یہ خود کش حملے کب اور کیوں شروع ہوئے

عبدالقادر حسن  منگل 11 دسمبر 2012
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کوئی پانچ برس پہلے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک مذہبی و دینی درسگاہ اور وہ بھی مسلمان بچیوں کی حکومت وقت یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے غضب کا نشانہ بنی۔ اس سانحے کی جو بھی غیر سرکاری اور پرائیویٹ تحقیق کی گئی اس میں ایک بات کہی گئی حاکم وقت جنرل پرویز مشرف نے امریکا کو خوش کرنے اور اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے دارالحکومت کے عین وسط میں موجود ایک نہتے مدرسے میں حملہ کر دیا اور اس میں نہ جانے کتنی قرآن خواں بچیاں شہید ہو گئیں۔

زیادہ تر قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان دنوں ان قبائلی علاقوں کے باشندوں کی طرف سے کہا گیا کہ ہم اپنی بچیوں کے قتل کا بدلہ لیں گے، یہ ممکن نہیں کہ ہم قتل کا بدلہ نہ لیں، ہماری روائت ہے جس سے رو گردانی ممکن نہیں چنانچہ اس کے بعد پہلی مرتبہ دہشت گردانہ حملے شروع ہوئے جو اب تک جاری ہیں جن میں نہ جانے کتنے قتل ہو چکے ہیں۔ یہ حالت جب پیدا ہوئی تو اس گرم تنور میں ہر کوئی اپنی روٹی لگانے آ گیا۔ اس میں افغانستان اور بھارت بھی شریک ہو گئے اور ہر کوئی اپنا اپنا کھیل کھیلنے لگا۔ انھی دنوں کسی پیشہ ورانہ ڈیوٹی میں‘ میں بھی اسلام آباد میں تھا اور اس مسجد اور مدرسے کے قریب ترین ہوٹل میں مقیم تھا جہاں سے یہ مسجد و مدرسہ دکھائی دیتا تھا، میرے دوست نصراللہ ملک بھی اپنی ڈیوٹی پر تھے، رپورٹنگ کر رہے تھے۔

جس بے دردی سے گولیاں چل رہی تھیں مجھے خطرہ تھا کہ میرا یہ عزیز کہیں کسی آوارہ گولی کی زد میں نہ آ جائے چنانچہ میں موبائل پر اس کے ساتھ رابطے میں تھا، اس سے خبریں بھی لے رہا تھا اور اس پر زور دے رہا تھا کہ وہ بچ کر رہے۔ جب فوجی کمانڈوز سرگرم ہوں تو پھر صرف اپنی ذاتی احتیاط ہی بچا سکتی ہے۔ مجھے یہ پتہ چلتا رہا کہ اس مدرسے کی زیر تعلیم بچیاں نشانہ ہیں اور ان کے معصوم خون سے ان کے سامنے رکھے قرآن پاک رنگین ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں حضرت عثمان غنیؓ کے بعد یہ پہلا واقع تھا، بے رحم تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی اور وہ بھی پاکستان میں، میں نے یہ قرآن پاک تاشقند میں دیکھا تھا جس کے بارے میں دعویٰ تھا کہ یہی وہ قرآن پاک کا نسخہ ہے حضرت عثمانؓ جس کی تلاوت کے دوران شہید کر دیے گئے تھے۔

خون عثمانؓ سے رنگین یہ قرآن پاک دیکھ کر دل سے آواز اٹھی کہ یا اللہ امت پر ایسا وقت پھر کبھی نہ آئے لیکن جو مسلمان یہ حسرت کر رہا تھا، اسی کے ملک میں اس کے پیغمبر کی امت پر اسی کے ہاتھوں ایسا وقت آ گیا جس میں معصوم بے گناہ اور بے خبر بچیاں شہید کر دی گئیں، خدا جانے ان کی قبریں کہاں ہیں۔

میں ایک پاکستانی اس سانحہ کے قریب تھا ،کسی حد تک عینی شاہد یعنی میرا دوست اس کی وقایع نگاری کر رہا تھا اور مجھے لمحہ بہ لمحہ باخبر کرتا جاتا تھا۔ اس وقت اندازہ نہ تھا کہ یہ سانحہ کس قدر گہرا ہے اور ناقابل فراموش۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بعض سیاستدانوں نے اس آپریشن کو رکوانے کی کوشش کی تھی، بادشاہ وقت سے بار بار ملے اور آہ و زاری کی اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بھرائی ہوئی آوازوں سے التجا بھی کی لیکن ایک طرف یہ بے سہارا بچیاں تھیں اور دوسری طرف اقتدار جس کے استحکام کے لیے امریکی خوشنودی ضروری تھی اور یہ خوشنودی اس عمل میں تھی اور بچیوں کی خونریزی میں تھی۔

اس کوشش میں اور اس سانحہ کے نتیجے میں طالبان کی تحریک شروع ہوئی اور پھر چل سو چل۔ طالبان کہتے ہیں کہ امریکا ہم پر حملہ آور ہے اور تم امریکا کے ساتھی ہو، اس لیے ہم تمہیں اس دوستی کی سزا دیں گے۔ برائی اور بدی بہت جلد پھیلتی ہے اور یہ بدامنی اب پاکستان کے رگ و پے میں اتر چکی ہے۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ اب دھماکہ اور چند پاکستانیوں کا قتل کوئی خبر نہیں رہی، ایک معمول بن چکی ہے۔ نہ جانے کب معافی ملے گی مگر کیوں ملے گی جب کوئی مانگتا ہی نہیں۔

ایک تو وہ جذبات تھے جو اس سانحہ کے سامنے آنے پر پوری قوم میں پیدا ہوئے اور ایک وہ جذبات تھے جو اس سانحہ کے ذمے دار لوگوں کے تھے اور جن کی ایک جھلک میں نے دیکھی تھی، میں پہلے کسی کالم میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ جب کمانڈوز کے ٹرک مسجد کی بچیوں کو بھون کر فاتحانہ واپس جا رہے تھے تو ایک ٹرک میں ایک طویل قامت فوجی نوجوان کھڑا تھا جس کی ہلکی ہلکی داڑھی تھی اور وہ دایاں ہاتھ بلند کر کے انگلیوں سے فتح کا نشان بنا رہا تھا تب تک کسی حد تک اندازہ ہو گیا تھا کہ کیا ہوا ہے، اس کے بعد فتح کا یہ نشان ایک خنجر بن کر میرے سینے میں اتر گیا۔

معلوم نہیں یہ مہمان کب باہر نکلے گا جب بھی یہ بچیاں یاد آتی ہیں، یہ خنجر حرکت میں محسوس ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف بلکہ پوری قوم کو اس جہان میں اس کی کتنی سزا ملے گی فی الوقت یہ جاری ہے پتہ نہیں کب ختم ہو گی اور اگر دوسرے جہان میں کوئی حساب کتاب ہوتا ہے تو اس کا حال کون جانے۔

یہ معصوم خون پاکستانی قوم پر قرض ہے جب تک یہ قرض نہیں اترے گا، ہمیں اس کی قسطیں ادا کرنی ہوں گی۔ بظاہر تو میں اور آپ بے گناہ ہیں لیکن یہ ایک قومی ذمے داری ہے اور پوری قوم اس کی ذمے دار ہے، اس کی مقروض ہے۔ سپریم کورٹ نے پھر سے سلسلہ جنبانی کیا ہے، کیا حکمرانوں میں کوئی ہے جو سچ بول کر معافی مانگے گا یا سب وہی ہیں جو ہاتھ کی دو انگلیوں سے فتح کے نشان بنا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔