موسمیاتی تغیرات سے بچاؤ

شبیر احمد ارمان  بدھ 12 اکتوبر 2016
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ دنوں کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) اور اقوام متحدہ کے ادارے یواین ڈی پی کے باہمی اشتراک سے موسمیاتی تغیرات سے بچاؤ کے موضوع پر سی پی این ای سیکریٹریٹ میں مدیران اخبارات، صحافیوں اور کا لم نگاروںکے درمیان فکری نشست کا انعقاد کیا گیا، تاکہ عوامی شعور و آگہی میں بہتری لائی جا سکے۔

اس موقع پر سی پی این ای پروجیکٹس اینڈ پروگرامز کمیٹی کے چیئر مین ڈاکٹر جبار خٹک نے موسمیاتی تغیرات اور ماحولیاتی تغیرات کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا انسان صدیوں سے اپنے ماحول کو زہر آلود کر رہا ہے لیکن اس بات کا ادراک ہمیں فقط چند دہائیوں قبل ہی ہوا، اب یہ ہم پر لازم ہے کہ ہم بطور صحافی اس مسئلے سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت موسمیاتی تغیرات کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے مختص سرمائے کو صحیح طریقے سے خرچ بھی کرے۔

سی پی این ای سندھ کے نائب صدر عامر محمود نے کہا کہ مدیران اور صحافی سی پی این ای کے ساتھ تحقیقی مواد کا تبادلہ کریں تاکہ عوامی شعور و آگہی میں بہتری لائی جا سکے۔ اس موقع پر سی پی این ای میں کلائمنٹ چینج ڈیسک کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے اس موضوع پر لکھنے والے صحافیوں کے لیے بیسٹ اسٹوری ایوارڈ کا اعلان بھی کیا۔ قبل ازیں کوآرڈینیٹر عبدالرحیم موسوی نے شرکاء کو بتایا کہ مدیران اور صحافیوں کی آراء پر مشتمل موسمیاتی تغیرات سے بچاو کے لیے ایک عوامی آگاہی گائیڈ بک مرتب کی جائے گی جس سے اس شعبہ سے متعلق کا م کرنے والے صحافی استفادہ کر سکیں گے۔

موسمیاتی تغیرات کے ماہر کنسلٹنٹ انیس دانش اور رفیع الحق نے بتایا کہ پاکستان میں اب تک 2 لاکھ افراد قدرتی آفات کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں جس کا بڑا سبب موسمیاتی تبدیلیاں ہیں، جب تک ہم اپنے بجٹ میں موسمیاتی تغیرات کے مسئلہ کو ترجیح نہیں دیں گے اور خصوصی فنڈز مختص نہیں کریں گے تب تک ممکنہ خطرات سے نمٹنا ممکن نہیں۔ واضح رہے کہ یہ نشست اپنی نوعیت کی تیسری نشست تھی اور پچھلی دو نشستیں لاہور اور اسلام آباد میں منعقد کی جا چکی ہیں۔

تقریب میں مختلف اخبارات کے مدیروں طاہر نجمی، حامد حسین عابدی، غلام نبی چانڈیو، مبشر میر، عبدالخالق علی، نصیر ہاشمی، عبدالرحمان منگریو، جاوید مہر شمسی، منہاج کاظمی، بشیر احمد میمن، محمد طاہر، شیر محمد کھاوڑ، سید کامران رضوی، محمود عالم خالد، زاہد عباسی، ثانیہ بلوچ، سدرہ خٹک، کالم نگاروں میں ڈاکٹر توصیف احمد اور مجھ سمیت دیگر کالم نگاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

ان دنوں ملک میں موسم کی بے یقینی پائی جاتی ہے، مارچ کا مہینہ عموماً بہار کا موسم رہا ہے لیکن اس پورے مہینے میں گرمی رہتی ہے۔ اپریل میں بھی گرمی کا احساس شدت سے رہا ہے، رواںماہ اکتوبر میں بھی گرمی کی شدت 34 تا36 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں دوپہر کے بعد سمندری ہوائیں رک جاتی ہیں اور رات تک شمال مغرب سے ہوائیں چلنی شروع ہو جاتی ہیں جس سے گرمی کی شدت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بہار کا موسم ہم سے روٹھ گیا ہے۔

موسم کی اس تبدیلی سے ناگہانی آفات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ کسی زمانے میں بارشیں وقت مقررہ مہینے میں ہوتی رہی ہیں لیکن یہ سلسلہ بھی سال بہ سال ناپید ہوتا جا رہا ہے، گویا رحمت بہاراں بھی ہم سے خفا ہونے لگی ہے۔ نتیجتاً ہماری جھیلیں اور دریا تقریبا خشک ہو چکے ہیں۔ پانی کا یہ مسئلہ انتہائی خطرناک نظر آ رہا ہے، خدا خیر کرے۔ ہر سال 22 اپریل کو دنیا بھر میں یوم الارض منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ماحول اور آلودگی کے خلاف اقدامات کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے طریقے طے کیے جاتے ہیں۔

اس مناسبت سے آج سے 21 سال پہلے یعنی 14 مارچ1995ء کو پاکستان نیشنل سینٹر ( وزارت اطلاعات، حکومت پاکستان ) اور پاکستان کوئز سوسائٹی کے اشتراک سے مجلس مذاکرہ موسمی تغیرات اور ماحولیاتی مسائل کے موضوع پر راقم الحروف نے پاک یوتھ ویلفیئر آرگنائزیشن کے بانی صدر کی حیثیت سے ایک مضمون پڑھا تھا۔ قارئین کی معلومات کے لیے اس مضمون کی خاص خاص باتیں پیش نظر ہیں ۔

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہوا، پانی، زمین مل کر قدرتی ماحول کہلاتے ہیں۔ حیاتیاتی زندگی کی بقاء ان ہی تینوں عناصر پر مشتمل ہے۔ ہوا، پانی، زمین کس حد تک آلودگی کا شکار ہیں، اس لحاظ سے اگر ہم اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر کریں تو حیاتیاتی زندگی کے خطرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ماحولیاتی مسائل بے شمار ہیں۔ مختصر یہ کہ ماحولیاتی آلودگی براہ راست قدرتی موسم میں اثر انداز ہو رہا ہے، ڈھلتے سورج کو دیکھیں تو فضا میں موجود آلودگی آپ کو صاف صاف نظر آئیگی لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت ہے کہ دن کے اختتام پر ہوا میں موجود سورج کے اصلی رنگوں کو ابھارتی ہے جس طرح سورج کے غروب ہونے کے منظر میں فضاکی آلودگی کو مدنظر رکھ کر روشنی کا مطالعہ کیا گیا۔

اس طرح طلوع ہوتے یا ذرا پہلے آسمان کی جانب نارنجی، پیلے، ارغونی، گہرے نیلے رنگ کا امتزاج اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مشرقی فضا نسبتا غیر آلود اور پاک و شفاف ہے۔ مغربی افق میں فضا میں موجود آلودگی صرف صنعتوں کے گرد و غبار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ کچھ قدرتی آفات اور خلائی ایٹمی مواد بھی اس ضمن میں عمل دخل رکھتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں ماحول کی پاکیزگی اور اس کی حفاظت کرنے کے واضح احکامات موجود ہیں ۔

تجاویز دی جاتی ہیں کہ ماحولیات کے موضوع کو دور حاضر کے عین مطابق پرائمری کی سطح پر تفصیل کے ساتھ نصاب کا لازمی مضمون قرار دیا جائے، اس وقت جو قوانین ماحولیات کے حوالے سے موجود ہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں ، اس سلسلے سخت ترین قوانین وضع کیے جائیں اور پر عمل در آمد بھی کرایا جائے، پرنٹ و الیکڑانک میڈیا بھی ماحولیاتی تغیرات کے سلسلے میں عوام الناس میں شعور و آگہی پیدا کریں۔

اس ضمن میں بین الاقوامی معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے، ماحولیاتی تغیرات کے ضمن میں معلومات کے حصول میں حائل مشکلات کو دور کیا جائے، ماحولیاتی تغیرات کے اثرات اور ان پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات کا اجراء کیا جائے، ماحول کی بہتری کے لیے عوام الناس کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، ہم سب شہریوں کی معاشرتی ذمے داری ہے کہ اپنے شہر کو صاف ستھرا رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔