انگریزی یورپ میں اجنبی ہونے کو ہے

ناصر ذوالفقار  اتوار 9 اکتوبر 2016
پائے کے فرانسیسی سیاست داں بھی چاہتے ہیں کہ انگلش کو یورپی یونین کی سرکاری زبانوں سے نکال باہر کیا جائے۔ فوٹو: فائل

پائے کے فرانسیسی سیاست داں بھی چاہتے ہیں کہ انگلش کو یورپی یونین کی سرکاری زبانوں سے نکال باہر کیا جائے۔ فوٹو: فائل

برطانیہ حالیہ ریفرنڈم بریگزٹ “Brexit” کے ذریعے یورپی اتحاد سے الگ ہوچکا ہے۔ عام تاثر ہے کہ یورپ کا شیرازہ کہیں بکھرنے کو ہے اور یہ سوال پید ا ہوا کہ کیا یورپ کا اتحاد برقرار رہ پائے گا کہ نہیں؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکل جانے کے بعد یورپین یونین میں شیکسپیئر کی زبانِ انگلش کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس معاملے میں یورپین یونین اور اس کے ماضی پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہوجاتا ہے کہ یہ کیسے وجود میں آئی تھی اور یہاں لسّانی مساوات کو کس قدر اہمیت حاصل ہے۔

یورپین یونین کا قیام: یورپین یونین باقاعدہ طور پر یکم جولائی 1957 کو مختلف تنظیموں کے ادغام سے وجود میں لائی گئی، اسے یورپی اقتصادی برادری، یورپی کوئلے اور فولاد کی برادری اور یورپی توانائی کی ایجنسی کی برادری کے باہم ملاپ سے تشکیل دیا گیا تھا۔ یورپین یونین کا صدر دفتر برسلز (بیلجیم) میں ہے۔ اس کے رکن ممالک میں 28 یورپی ریاستیں شامل ہیں، جن کی 24 سرکاری زبانیں ہیں۔

یونین کے دیگر شعبوں میں وزارتی کونسل ، کمیشن یورپی پارلیمنٹ اور عدالت انصاف شامل ہیں۔ کمیشن یورپی پارلیمنٹ اسٹارسبرگ (Strasbourg) فرانس میں واقع ہے۔ اس کے قیام کے اہم مقاصد میں یورپ کی اقتصادی و معاشی ترقی کو باہم جوڑنا اور غریب ممالک کی امداد بڑھانا اور اس کے ساتھ یورپی پارلیمنٹ کے اختیارات کا دائر ہ وسیع کرنا اور تمام رکن ممالک کے لیے خارجہ پالیسیاں مرتب کرنا شامل ہے۔

یورپی برادری جوکہ 1958 سے اپنے مقاصد میں جتی ہوئی تھی اور اپنا کام یورپ کی تینوں برادریاں کوئلا، فولاد اور نیوکلیائی توانائی کی تجارت کی شکل میں کررہی تھیں۔ 8 اپریل 1965 کو انہیں ایک ادارہ کی حیثیت سے ضم کردیا گیا۔ یہ مشترکہ ادارہ بن چکا تھا۔ 1972 میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں اعلان کیا گیا تھا کہ 1980 تک یورپین یونین قائم ہوجائے گی، لیکن اس تک پہنچنے میں وقت لگ 9 دسمبر 1991 کو ہالینڈ میں ’’ماسٹرچ‘‘ معاہد ہ طے پاگیا اور اس کی رو کے مطابق یورپی برادری اب ایک مکمل اقتصادی اور مالی اتحاد کی تنظیم میں تبدیل ہوگئی اور اسے ’’یورپین یونین‘‘ کا نام دے دیا گیا، جس پر عمل درآمد یکم نومبر 1993 ء سے شروع ہوگیا۔

اس سے پہلے 1979 میں ’’یورپین مانیٹرس سسٹم‘‘ متعارف کروادیا گیا تھا اور اسی کے تحت 1999 میں یورپی مانیٹری یونین(EMU) بھی وجود میں لائی گئی، ای ایم یو دراصل جرمنی اور فرانس کی باہمی کوششوں کا حاصل ہے اور یہی وہ دو ممالک ہیں جنہوں نے یورپی اتحاد کے لیے سر توڑ کوششیں کی ہیں اور جو یورپ کو ایک متحدہ صورت میں دیکھنے کی امیدیں اور آرزوئیں رکھتے تھے۔

ای ایم یو نے یورپ کی مشترکہ کرنسی ’’یورو‘‘ کا اجراء جنوری 1999 سے باقاعدہ شروع کردیا، جس کے جاری ہونے سے یورپین یونین کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے اور اس کی بدولت یورپ کو واحد خطّے میں بدلنے کی راہ ہم وار ہوگئی۔ یورپین یونین ایسی تنظیم ثابت ہوئی ہے جو کہ جنگ و جدال والی قوتوں کو نئے موڑ پر لے آئی ہے جو 50 کروڑ سے زاید آبادی کے خطّے کو سماجی، سیاسی اور معاشی استحکام فراہم کررہی ہے اور اس کی بہتری کے لیے رکن ریاستی ممالک باہم مل کر کام کررہے ہیں۔

جمہوری مساوات و لسّانی آزادی کی یونین: یونین نے جمہوری اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے اظہار رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے اور دفتری و باہمی رابطوں کے لیے ان کی زبانوں کو خودمختار بنایا ہے، جس سے عام انسانی مساوات کو فروغ ملا ہے اور اس پر اقوام متحدہ کا چارٹر بھی زور دیتا ہے۔ یونین میں اس کو بہت واضع طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ یورپین یونین کی 24 زبانوں کو یونین کی سرکاری زبانیں زبانیں بنایا جاچکا ہے، جو کہ اٹھائیس ریاستوں کی نمائندگی کرتی ہیں، جب کہ ورکنگ کے طور پر یونین کی کارروائیوں اور سرگرمیوں میں دو بڑی زبانیں عام رہی ہیں۔

1958میں یورپین یونین چھے ارکان پر مشتمل تھی جن کی زبانیں ورکنگ زبانوں کے طور پر استعمال ہورہی تھیں۔ ان میں جرمن، فرانسیسی، ڈچ اور اٹالین زبانیں شامل ہیں، جنہیں یونین کی سرکاری زبانوں کی حیثیت دی گئی تھی۔ تاہم یونین نے اس پالیسی میں ترمیم کی اور تمام دستاویزات تک یورپ کے ممبران ممالک تک دسترس کے لیے یونین نے ان کی اپنی زبانوں میں ممکن بنانے کے لیے قانون پاس کیے، جس کے باعث ریاستوں کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں کی کارروائی ان زبانوں میں تحریر ہوتی رہی ہے۔

یوں رکن ممالک کے باسی اپنی زبانوں کے استعمال کے ذریعے معاملات پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ یورپی یونین کا اسٹاف 750 لسّانی ماہرین پر مشتمل ہے جن میں 600 معاونین پر مشتمل عملہ بھی ہوتا ہے، جس کے باعث یہ یونین کا کمیشن دنیا بھر میں ترجمہ کی سب سے بڑی سروس بن چکا ہے۔ اضافی طور میں اس میں 600 کل وقتی اور 3000 ہزار جزوقتی فری لانس ترجمان خدمات انجام دے رہے ہیں لسّانی پالیسی اصولی طور پر تمام نئی ویب ایپلی کیشنز اور پیش کشوں پر لاگو ہوتی ہے۔

تمام جمہوری تنظیموں، یورپی کمپنیاں مستقل حکومت اور سول سروسسز، کاروباری انجمنوں اور دوسری تنظیموں کو بھی پورا حق ہے کہ وہ اپنی زبانوں میں مکمل اظہارخیال کرسکیں۔ یہ قانون براہ راست انفرادی ، اداروں اور عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے کہ وہ اسے لازمی طور پر سمجھنے کے اہل ہوں جس کا واضع مطلب ہے کہ ان تمام زبانوں میں مواد کا ہونا لازمی بنایا جائے۔

1958 میں صرف ڈچ، فرانسیسی، جرمن اور اٹالین زبانیں یورپی یونین کی آفیشل زبانوں میں شامل تھیں۔ جنوری 1973 میں ڈینش اور انگلش زبانوں نے اپنی جگہ بنائی،1981 میں یونانی زبان جب کہ اسپینی اور پرتگالی زبان 1986 سے، فنش اور سوئیڈش 1995 سے یورپین یونین کی آفیشل زبانوں کا اہم جز بن چکی ہیں۔ 2004 میں بیک وقت نو زبانوں نے یونین کی آفیشل زبانوں کا درجہ حاصل کرلیا، ان میں اسٹونیا، چیک، ہنگیرین، لاتاوین، لیتھونین، مالٹیز، پولش، سلواکین اور سلووینین زبانیں شامل ہیں۔

2007 میں دو مزید یورپی زبانوں نے اس بیڑے میں شمولیت حاصل کرلی۔ یہ بلغارین اور آئرش زبانیں تھیں اور آخر میں 2013 ء میں کروشیا، آسٹرین زبانوں کو بھی یونین کی آفیشل زبانوں میں شامل کرلیا گیا اور اب یورپین پارلیمنٹ برسلز کی آفیشل نمائندہ زبانوں کی تعداد 24 ہوگئی ہے۔ یورپین یونین کی یہ زبانیں دو یا دو سے زاید ممالک کی ریاستوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں، ان میں چیک، ڈچ، انگلش، فرانسیسی، جرمن، یونانی، ہنگیرین، آئرش، سلووینین، سلواکین، سوئیڈش اور اٹالین زبانیں سرفہرست ہیں۔

حقیقتاً برطانیہ کبھی یورپ کا فطری طور پر باقاعدہ جُز نہیں رہا ہے۔ جغرافیائی حدود کے لحاظ سے بھی یہ یورپ سے کچھ پرے ایک جزیرہ نما ہے جو انگلش چینل کے پانی میں ایک 22 میل کی ٹیوب کے ذریعے فرانس سے جڑا ہوا ہے۔ اسی لیے برطانیہ کبھی بھی یورپین یونین کی ایک ٹپیکل ’’علامتی‘‘ ریاست نہیں رہا ہے اور یہ واحد ملک ہے، جو کہ فرانس کی مدد سے یورپی یونین کا ممبر چنا گیا تھا۔

دوسری بات یہ کہ اس نے یونین قائم ہونے کے دو عشروں بعد اس وقت اس میں شمولیت حاصل کی، جب کہ یورپ کے چھے اصلی ارکان اسے معاشی ترقی دے کر ایک اجتماعی کمیونٹی میں تبدیل کرچکے تھے اور تب تک یونین یورپی معاشی تعاون (EEC) کی بدولت آزادانہ تجارت اور آزاد منڈی کی صورت میں سامنے آچکی تھی۔ بحراوقیانوس کے اس عظیم تاریخی نوعیت کے براعظم یورپ میں برطانیہ ہی یورپی یونین میں اکلوتا ملک ثابت ہوا ہے جس نے باقاعدہ طور پر ریفرنڈم” “Brexitکو بنیاد بناکر یونین سے نکل جانے کا اصولی فیصلہ کیا۔

یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے بعد یونین کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ہے۔ یونین اپنے اتحاد اور وجود کو قائم رکھنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ یورپی یونین کے سربراہان کی جانب سے برطانیہ پر شدید دباؤ ہے کہ وہ جلدازجلد یونین سے مکمل اخراج کے لیے لزبن معاہدے کے آرٹیکل 50کو لا گو کرے۔ خیال ہے کہ برطانیہ کے نئے وزیراعظم اس معاہدے کو بروئے کا ر لاسکیں گے۔

جرمن چانسلر انجیلا مریکل نے برسلز سمٹ میں شرکت سے پہلے جرمن پارلیمان سے کہہ دیا تھا کہ یورپی یونین کے اخراج کی بات چیت میں برطانیہ کی مرضی چلنے والی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کے سنیئر ارکان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ برطانیہ کے یونین سے خارج ہونے کے بعد اب انگلش زبان بھی زیادہ دیر تک یونین کی آفیشل زبان کے طور باقی نہیں رہ سکتی اسے بھی یورپی کمیشن سے برخواست کردیا جائے۔

اس سلسلے میں پولینڈ کی سنیئر خاتون ممبر یونین پارلیمنٹ (MEP) محترمہ ڈینوتاہنبر ( Danuta Hunber) سب سے سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔ ہنبر صاحبہ یونین پارلیمنٹ کے آئینی معاملات کی کمیٹی (CAC) کی سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے پارلیمارنی خطاب میں دوٹوک کہا ہے کہ یورپی یونین کی آفیشل زبان کی حیثیت سے انگلش کو خطرات لاحق ہیں۔ سیاسی طور پر یونین کی ہر ریاست کو حقوق حاصل ہیں کہ اپنی زبان کو سرکاری طور پر استعمال کرسکے۔

محترمہ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’’آئرلینڈ نے اپنی زبان “Gaelic” اور مالٹا نے ’’مالٹیز‘‘ کو زور دے کر سرکاری زبانوں میں شامل کروایا تھا۔ اسی طرح برطانیہ کے اصرار پر انگلش کو بھی زبانوں میں شامل کرلیا گیا تھا۔‘‘ انگلش، فرانسیسی اور جرمن فقط ورکنگ زبانوں کے طور پر ہیں (ورکنگ سے مراد ہے کہ یہ کاروباری و آئینی معاملات وغیرہ کے لیے کام میں لائی جاتی ہیں) انگریزی کو تین ریاستوں میں اثرورسوخ کے باعث رکھا گیا ہے، جن میں برطانیہ، آئرلینڈ اور مالٹا شامل ہیں۔ اب جب کہ آئرلینڈ اور مالٹا فرداً فرداً اپنی قومی اور پسندیدہ زبانوں کو سرکاری طور پر تسلیم کرواچکے ہیں۔

یورپ میں ہمیشہ سے قوم پرستی کا غلبہ رہا ہے۔ اپنی اپنی زبان سے والہانہ محبت اور عقیدت کے سبب یورپی باشندوں میں کینہ پروری بھی عام رہی ہے۔ وہ ایک دوسرے کی بولیوں کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ فرانسیسی لوگ انگریزی سے نفرت کرتے ہیں۔ اسی طرح برطانیہ والے بھی فرینچ سے بغض رکھتے ہیں، جس کی واضع مثال انگریزوں کے یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد دیکھنے میں آرہی ہے۔

اسی طرح کی ایک امکانی صورت اس وقت سامنے آئی جب فرانس میں بائیں بازو کے سیاست داں جین لوس میلنچان (Jean Luc Melenchon ) جو فرانس کے صدارتی امیدوار بھی ہیں، نے ایک ٹوئٹ میںکہہ دیا کہ ’’اب جب کہ برطانوی ریفرنڈم کے نتائج سامنے آچکے ہیں، انگلش یورپی پارلیمنٹ میں تیسری ورکنگ زبان کی حیثیت سے زیادہ دیر تک اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔‘‘ اگرچہ ایک اور پارلیمانی کمیشن کے سامنے وہ اپنے بیان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ محترمہ ہنبر کا دعویٰ درست نہیں تھا۔

بہ ہرحال اب یونین میں انگلش زبان کو بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ نگراں کار قائم مقام وزراء کی کونسل نے کہا ہے کہ یورپین یونین کی زبانوں کے استعمال کے ’’حکومتی قوانین‘‘ کی رو سے اور 2013 کی یورپی کورٹ آف آڈیٹرز کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے متعدد ایسی مثالیں یونین کی دستاویزات میں شامل دیکھی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگریزی زبان خونی اور جلاد جیسی ہے۔ یعنی انگلش کے ترجمے میں بہت سی بے قاعدگیاں اور اصولی تضاد پایا جاتا ہے، جو کہ یورپی اقوام کے مزاج کے مطابق نہیں۔

پائے کے فرانسیسی سیاست داں بھی چاہتے ہیں کہ انگلش کو یورپی یونین کی سرکاری زبانوں سے نکال باہر کیا جائے، جب کہ فرانس کے ایک شہر کے میئر بیریئر رابٹ مینرڈ (Beriers Robat Manard) نے بھی اپنی بھڑاس قومی محاذ پر نکالتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ یونین میں انگلش کا اب زیادہ دیر تک رہنا جائز نہیں۔ یورپی پارلیمنٹ کمیشن ’’اسٹراسبرگ‘‘کی تھرڈ ورکنگ لینگویجز میں شامل انگلش کا درجہ ایک ورکنگ زبان کا تو ہے مگر اس کی صلاحیت ایک سرکاری زبان کے طور پر پوری نہیں اترتی، کیوںکہ یہ یورپ میں نہایت محدود پیمانے پر بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔

برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد اگرچہ اسکاٹ لینڈ اب بھی یورپی پارلیمنٹ میں شامل ہے، لیکن اگر وہ برطانیہ سے الحاق قائم رکھتا ہے تو اسے ابھی یونین سے بے دخل ہونا پڑے گا۔ دوسری صورت میں اگر وہ یونین میں بدستور شامل رہنا چاہتا ہے تو اسے دوبارہ آزاد ریاست کے طور پر یورپی یونین کا رکن بننا ہوگا اور برطانیہ سے علیحدگی اختیار کرنا ہوگی۔ بظاہر اسکاٹ لینڈ کے عوام یونین میں شامل رہنے میں خوش نظر آتے ہیں، مگر اس معاملے کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔

2014ء کے اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سرخ رو ہوگئے تھے، مگر حالیہ رائے شماری میں وہ عوام کی اکثریت کو یونین میں شامل رہنے کے لیے آمادہ نہ کرسکے۔ چناں چہ انہوں نے وزارت عظمٰی چھوڑ دی۔ اسکاٹ لینڈ کے عوام اب ایسا ہی ایک اور ریفرنڈم چاہتے ہیں جو کہ حتمی اور فیصلہ کن ہو، تاکہ وہ آزادانہ طریقے سے یورپین یونین کے ساتھ الحاق قائم رکھ سکیں۔ برطانیہ نے 43 سال پہلے بڑی منت سماجت کرکے یورپی یونین میں جگہ پائی تھی اور اب عوام کی خواہش پر اسے یونین سے کنارہ کرنا پڑا ہے۔

برسلز یورپی یونین کا صدرمقام ہے، جہاں فرانسیسی بولنے والوں کی اکثریت کا راج ہے اور ان کا ہی سکّہ چلتا ہے۔ اس لیے وہاں کسی دوسری بھاشا بولنے کی جسارت کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ برطانیہ کے یونین چھوڑنے کا عمل عجیب طرح کی حقیقت ہے۔ انگلش جو کہ اب یورپی یونین میں صرف جمہوریہ آئرلینڈ اور جزیرے مالٹا کی زبان رہ گئی ہے وہ یورپی یونین کی 450ملین افراد پر کیسے اثرانداز ہوسکتی ہے؟ یوں اسکاٹ لینڈ کے 10 ملین انگریزی بولنے والے چھوٹی سی اقلیت بن جائیں گے۔

دل میں اتر جانے والی فرانسیسی تازہ دم ہوئی تھی 2007 ء میں جب فرانسیسی ارکان اسمبلی نے تجویز کیا تھا کہ فرینچ تن تنہا یورپی یونین کی قانونی زبان ہوگی۔ فرانسیسی کا کردار یونین کی دوسری رابطے کی زبان کے طور پر اطمینان بخش رہا ہے۔ معاشی قوت اور سیاسی اعتماد رکھنے والے ملک جرمنی کے لوگ فی الحال دوسری زبانوں کے مقابلے میں اپنی زبان کو آگے بڑھانے کے آرزومند نہیں ہیں۔ تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ یونین سے انگلش کی وابستگی پہلے کم زور تھی مگر برطانیہ کے انخلاء نے اسے اب بے حد کم زور بنادیا ہے۔

یونین کے 500 ملین کے قریب دیگر زبانیں بولنے والوں کے مقابلے میں اب یہ صرف برطانیہ کے بغیر اسکاٹ لینڈ کے 10 ملین مقامی لہجے میں انگلش بولنے والوں کی زبان ہے۔ ایسے حالات میں یورپ کی ایک ہی زبان ہے جوکہ سارے یورپ کی ترجمان بننے کی مکمل اہلیت رکھتی ہے اور وہ اسپرانتو ہے، جسے 129 سال پہلے پولینڈ کے ایک ماہر چشم ڈاکٹر ذامن ہونے نے تخلیق کیا تھا، تاکہ اسے یورپی اقوام کے باہمی رابطے کے لیے استعمال میں لایا جاسکے۔

اسپرانتو یورپ کے ساتھ اب سارے براعظموں میں اپنی شناخت رکھتی ہے اور اپنی اہمیت منوا رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اگر اسپرانتو کو یورپی یونین کی سرکاری زبان تسلیم کرلیا جائے تو ایک سال میں 25 ملین یورو کی خطیر لاگت بچائی جاسکتی ہے، جو کہ زبانوں کے تراجم کے لیے قائم اداروں کی مد میں خرچ ہوتی ہے، جو کہ فی شہری 54 یورو بنتا ہے، جب کہ دوسرے فوائد اس کے علاوہ حاصل ہوسکتے ہیں۔

اسپرانتو کو یورپی یونین کی 25 ویں زبان بنانے کی کوششیں پہلے سے ہورہی ہیں۔ اس کے لیے یورپی باشندوں کی طرف سے 20000 سے زاید ارکان نے دست خط بھی کردیے ہیں۔ اب اگر انگلش کو یونین سے ختم کیا جاتا ہے تو اس بات کے روشن امکانات ہیں کہ اسپرانتو بھی یونین کی سرکاری زبان کا درجہ پا جائے اور انگلش کی جگہ حاصل کرلے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔