مگر شائقین کرکٹ اسے پڑھتے ہی سمجھ گئے کہ کس کی واپسی ہو رہی ہے۔

دنیائے کرکٹ کا یہ بڑا آل راؤنڈر عمران خان تھا۔ وہ تب کرکٹ گراؤنڈ کا ہیرو تھا۔ پوری دنیا میں اس کو پروٹوکول ملتا تھا۔ چند دن پہلے ایک پرانی تصویر دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں میاں نواز شریف جو اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب تھے، عمران خان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ کپتان پریس کانفرنس سے خطاب کر رہا تھا اور میاں صاحب اس کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے۔

کپتان کی انجری اور پھر کرکٹ کے کھیل میں واپسی کا یہ واقعہ رائے ونڈ میں ہونے والا جلسہ دیکھنے کے بعد یاد آیا۔ کسی قومی ٹیم سے دو سال سے زیادہ دیرباہر رہنے والا کھلاڑی دوبارہ اپنی جگہ کیسے بناتا ہے اس کا اندازہ صرف اسے ہی ہو سکتا ہے۔ سیاست کا میدان بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ رائے ونڈ کا جلسہ کپتان کے لیے انتہائی اہم تھا کیونکہ اس سے پہلے لاہور اور کراچی میں اس کے دونوں شو فلاپ ہو چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے رائے ونڈ کے جلسے کو بہت سیریس لیا۔

وہ مقررہ تاریخ سے چار دن پہلے لاہور پہنچا اور پھر جلسے تک یہیں ڈیرے ڈال لیے۔ جلسے میں لوگوں کی تعداد پر کافی بحث و تمحیص ہو چکی ہے۔ کپتان کے جلسوں میں ’’کھلاڑیوں‘‘ کی تعداد کا اندازہ لگانا ہو تو کسی گنتی کی ضرورت نہیں۔ بڑا آسان فارمولا ہے، کپتان جب اسٹیج پر پہنچے، ایک نظر جلسہ گاہ میں موجود لوگوں پر ڈالے اور پھر اس کے چہرے پر یہ تعدادآسانی کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہے۔جتنی تعداد اتنی ہونٹوں پر مسکراہٹ اور چہرے پر اتنی ہی لالی۔ سرکار کے وزیر اور مشیر 30 سے 50 ہزار لوگوں کی موجودگی کا اعتراف کر رہے تھے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ لاکھوں کا تھا۔ کسی نے اس رات خوب تبصرہ کیا تھاکہ کھلاڑیوں کی تعداد، سرکاری اور پی ٹی آئی کے دعوؤں کے درمیان کہیں ہو گی۔

اس جلسے کی کامیابی یہ تھی کہ اس نے حکومتی حلقوںمیں ہلچل مچا دی تھی۔ پانامہ لیکس پر جواب دینا مشکل ہو رہا تھا۔ واحد تنقید یہ تھی کہ سرحدوں پر حالات ٹھیک نہیں اور کپتان کو حکومت مخالف جلسوں کی پڑی ہوئی ہے۔ جلسے سے پہلے کپتان ٹھیک ٹھاک مشکل میں لگ رہا تھا۔ پیپلزپارٹی نے تو ساتھ کیا دینا تھا ق لیگ اور عوامی تحریک نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اب ان دونوں کے پاس پچھتانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سنا ہے چوہدری پرویز الٰہی اس جلسے میں اپنی پارٹی کی علامتی شرکت چاہتے تھے مگر چوہدری شجاعت نے اس فیصلے کو ویٹو کر دیا۔ طاہر القادری کی شکایت دوسری ہے۔ انھیں شکوہ تھا کہ کپتان ان سے ملاقات کے لیے نہیں آیا۔

کامیاب جلسے کے بعد کپتان کا اسلام آباد بند کرنے کا اعلان تنقید کا نشانہ بنا ہوا تھا۔ یہ تنقید ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ کپتان کے نئے اعلان نے پی ٹی آئی کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا۔منگل کو کپتان نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ پرانی اور نئی تمام توپوں کا رخ کپتان کی طرف ہو گیا۔لفظی گولہ باری مسلسل جاری ہے۔ کہا جارہا ہے کہ کپتان قوم میں اتحاد نہیں چاہتا۔ وہ پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کا مقصد صرف وزیراعظم بننا ہے۔

کپتان کا یہ فیصلہ ٹھیک نہیں لگتا۔ پی ٹی آئی کو اس اجلاس میں شریک ہونا چاہیے تھا۔ کپتان نے احتجاج کرنا تھا تو خود نہ جاتا مگر پارٹی کو شریک ہونے کی اجازت دے دی جاتی تو بہتر ہوتا۔ اس فیصلے سے کپتان ایک بار پھر تنہا نظر آرہا ہے۔ سولو فلائیٹ کے اس مسافر کا نکتہ نظر سنا جائے تو اس میں بھی وزن ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں شرکت سے کشمیر پر قومی یکجہتی کا اظہار ہو چکا ہے۔

کپتان کہتا ہے مشترکہ اجلاس میں نیا کیا ہو گا۔ پارلیمنٹ کا ایک اجلاس دھرنے کے دنوںمیں بھی ہوا تھا۔ ساری جماعتوں نے مل کر ’’جمہوریت‘‘ بچا لی تھی۔ پی ٹی آئی تب بھی باہر تھی، آج سرحدوں پر خطرات کی وجہ سے اجلاس منعقد ہو رہا ہے تو پھر تحریک انصاف اس میں شریک نہیں ہے۔ دیگر تمام جماعتیں مل کر بھارت کو سخت پیغام بھی دے دیں گی۔اس کا خیال ہے کہ جب کرپشن کے خلاف اور احتساب کے لیے کسی اور پارٹی نے کپتان کا ساتھ نہیں دینا تو پھر وہ کیوں ان کی محبت میں ہلکان ہوتا پھرے۔ جب اس نے اکیلے لڑنا ہے تو پھر وہ کسی سے تعریف کرانے کے لیے کیوں وہی فیصلے کرے جو باقی سب چاہتے ہیں۔

پارلیمنٹ کا اجلاس ہو گیا۔ وزیراعظم خطاب کر چکے۔ اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ نے نپے تلے الفاظ میں حکومت پر تنقید کردی۔ کمزور خارجہ پالیسی اور دیگر خامیوں کا بھی ذکر کر دیا۔ خورشید شاہ نے بھی وزیراعظم سے شکوہ کیا کہ انھوں نے کلبھوشن یادیو کا ذکر نہیں کیا۔ پاکستان میں بھارتی مداخلت کو سامنے نہیں لائے۔ کشمیر کا مقدمہ درست انداز میں نہ لڑنے کا الزام بھی لگا دیا۔ اپوزیشن یہ سب باتیں پہلے بھی کر رہی ہے۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی وزیٹرز گیلری میں بیٹھ کر اس میں شریک ہو گئے۔ مسئلہ کشمیر وزیراعظم کی تقریر کا فوکس رہا۔ پاکستان میں بھارتی مداخلت اور کلبھوشن یادیو مسودے سے پھر غائب تھا۔ وزیراعظم کے جنرل اسمبلی سے خطاب اور کل مشترکہ اجلاس میں تقریر میں تقریباً وہی باتیں دہرائی گئیں۔ جب پرانی باتیں ہی دہرائی جانی تھیں تو پھر کپتان کا یہ کہنا کہاں غلط تھا کہ نیا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ نیا کیا تھا؟ کچھ بھی تو نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔