سابق وزیر اعظم گیلانی کا نااہلی کے خلاف اپیل کا فیصلہ

امجد بخاری  منگل 11 دسمبر 2012
سوئس حکام کو اب خط لکھا جاچکا ہے اس لئے اس معاملے پر میری نااہلیت بھی ختم ہوجانی چاہئے، سابق وزیر اعظم  فوٹو: فائل

سوئس حکام کو اب خط لکھا جاچکا ہے اس لئے اس معاملے پر میری نااہلیت بھی ختم ہوجانی چاہئے، سابق وزیر اعظم فوٹو: فائل

ملتان: بلاشبہ اگر پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں خود کو مضبوط رکھنا چاہتی ہے تو سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلیت کا ختم ہونا ضروری ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو منفی تاثر کے باعث پیپلز پارٹی کو آئندہ انتخابات میں نقصان ہوگا۔

خود سید یوسف رضا گیلانی بھی جلد از جلد خود پر سے نااہلیت کا لیبل ہٹوانا چاہتے ہیں اور انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کے لئے صلاح مشورے شروع کردیئے ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی نے جنوبی پنجاب کے عوام سے یہ وعدہ بھی کررکھا ہے کہ وہ اس خطے کو الگ صوبہ بنوائیں گے اور انہوں نے اس حوالے سے لوگوں کو بھی جواب دینا ہے اور ایسے میں جب وہ الگ صوبے کے نام پر جنوبی پنجاب میں تحریک چلانے کی تیاریاں کئے بیٹھے ہیں انہیں یہ تاثر ختم کرنا ہوگا کہ وہ خود اتنے بے بس نہیں کہ اپنی نااہلیت ہی ختم نہیں کرا سکے اور اسی صورتحال پر انہوں نے صدر آصف علی زرداری سے بھی کھل کر بات کی تھی اور ان کو آمادہ کیا تھا کہ پارلیمنٹ ان کی نااہلیت کے خلاف موثر اقدامات کرے جبکہ صدر آصف علی زرداری نے بھی حامی بھرلی تھی کہ انہیں اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا۔

سینیٹر ملک صلاح الدین ڈوگر کی وفات پر سید یوسف رضا گیلانی خصوصی طیارے کے ذریعے وفد لے کر اسلام آباد سے ملتان آئے اور اپنے دوست اور سیاسی رفیق ملک صلاح الدین ڈوگر کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت میں وہ اپنی نااہلی کے خاتمہ کے حوالے سے کافی پرامید نظر آئے، گو ان کا کہنا تھا کہ ان کی نااہلیت ختم کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے ذریعے کوئی اقدام نہیں کیا جارہا کیونکہ فرد واحد کے لئے کوئی قانون بنانا مناسب نہیں، لیکن اطلاعات ہیں کہ ضرورت پڑنے پر قومی اسمبلی سے سید یوسف رضا گیلانی کے حق میں قرار داد منظور کرانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔

خود سید یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ سوئس حکام کو اب خط لکھا جاچکا ہے اور صورتحال بدل گئی ہے اس لئے اس معاملے پر ان کی نااہلیت بھی ختم ہوجانی چاہئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ سپریم کورٹ سے ان کی لڑائی بہتر ثابت نہیں ہوئی اور اس کا سب سے زیادہ سیاسی نقصان انہی کی ذات کو ہوا ہے اس لئے انہوں نے اس کے ازالے کے لئے بھی سپریم کورٹ کا ہی دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

گورنر پنجاب سردار لطیف خان کھوسہ نے گزشتہ ہفتے ملتان کا تین روز کا دورہ کیا اور وہ اس دوران پریس کلب کے پروگرام کے ساتھ ساتھ دیگر تقریبات میں بھی شریک ہوئے، ان میں سب سے اہم تقریب پیپلز پاٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں سے ملاقات کی تھی۔ سرکٹ ہائوس میں ہونے والی اس تقریب میں عہدیدار اور کارکن پارٹی قیادت پر پھٹ پڑے اور انہوں نے برملا کہا کہ پارٹی انہیں پنجاب فتح کرنے کے سبز باغ دکھا رہی تھی لیکن ضمنی انتخابات کے نتائج کچھ اور بتا رہے ہیں۔ جیالوں نے میاں منظور احمد وٹو کی تقرری پر بھی تنقید کی اور اپنی محرومیوں کا ذکر کرتے ہوئے گورنر کو خوب جلی کٹی سنائیں۔گورنر کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد گورنر کو بے اختیار کردیا گیا ہے۔

گورنر سردار لطیف کھوسہ کی ناراضگی بجا ہے، بھلا ملک کے سب سے بڑے صوبے کی گورنری ہو اور گورنر پی آئی اے کی پروازوں سے سفر کرے اور خصوصی طیارہ بھی نہ ملے تو ان کے لئے یہ گورنری کس کام کی ان کے دورے کے دوران پارٹی عہدیدار جیالے روتے پیٹتے رہے اور وہ تسلیاں دیتے تین دن گزار کر چلے گئے لیکن اور کچھ ہو نہ ہو کارکنوں اور عہدیداروں کے شکوے سخت زبان میں سننا اور برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنا بھی پیپلز پارٹی کا خاصا ہے ۔ ایسے حالات میں جب گورنر پنجاب ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ناکامیوں پر شکایتیں سن رہے تھے اور پنجاب حکومت کو دھاندلی کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے ۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے بھی جنوبی پنجاب کا دورہ کیا اور میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔

میاں ماجد نواز ارائیں اور سعید احمد خان منیس اس جلسے کے میزبان تھے جبکہ ملتان سے بھی پارٹی رہنمائوں نے اس جلسے میں شرکت کی۔ میاں نواز شریف نے دھاندلی کے الزامات کا تو کوئی جواب نہ دیا لیکن مخالفین کو پیغام دیا کہ ابھی تو ٹریلر چلا ہے پوری فلم قومی انتخابات میں چلے گی ۔ میاں نواز شریف کا جلسہ تو کامیاب رہا لیکن ان کی اپنی پارٹی کا ایک حلقہ اس بات پر ناراض تھا کہ 10 برسوں میں مسلم لیگ (ن) کی مخالفت کرنے اور جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے والے اب پھر معزز بن کر پارٹی میں آگئے ہیں اور میاں نواز شریف کے میزبان بنے ہیں۔

ایسے حالات میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی جنوبی پنجاب کا تین روزہ دورہ شروع کردیا ہے اور اس مرتبہ تحریک انصاف نے حکمت عملی تیار کی ہے کہ بڑے بڑے جلسوں کی بجائے چھوٹے چھوٹے اجتماعات کئے جائیں اور اس دورے کے دوران جنوبی پنجاب کے دیہی حلقوں کو ہدف بنایا جارہا ہے تاکہ اس تاثر کو زائل کیا جاسکے کہ تحریک انصاف صرف شہروں کی جماعت ہے، تحریک انصاف کی قیادت کا بڑا حصہ بھی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے لئے یہ دورہ اور دیہی عوام کو اپنی طرف راغب کرنا بڑا چیلنج ہوگا اور اس کا انحصار کافی حد تک دیہی عوام کو درپیش مسائل پر کھل کر بات کرنے اور اس کے حل کے لئے موثر تجاویز دینے پر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔