چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ کے انقلابی فیصلے (آخری قسط)

رحمت علی رازی  ہفتہ 8 اکتوبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

ماتحت عدالتوں کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے سائلین کو بروقت انصاف میسر نہیں آتا اور مجبوراً وہ اپیلوں کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلی سطح پر اہل، ایماندار اور آئیڈیل ججز اور عدالتی عملہ سرے سے ناپید ہے‘ اگر جج دیانتدار و محنتی ہے اور وہ عوام کی امنگوں کے مطابق انصاف دینا بھی چاہتا ہے تو اس کا عملہ اس قدر کرپٹ اور متحد ہے کہ اسے چلنے ہی نہیں دیتا‘ یہی وجہ ہے کہ اب عوام کو بروقت انصاف ملنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان میں فوجداری عدالتیں ’’کریمنل پروسیجر کوڈ 1898ء‘‘ کے تحت اور دیوانی عدالتیں ’’ویسٹ پاکستان سول کورٹ آرڈیننس 1962ء‘‘ کے ذریعے قائم کی گئیں جب کہ ریونیو عدالتیں ’’ویسٹ پاکستان لینڈ ریونیو ایکٹ 1967ء‘‘ کے تحت عمل میں لائی گئیں اور ان میں تعیناتی کے لیے مجسٹریٹس، سول جج، ایڈیشنل سیشن جج اور اسپیشل ججز کے لیے مقابلے کے امتحانات اور محکمانہ امتحانات کا طریقہ کار وضع کیا گیا۔

پنجاب میں جوڈیشل مجسٹریٹس، سول ججز اور ایڈیشنل سیشن ججز کے امتحانات قبل ازیں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منعقد ہوتے تھے مگر موجودہ دور میں یہ امتحانات عدالت ِعالیہ پنجاب کے زیرانتظام کر دیے گئے ہیں‘ اس فیصلے سے ملک کی وقیع اور باوقار عدالتوں کی نہ صرف ساکھ متاثر ہوئی بلکہ عوام کے لاکھوں کیسز التواء میں جا پڑے‘ دوسرا ججوں کا عدالت ِعالیہ کے ذریعے انتخاب اس کے شایانِ شان نہیں۔ اس طرح انتخاب پر امیدواروں کے تحفظات دُور کرنیوالی کوئی اتھارٹی نہیں رہ جائے گی۔

پنجاب میں ایک وکیل ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے اور دو سال کی وکالت کے بعد سول جج کے عہدے کے لیے امتحان دینے کا اہل ہوتا ہے‘ جب سے پبلک سروس کمیشن کا کام لاہور ہائیکورٹ نے انجام دینا شروع کیا ہے، بیشمار امیدوار سول ججز کے امتحانات سے منہ موڑنے لگے ہیں۔ اس کی ایک مثال 3 جون  2015ء کی ہے جب پنجاب ہائیکورٹ نے سول ججوں کے امتحانات کے انعقاد کے بعد 696 نشستوں کے نتائج کا اعلان کیا جس پر کئی امیدواروں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا کیونکہ ان نتائج میں کافی حد تک بے قاعدگیوں کی شکایات سامنے آئیں۔

قبل ازیں جب یہ امتحانات پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منعقد ہوتے تھے تو کسی بھی بے قاعدگی یا بے ضابطگی کی شکایت پر عدالتِ عالیہ سے رجوع کیا جا سکتا تھا مگر اب جب یہ انعقاد عدالت ِعالیہ خود کرتی ہے تو شکایت کی صورت میں کسی کو یہ ہرگز اختیار نہیں کہ وہ عدالت ِ عالیہ یا عدالت ِعظمیٰ سے رجوع کر سکے، نہ ہی اس ضمن میں عدالت ِ عالیہ نے کوئی شکایات سیل قائم کیا ہے‘ اس طرح کی مثال دُنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ملتی کہ کسی امیدوار کو اپنی شکایت کے مطلوبہ فورم ہی سے محروم کر دیا جائے۔

آئین ِ پاکستان کے تحت عدالت ِ عالیہ کے خلاف کسی کو درخواست گزارنے، فریق بننے یا رٹ دائر کرنے کی اجازت نہیں ہے‘ شاید اسی لیے جون 2015ء کے امتحانات میں اپنے حقوق سے محروم رہ جانے والے ایک امیدوار نے جب لاہور ہائیکورٹ میں سول ججوں کے امتحانی نتائج کے خلاف درخواست دائر کی تو فاضل عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست ناقابلِ سماعت ہے‘ درخواست گزار کا موقف تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ججوں کے امتحانات کے نتائج میرٹ پر مرتب نہیں کیے گئے اور کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے نتائج میں ابہام پایا جا رہا ہے چنانچہ سول ججوں کے امتحانی نتائج پر نظرثانی کی جائے مگر فاضل جج نے کیس خارج کر دیا۔

اسی طرح کا معاملہ اگست 2009ء میں  بھی سامنے آیا تھا جب امتحان کے ذریعے 229 سول ججوں کی بھرتی کے لیے پہلے اشتہار میں حدِعمر 30 سال جب کہ بعد میں اچانک عمر کی حد بڑھا کر 35 سال کر دی گئی، اس بات پر کافی شور و غوغا ہوا اور اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے اس موقع پر متذکرہ سول ججوں کی بھرتی کا عمل پنجاب پبلک سروس کمیشن کے بجائے ہائیکورٹ کے ذریعے کیے جانے پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا تھا۔

گورنر کی طرف سے جاری ایک مراسلہ میں کہا گیا کہ صوبے میں گریڈ 16 سے اوپر ہر طرح کی نئی بھرتیاں اور تقرریاں کرنا پبلک سروس کمیشن کا دائرہ اختیار ہے اور یہ کیا قانون شکنی ہے کہ سول ججوں کی بھرتیوں کا کام ہائیکورٹ کے سپرد کرتے وقت پنجاب پبلک سروس کمیشن سے کسی بھی طرح کی کوئی مشاورت نہیں کی گئی جس پر یہ جواز پیش کیا گیا کہ پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں سول ججوں کی زبردست کمی ہے اور نئے ججز ہنگامی بنیادوں پر بھرتی کرنے کی اشد ضرورت ہے جب کہ پبلک سروس کمیشن مقابلے کے دیگر امتحانات اور انٹرویوز کے عمل میں بیحد مصروف ہے، بدیں وجہ ججوں کی بھرتیوں میں مزید تاخیر کا اندیشہ ہے لہٰذا یہ کام ہائیکورٹ نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جب ہائیکورٹ نے سول ججوں کی بھرتیوں کے کام کی ذمے داری سنبھالی، اس وقت عدالت ِ عالیہ میں 60 کے بجائے صرف 8 جج موجود تھے جسکے باعث اس کے تینوں بنچوں پر کام رُکا ہوا تھا اور راولپنڈی، بہاولپور اور ملتان بنچوں کے علاوہ لاہور کی پرنسپل سیٹ کی کارکردگی بھی مطلوبہ ججز کی کمیابی کے سبب شدید متاثر ہو رہی تھی۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جو اہلیت پبلک سروس کمیشن میں ہے وہ کسی اور ادارے میں نہیں ہو سکتی کیونکہ کمیشن کے پاس مقابلے کے امتحانات منعقد کروانے، انٹرویوز کرنے اور بھرتیاں کرنے کا مکمل ایک میکانزم موجود ہے اور چیئرمین کے علاوہ 15 ممبران اور 300 کے اسٹاف پر مشتمل اس کا عملہ اپنے پروفیشنلزم میں پوری طرح طاق ہے‘ یہ الگ بات ہے کہ میرٹ کے حوالے سے اس میں بھی کسی حد تک بے ضابطگیوں کی شکایات ہیں مگر اس حد تک نہیں جتنی دیگر اداروں میں ہیں۔

جب 2009ء میں پی پی ایس سی کا کام ہائیکورٹ نے سنبھال لیا تو اس میں ہر سال میرٹ اور ضوابط کے بجائے ماتحت عدلیہ کو درکار مطلوبہ ججوں کی تعداد کے تناسب سے بھرتیاں عمل میں لائی گئیں جن میں امتحانی شفافیت کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ ماتحت عدلیہ میں ججوں کی تعداد پوری کرنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سول عدالتوں کی کارکردگی کا کیا احوال ہو گا؟ سوال یہ ہے کہ کیا ہائیکورٹ انصاف فراہم کرنیوالا ادارہ نہیں رہ گیا؟ کیا وہ اپنی اصل ذمے داریوں سے فراغت پا چکا ہے کہ اب اس نے پبلک سروس کمیشن کی ذمے داریاں بھی سنبھال لی ہیں؟

کیا اس کے لیے یہ ممکن ہے کہ ایک وقت پر وہ مقدمات کے فیصلے بھی سنائے اور ماتحت عدلیہ کے لیے ججوں کے امتحانات کا انعقاد اور بھرتیاں بھی کرے؟ اس وجہ سے عدالت ِعالیہ کے قاضیوں کا اصل کام بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور ان کے پاس لاکھوں کی تعداد میں اپیلیں التواء میں پڑی ہیں۔ پبلک سروس کمیشن ایک مکمل بااختیار اور خودمختار ادارہ ہے جو سول ججوں اور جوڈیشل مجسٹریٹس کو ’’پنجاب جوڈیشل سروس رولز 1994ء‘‘ کے تحت بھرتی کرنے کا مجاز ہے‘ اس کے ضابطہ 5 کی رُو سے یہ کمیشن سول ججز/ مجسٹریٹس کو مقابلے کے امتحان کے ذریعے منتخب کر سکتا ہے۔

پنجاب پبلک سروس کمیشن اس بات کا کئی بار رونا رو چکا ہے کہ قانونی تعلیم کے گرتے معیار کے باعث اسے ججوں کی خالی نشستوں کے لیے مطلوبہ امیدوار منتخب کرنے میں انتہائی دشواری کا سامنا رہا ہے، مگر کیا تعجب ہے کہ ہائیکورٹ نے 2015ء میں سول ججوں کی 696 خالی سیٹوں کے لیے 696 امیدواروں ہی کا انتخاب کر لیا‘ اگر یہی امیدوار پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہوتے تو مشکل سے دس بارہ فیصد ہی کامیاب قرار پاتے۔

اب ایک ساتھ اتنی بھرتیوں پر لوگوں کے تحفظات تو ایک فطری امر ہے‘ بہ ایں ہمہ جوڈیشل سسٹم میں ایک نئی لاٹ کا اتنا بڑا اضافہ صوبے میں انصاف کی فراہمی میں تعطل کا باعث بن سکتا ہے‘ بعینہٖ لاہور ہائیکورٹ نے 2015ء میں ہی پنجاب کے لیے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی 158 نشستیں مشتہر کیں اور حیرت انگیز طور پر بھرتی کے معیار کو نرم سے نرم کرنے کے لیے تحریری امتحانات کے پرچے9  سے گھٹا کر 3 کر دیے گئے جس سے اے ڈی اینڈ ایس جے (گریڈ20) کے تحریری امتحانات اور پی پی ایس سی کے ذریعے بھرتی ہونے والے لیگل انسپکٹر (گریڈ16) کے امتحانات کے معیار میں کوئی فرق باقی نہ رہا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کا عہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ وہ لوئر اپیلیٹ کورٹ کا پریزائیڈنگ افسر ہونے کے ساتھ ساتھ قتل اور دہشتگردی جیسے سنگین نوعیت کے فوجداری مقدمات کے فیصلے بھی کرتا ہے، چنانچہ یہ عہدہ انتہائی قابلیت اور پیشہ ورانہ خوبیوں کا متقاضی ہے۔

اے ڈی اینڈ ایس جے کے عہدوں کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر براہِ راست بھرتیاں پنجاب کے جونیئر سول ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹس کے لیے بے حد تشویش کا باعث ہیں کیونکہ ان بھرتیوں کی وجہ سے مستقبل میں یقینا وہ اے ڈی اینڈ ایس جے کے عہدوں پر ترقیوں سے محروم رہ سکتے ہیں‘ کسی بھی ملازم کے لیے سروس پروموشن اس کی جانفشانی کا سبب ہوتی ہے‘ اگر اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اس کی ترقی کی راہیں مسدود کر دی گئی ہیں تو یقینا اس کی پیشہ ورانہ کارکردگی متاثر ہو گی۔

حال ہی میں انگلینڈ سے ایل ایل ایم کرنیوالے ایک سول جج نے اس وجہ سے نوکری چھوڑ دی کہ اسے اے ڈی ایس جے کے امتحان میں شرکت کی اجازت نہیں ملی تھی‘ سول جج جو کہ جوڈیشل سسٹم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اگر اپنی سروس کے حوالے سے غیرمطمئن ہو گیا تو جوڈیشل سسٹم کو شدید جھٹکا لگے گا جسکا نقصان ملک اور سائلین کو ہی ہو گا۔

مارشل لاء دور میں سیشن کیسز کی سماعت کے لیے فوجداری کام کے تجربہ کار وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کے لیے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا اور مختلف حکومتیں اپنے من پسندوں کو نوازنے کے لیے اس نوٹیفکیشن کے سہارے ایڈیشنل سیشن ججز کی بھرتی کرتی رہیں۔

بالآخر 1994ء کو گورنر پنجاب نے پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974ء کی دفعہ 23 کے تحت حاصل اختیار استعمال کرتے ہوئے 40 فیصد ابتدائی بھرتی 10 سال کے وکالتی تجربہ کے ساتھ رکھی۔ 10 سال کی وکالت کے حامل بار ممبران سے ابتدائی بھرتی کا کام شروع دن سے قانونی حلقوں میں ابہام و تنازعہ کا باعث رہا ہے۔

چونکہ سول ججز، ڈسٹرکٹ اٹارنی، ڈپٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی، پبلک پراسیکیوٹرز، ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹرز اور اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹرز قانون کا امتحان پاس کرنے اور 2 سال کی وکالت کے بعد متعلقہ امتحانات پاس کرنے کے بعد اپنے عہدے پر فائز ہوتے ہیں لہٰذا ان کا موقف تھا کہ وہ عدالتی قانونی معاملات میں وکلاء کے برابر تجربہ رکھتے ہیں اور سرکاری وکلاء سرکار کی نمائندگی کرتے ہیں جب کہ سول ججز کی عدالت سے سرکاری وکلاء اور پرائیویٹ وکلاء تجربہ حاصل کرتے ہیں، نیز آئین ِ پاکستان 1973ء کا آرٹیکل 193 دس سال کی عدالت عالیہ کی پریکٹس اور دس سال جوڈیشل آفس پر کام کرنے کے تجربہ کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔

وکلاء، سرکاری وکلاء، قانونی معاملات سے متعلقہ کام کرنیوالے افسران اور سول ججز کے درمیان ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے عہدے کے لیے اہلیت پر ابہام و تنازعہ کے دوران 1994ء سے 2007ء تک بھرتی کا عمل جاری رہا، البتہ اس بارے میں قانونی حلقوں میں بحث جاری رہی اور فریقین کے اپنے اپنے موقف کی حمایت میں دلائل بھی جاری رہے لیکن بھرتی اور پروموشن کے عمل میں زیادہ فرق نہ ہونے کی وجہ سے فریقین نے یہ معاملہ عدالت میں نہ اٹھایا۔

ملک میں امن و امان کی بگڑی ہوئی صورتحال، دیوانی اور فوجداری نظام انصاف کی خامیوں کو دُور کرنے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب نے جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان کی سربراہی میں جوڈیشل ریفارمز کے لیے کمیٹی تشکیل دی جس نے تمام حالات و واقعات اور آئینی و قانونی نکات کو سامنے رکھتے ہوئے کمیشن کے ذریعے سول ججز اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے آفیسرز کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحان میں شرکت کرنے کی اجازت دینے کی سفارش کی‘ نیشنل جوڈیشل کمیٹی آرڈیننس 2002ء کی دفعہ 4 کے تحت اس کمیٹی کو جوڈیشل افسران کی سروس کی بہتری اور بہتر عدلیہ کے قیام کا مینڈیٹ حاصل ہے۔

کمیٹی نے 22 جون 2010ء کے اجلاس میں محنتی اور مطلوبہ قابلیت کے حامل سول ججز کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی بھرتی پر متعلقہ عدالت عالیہ کو غور کرنے کی سفارش کی جسکے بعد عدالت عالیہ لاہور کی امتحان کمیٹی نے 13 جنوری 2012ء کے اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 193، عدالت عظمیٰ کے حکم 15 مئی 2008ء ریاض حنیف راہی بنام رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ لاہور پی ایل ڈی 2008ء سپریم کورٹ 587، پنجاب لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل ایکٹ 1974ء کے رُول 5اور 15 مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں انرولمنٹ کمیٹی کے حکم 28 ستمبر 2011ء، اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز 2011ء اور سندھ جوڈیشل سروس رولز 1994ء کی روشنی میں سول ججوں کو ایڈیشنل سیشن ججز کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دیدی‘ بعدازاں یہ اجازت 8 فروری 2012ء کو امتحانی کمیٹی نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں واپس لے لی۔

امتحانی کمیٹی نے محنتی اور قابل سول ججز کو ایڈیشنل سیشن ججز کے امتحان میں بیٹھنے کا موقع دینے کے لیے عدالت عالیہ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی کو پنجاب جوڈیشل سروس رولز 1994ء میں ترمیم کرنے کی سفارش کی۔

عدالت عالیہ کے صوبائی جوڈیشل سلیکشن بورڈ/ انتظامی کمیٹی نے 2013ء کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سول ججز کو ایڈیشنل سیشن ججز کے امتحان کی اجازت سے متعلق پنجاب جوڈیشل سروس رولز میں ترمیم کرنے کا معاملہ متعلقہ اتھارٹی کے روبرو پیش کرنے کی منظوری دی جسکے بعد سروس رولز کمیٹی نے سیکریٹری (ریگولیشن) کی سربراہی میں 31 مارچ 2014ء کو پنجاب جوڈیشل سروس رولز میں ترمیم کرنے اور سول ججز کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحان میں شریک ہونے کی اجازت دینے کی سفارش کی جس پر گورنر پنجاب نے پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974ء کی دفعہ 23 کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے پنجاب جوڈیشل سروس رولز میں ترمیم کی منظوری دی اور 9 مئی 2014ء کو سول ججز اور سینئر سول ججز کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحان میں شرکت کی اجازت مل گئی۔

10 سالہ تجربہ کے حامل سول ججز اور سینئر سول ججز کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججز کے امتحان میں شرکت کی اجازت کے بعد عدالت عالیہ لاہور نے 2014ء کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی 40 آسامیوں کے لیے اشتہار دیا جس میں سول ججز، ڈسٹرکٹ اٹارنی، اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ اٹارنی، پبلک پراسیکیوٹرز کی بڑی تعداد نے آن لائن فارم جمع کراوئے مگر یہ امتحان منعقد نہ ہو سکا‘ اس پر مستزاد کہ وکلاء نے شازیہ اظہار وغیرہ بنام حکومت ِپنجاب ایک رِٹ عدالت عالیہ میں دائر کی اور سول ججز کو امتحان میں شرکت کی اجازت نہ دینے کی استدعا کی۔

یہ رِٹ پیٹیشن درخواست واپس لیے جانے پر عدالت ِعالیہ سے خارج ہوئی البتہ عدالت عالیہ کی انتظامی کمیٹی نے خرم خان وِرک بنام حکومت ِپنجاب اور شازیہ اظہار وغیرہ بنام حکومت ِپنجاب وغیرہ کے عدالتی فیصلوں کے باوجود رولز میں ترمیم کے کسی اختیار کے بغیر سول ججز کو امتحان کی اجازت نہ دینے کی نئی ترمیم کی سفارش کر دی‘ یہ بات قانونی حلقوں میں تشویش کا باعث تھی کہ ڈسٹرکٹ اٹارنی، ڈپٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی، اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز وغیرہ اور لاء آفیسرز تو ریاض حنیف راہی وغیرہ کی پٹیشن کی روشنی میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحان میں شرکت کے اہل ہیں لیکن سول ججز جن کی عدالت میں سرکاری وکلاء اور وکلاء وکالت کا تجربہ حاصل کرتے ہیں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے امتحان میں بیٹھنے کے اہل نہیں ہیں۔

پنجاب میں سول ججز بطور مجسٹریٹ درجہ اوّل، علاقہ مجسٹریٹ، رینٹ کنٹرولر اور فیملی کورٹ کام کرتے ہیں اور تمام سائلین کو سب سے پہلے ان ہی سے واسطہ پڑتا ہے‘ اگر انصاف کی فراہمی میں مددگار سول ججز کو خود انصاف نہ ملے گا تو ان میں مایوسی اور بددلی پیدا ہو گی جو کہ تمام معاشرے پر برے اثرات مرتب کریگی‘ اس صورتحال میں عدالت ِعالیہ اور عدالت ِعظمیٰ کو معاملہ فہمی اور قانونی معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف کی بنیادی سیڑھی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار کرنا چاہیے‘ بار کو بھی دو سال اور دس سال کی وکالت والے وکلاء کو ایک نظر سے دیکھنا چاہیے، وکلاء، سرکاری وکلاء اور سول ججز کی امتحان میں شرکت کی حمایت کر کے صحتمند مقابلے کی فضا پیدا کرنی چاہیے تا کہ اہل لوگ نظامِ عدل کا حصہ بن سکیں۔

وکلاء کے ایک طبقے کی رائے تھی کہ پنجاب لیگل اینڈ بار پریکٹیشنرز ایکٹ کے تحت سول ججز اور سرکاری وکلاء کا لائسنس اپنی ملازمت کے عرصے کے دوران عارضی طور پر معطل ہوتا ہے اور یہ لوگ بار کی ممبرشپ سے محروم نہیں ہوتے لہٰذا 40  فیصد ابتدائی بھرتی جو کہ بار ممبران میں سے ہوتی ہے آئینِ پاکستان کی درست تعبیر و تشریح کر کے سول ججز کو بھی امتحان کی اہلیت دیتی ہے اور اس سے قبل سرکاری وکلاء کو عدالت ِعظمیٰ کی طرف سے ریاض حنیف راہی کے کیس میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے امتحان میں شرکت کی اجازت مل چکی ہے۔

ان حالات و واقعات کے تناظر میں سول ججز کو امتحان میں شرکت سے محروم کرنا نہ صرف ناانصافی اور سخت زیادتی ہے بلکہ سول ججز کو محنت اور لگن سے کام کرنے کے جذبے سے محروم کرنے کے بھی مترادف ہے۔

انصاف کے اس بنیادی ستون کے ساتھ ایک اور زیادتی یہ ہو رہی ہے کہ دو سال کی وکالت کے بعد سول ججز امتحان میں پاس ہونے کے بعد تقریباً 14/15 سال کی سروس کے بعد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ پر ترقی پاتے ہیں جب کہ دوسال وکالت کرنیوالے وکلاء دوتین دفعہ ناکام ہونے کے بعد بھی ان سے پہلے دس سال کی وکالت کے ساتھ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ پر پہنچ کر ان کے باس بن جاتے ہیں جوکہ ان میں مایوسی اور بددلی کا باعث ہے۔

یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ آرٹیکل193 کے تحت سول ججز دس سال کے جوڈیشل آفس کے ساتھ عدالت عالیہ کا جج بننے کا تو اہل ہے لیکن وہ گریڈ20 کے عہدہ کے لیے اے ڈی ایس جے کا امتحان دینے کا اہل نہیں۔

نظام انصاف کی بقاء ان تمام باتوں پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے اور صحتمند مقابلے کو فروغ دینے کے لیے سول ججز کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کا امتحان دینے کی اجازت میں ہے بلکہ ہماری رائے تو یہ ہے کہ چونکہ دو سالہ تجربہ کے وکلاء سول جج کے امتحان میں شرکت کے اہل ہیں اور تمام بھرتی سول جج کی سطح پر بار سے ہوتی ہے لہٰذا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدے کی بھرتی پر پابندی لگا دینی چاہیے‘ یہ پابندی نہ صرف انصاف کی فراہمی میں ممد و معاون ثابت ہو گی بلکہ نظامِ عدل میں ایک خوشگوار تبدیلی کا بھی باعث ہو گی۔

اصلاحات کی جتنی ضرورت زیریں سطح کی عدلیہ میں ہے‘ اعلیٰ و عظمیٰ کی سطح پر نہیں ہے۔ پنجاب کی ضلعی عدلیہ کے ججز آج کل جس پریشانی، مایوسی، ناامیدی اور بے یقینی کی کیفیت سے گزر رہے ہیں اس کا اندازہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ایک مڈل کلاس سے دن رات سخت محنت کے ساتھ مقابلے کا امتحان پاس کر کے کسی سروس میں شمولیت حاصل کرے اور محنت و ایمانداری سے تیرہ چودہ سال کی سروس کے بعد اس پر اچانک انکشاف ہو کہ اس کے ساتھ اور اس کے بعد اسی مقابلے کے امتحان میں فیل شدہ امیدوار اس کے باس بن کر آ رہے ہیں جب کہ انھیں مقررہ مدتِ ملازمت پوری ہونے کے باوجود نہ تو ترقی دی جا رہی ہے اور نہ ہی آئینی و قانونی طور پر ان کی سروس اور تجربے کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔

وفاق اور صوبوں میں مختلف آسامیوں میں ایک خاص تناسب سے ترقی اور براہِ راست بھرتی کی جاتی ہے اور کبھی بھی سروس کے لوگوں کو مطلوبہ معیار پر پورا اُترنے پر براہِ راست بھرتی کے امتحان سے محروم نہیں کیا جاتا‘ سول ججز کی بھرتی سال 2006ء تک پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے اور اس کے بعد کبھی پنجاب پبلک سروس کمیشن اور کبھی عدالت ِعالیہ کے ذریعے ہو رہی ہے‘ جس سے ایک غیریقینی کیفیت کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔

عدالت ِ عالیہ کے براہِ راست امتحان لینے میں قباحت یہ ہے کہ اس سے امیدوار کسی شکایت کی صورت میں دادرسی کے فورم سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ نظامِ عدل کا مقصد صرف ملزمان کو سزا دینا ہی نہیں بلکہ معاشرے میں توازن اور عدل پیدا کرنا بھی ہے۔ ملک میں امن و امان کی بہتر صورتحال سے بیرونی سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کا انحصار بہتر نظامِ عدل پر ہے۔ نظامِ عدل میں بہتری سب سے پہلے نظامِ عدل سے وابستہ لوگوں کو خود انصاف اور مساوی مواقع کی فراہمی میں ہے۔

نظامِ عدل میں سول جج ایک بنیادی اکائی ہے جوکہ مقابلے کے امتحان کے بعد 24،25 سال کی عمر میں بھرتی ہوتا ہے۔ اگر نظامِ عدل کی بنیادی اکائی ہی غیرمطمئن ہو گی تو عام آدمی کے لیے انصاف ایک خواب ہو جائے گا۔ نظامِ عدل میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ سول ججز کی بھرتی کے بعد عدالت عالیہ تک کوئی بھرتی نہ کی جائے اور مقابلے کے امتحان کے بعد منتخب ہونیوالے ان ہی امیدواران کو بہتر ٹریننگ، بیرونِ ملک تعلیم، ریسرچ کی بہتر سہولتوں اور بہتر ماحول کے ذریعے عدالت عالیہ کے ججز تک ترقی دی جائے۔

ضلعی عدلیہ سے عدالت عالیہ تک تمام آسامیوں کی میرٹ پر بھرتی کے لیے ان آسامیوں کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پُر کیا جانا چاہیے۔ ضلعی عدلیہ میں بھرتی کے عمل میں بے ضابطگیوں اور میرٹ کی پامالی پورے ملک اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے، ضلعی عدالتیں پہلے ہی خراب کارکردگی پیش کر رہی ہیں، انھیں مزید تباہی کی طرف دھکیلنے کے بجائے ان میں متنوع اصلاحات لانے کی جانب ہائیکورٹ کو نمایاں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں پہلی فرصت میں عدالتی تقرریوں کا کام ایک خودمختار پبلک سروس کمیشن کو سونپ دینا چاہیے اور عدالت عالیہ کا جو اصل فرض منصبی ہے اسے اس کی طرف ہی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

اعلیٰ عدالتوں میں سالہاسال سے لاکھوں مقدمات زیرالتوا ہیں جن پر مناسب توجہ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ ماتحت عدالتوں کی بھرتیوں پر بلکہ آج اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے ایک ایسے انتظامی ادارے کی ضرورت ہے جو ضلعی عدالتوں کے قاضیوں کی سالانہ بنیادوں پر کارکردگی کا جائزہ لے اور انھیں قابلِ مواخذہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی تقرریوں، تبادلوں اور ترقیوں پر نظرثانی کرے۔ جب اعلیٰ عدلیہ ماتحت عدلیہ کی بھرتیوں کی اتھارٹی بن جائے گی تو متاثرہ ضلعی جج اپیلوں کے لیے کس فورم کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی براہِ راست بھرتیاں گزشتہ چند سالوں سے کافی بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں، سول ججز کو یہ شکایت ہے کہ جب آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 193(3) انھیں یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ دس سالہ ملازمت کے بعد ہائیکورٹ کے جج بن سکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ انھیں اے ڈی اینڈ ایس جے کے امتحان میں بیٹھنے سے محروم کر دیا گیا ہے۔

ہم حیران ہیں کہ ماتحت عدلیہ اور وکلاء میں یکساں مقبول اور ہردلعزیز چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے اس مسئلے پر ابھی تک کیوں نوٹس نہیں لیا‘ ہم سمجھتے ہیں کہ انھیں فوری طور پر ایسا مثالی فیصلہ کرنا چاہیے جو وکلاء اور ماتحت عدلیہ کو قابلِ قبول ہو۔

اس کے ساتھ ساتھ 2008ء میں پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے جوڈیشل افسران اور ماتحت عدلیہ کے ججوں کے اسپیشل الاؤنس کا اعلان کیا تھا جو کہ ان کی بنیادی تنخواؤں کا تین گنا تھا لیکن حکومتِ پنجاب نے سال 2008ء سے ہی یہ الاؤنس منجمد کیا ہوا ہے جس سے ماتحت عدلیہ کے ججز مالی مسائل کا بھی شکار ہیں۔ اسی طرح 2010ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی پاکستان کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواؤں میں 50 فیصد اضافہ کیا لیکن یہ اضافہ ماتحت عدلیہ پر لاگو نہ ہو سکا‘ ان معاملات کو بھی حکومت کے ساتھ اٹھانے کی ضرورت ہے۔  (ختم شد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔