اصولی سیاست اور الیکشن

نصرت جاوید  بدھ 12 دسمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہمارے آئین میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ قومی اورصوبائی اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت ایک ساتھ شروع کرکے ایک ساتھ ختم کریں ۔کوئی بھی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ جب چاہے اپنے ایوان کی تحلیل کا اعلان کرکے نئے انتخابات کا اعلان کرسکتا ہے ۔2008ء کے انتخابات کے بعد آصف علی زرداری نے اپنی جماعت کے کئی بقراطوں اور فن کاروں کو سختی سے ڈانٹ کر شہباز شریف کو پنجاب میں حکومت بنانے کا کھلا موقع فراہم کیا ۔انھوں نے پیپلز پارٹی کی حمایت کے ساتھ راجہ ریاض کو سینئر وزیر بناکر وہ مرحلہ طے کرلیا۔بعدازاں ان کی جماعت عدلیہ کی بحالی کے نام پر مرکزی حکومت سے ’’اصولی بنیادوں‘‘ پر الگ ہوگئی لیکن پیپلز پارٹی کی طرف سے پنجاب کابینہ میں موجود وزراء اپنے عہدوں سے بدستور چپکے رہے ۔

پھر آہستہ آہستہ’’اصولی سیاست‘‘ کے نام پر شہباز شریف صاحب نے چوہدریوں کے مسلم لیگیوں کو یونی فکیشن بلاک میں جمع کیا اور ان کی حمایت سے بنی اکثریت کے طفیل انھوں نے پیپلز پارٹی سے جان چھڑاکر ’’اچھی اور صاف ستھری‘‘ حکومت چلانا شروع کردی۔شہباز شریف صاحب کی ’’اصولی سیاست‘‘ کے میرے جیسے مداح چیخ چیخ کر فریادیں کرتے رہے کہ انھیں ’’اچھی اور صاف ستھری‘‘ کارکردگی کی بنیاد پر اپنی صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرواکر نئے انتخابات کے ذریعے صرف اور صرف پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت بنانے کی کوشش کرنا چاہیے ۔حبیب جالب کے انقلابی شعر پڑھنے والے شہباز شریف لیکن سنتے کم اور بولتے زیادہ ہیں ۔اسی لیے تو ق لیگ کے بہکائے لوگوں کی مدد سے ’’اچھی اور صاف ستھری‘‘ حکومت چلائے جارہے ہیں ۔

شہباز شریف صاحب کے برعکس نواب اسلم رئیسانی نے کبھی’’اصولی سیاست‘‘ کرنے کا دعویٰ نہیں کیا ۔ان کے صوبے میں پشتون اور بلوچ قوم پرستوں نے آزاد عدلیہ سے محبت کی خاطر2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔اس بائیکاٹ کی بدولت چوہدری شجاعت حسین کے اردگرد جمع’’محب وطن‘‘ مسلم لیگ کی بلوچستان اسمبلی میں اکثریت آگئی ۔مگر وزیر اعلیٰ پھر بھی نواب اسلم رئیسانی بنے ۔ان کے بھائی لشکری رئیسانی پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر ہوا کرتے تھے ۔انھوں نے آصف علی زرداری کو یقین دلایا کہ وہ اور ان کے بھائی مل کر بلوچستان کی تقدیر بدل دیں گے اور یہ تقدیر اس شاندار انداز سے بدلی کہ بڑے عرصے تک وہاں کی اسمبلی میں سردار یار محمد رند کے سوا اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھنے کو اور کوئی رکن صوبائی اسمبلی تیار نہ تھا۔رند حکومت میں تو شامل نہ ہوئے مگر اپنی جان کے خوف سے کبھی وہاں کی اسمبلی تو کیا کوئٹہ بھی جانے کی جرأت نہ کر پائے ۔اب پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت گزشتہ کئی ہفتوں سے بار بار یاد دلارہی ہے کہ نواب اسلم رئیسانی اور ان کی صوبائی حکومت کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت باقی نہیں رہی۔مگر نواب صاحب اب بھی اپنے عہدے پر قائم ودائم ہیں ۔

نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد سے پاکستان کے تقریباً تمام سیاستدانوں اور میڈیا والے گزشتہ پانچ برسوں سے مسلسل بلوچستان کے حالات پر ماتم کناں رہتے ہیں ۔ان سب کی اکثریت نے یہ بھی طے کرلیا ہے کہ پاکستان کے دشمن ممالک نے مل کر معدنیات سے مالامال،رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے مگر آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے اس صوبے کو ہم سے جدا کرنے کے منصوبے بنا کر ان پر عمل درآمد شروع کردیا ہے ۔ہوسکتا ہے بلوچستان کی علیحدگی کے خدشے ظاہر کرنے والوں کے پاس جو معلومات ہوں جو میرے جیسے عامیوں کی دسترس سے بالاتر ہوں ۔مگر اپنے دشمنوں کی بنائی گھنائونی سازشوں سے قطعی لاعلم ہوتے ہوئے بھی میں یہ سوال کرنے پر مجبور ہوں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان کی صوبائی حکومت کو آئینی اور قانونی طورپر ناقص ٹھہرانے کے باوجود وہ کونسی وجہ ہے جو مرکزی حکومت اور اس کے لگائے گورنر بلوچستان کو نواب اسلم رئیسانی کی حکومت توڑ کر نئے صوبائی انتخابات کروانے سے روک رہی ہے ۔ایک حوالے سے اگر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ ایک تاریخی موقعہ فراہم کررہی ہے جس سے فائدہ اٹھاکر صاف شفاف انتخابی فہرستوں کے ذریعے ایک غیر جانبدار عبوری حکومت کی نگرانی میں ہم پاکستانی ریاست کی بھرپور قوت کے ساتھ بلوچستان کی ’’حقیقی قیادت‘‘ کو جمہوری عمل سے گزرتے ہوئے ایک پانچ سالہ مدت والی حکومت بنانے میں مدد گار ہوسکتے ہیں ۔ایسی حکومت کا قیام ہمارے چالاک اور طاقتور ترین دشمن ملک کے منصوبوں کو ناکام بنانے کا پہلا قدم ہوسکتا ہے ۔مگر اسلام آباد اور کوئٹہ میں کوئی یہ قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہو رہا۔

بڑے پھنے خان قسم کے سیاستدانوں کو جب اس معاملے پر سوالات کرتے ہوئے پریشان کردیں تو بڑی عاجزی سے کہہ ڈالتے ہیں کہ بلوچستان کے فیصلے اسلام آباد یا کوئٹہ میں نہیں راولپنڈی میں ہوتے ہیں ۔ہوسکتا ہے وہ درست کہہ رہے ہوں ۔مگر ایسے ہی سیاستدان ٹی وی ٹاک شوز میں آکر جمہوریت کی بالادستی اور 2008ء کے انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے ایوانوں کی’’قطعی بالادستی‘‘ کے دعوے کس منہ سے کیا کرتے ہیں ؟
میرا موضوع آج بلوچستان نہیں تھا اور نہ ہی اس کالم کا مقصد شہباز شریف کی’’اصولی سیاست‘‘ اور ’’اچھی حکومت‘‘ پر سوالات اٹھانا ہے ۔مجھے اطلاع تو محض یہ دینا ہے کہ آصف علی زرداری کے چند’’اتحادیوں ‘‘ نے انھیں کہنا شروع کردیا ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے کا انتظار نہ کریں ۔اللہ کا نام لے کر 27دسمبر کے دن محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر نئے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردیا جائے ۔’’اتحادیوں‘‘ کا کہنا ہے کہ اگر مارچ کا تیسرا ہفتہ شروع ہوتے ہی قومی اسمبلی توڑی گئی تو آیندہ انتخابات مئی کے وسط میں ہو پائیں گے ۔گرمیوں کے آغاز کے ساتھ ان دنوں میں لوڈشیڈنگ اپنی پوری شدت کے ساتھ دوبارہ شروع ہوجائے گی ۔ووٹر مجبور ہوجائے گا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ٹھپے لگا کر اپنے غصے کا اظہار کرے اور شاید پیپلز پارٹی اور اس کے حامیوں کو قومی اسمبلی میں اتنی نشستیں بھی نہ مل پائیں جو 1997ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ہوتے ہوئے مل گئی تھیں ۔آصف علی زرداری اپنے اتحادیوں کی بات نہیں مان رہے ۔اس ضمن میں سب سے زیادہ فائدہ انھیں شہباز شریف کی اس ضد سے ہو رہا ہے جس کی بناء پر وہ کسی بھی صورت اپنی صوبائی اسمبلی کو پانچ سال کی مدت پوری کیے بغیر توڑنا نہیں چاہتے۔حالیہ ضمنی انتخابات نے شہباز شریف کی اس سوچ کو اور طاقتور بنا دیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ مارچ تک وہ لاہور،ملتان ،راولپنڈی اور فیصل آباد میں کچھ بڑے منصوبے مکمل کردیں گے جو آیندہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے نامزد کردہ امیدواروں کو تقریباً ’’کلین سوئپ‘‘ کرنے کے قابل بنادیں گے ۔اسی لیے تو میں حیران نہیں ہو رہا کہ سرائیکی وسیب کے اپنے حالیہ دورے میں عمران خان نے اپنی توپوں کا رخ پوری طرح سے شہباز شریف کی طرف کرلیا ہے ۔دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو مسلم لیگ نواز کا اصلی اور واحد متبادل بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔اس قصے میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ’’چھابہ‘‘ تو فی الوقت خالی دکھ رہا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔