سیاسی گہما گہمی عروج پر

جنید خانزادہ  منگل 11 دسمبر 2012
ایم کیو ایم جنرل ورکرز اجلاس تک محدود  فوٹو : فائل

ایم کیو ایم جنرل ورکرز اجلاس تک محدود فوٹو : فائل

حیدر آباد: پچھلے چند ہفتوں کے دوران مختلف سیاسی راہ نماؤں نے اپنے حیدرآباد کے دورے میں اپنی جماعتوں کی مقامی قیادت اور کارکنوں کو عوام سے رابطے میں رہنے کی ہدایت دیتے ہوئے مختلف سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ عام الیکشن کے لیے تیاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر اور وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ، سینیٹر اور وفاقی وزیر مولا بخش چانڈیو، سینیر وزیر پیر مظہر الحق، اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو سمیت متعدد اہم وزراء نے بھی پچھلے دنوں حیدرآباد کا رخ کیے رکھا، ان کی اگلی منزل نوشہرو فیروز میں صوبائی نشست 21 پر ہونے والے ضمنی انتخابات تھے، جس کے باعث کنڈیارو ان کا مرکز بنا رہا۔ حسب توقع وہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو کام یابی حاصل ہوئی، پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو کا یوم شہادت منانے کے لیے 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں عوامی اجتماع کی تیاریاں شروع کر دی ہیں، جس کی نگرانی قائم علی شاہ کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں وہ حیدرآباد ڈویژن کے اجلاس کی صدارت کرنے حیدر آباد آئے۔

خلاف توقع سید علی نواز شاہ رضوی کی رہائش گاہ کے بجائے اجلاس حیدر آباد کلب میں کیا گیا، جہاں جیالا کلچر کی وجہ سے پریس کانفرنس نہ ہو سکی، وزیر اعلی نے حیدرآباد پریس کلب جاکر صحافیوں سے بات چیت کرنے کا اعلان کیا اور اس کانفرنس میں ایسی باتیں بھی کہہ گئے، جس کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا۔ انھوں نے کراچی میں حلقہ بندی اور ووٹرز کی تصدیق کے متعلق کہا کہ اس کا حکم سپریم کورٹ نے دیا ہے، جسے اعتراض ہے، وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کرے، اگر نئی حلقہ بندی سندھ بھر میں کی جاتی ہے، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کراچی سمیت پورا پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا، ہم نے اس سے نمٹنے کے لیے پولیس کی نفری میں اضافہ، انھیں اسلحہ اور دیگر جدید آلات فراہم کیے اور خصوصی پیشہ ورانہ تربیت بھی دی ہے۔

انھوں نے پرویز مشرف کے شہری حکومت کے نظام پر تنقید کرتے ہوئے، اپنے موجودہ اتحادیوں کو بھی لپیٹ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ہر قتل ٹارگیٹ کلنگ نہیں بلکہ ذاتی رنجش، ڈرگ اور قبضہ مافیا بھی اس کا سبب ہے۔ اس موقع پر انھوں نے حکومت کے بہترین کارناموں اور کارکردگی کا ذکر بھی کیا۔ اس سے پہلے حیدرآباد کلب میں ورکرز اجلاس سے قائم علی شاہ اور مولا بخش چانڈیو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کے مقدس مشن کو موجودہ قیادت آگے بڑھا رہی ہے اور آصف علی زرداری لائق تحسین ہیں۔ اجلاس سے صوبائی وزیر نوادرات اور پی پی پی حیدرآباد ڈویژن کے صدر مخدوم جمیل الزماں، صوبائی وزیر ماہی گیری اور پی پی پی حیدرآباد کے ضلعی صدر زاہد علی بھرگڑی نے بھی خطاب کیا۔

ادھر سید قائم علی شاہ، حیدرآباد کلب میں اجلاس میں مصروف تھے اور دوسری طرف حیدرآباد پریس کلب میں میٹ دی پریس میں امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی یہ کہہ رہی تھیں کہ کاش پیپلز پارٹی جاتے جاتے بھٹو خاندان میں بیٹیوں کے احترام اور حفاظت کی روایت کو زندہ کرتے ہوئے عافیہ کی رہائی ممکن بنائے۔ اس موقع پر امریکا کی کالم نگار اور سیاست داں سارہ، سماجی راہ نما فلورنڈس اور امریکی کانگریس کے سابق رکن سنتھیا مکینی بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ اپنے چار سالہ دور میں حکومت نے ایک مرتبہ بھی عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکا سے رابطہ نہیں کیا۔

حیدرآباد میں جامعہ رکن الاسلام ہیر آباد میں منعقدہ جے یو پی سندھ کی مجلس شوریٰ و عاملہ کے مشترکہ اجلاس اور صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت سپریم کورٹ کی جانب سے دوبارہ حلقہ بندیاں کرانے کے فیصلے نہ صرف حمایت کرتی ہے بلکہ اسے ضروری سمجھتی ہے۔ جے یو پی کے مرکزی نائب صدر شاہ محمد اویس نورانی کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ جنھوں نے اپنی پسند کی حلقہ بندیاں کی ہیں، وہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں، باقی کسی جماعت کو اس فیصلے پر اعتراض نہیں۔

انھوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل ہونے والی دھاندلیوں اور بالخصوص سندھ میں ہونے والی بے قاعدگیوں سے متعلق الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر شکایت کرنے کے ساتھ تجاویز بھی دی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عام انتخابات میں سیاسی اتحاد کے لیے مختلف جماعتوں سے رابطے کیے جا رہے ہیں، ایم ایم اے کی بحالی کے لیے جنوری میں اجلاس رکھا گیا ہے۔ اس موقع پر شاہ محمد اویس نورانی کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں، ہر ضلع سے انتخابات میں امیدوار کھڑے کیے جائیں گے، کالا باغ ڈیم ٹیکنیکل مسئلہ ہے، اسے سیاسی نہ بنایا جائے، اس پر انجینیئرز اور ماہرین کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ انھوں نے کہا کہ جے یو پی نئے بلدیاتی نظام کی بھرپور مخالفت کرتی ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ فنکنشل 14 دسمبر کو حیدرآباد میں ایک بڑا جلسہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اس سلسلے میں سندھ بھر میں پارٹی کے راہ نما اور کارکنان عوام سے رابطہ کر رہے ہیں۔ طویل عرصے کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ سندھ کی تاریخ میں مسلم لیگ فنکشنل بلدیاتی نظام کے خلاف باقاعدہ بڑا جلسہ کر کے پیپلز پارٹی کو جواب دے گی۔ دو ماہ قبل حیدرآباد میں ہی پیپلز پارٹی نے بلدیاتی نظام کے حق میں جلسہ کیا تھا، جس میں مخالفین کی جانب سے اس نظام اور پارٹی پر شدید تنقید اور اسے سندھ دشمن بتانے کا جواب دیا گیا تھا۔ فنکشنل لیگ کے جلسۂ عام میں توقع ہے کہ قوم پرست جماعتوں کے راہ نما اور کارکنان بھی بڑی تعداد میں شرکت کریں گے۔

اس سلسلے میں فنکشنل لیگ سندھ کے جنرل سیکریٹری امتیاز شیخ مسلسل حیدرآباد کے دورے کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں بھی حیدرآباد بائی پاس پر جلسۂ عام کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے نصرت سحر عباسی، قاف لیگ کے ایم پی اے شہریار مہر، ایم این اے خدا بخش راجڑ، فکنشنل لیگ کے مرکزی چیف آرگنائزر کاشف نظامانی، صوبائی سیکریٹری اطلاعات زبیر میمن و دیگر کے ہم راہ یہاں آئے اور کہا کہ جلسے سے پیر صاحب پگارا خطاب کریں گے اور وہ عام انتخابات میں سندھ کے عوام کو متبادل قیادت دیں گے۔

انھوں نے کہا کہ یہ جلسہ بلدیاتی نظام اور سندھ کی تقسیم کے خلاف عوامی ریفرنڈم ثابت ہو گا۔ انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اس جلسے میں عوام کو لانے کے لیے ہم ٹرانسپورٹ نہیں چلائیں گے بلکہ وہ خود جلسہ گاہ پہنچ کر سندھ اور پیر صاحب پگارا سے اپنی محبت کا اظہار کریں گے۔ انھوں نے پی ایس 21 پر ضمنی الیکشن کو مسترد کر دیا اور کہا کہ سندھ کے الیکشن کمشنر پر مختلف سیاسی جماعتوں نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب متحدہ قومی موومینٹ نے خود کو کارکنان کے جنرل ورکرز اجلاس تک محدود رکھا، پکا قلعہ گراؤنڈ میں جنرل ورکرز اجلاس میں متحدہ کے قائد الطاف حسین نے مواصلاتی خطاب کیا۔ ابھی تک متحدہ نے حیدرآباد میں انتخابی سرگرمیاں شروع تو نہیں کی ہیں، لیکن ان کے کارکنان مسلسل سیکٹر اور زون کی سطح پر ہونے والے جنرل ورکرز اجلاسوں کے ذریعے متحرک ضرور رہے ہیں۔ تاہم اس جماعت کی جانب سے اعلانیہ انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ابھی نہیں ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔