ہماری دشمن تصاویر

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 7 اکتوبر 2016

سابق امریکی صدر روز ویلٹ کا کہنا ہے کہ جب وہ صدر تھے اور اسے کوئی مشکل مرحلہ پیش آجاتا تو وہ اپنی آرام کرسی پر تکیہ لگا کر بیٹھ جاتا اور لنکن کی قد آدم تصویر کی طرف دیکھا کرتا تھا، جو اس کی میزکے اوپر وائٹ ہاؤس میں آویزاں تھی ۔اپنے دل سے یہ سوال کیا کرتا تھا اگر اس وقت میری جگہ لنکن ہوتا تو اس موقعے پرکیاکرتا۔ وہ کس طرح اس مسئلے کو حل کرتا۔

خدا نے انسان میں تمام کی تمام خوبیاں ایک ساتھ جمع نہیں کی ہیں، ہم سب الگ الگ خوبیوں اور برائیوں کے مالک ہیں،ہم میں سے ہر شخص کے مشکل مرحلوں اور مسائل سے نکلنے کے لیے اپنے اپنے طریقے اور راستے ہیں جو وہ اپنی سمجھ بوجھ اور عقل و دانش کے لحاظ سے نکالتے اور بناتے ہیں۔

عقل و دانش اور سمجھ بوجھ کے پیمانے ہر انسان میں الگ الگ ہیں، جب ہماری عقل و دانش اور سمجھ بوجھ ایک جگہ آکر رک جاتی ہے اور کسی بھی طرح سے اس سے آگے نہیں بڑھتی ہے تو پھر ہم اپنے سے زیادہ عقل مند، ذہین اور سمجھ دار لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں ان کے انداز اور طریقہ کار کو پڑھتے ہیں اور ان سے رجوع کرتے ہیں۔

یہ وہ راستہ اور طریقہ کار ہے جسے اختیارکر کے ہم اپنے مسائل اور مشکل مرحلوں کو شکست سے دوچارکر دیتے ہیں، یہ طریقہ کار اور راستہ وہ لوگ اپناتے ہیں جو اجتماعی فائدے کی سوچ رکھتے ہیں جو صرف اپنے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے دوست ہوتے ہیں، دنیا بھر کے تمام عقل مند، سمجھ دار اورانسان دوست انسان یہ ہی طریقہ کار اور راستہ اپناتے ہیں یہ تو ہوئی دنیا بھر کی بات ۔

آئیں! ذرا ہم اپنے ایوانوں میں جھانکتے ہیں کہ ان میں بیٹھے لوگ کس طرح مسائل اور مشکل مرحلوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں ، بہت بہت مبارک ہو، ہمارے ایوانوں میں بیٹھے حکمران بھی روز ویلٹ کا ہی طریقہ کار آزماتے اور اپناتے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ روز ویلٹ لنکن کی قد آدم تصویر کے سامنے تکیہ لگا کر بیٹھ جایا کرتا تھا۔

ہمارے حکمران اپنے مسائل اور مشکل مرحلوں کے دوران غلام محمد، اسکندر مرزا اور ضیاء الحق کی قد آدم تصویروں کے سامنے تکیے لگاکر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے دل میں یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر اس وقت میری جگہ غلام محمد ، اسکندر مرزا اور ضیاء الحق ہوتے تو وہ اس موقعے پر کیا کرتے ، وہ کس طرح اس مسئلے کو حل کرتے اور جو جواب انھیں غلام محمد، اسکندر مرزا اور ضیاء الحق سے ملتا ہے اس پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

ظاہر ہے غلام محمد، اسکندر مرزا اور ضیاء الحق اپنی سوچ کے عین مطابق انھیں جواب دیتے ہیں تو پھر ظاہر ہے خرابیوں، برائیوں، بحرانوں اور مسائل نے اور بڑھنا ہی ہے آج ہمیں جو چاروں طرف مسائل، بحران، خرابیوں اور برائیوں کا ملبہ بکھرا نظر آرہا ہے ان سب کی ذمے دار یہ ہی تینوں تصاویر ہیں، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ملک سے غلام محمد ، اسکندر مرزا اور ضیاء الحق کی حکمرانی سالوں پہلے ختم ہوچکی ہے تو اس سے بڑا غلط فہمی کا شکار کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔

یہ تینوں حضرات آج بھی ملک پر حکمرانی کررہے ہیں جسمانی طور پر نہ سہی لیکن سوچ کے لحاظ سے آج بھی یہ ہی تینوں ہمارے حکمران ہیں اگر آپ کو اس بات کی سچائی پر کوئی شک ہے تو پھر آپ فوراً تاریخ سے رجوع کر لیں اور ان تینوں شخصیات کے ادوار کا تفصیلی جائزہ لے لیں۔ ان کے اقدامات، ان کی سوچ ،ان کے نظریات ان کے طرز حکمرانی ان کے خوابوں، ان کی خواہشوں کا باریک بینی سے معائنہ کر لیجیے اور جب آپ یہ کام کر چکیں تو پھر آپ موجودہ حکمرانوں کے اقدامات ان کی سوچ ، نظریات ان کا طرز حکمرانی، ان کے خوابوں، ان کی خواہشوں پر بھی بھر پور نظریں ڈال لیجیے اگر آپ کو ان کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق محسوس ہو تو جو چورکی سزا وہ ہماری سزا۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ کام بھی ضرور کیجیے گا کہ غلام محمد، اسکندر مر زا اور ضیاء الحق کے مشیروں اور موجودہ حکمرانوں کے مشیروں کا بھی تقابلی جائزہ لے لیجیے گا اور جب آپ جائزہ لے چکے ہونگے تو آپ پھر یہ ہی نعرہ لگائیں گے کہ پاکستان کے ایوانوں میں ہمیشہ ہی سے خوشامدیوں کا بول بالا رہا ہے اور ہمیشہ ہی ان کی بڑی آؤ بھگت کی جاتی رہی ہے اور یہ کہ وہ کبھی بھی بے روزگار نہیں رہے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں اب بھی کوئی خوشحالی، ترقی، کامیابی کے خواب دیکھتا ہے تو اسے اپنی آنکھیں پھوڑ لینی چاہیں کیونکہ اس صورتحال میں صرف بربادی، تباہی، پریشانیوں، تکلیفوں، بحرانوں اور مسائل میں اور اضافہ ہی ممکن ہے اور جب تک ایوانوں میں غلام محمد، اسکندر مرزا، اور ضیاء الحق کی تصاویر نہیں ہٹا دی جاتیں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایوانوں سے خوشامدیوں اور چاپلوسوں کو بھی نکالا جانا انتہائی ضروری ہے، کیونکہ ایک تو وہ ہر آنے والے حکمران سے فوراً چمٹ جاتے ہیں اور دوسرا اس لیے کہ یہ ہی حضرات ان تینوں شخصیات کی تصاویر ہٹنے نہیں دیتے ہیں کیونکہ ان ہی شخصیات کی تصاویر کی وجہ سے وہ آج تک روزگار پر لگے ہوئے ہیں۔

میکسیکو میں چاپولٹی پیک کے محل میں جنرل اوبر یگن کے مجسمے کے نیچے ان کے یہ فلسفیانہ الفاظ کندہ ہیں ’’ حملہ آور دشمنوں سے مت گھبراؤ لیکن خوشامدی دوستوں سے ڈرو‘‘ شہنشاہ جارج پنجم نے بکنگھم محل میں اپنے مطالعے کے کمرے میں چھ اصول لکھوا کر لٹکا کررکھے تھے ان میں سے ایک یہ تھا ’’مجھے نہ نیازمندی سکھاؤ نہ سستی چاپلوسی‘‘ یاد رکھیں جب تک ہم اپنے گزرے ہوئے کل کو دفن نہیں کریں گے۔

ہم کبھی بھی اپنے لیے نیا آج نہیں اگا سکیں گے کیونکہ کل کی لاش اتنی بدبودار ہوچکی ہیں کہ اب اسے دفن کر دینا ہی بہتر ہے اور یہ بھی کہ جب کل کی لاش دفن ہوجائے گی تو اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ بھوکی، ننگی، غلیظ سوچ بھی دفن ہوجائے گی جس کی وجہ سے کروڑوں انسان لہو میں نہا چکے ہیں جس کی وجہ سے کروڑوں انسان اذیتوں، تکلیفوں اور غلامی میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے کروڑوں انسان زخم خوردہ ہیں اور ان زخموں سے آج تک خون رس رہا ہے اور پھر اس کے بعد ہم دوسروں کی سوچ سوچنے کے بجائے خود اپنی سوچ سوچنے کے قابل ہوجائیں گے۔

ذہن میں رہے انسان اپنی سوچ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے وہ وہ ہی کچھ ہے جو وہ سوچتا ہے کیونکہ انسان واحد مخلوق ہے، جو سوچتی ہے ہمارے تمام مسائل کا حل صرف سوچ کی ہی تبدیلی ہے۔

حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے تیس سال قبل رومی شاعر ہوریس نے کہا تھا ’’انسانی فطرت کا سب سے بڑا المیہ جو میں جانتا ہوں یہ ہے کہ ہم سب زندہ رہنے کو ملتوی کرتے رہتے ہیں اپنی کھڑکیوں سے باہر جوگلاب کے پھول کھل رہے ہیں، ہم آج ان سے لطف اندوز ہونے کے بجائے گلابوں کے کسی طلسمی باغ کے متعلق خواب دیکھتے رہتے ہیں، ہم اس قدر احمق کیوں ہیں۔اس قدر المناک حد تک احمق غلام محمد، اسکندرمرزا اورضیاء الحق کی سوچ وہ بوجھ ہیں جس کی وجہ سے ہم لمحہ بہ لمحہ ڈوب رہے ہیں آئیں! ان بوجھ کو اٹھا کر پھینک دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔