سندھ طاس معاہدہ۔۔۔ کیا بھارت کی آبی جارحیت روک سکتا ہے؟

شبینہ فراز  اتوار 9 اکتوبر 2016
پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی معاہدے کے مختلف پہلو، ماضی، حال اور مستقبل۔ فوٹو: فائل

پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی معاہدے کے مختلف پہلو، ماضی، حال اور مستقبل۔ فوٹو: فائل

پاکستان اور ہندوستان کے مابین مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت سے پیدا ہونے والی صورت حال اب انتہائی کشیدہ ہوچکی ہے اور بات جنگ اور دونوں ممالک کے درمیان موجود ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ یا انڈس واٹر ٹریٹی توڑنے تک آپہنچی ہے۔ کیا یہ معاہدہ توڑنا اتنا ہی آسان ہے؟ اور کیا اسے کوئی ایک فریق توڑ سکتا ہے؟

آبی اور قانونی ماہرین اسے ہندوستان کی صرف دھمکی یا گیدڑ بھبکی سمجھتے ہیں۔ یہ دو قومی معاہدہ ہے، جس کا ضامن عالمی بینک تھا۔ اس معاہدے کو توڑنے کے لیے بھی دونوں فریقین کا اس پر متفق ہونا اور ضامن یعنی عالمی بینک کی موجودگی بھی ضروری ہے۔ لہٰذا اسے توڑنے کی باتیں صرف خوف زدہ کرنے کی حد تک محدود ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان سے زیادہ بھارت کے لیے فائدہ مند ہے، لہذا وہ اسے کبھی نہیں توڑے گا۔ مزید یہ کہ بھارت کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کے لیے اتنے ڈیم نہیں ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کرسکے۔

خود بھارت میں بھی اس کے خلاف باتیں ہورہی ہیں۔ بھارتی اسکالر اور کالم نویس پی جی رسول لکھتے ہیں، ’’یہ غیرضروری اور غیرذمے دارانہ باتیں ہیں۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت پاکستان کو کوئی خصوصی مراعات نہیں دی گئی تھیں، بل کہ دریاؤں کے رخ اور جغرافیائی حقائق کو تسلیم کیا گیا تھا۔ بھارت کے اندر ہی سے اس بیان پر تنقید جاری ہے۔

ماہرین پوچھ رہے ہیں کہ بھارت اتنا پانی کہاں ذخیرہ کرے گا۔ نئے ڈیم بنانے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں اور بھارت کے موجودہ ڈیموں کی گنجائش اتنی نہیں ہے کہ وہ سارا پانی ذخیرہ کرسکیں۔ زیادہ تر منصوبے بجلی پیدا کرنے کے لیے بہتے ہوئے پانی (Run of river)پر ہیں۔ بھارت کو ایسا کرنے میں چین کا خیال بھی مانع ہے۔ اب جب کہ چین کُھل کر پاکستان کے حق میں بیان دے چکا ہے تو بات بہت واضح ہوچکی ہے۔

اگر چین نے یہی حربہ استعمال کرکے تبت سے آنے والے دریا برہم پترا کا رخ موڑ دیا تو بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں بنجر ہوجائیں گی۔ دریائے برہم پترا چین میں ڈیڑھ ہزار کلو میٹر سے زاید فاصلہ طے کرنے کے بعد صوبہ ہماچل پردیش سے بھارت میں داخل ہوتا ہے۔ دنیا کے سب سے بلند چینی علاقے تبت سے اس دریا کا آغاز ہوتا ہے، جس کے پانی سے بھارت کی لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب ہوتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اور بھارت کے مابین اس دریا کے پانی پر سرے سے کوئی معاہدہ موجود ہی نہیں ہے۔ صرف اس عالمی اصول کے پیش نظر کہ دریا کے پانی پر ان تمام ممالک کا حق بنتا ہے جہاں سے یہ دریا گزرے چین بھارت کو اس دریا کا پانی دے رہا ہے۔ لہٰذا اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو چین چند ہفتوں کے اندر برہم پترا کا پانی روک دے گا اور بھارت اس کی شکایت کسی عالمی فورم پر نہیں کرسکے گا، کیوںکہ وہ خود پاکستان کے ساتھ یہی کرچکا ہوگا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ معاہدہ کس صورت حال کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔

٭سندھ طاس معاہدے کا تاریخی پس منظر

برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین 18 دسمبر 1947 کو ایک معاہدہ کیا گیا جس کی رو سے دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کی صورت حال، تقسیم سے قبل جیسی ہی رکھنی تھی، لیکن 8 ماہ سے بھی کم مدت کے اندر اندر بھارت نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے آب پاشی کے لیے مخصوص ہر اس نہر کو بند کردیا جو فیروزپور اور گورداسپور سے نکل کر دونوں ملکوں کی سرحد عبور کر رہی تھی۔ بھارت کی اس کارروائی کے باعث پاکستانی کی کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔

انڈیا کا مطالبہ تھا کہ بھارتی پنجاب سے گزرنے والے تمام دریاؤں پر پاکستان، بھارت کا حق تسلیم کرے اور ان دریاؤں کے پانی پر پاکستان پنجاب کے باشندوں کے حق اور حصے کا مطالبہ نہ کرے۔ اس کے برعکس پاکستان کا مطالبہ، جسے وقت نے درست ثابت کیا، تھا کہ پانی کے استعمال یا کھپت کی موجودہ صورت حال جوں کی توں رہنے دی جائے۔ البتہ زاید پانی کو دونوں ممالک کے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے اس مطالبے کو متعدد معاہدوں اور ملکوں کی حمایت حاصل تھی۔

اس مطالبے کے جواب میں بھارت نے وہ اصول پیش کیا جو اگرچہ کئی بین الاقوامی مذاکرات میں پیش تو کیا گیا تھا لیکن اس معاہدے کی پذیرائی کسی ملک نے نہیں کی تھی۔ اس اصول کے مطابق دریاؤں کے بالائی بہاؤ پر واقع ملک کو دریا کے پانی پر مکمل حق حاصل ہوتا ہے، جب کہ زیریں بہاؤ پر قائم ملک کو پانی صرف اس صورت میں مل سکتا ہے جب دونوں ممالک آپس میں کوئی معاہدہ کرلیں۔

یکم اپریل 1948 کو اٹھایا گیا یک طرفہ بھارتی اقدام، دو ممالک سے ہو کر گزرنے والے دریاؤں کے متعلق بین الاقوامی قانون کی روح کے منافی تھا۔ 1921 کا بارسلونا کنونشن، بھارت نے جس پر دست خط کیے تھے، کسی بھی ملک کو ایسے دریاؤں کا پانی روکنے یا ان کا رخ تبدیل کردینے کی قطعی اجازت نہیں دیتا جو کسی ملک کی سرحد عبور کر کے پڑوسی ملک میں داخل ہوتے ہیں۔

مذکورہ کنونشن کے مطابق کسی ملک کو دریاؤں کے پانی کی اس حد تک اور اس طریقے سے استعمال کی اجازت بھی حاصل نہیں کہ اس کے پڑوسی ملک کی زمینیں سیراب نہ ہو سکیں یا وہ پانی کو درست طور سے استعمال نہ کر سکے۔

دریاؤں کے بالائی بہاؤ پر واقع بھارت نے اپنی حیثیت اور طاقت کا غیرقانونی مظاہرہ کرتے ہوئے اپریل 1948 میں پاکستان کو دریاؤں کے پانی کی فراہمی روک دی تھی، جس کے نتیجے میں پاکستان کے ایک وزارتی وفد کو نئی دہلی کا ہنگامی دورہ کرنا پڑا اور پانی کی بحالی کے لیے بات چیت کرنی پڑی۔ لیکن ان مذاکرات میں بھارت نے اصرار کیا کہ مشرقی جانب سے آنے والے تمام دریاؤں پر پاکستان، بھارت کا ملکیتی حق تسلیم کرے۔

4 مئی 1948 کو ہونے والے مذاکرات میں بھارت نے پاکستان وفد کو ایک ایسے معاہدے پر دست خط کرنے پر مجبور کیا جس کے تحت ریزرو بینک آف انڈیا میں، بھارتی وزیراعظم کی مقرر کردہ رقم جمع کروانا پاکستان کے لیے ضروری تھا اور اس کے بعد ہی پاکستان کو پانی کی فراہم بحال کی جانی تھی۔

سندھ طاس میں واقع دریائی نظام، دریائے سندھ اور اس کے پانچ ذیلی دریاؤں جہلم، بیاس، چناب، راوی اور ستلج پر مشتمل ہے۔ یہ تمام دریا پاکستان میں مٹھن کوٹ کے مقام پر دریائے سندھ سے مل جاتے ہیں، جس کے بعد کراچی کے جنوب میں واقع بحر ہند میں جاگرتے ہیں۔ سندھ طاس کا کل رقبہ لگ بھگ 365,000 مربع میل پر مشتمل ہے جو زیادہ تر پاکستان میں شامل ہے، جب کہ اس کا بقیہ معمولی حصہ مقبوضہ کشمیر، بھارت، چین اور افغانستان تک پھیلا ہوا ہے۔

آزادی کے وقت پاکستان کو میسر 37 ملین ایکڑ میں سے 31 ملین ایکڑ رقبے پر آب پاشی ہوتی تھی۔ دونوں ممالک کے مابین سرحدوں کا تعین کرتے وقت برصغیر پاک وہند میں قائم نہری نظام پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔ البتہ باؤنڈری کمیشن نے یہ تنازعہ تسلیم کیا تھا۔ متاثرہ علاقوں کے نمائندوں نے ثالثی کمیشن کے سامنے اقرار کیا تھا کہ پانی کی سپلائی پر دونوں ممالک کا حق ہے۔ پھر آزادی کے ابتدائی برسوں کے دوران 4 مئی 1948 کو دونوں ممالک نے ایک معاہدہ کیا، جس کی رو سے خطے کے دریاؤں سے پانی کے حصول کی خاطر پاکستان کو مقررہ رقم بھارتی حکومت کو ادا کرنی تھی۔

واضح رہے کہ یہ محض عارضی معاہدہ تھا جو پانی کی سپلائی بحال رکھنے کی غرض سے کیا گیا تھا اور پانی کی تقسیم کے مستقل حل کی تلاش کے لیے دونوں ممالک کے مابین مذاکرات جاری رہنے تھے۔

چوںکہ دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھیں، لہٰذا مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے۔ اس معاملے کو پاکستان نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں لے جانے کی دھمکی دی جس پر بھارت نے یقین دہانی کروائی کہ پانی کی تقسیم کا یہ مسئلہ باہمی بات چیت کے ذریعے حل کرلیا جائے گا۔ یہ بہانہ بھارت ہمیشہ ہی سے بناتا آرہا ہے اور برسوں کے تجربے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل میں تعطل پیدا کردینے کا یہ وہ بہترین ہتھکنڈا ہے جسے بھارت مہارت سے استعمال کرتا ہے۔

مئی 1948 کے معاہدے پر دست خط کرنے کے بعد پاکستان نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ 1951 تک بھارت کے غیرسنجیدہ رویے کے باعث دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلے پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ بھارت کی جانب سے سمجھوتا نہ کرنے کی خواہش کے باوجود دونوں ممالک اس مسئلے کا حل چاہتے تھے، کیوں کہ انہیں علم تھا دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کا معاملہ اگر حل نہیں ہوا تو مستقبل میں بے شمار تنازعات کو جنم دے گا۔

اس دوران بھارت نے دریائے بیاس اور ستلج کے بالائی حصے میں، فیروزپور سے آگے ہریک کے مقام پر بیراج کی تعمیر شروع کردی تھی اور بھاگرا کی ڈیم سائٹ پر بھی کام شروع تھا اور پاکستان کی ہر کوشش اور ہر اعتراض کو اس نے مسترد کردیا۔

ماحول اور قدرتی وسائل پر گہری نظر رکھنے والے پی سی ایس آئی آر کے سابق ڈائریکٹر مرزا ارشد علی بیگ کی ایک رپورٹ کے مطابق چوںکہ اس مسئلے سے لاکھوں لوگوں کی قسمت وابستہ تھی اور پرامن مذاکرات کے ذریعے اس کا حل بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا لہٰذا امریکا کے ایک مشہور رسالے کولیئر (جو1957 میں بند ہوا) نے ٹینیسی ویلی اتھارٹی کے سابق چیئرمین اور امریکی اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈیوڈ ای کو حقائق تلاش کرنے کی غرض سے بھارت اور پاکستان کے دورے پر بھیجا۔ ان کا کام اس مسئلے پر ایک رپورٹ تیار کرنا تھا جس کی مدد سے یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا۔

وطن واپسی پر ڈیوڈ نے سلسلے وار آرٹیکلز کی صورت میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس سلسلے کا پہلا آرٹیکل ’’کولیئر‘‘ کے 4 اگست 1951 کے شمارے میں شائع ہوا۔ انہوں نے اس میں لکھا تھا،’’ابتدائی نکتہ، جس سے شروعات کی جائے یہ ہو کہ پاکستان کو پانی سے محرومی اور اسے صحرا بنادیے جانے کے خدشات ختم کیے جائیں۔ اس کے پانی کے حالیہ استعمال کے حجم کی بھارت تصدیق کرے اور اسے (پاکستان کو) پابند کیا جائے کہ وہ اور بھارت صحیح معنوں میں دریا کے بین الاقوامی طاس میں مل کر کام کریں، انجنیئرنگ کی بنیادوں پر جو بھارت کے مستقبل کے پانی کے استعمال کی بھی یقین دہانی کروائے گا۔

علیحدہ علیحدہ کام کرنے کی صورت میں مذکورہ دونوں ممالک یہ مقصد حاصل نہیں کر سکیں گے، کیوں کہ دریا (سندھ) دونوں ممالک کی سرحدوں کو خاطر میں نہیں لاتا اور کشمیر، بھارت اور پاکستان سے گزرنے والے اپنے قدرتی راستے پر گام زن رہتا ہے۔ اس پورے نظام کو بطور ایک اکائی ترقی دی جانی چاہیے اور امریکا کے سات ریاستوں کے TVA سسٹم کی طرح بطور ایک اکائی ہی اسے چلایا جانا بھی چاہیے۔‘‘

اُس وقت کے عالمی بینک کے صدر یوجین آر لیک نے ڈیوڈ کے تحریر کردہ آرٹیکلز پڑھے اور ان سے رابطہ کرکے پوچھا کہ بھارت اور پاکستان کے لیے ان کی تجاویز کس طرح قابل قبول ہو سکتی ہیں۔ ڈیوڈ سے مشاورت کے بعد آرلیک نے دونوں ممالک کے وزرا کے نام خطوط لکھے اور دریائے سندھ کے پانی کے تنازعے کے حل کے لیے مذاکرات کے لیے اپنے دفتر کی خدمات پیش کردیں۔

بینک دونوں ممالک کو اپنے دفتر میں مذاکرات کرنے کے لیے راضی کرنے میں کام یاب ہو گیا اور یہ مذاکرات مئی 1952 میں عالمی بینک کی نگرانی میں شروع ہوئے۔ یہ مذاکرات وقفے وقفے کے ساتھ نو طویل برسوں تک جاری رہے اور ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔ اس تنازعے کے حل کے لیے آخر عالمی بینک کو اپنا حتمی کردار ادا کرنا پڑا اور تنازعہ ختم کرنے کے لیے اس نے تین مغربی دریاؤں کے پانی پر پاکستان کو حق دار ٹھہرایا اور دیگر تین مشرقی دریاؤں پر بھارت کا حق تسلیم کیا۔

عالمی بینک نے پاکستان اور بھارت کے لیے اس معاہدے کی شرائط طے کرنے اور ایک ارب ڈالر کی رقم کی ضمانت دینے کے علاوہ پاکستان میں پانی کے تعمیراتی منصوبوں کے لیے بھی 200 ملین ڈالر کی رقم دینے کو کہا۔ اس کے بعد انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ) پر 19 ستمبر 1960 کو بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور اس وقت کے پاکستانی حکومت کے سربراہ صدر ایوب خان نے کراچی میں دست خط کیے۔

اس معاہدے کے تحت بھارت، پاکستان کو مادھوپور اور فیروزپور ہیڈ ورکس اور وہاں سے نکلنے والی نہروں کی دیکھ بھال اور آپریشن پر اٹھنے والے اخراجات کی ادائیگی کے بعد پانی فراہم کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ اس نے مذکورہ ہیڈ ورکس کی نعم البدل پاکستان میں تعمیر کرنے کے لیے 100 کروڑ کی رقم بھی دینے کا وعدہ کرلیا۔

اس معاہدے کا مقصد 365,000 مربع میل کے علاقے کو سندھ طاس میں واقع دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کرنا اور دونوں ممالک کو اپنی اپنی سرحدوں کے اندر پانی کے قدرتی وسیلے کو محفوظ اور اس کا انتظام کرنے کی سہولت دینا ہے ہے۔ یہ معاہدہ یکم اپریل 1960 سے موثر ہوا۔ اس معاہدے کے اہم نکات یہ تھے:

19 ستمبر 1960 کو کراچی میں ہوئے سندھ طاس معاہدے کی چیدہ چیدہ شقیں یہ ہیں:

مشرقی دریاؤں کے متعلق تصریحات:

الف۔ مشرقی دریاؤں کا تمام تر پانی بھارت کے مکمل استعمال کے لیے مہیا ہو گا۔

ب۔ صرف گھریلو استعمال اور ایسے استعمال کے ضمن میں کہ پانی کی مقدار کم نہ ہو، دریاؤں کا بہاؤ رکھنے کی ذمے داری پاکستان کی ہے اور وہ مرکزی ستلج اور مرکزی راوی پر ان مقامات سے پہلے، جہاں سے یہ پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہیں، پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دے گا۔

ج۔ پاکستان میں داخل ہونے والے تمام دریاؤں کے پانی پر اور ان ذیلی دریاؤں کے پانی پر، جو اپنی قدرتی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے مرکزی ستلج اور مرکزی راوی میں ضم ہوجاتے ہیں، پاکستان میں داخل ہونے کے بعد پاکستان کا حق ہوگا۔

مغربی دریاؤں کے متعلق:

(الف) مغربی دریاؤں کے تمام تر پانی پر پاکستان کا کُلی حق ہوگا۔

(ب) مغربی دریاؤں کے تمام پانی پاکستان میں بہہ کر آنے کی ذمے داری بھارت کی ہوگی اور وہ پانی کے بہاؤ کو روکنے کا مجاز نہیں ہے۔

٭سندھ طاس معاہدہ اور موجودہ ماحولیاتی اثرات!

اگرچہ سندھ طاس معاہدے پر ابتدا ہی سے سوالات اٹھتے رہے لیکن اس سب کے باوجود یہ معاہدہ تقریباً نصف صدی سے نافذالعمل ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ابتدا ہی سے الزامات اور تنازعات کی فضا کے باوجود سندھ طاس معاہدے کا ہونا، اس کا برقرار رہنا اور اس پر کسی حد تک عمل درآمد اس معاہدے کے کارآمد ہونے کی دلیل ہے۔

ماہرِآبی امور ڈاکٹر پرویز امیر کہتے ہیں،’’یہ سندھ طاس معاہدہ ہی ہے جس کی بدولت دونوں ممالک کو اپنی اپنی حدود میں اپنے آبی مسائل دوستانہ انداز میں حل کرنے میں مدد ملی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر سندھ طاس معاہدے کو پانی کے حوالے سے انتہائی کام یاب معاہدوں میں سے ایک تسلیم کیا گیا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جس کے تحت ملاقاتوں اور اجلاسوں کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ 1965 اور 1971کی جنگوں کے درمیان بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ گویا یہ معاہدہ تین جنگیں جھیل چکا ہے۔‘‘

مندرجہ کچھ مثبت نتائج کی بنیاد پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کیا یہ معاہدہ آج کے حقائق کے مدنظر موجودہ دور میں قابل عمل ہے؟ ڈاکٹر پرویزامیر مزید کہتے ہیں،’’خاص طور یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ سندھ طاس معاہدہ بدلتے موسموں کے تناظر میں دریاؤں میں پانی کی غیریقینی صورت حال میں کیا حل پیش کرتا ہے ؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ موسموں کی بے ترتیبی کے باعث دریاؤں میں پانی کی صورت حال بدل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبی آلودگی سے نمٹنے کی صلاحیت ناکافی ہوتی جارہی ہے۔ نصف صدی قبل کیے گئے اس معاہدے میں ماحولیاتی اثرات پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی تھی۔

موجودہ دور میں دریا کی روانی اور بہاؤ میں غیرمتوقع تبدیلی، پانی کی مختلف مقدار کے ذخیرے کی ضرورت اور صلاحیت، گلیشیائی جھیلوں کا پگھلاؤ اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے دونوں ممالک کے مابین مزید تعاون کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے زیادہ واضح اثرات کرۂ ارض پر موجود دریائی نظام ہی پر مرتب ہوں گے۔ کئی دریاؤں میں ابتدائی طور پر گلیشیائی جھیلوں کے پگھلنے کی وجہ سے بہاؤ میں اضافہ نظر آئے گا، بعدازاں دریا میں پانی کی کمی واقع ہوجائے گی۔‘‘

دریاؤں کے ماحولیاتی نظام پر بدلتے موسموں کے اثرات کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر زرعی علاقے ریگستان میں تبدیل ہوجائیں، جس کے نتیجے میں خوراک کے عدم تحفظ اور ناکافی ذرائع پر تنازعات پیدا ہوں۔ موسم کی غیریقینی اور بدلتی صورت حال کے نتیجے میں دریاؤں کے بہاؤ پر یقیناً اثر پڑتا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال دریائے ستلج کا سیلاب ہے۔

عام صورت حال میں یہ دریا خشک رہتا ہے جس کی وجہ سے لوگ دریا کے پاٹ میں رہنے لگتے ہیں، لیکن جب بارشیں زیادہ ہوجائیں تو بھارت اضافی پانی دریا میں چھوڑدیتا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی حدود میں سیلاب آجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں دریا کے کناروں پر موجود آبادی متاثر ہوتی ہے، املاک کا نقصان ہوتا ہے اور قریبی آباد یوں کے لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں۔ یہاں باہمی تعاون پر مبنی دریا میں پانی کی آمدورفت کی معلومات کے تبادلے کے ایک موثر طریقہ ء کار کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، ایک ایسا طریقہ ء کار جس سے معلومات کے بروقت تبادلے سے اس مسئلے سے بچا جاسکتا ہے۔

٭معاہدے میں موسمیاتی تغیرات کے اثرات!

اس عام تاثر کی نفی ضروری ہے کہ غیراستعمال شدہ پانی سمندر میں جاکر ضائع ہورہا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سمندر میں جانے والا پانی ساحلی آبادی اور ساحلی ماحولیاتی نظام کو نئی زندگی بخشتا ہے۔ مثلاً تیمر کا ماحولیاتی نظام، ڈیلٹا کے لاکھوں ماہی گیروں کی گزراوقات کا ذریعہ ہے۔ اس ابھرتے ہوئے تصور کو سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کے ذخیرے، انتظام کاری اور نکاس میں سمونے کی ضرورت ہے۔

دونوں ملکوں کی 1961 کی 485ملین آبادی میں اب تین گنا اضافہ ہوچکا ہے اور اب یہ بڑھ کر1,390 ملین ہوچکی ہے، جس کے باعث آب پاشی اور توانائی کی پیداوار میں اضافے کے لیے پانی کی طلب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انڈس بیسن میں پانی کی کمی بیشی ایک مستقل عمل ہے لہٰذا اب پانی کے تنازعات سے بچنے کے لیے انٹرا بیسن تعاون پر مبنی اشتراک اور انتظام ضروری ہے۔

پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں زیرزمین پانی کے زیادہ استعمال کی وجہ سے دونوں ممالک میں پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے۔ یہ صورت حال زمین پر پانی کے وسائل اور اکثر اوقات سطح زمین پر موجود بہاؤ پر شدید دباؤ کا باعث بنتی ہے۔ اس کے ردعمل میں آبی وسائل پر قبضے اور کنٹرول جیسے اقدامات سامنے آتے ہیں۔ بھارت میں ڈیموں کی تعمیر میں اضافہ اس کی ایک مثال ہے۔

دریاؤں پر بہت زیادہ تعمیرات قدرتی طور پر بہنے والے پانی کی سمت میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں۔ اس کا اثر بین السرحدی یا دونوں ممالک پر ہوتا ہے۔ ربیع کی نئی فصل کی اقسام کے تعارف کے ساتھ زرعی پیداوار کے پھیلاؤ کے نتیجے میں آب پاشی کے پانی کی طلب بڑھ گئی ہے۔ اس طلب کو پورا کرنے کے لیے جہاں موسم سرما میں دریائے سندھ کا بہاؤ 80فی صد ہوتا ہے، وہیں پاکستان کو سال بھر پانی کے انتظام کے لیے مزید پانی کے ذخیرے اور ریگولیٹری مکینزم کے لیے مزید آبی ذخائر کی ضرورت ہوگی۔

دونوں ملکوں کو بڑے پیمانے پر اپنے صنعتی سیکٹر چلانے، دیہی ترقی کو بڑھانے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی کی ضروریات کے لیے بجلی کی ضرورت ہے۔ پن بجلی، بجلی کی پیداوار کے لیے سستا ترین انتخاب ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی بجلی کی طلب کی وجہ سے دونوں ملک پن بجلی کی ترقی کے منصوبے کے لیے پُرعزم ہیں۔ یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہ دونوں ملک توانائی کے حصول کے لیے بجلی کی پیدا وار کے لیے موجود ذرائع سے فائدہ اٹھائیں، جیسا کہ بھارت اور بھوٹان میں ہورہا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ آب شرکت داری کے انتظام کے فریم ورک کے طور پر ہوا تھا، جس کے تحت مقامی آبادی کے لیے فوری طور پر پانی کے مطالبات پورے کرنے کے لیے مغربی اور مشرقی دریاؤں پر چند معمولی ایڈجسٹمنٹس کی ضرورت تھی۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ متنازعہ مسائل کی بڑی تعداد گذشتہ دہائی میں منظرعام پر آئی ہے۔ ماضی میں بھارت اور پاکستان نے متنازعہ مسائل دو طرفہ میکنزم استعمال کرتے ہوئے حل کیے۔

مزید یہ کہ حال ہی میں دونوں ملکوں نے سندھ طاس معاہدے کے دو طرفہ تنازعے کے حل کا ایک اور میکنزم تلاش کیا ہے اور تیسرے فریق کے ذریعے تنازعے کے حل کے میکنزم کو ترجیح دی ہے۔ تیسرے فریق کے ذریعے تنازعے کے حل کا نیا رجحان دو الگ الگ مقدمات میں دیکھا گیا۔ بگلیہار پن بجلی منصوبہ اور کشن گنگا پن بجلی منصوبہ، جس کے لیے پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت آواز اٹھائی۔

بگلیہار منصوبے کے معاملے میں آرٹیکل 9کے تحت ایک غیرجانب دار ماہر سے رابطہ کیا گیا، جسے دونوں فریقوں نے قبول کرلیا۔ کشن گنگا منصوبے کے معاملے میں آرٹیکل 9 کے تحت ثالثی کی مستقل عدالت سے رجوع کیا گیا۔ 18 فروری 2013کو عدالت نے ایک جزوی حکم نامہ جاری کیا کہ بھارت کشن گنگا پن بجلی پلانٹ سے بجلی کی پیداوار کے لیے کشن گنگا یعنی دریائے نیلم کے پانی کا رخ موڑ سکتا ہے۔ اس حکم نامے میں عدالت کی جانب سے پانی کا کم از کم بہاؤ برقرار رکھنے کا حکم بھی شامل ہے۔

ان تبدیلیوں کی روشنی میں اور سندھ طاس معاہدے کے تفصیلی مطالعے کی بنیاد پر پانی کے بین الاقوامی قانون کے نقطہ نظر سے اگر جائزہ لیں تو سندھ طاس معاہدہ آج بھی متعلقہ اور پانی کی انتظام کاری کے حوالے سے قابل عمل ہے ، مزید بہتری کے لیے مندرجہ ذیل سفارشات مرتب کی گئی ہیں:

ماہرین کے مطابق نصف صدی گزرنے کے باوجود سندھ طاس معاہدہ اب بھی قابل عمل ہے، لیکن بدلتے ہوئے زمینی حقائق کے پیش نظر اس میں کچھ خاص تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ایک کام یاب دستاویز ہے جس کے تحت پانی کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت جاری ہے اور 50 سال کے دوران صرف 2 منصوبوں کے حل کے لیے تیسرے فریق سے رابطہ کیا گیا۔

٭کیا معاہدے میں تبدیلی کی جاسکتی ہے؟

سندھ طاس معاہدہ اپنی تمام تر کام یابی کے باوجود آج کے حالات کے حوالے سے ترمیم کی گنجائش رکھتا ہے۔ یہ معاہدہ ایسی شراکت داری کا منصوبہ نہیں تھا جو یو این واٹر کمیشن کے مطابق پانی کی منصفانہ اور مناسب استعمال کی سہولت دے سکتا ہو۔ موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں غیریقینی اور غیرمتوقع صورت حال پر اس معاہدے میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔

سندھ طاس معاہدہ ٹرانس باؤنڈری انوائرنمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ کے حوالے سے بھی خاموش ہے ، جیسا کہ 1972 کے اسٹاک ہوم ڈیکلریشن کے اصول 21 میں متعارف کیا گیا ہے۔

ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان یو این واٹر کمیشن کی روشنی میں سندھ طاس معاہدے کا دوبارہ جائزہ لیں۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ آرٹیکل (7) کے تحت موسمیاتی تبدیلی، ہائیڈرولوجی، گلیشیولوجی اور جیوانفارمیٹک کے شعبوں میں مشترکہ تحقیقات کریں۔

معلومات کے حصول کے لیے سائنسی طریقۂ کار مثلاً GIS کی بنیاد پر ڈیٹا جمع کرنے اور اشتراک کے نظام کو مربوط بنانا چاہیے، انڈس کمیشن کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے تاکہ مذکورہ تمام سرگرمیاں اس کے احاطہ کار میں سما سکیں۔

بگلیہار کے معاملے میں ماہرین کے مطابق بھارت کو پن بجلی منصوبوں کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی اجازت دی گئی جس سے دریا کے بہاؤ میں مختلف موسمی حالتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں فصلوں کے لیے پانی کی دست یابی پر بڑا اثر ہوا۔ اس قسم کے تنازعات سے بچنے کے لیے باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے بھارت اور پاکستان کا آب پاشی اور توانائی کی پیداوار کے لیے پانی کی دست یابی کے لیے ٹائم فریم پر متفق ہونا ضروری ہے۔

دونوں ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے انتہائی نقصان کا خدشہ ہے، چناںچہ انہیں اضافی پانی اور پانی کی فراہمی میں کمی کے اثرات کی تلافی کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی چاہیے، جو تحقیق کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کی ہر پیش گوئی کے ساتھ دونوں ملکوں کو اس فارمولے پر متفق کرے جو پانی ذخیرہ کرنے کے بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھے اور دوسروں کو زاید پانی استعمال کرنے کی اجازت دے۔

حالیہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی میٹنگ میں اٹھائے جانے والے نکات کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ اب دونوں ممالک ماحولیاتی تحفظ برقرار رکھتے ہوئے مغربی اور مشرقی دریاؤں کے پانی کا استعمال جانچیں۔ اب اس بات کی بھی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ بھارت کے لیے مشرقی دریاؤں اور پاکستان کے لیے مغربی دریاؤں کو مقرر کرنے والے فارمولے میں تھوڑی ترمیم کی جائے، جس کے مطابق پاکستان میں راوی ایک بہتا ہوا نکاس آب کا ذریعہ اور ستلج ایک مٹی کا دریا ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی اور پھیلتی ہوئی صنعتوں کی وجہ سے دونوں ممالک کو آب پاشی اور توانائی کی وجہ سے توانائی کے حصول کے لیے پانی درکار ہے۔ اسی لیے دونوں ملک کے پاس بہت زیادہ منصوبے ہیں۔ زیادہ توانائی کے حصول کے لیے مشترکہ آبی وسائل کی پائے دار بنیادوں پر ترقی وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دونوں ممالک کے مابین اعتماد کی فضا بھی ضروری ہے، جس میں عوام اور میڈیا کا اعتماد بھی حاصل کیا جائے۔ اس قسم کے مشترکہ اقدامات سے دونوں ممالک پائے دار ترقی کی راہ پر گام زن ہوسکتے ہیں۔ بہ شرطے کہ اس حوالے سے سیاسی آمادگی اور لگن بھی موجود ہو۔

اوپر دی گئی سفارشات کو ممکن بنانے کے لیے دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعتماد کی بحالی کے لیے بین الاقوامی حکمت عملی کے ٹریک 2ڈپلومیسی کے تحت روابط مسلسل بحال رکھیں اور زیرزمین پانی کے استعمال کو کسی قاعدے قانون یا پھر سندھ طاس معاہدہ آب کے دائرہ کار میں لے آئیں، تاکہ مزید تنازعات سے بچا جاسکے۔ اس کے علاوہ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک یواین واٹر کمیشن تک رسائی کے لیے بات چیت شروع کریں، تاکہ دونوں ملکوں کو اپنے ٹرانس باؤنڈری آبی مسائل کے حل کے لیے ایک بارڈر فریم ورک دست یاب ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔