رقص

جاوید قاضی  جمعـء 7 اکتوبر 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

عجیب تھے ہمارے صوفی ان کو بگ بینگ کے نظریے میں موسیقی نظر آئی، ہر شے جھومتی، گاتی ناچتی نظر آئی۔ پرندوں کے پر ہوں یا درختوں کے پتے۔ لہلہاتے کھیت و کھلیان ہوں یا بہتے آبشار۔ گرجتے بادل ہوں، چہچہاتے کسی شاخ پہ بیٹھے پرند ہی ہوں۔ ایک ربط ہے موسیقی، ساز کی لے لیے ہوئے ،  ترنم ہے، طبلے کی تان ہے اور پھر اس پر اٹھتے پاؤں ہیں، ہاتھ ہیں، متوالی آنکھیں ہیں  جمال ہے کمال ہے کہ ہر طرف پھر خدا کی قدرت حسن بن کر آنکھوں سے کانوں سے وجود میں آکر دل میں اتر جاتی ہے۔

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

یا یہ کہ ’’جھوم چرکڑا سائیاں دا‘‘ جھومتے جھومتے، گھومتے ہر ایک کسی اور کی مدار پہ ہے اور گامزن منزل بہ منزل نہ جانے کدھر وقت کے دھارے ہیں زماں ہے یا مکاں ہے سب رقص ہے۔ رقص فحاشی نہیں آپ کی آنکھ فحش ہے۔ اور اگر کوئی اسے غلط رنگ دے تو وہ کسی کو بھی غلط رنگ دے سکتا ہے۔ یوگا کی ہر سمت میں رقص ہے، جسم کو خوبصورتی میں ڈھالے رکھتا ہے یوگا، رقص اور کچھ نہیں حرکت ہے مستی ہے ، رمز ہے۔

چمٹہ لیے وہ جب کوئی پنجابی کتھا سناتا تھا ، میں اسے بچپن میں اپنے گاؤں میں میلوں کے زمانے میں دیکھتا رہ جاتا تھا، ہمارے گاؤں ریشماں بھی آتی تھی، میں نے اپنے چاچا کو ڈھولکی بجاتے بھی دیکھا تھا، عجیب تھا میرا گھر۔ استاد بڑے غلام علی سے لے کر اقبال بانو کی محفلیں لگتی تھیں۔ میرے والد فجر کی نماز ضرور پڑھتے تھے اور وہ بھی سندھی میں بلند آواز کہتے، تو سب نے ایک دن پوچھا تو کہنے لگے ’’خدا کو سب زبانیں آتی ہیں‘‘، نماز پڑھ کے ورزش کرتے، ورزش کرتے کرتے بدھا کی طرح بیٹھ کے سانس کی ورزش کرتے۔ بیٹیوں کو ساتھ بٹھاتے تو ان کو ریاض کراتے۔

اب سنا ہے سندھ کے وزیر تعلیم کے پاس ایک خط آیا ہے کہ اسکولوں میں رقص کی کلاسیں ہو رہی ہیں اسے بند کروائیں۔ کوئی اور کیوں یہ شخص خاں صاحب کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ خان صاحب کو سندھ میں سیاست کرنی ہے تو پھر اس طرح جب بھی کسی نے آواز بلند کی اس نے سندھیوں کے من میں کبھی بھی گھر نہیں پایا اجنبی ہوکے رہے۔

یہ صوفیوں کی دھرتی ہے، رقص کرنے والوں کی، مستانوں کی دھرتی ہے، دھمال لگانے والوں کی دھرتی ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی دھرتی ہے۔ آپ تو ’’بھٹائی‘‘ کو ایک شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں، وہ شاعر سے پہلے موسیقی میں اپنا مقام رکھتے تھے ’’تنبورو‘‘ ان کی ایجاد ہے ان کا سر ایمن، کلیان یہ سب اپنے ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں رقم ہیں۔ اتنی موسیقیت ہے ان کی شاعری میں کہ شاید کسی شاعری میں ملے۔ وہ مولانا جلال الدین کے پیروکار تھے۔

وہ رومی جو خود رقص کرتا تھا وہ جو خود اپنے وجود میں شمس تبریز بن گیا تھا، جھومتا رہتا تھا اور کہتا تھا ’’مداح شمس مداح خود است‘‘ ترجمہ: جو شمس کا مداح ہے وہ خود اپنا مداح ہے۔ اسے تو ’’میں‘‘ ’’میں‘‘ نظر آئی اور ’’میں‘‘ میں ’’تو‘‘۔ وہ جو الست تھا،مست تھا وہ جو کہتا تھا ’’اسے ایک ہونا ہے‘‘ شعور سے لاشعور، مکاں سے لامکاں۔ وہ جو کہتا تھا ہونے میں نہ ہونا ہوجاؤ اور اس نہ ہونے میں وہ رقص کرنے لگتا تھا۔

موئن جو دڑو کی سمبارا کون تھی رقاصا تھی۔ شیما کرمانی کی طرح رقاصا۔ ہوری نورانی کی طرح (مجھے فخر ہے کہ میں ہوری کا کتھک ناچ سیکھنے میں شاگرد رہا)۔

میں نہ مانوں بلاول بھٹو کو مگر اس کو موئن جو دڑو کی تہذیب سے سمبارا کے رقص سے محبت ہے۔ بالآخر بے نظیربھٹو کا بیٹا جو ٹھہرا۔ سمبارا کو اور اجاگر کیا ذوالفقار علی بھٹو نے اور لاڑکانہ کی زمین پر ایک اور عورت کا راج ہوا تھا وہ تھی بے نظیر بھٹو۔

وہ جو سچل تھا اس کا تو دوسرا نام ہی مست تھا ان الحق تھا، سرمد و حلاج کا پیروکار تھا باغی تھا۔

ان سب سادھو فقیروں نے ’’آتشں ِگل‘‘ کے رنگ کے پیراہن اوڑھ لیے یعنی ایسا رنگ جو سورج کا رنگ ہے وہ عکس بن گئے، رقص بن گئے، اعضا کی شاعری بن گئے۔ ان کے پاؤں میں ہندلاج کے سفر پڑگئے، گیان میں غلطاں بن گئے۔

کیسے کروگے رقص ختم، پھر تو تمہیں شاہ لطیف کے اوتار بھی بن کرنے پڑ جائیں گے سچل کے دروازے پر تالے لگانے پڑ جائیں گے۔ موئن جو دڑو کو مسمار کرنا پڑ جائے گا ’’مورتھو ٹلے رانا‘‘ کے سارے مور مارنے پڑجائیںگے۔ ہو جمالو کے رقص پر بھی پابندی لگانی پڑ جائے گی۔ ٹوپی اجرک پر بھی کلف لگانا پڑجائے گا۔ رقص بند کرنا ہے تو پھر چاند کو بھی بھسم کرنا پڑ جائے گا۔

چہچہاتے پرندوں سے کھیتوں وکھلیانوں کو بھی آگ لگانا پڑ جائے گی یہ کیسا سندھ ہے؟ یہ وہی سندھ ہے جو گھنگھرو پہن کر بھگت کنور کے بھگتیوں میں گاتا تھا رقص کرتے ہوئے۔ ڈھولکی اور باجے کی سنگت پر۔ ہاں اسے بھی کسی نے جلا کر راکھ کیا تھا اس کی کوئل جیسی آواز کو بند کیا تھا۔ مگر کیا ہوا کچھ بھی تو نہیں ہوا وہ اور امر ہوگیا۔

شکریہ جناب خرم ضیا صاحب! آپ نے یہ خط لکھ کر ہمیں اور جگا دیا۔ دو چار اور آپ جیسے اگر خاں صاحب کو مل گئے تو پھر خان صاحب کا بھی خدا حافظ۔ وہ نظریاتی پارٹی تو ہوگی مگر عوامی پارٹی کبھی نہ بن پائے گی۔ ہم آپ کے اس خط کے بعد دوسرے خط کا انتظار کر رہے ہیں جس کا عنوان ہوگا ’’لڑکیوں کو تعلیم نہ دی جائے‘‘ جس طرح طالبان کہتے ہیں کہ وہ ہماری دینی تعلیمات کے مطابق نہیں۔

اور جو افریقہ میں ’’بوکو حرام ‘‘ کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔