میٹرو ٹرین منصوبے سے بیدخل کمپنی کا عدالت جانے کا فیصلہ

ضیا تنولی  جمعـء 7 اکتوبر 2016
منصوبہ تکنیکی طور پر ممکن ہی نہ تھا، اپنی کوتاہیاں چھپانے کیلیے کمپنی کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے غیر قانونی نوٹس جاری کیا گیا۔ فوٹو: فائل

منصوبہ تکنیکی طور پر ممکن ہی نہ تھا، اپنی کوتاہیاں چھپانے کیلیے کمپنی کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے غیر قانونی نوٹس جاری کیا گیا۔ فوٹو: فائل

لاہور: اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ میں مبینہ طور پر سست روی، غیرمعیاری اور ناقص کام کے باعث بیدخل کی گئی کنسٹرکشن کمپنی ’’مقبول کالسن جے وی‘‘ نے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کیلئے تمام تیاریاں مکمل کر لیں جس کے باعث منصوبہ تاخیر کا شکار ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے۔

کنسٹرکشن کمپنی نے اپنے دفاع کیلیے ملک کی نامور لا فرم کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں ۔ ’’ایکسپریس انوسٹی گیشن سیل‘‘ کو حاصل ہونیوالی دستاویزات کے مطابق کنسٹرکشن کمپنی نے اپنے اوپر لگائے گئے غفلت کے الزامات کو غلط ثابت کرنے کیلیے منصوبے پر کیے گئے کام کی تمام دستاویزات، تصاویر اور وڈیوز کو ٹھوس شواہد کے طور پر مرتب کر لیا ہے۔

عدالت سے رجوع کیلئے تیار کئے گئے کیس میں منصوبے کے تکنیکی پہلوؤں کے حوالے سے بھی کئی انکشافات کیے گئے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ میٹرو ٹرین منصوبے تکنیکی طور پر ممکن ہی نہ تھا۔ اسے سیاسی مقاصد اور غیرحقیقی خواہشات کے حصول کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ میٹرو ٹرین منصوبے میں تاخیر کی بنیادی وجہ اس کے ڈیزائن میں بار بار کی کی گئی تبدیلیاں ہیں کیونکہ منصوبے کا ڈیزائن آغاز کے وقت ہی مکمل نہ تھا۔

اپنی کوتاہیاں چھپانے کیلئے کمپنی کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے غیرقانونی نوٹس جاری کیا گیا اور غیرقانونی طور پر پرفارمنس گارنٹی ایک ہی دن میں وصول کی گئی۔ اس سے قبل سول عدالت نے بھی کمپنی کی درخواست پر اسکی طرف سے کیے گئے کام کا جائزہ لینے اور پیمائش وغیرہ کیلئے کمشنر کا تقرر کیا تھا تاہم اسکے باوجود ایل ڈی اے نے کمپنی کی پرفارمنس گارنٹی ضبط کرتے ہوئے90 کروڑ روپے اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کر لیے۔

کنسٹرکشن کمپنی کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کے بعد منصوبہ تاخیر کا شکار ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے۔ اس سے قبل سول سوسائٹی کی طرف سے دائر درخواست پر بھی اعلیٰ عدلیہ نے میٹرو ٹرین منصوبے پر11تاریخی مقامات کے قریب تعمیراتی کام روکتے ہوئے حکم امتناع جاری کر رکھا ہے اور پنجاب حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئی ہیں جس کی سماعت کیلیے چیف جسٹس آف پاکستان نے فل بینچ تشکیل دے رکھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔