لولی لنگڑی جمہوریت

رئیس فاطمہ  ہفتہ 8 اکتوبر 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے کا کردار حالات سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرنے کے لیے بازار سے زہر خرید کر لاتا ہے، لیکن زہر کھانے کے باوجود وہ مرتا نہیں، کیونکہ زہر میں ملاوٹ تھی۔ گویا ہر شے میں ملاوٹ ہے۔ کچھ بھی خالص نہیں۔ اور ہم اس ملاوٹ شدہ اشیا کے عادی ہو گئے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے جمہوریت بھی خالص نہیں رہی۔ وہ آمریت کے خمیر سے اٹھی ہے۔

ہماری قوم خالص آمریت کی بھی عادی نہیں۔ خالص جمہوریت کا تصور ایک پسماندہ ملک میں ویسے ہی ناممکن ہے۔ لیکن حکمران خالص آمریت کو جمہوریت کے لبادے میں لپیٹ کر عوام کے سروں پہ مسلط کیے بیٹھے ہیں۔ اپنی آمریت کے تحفظ کے لیے انھوں نے ایک احمقانہ سا جملہ ایجاد کر لیا ہے کہ ’’لولی لنگڑی جمہوریت آمریت سے بہتر ہے‘‘۔ اور اس جملے کو لوگوں پہ مسلط کرنے کے لیے چن چن کر من پسند ٹی وی اینکرز سامنے لائے گئے اور لائے جاتے رہیں گے۔

ساتھ ہی غالبؔ کے اس مصرعے ’’بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے‘‘ کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے یہ اینکرز چھانٹ چھانٹ کر ایسے لوگوں کو ٹاک شوز میں لاتے ہیں جو شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار ہیں، لہٰذا مراعات اور لفافوں کو ’’رزق حلال‘‘ ثابت کرنے کے لیے گلا پھاڑ پھاڑ کر ’’لولی لنگڑی جمہوریت‘‘ کا راگ الاپتے ہیں۔ لہٰذا دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے صحافی بھائی اور بہنوں میں سے بہت سے لکھ پتی سے کروڑ پتی بن چکے ہیں، جب کہ کسی بھی قسم کی جمہوریت کا ’’ج‘‘ بھی کہیں نظر نہیں آتا۔

جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی پارٹیوں کے سربراہوں نے کبھی پارٹی میں الیکشن نہیں کروائے۔ یہاں وراثتی نظام رائج ہے۔ آپ اسے ’’بادشاہت‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں اور وردی پوشوں کی سپورٹ بھی۔ سچ مچ کے آمروں نے لولی لنگڑی جمہوریت کے قالب میں اپنا اقتدار ڈال کر نئی پیکنگ میں ہم پر مسلط کر دیا ہے۔ کیا جمہوریت کا نعرہ مارنے والے اپنی مرضی سے کوئی حکم جاری کر سکتے ہیں؟

جمہوریت کی جیسی توہین ہمارے وطن میں ہو رہی ہے اس کی مثال دنیا میں شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ اس جمہوریت کا ایک ہی Logo ہے کہ ’’الٹی بھی میری، سیدھی بھی میری، انٹا میرے باوا کا‘‘ اس لیے پانامہ لیکس ہو، یا کرپشن کا کوئی اور کیس، کیا کسی پر بھی جمہوری انداز سے بات کی گئی؟ ہر جگہ مکمل آمریت ہی جلوہ گر ہے، بس لباس بدل لیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پرانے وقتوں کے بادشاہ رات کو لباس بدل کر شہر میں گھوما کرتے تھے تاکہ عوام کے حالات جان سکیں۔ کیونکہ وہ خالص بادشاہت تھی اسی لیے عوام کے دلوں میں اپنے بادشاہ کے لیے محبت تھی لیکن یہاں تو بس ہر طرف آمریت ہی بکھری پڑی ہے۔

چلیے آمریت اور جمہوریت کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف حکومت کی بات کرتے ہیں کہ جیسی لنگڑی لولی جمہوریت ہمارے مقدر میں لکھی ہے، ویسی ہی بے ساکھیوں پہ ٹکی حکومت بھی ہمارا مقدر ہے۔ حکمرانوں کا تمام تر زور ان بیساکھیوں کو مضبوطی سے پکڑنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ ادھر ادھر ان کی نگاہ ہی نہیں جاتی۔ اسی لیے کہیں بھی حکومت نظر نہیں آتی۔ ملک میں بجلی کی کمی ہے۔

بدترین لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ ہے، محتسب کا ادارہ چیخ رہا ہے، تاہم  اس کے تدارک کے لیے سب سے پہلے بجلی کی چوری کی روک تھام ضروری ہے۔ بڑے بڑے سیاستدان، جاگیردار، وڈیرے اور سردار اپنے اپنے کھیتوں، ٹیوب ویلوں اور ملوں کے لیے بجلی چوری کرتے ہیں۔ لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی، کیونکہ ان بجلی چوروں اور کرپشن میں ملوث بااثر افراد کی بدولت تو ’’لولی لنگڑی‘‘ جمہوریت انھیں نصیب ہوئی ہے۔

کنڈا مافیا باقاعدہ بڑے بااثر لوگوں کی آشیرواد سے دھڑلے سے بجلی چوری کر رہا ہے۔ لیکن حکومت صرف بڑے بڑے اشتہارات اخبارات میں دے کر اپنے ہونے کا ثبوت دے رہی ہے۔ چوری اور سینہ زوری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ اشتہارات میں عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ بجلی چوروں کی نشان دہی کریں۔

وہ عوام جو لائن میں لگ کر ہر ماہ بجلی کا بل جمع کرواتے ہیں، ان کے نصیب میں صرف اور صرف کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہے۔ لیکن بجلی کے بل میں کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ بااثر افراد کی بجلی کی چوری کا بل بھی تو عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ تو بتائیے کہیں ہے حکومت کا وجود؟ بجلی کی بچت کے لیے اعلان کیا گیا کہ دکانیں صبح 9 بجے کھولی جائیں اور شام سات بجے بند کر دی جائیں۔

یہ ایک نہایت مناسب اور معقول فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن کیا حکومت تاجروں سے اس پر عمل کروا سکے گی؟ کبھی نہیں، تاجر مافیا متحد ہو کر حکومت کے اس فیصلے کا مذاق اڑائیں گے۔ لیکن حکومت کا وجود کہیں ہوتا تو وہ تعاون نہ کرنے والے تاجروں پر پہلے بھاری جرمانے کرتی اور بعد میں ان کی دکانوں پہ تالے ڈال دیتی۔ جو زیادہ ہیکڑی جتاتا اور با رسوخ ہونے کا ثبوت دیتا اسے پکڑ کر جیل کا مہمان بنا دیتی۔ اگر حکومت کسی کے دباؤ میں آئے بغیر کچھ فیصلے کرے تو کم از کم بجلی کی کمی پہ تو قابو پایا جا سکتا ہے۔ مگر ایسا کیونکر ہو سکتا ہے؟ حکومت ہے کہاں؟ جو اس کی رٹ ثابت ہو سکے؟

دور کیوں جائیے شادی ہالوں پہ رات بارہ بجے بجلی بند کرنے کے حکم کا کیسا مذاق بنایا جا رہا ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ شادی لان اب بینکوئٹ ہال میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ رات بارہ بجے اور باہر کی روشنیاں بجھا دی گئیں۔ سائرن بھی بجا دیا گیا۔ پانچ منٹ بعد پولیس والوں کی ٹولیاں شادی ہالوں پہ پہنچ گئیں اور بھتہ لینا شروع کر دیا۔ میزبانوں نے ان کی مٹھی گرم کی اور ہال کے مالکان نے دوبارہ روشنیاں جلا دیں۔ پولیس پارٹیاں بڑی تندہی سے یہ کام انجام دے رہی ہیں۔

کاش بجائے رات بارہ بجے کے دس بجے تمام شادی ہال بند کر دیے جائیں۔ جو پابندی نہ کرے اس پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔ لیکن یہ کام کرے گا کون؟ حکومت ہے کہاں؟ کاش لولی لنگڑی جمہوریت بے ساکھیوں کا سہارا لینے کے بجائے قانون کا سہارا لیتی، قانون پہ عمل کرواتی۔

مجرموں کو سخت سزائیں دیتی، جو قانون شکنی کرے اس سے سختی سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بیساکھیوں کی اہمیت سب پر عیاں ہے۔ جو حکومت اتنے لمبے چوڑے دعوؤں کے باوجود شادی ہال رات دس بجے بند نہ کروا سکے، جو بازاروں کو جلدی کھلوانے اور سرشام جلدی بند کروانے کے امکانات پہ عمل کروانے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو وہ اور کیا کر سکتی ہے۔

جس طرح موٹرسائیکل کی ڈبل سواری کی پابندی پہ عمل کیا جاتا ہے اسی طرح شادی ہالوں اور بازاروں کے بند ہونے پر بھی عملدرآمد ہوتا تو آج ملک بجلی کے بحران کا شکار نہ ہوتا۔ ڈبل سواری اور ہیلمٹ کی پابندی پر سختی سے عمل پولیس اس لیے کرتی ہے کہ اس میں آمدنی ہی آمدنی ہے۔ ایک ایک بائیک والے سے کم ازکم پانچ پانچ سو کی یافت ہی پابندی پہ عمل درآمد کرواتی ہے۔

دودھ، گوشت، سبزیاں اور دیگر اشیائے ضرورت دن بہ دن من مانی قیمتوں پر فروخت ہو رہی ہیں لیکن منافع خوروں کو پکڑنے کی کسی میں ہمت نہیں۔ جو حکومت منافع خوروں کو قابو میں نہ رکھ سکے۔ اس کا وجود کہاں ہے؟ کہیں نہیں۔ ’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ کی مثال ایسی ہی لولی لنگڑی جمہوریت پہ صادق آتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔