ملائیشیا میں چند روز

مقتدا منصور  بدھ 12 دسمبر 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

میں یہ اظہاریہ ملائیشیا کے مرکزی شہر کوالالمپور سے تحریر کررہاہوں،جہاں میں اپنے کزن کے گھرپرقیام پذیرہوں،جوایک معروف کاروباری شخصیت ہیں۔ ملائیشیا کا یہ میرا تیسرادورہ ہے،اس دوران مجھے اس ملک کی سیاسی، سماجی،معاشی اورثقافتی صورتحال کوسمجھنے میں خاصی مدد ملی ہے۔ گذشتہ بارہ روز سے مختلف تقریبات میں شرکت کے علاوہ مختلف مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں سے ملاقاتیں بھی ہورہی ہیں۔ پیر کی شب ملائیشیاکی ریاست کڈا کے بادشاہ سلطان عبدالحلیم محب الدین کی84ویں سالگرہ میں شرکت کا موقع ملا،جو اس وقت پانچ برس کے لیے ملائیشیا کے آئینی سربراہ ہیں۔اس تقریب میں موجودہ حکومت کے چند وزراء کے علاوہ سابق وزیر اعظم مہاتیرمحمد سے بھی ملاقات ہوئی۔ ایک دو روز میں مہاتیر محمد سے تفصیلی ملاقات کی توقع ہے۔لیکن آج کے اظہارئیے میں ہماری کوشش ہوگی کہ ان ایشو پر گفتگو کی جائے، جن کا ہم گذشتہ 65برس سے شکار ہیں اورجوآزادی کے بعد ملائیشیا میں بھی پیدا ہوئے ،مگروہاں کے حکمرانوں نے اپنے سیاسی عزم اور فہم و فراست سے آزادی کے بعد ابتدائی دودہائیوں کے دوران حل کرلیے۔

ملائیشیا ہندوستان کی طرح برطانوی کالونی رہاہے۔ یہ ہمارے دس برس بعد یعنی31اگست1957کو آزاد ہوا۔ ملائیشیا 13پرنسلی اسٹیٹس اور تین وفاق کے زیر انتظام علاقوں پر مشتمل وفاقی جمہوریہ ہے۔ملائیشیا کا آئین وفاقی جمہوری ہے۔ جس میں شامل ریاستوں کے بادشاہ یا سلطان باری باری پانچ برس کے لیے آئینی سربراہ مقرر ہوتے ہیں۔ریاست کا انتظامی سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے، جو پارلیمانی طریقے سے منتخب ہوتا ہے۔یہ جزیرہ نماء ہے جو جنوب مشرقی ایشیاء میں تھائی لینڈکے جنوب میں واقع ہے۔اس کا کل رقبہ3لاکھ30لاکھ مربع کلو میٹر ہے اور 2010ء کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی 2 کروڑ 70 لاکھ ہے۔ڈیڑھ سوبرس کے برٹش دور میں چین اور ہندوستان سے بہت بڑی تعداد میں تارکین وطن یہاں آکر آبادہوئے،جن میں چینیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ ملائیشیا کی اصل ملائی قوم اسلام کے ابتدائی دور میں یمنی تاجروں کی آمد کے نتیجے میں مسلمان ہوگئی تھی اور اکثریت شافعی عقیدے سے وابستہ ہے۔

برٹش دور میں چینی لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے سبب سرکاری عہدوں اور کاروبار پر حاوی تھے۔جب کہ ملائی عوام کی اکثریت میں خواندگی کی شرح انتہائی کم ہونے کی وجہ سے وہ غربت اور عسرت کی زندگی  گذارنے پر مجبور تھی۔آزادی کے بعد فوراً سیاستدانوں اور مدبرین نے دو بنیادی کام کیے۔اول فیڈریشن کا قیام اور آئین سازی۔ دوئم چینی اکثریتی شہر سنگاپورکی آزادی،جو برٹش دور میں ملایا کا حصہ تھا۔یہ دونوں کام ملک کے پہلے وزیر اعظم تنکو عبدالرحمان کے دور میں ہوئے۔

سنگاپور کے الگ ہوجانے کے بعد گو ملائیشیا میں چینی اقلیت میں چلے گئے،لیکن سرکاری عہدوں اور کاروبار پر ان کا تسلط برقرار رہا۔اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلاکہ 1969ء میں ملائی اور چینی اقوام کے درمیان خونریز فسادات ہوئے۔ایک ہفتہ تک پورا ملک مفلوج رہا۔اس وقت موجودہ وزیراعظم کے والد تن رزاق وزیر اعظم تھے۔ ان کی قیادت میں ایک وسیع البنیادکمیشن قائم کیا گیا، جس نے تین اقدامات تجویز کیے۔اول، دیانتدارانہ مردم شماری کے ذریعہ ملک میں آباد مختلف اقوام کی تعداد کا تخمینہ لگایا جائے اور اسی تناسب سے ہر شعبے میں ان کے حصے کا تعین کیا جائے۔یوںاب ہر سطح پر ملائیوںکا60فیصد، چینیوں کا30فیصد اور ہندوستانیوں کا 10 فیصد حصہ ہے۔دوئم، ملائی قوم میں خواندگی کی شرح میں اضافے کے لیے انھیں مفت تعلیم کی سہولت فراہم کی جائے اور غریب اور نادار بچوںکو کتابیں اور یونیفارم بھی مہیا کی جائیں۔سوئم،ملائی قوم کے لوگوں کی معاشی اور سماجی بااختیاریت اور انھیں ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے مختلف نوعیت کی سہولیات فراہم کی جائیں،جن میںفوری بینک قرضے وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ چینیوں کو پابندکیاجائے کہ وہ اپنے کاروبار میںملائی لوگوں کو 20فیصد کا لازمی حصہ دار بنائیں ۔

ان اقدامات کے نتیجے میںملائیوں میں تعلیم کی شرح میں اضافہ شروع ہوا اور وہ کاروبار اور صنعتکاری کے میدان میں آگے آنے لگے۔جس زمانے میں مہاتیر محمد تن رزاق کی کابینہ میں منصوبہ بندی کے وزیر تھے،انھوں نے جاپان سے رابطہ کیا اور وہ چھوٹی صنعتیں، جنھیں جاپان ترک کرنے جا رہا تھا، اپنے یہاں منتقل کرنے کا معاہدہ کرلیا۔ یوں الیکٹرونک کے مختلف آلات کے کارخانے اور فیکٹریاں ملائیشیا میں لگنا شروع ہوگئیں۔1981ء میں جب مہاتیر محمد وزیراعظم بنے تو اس وقت تک ملائیشیا میں تعلیم کی شرح خاصی بلند ہوچکی تھی اور صنعتکاری کا عمل تیزی سے جاری تھا۔ مہاتیر کی منصوبہ بندی سے ملائیشیاجلد ہی علاقے کا خوشحال ملک بن گیا۔ حالانکہ1990ء کے عشرے میں ایک بہت بڑا مالی بحران بھی آیا،مگر یہ اسے سہہ گیا۔ ملائیشیا نے اپنے عوام کی ترقی اور فلاح کی خاطرانڈونیشیا سے جاری بعض سرحدی تنازعات کو نظر انداز کرتے ہوئے علاقائی تنظیم آسیان میں شمولیت اختیار کی اورجنگ وجدل کے بجائے افہام وتفہیم کا راستہ اختیار کیا۔یہی سبب ہے کہ آج ملائیشیا جنوب مشرقی ایشیاء کا ایک خوشحال ملک ہے اور مزیدآگے بڑھنے کی جستجو میں مصروف ہے۔

اب دو اہم مسائل کی طرف آتے ہیں۔جن میں ایک تعلیم اور دوسرا خواتین کی بااختیاریت ہے۔جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، ملائیشیا کی حکومت نے سرکاری انتظام کے تحت پورے ملک میں معیاری تعلیم کا انتظام کیا ہے۔جس میں Aلیول تک مفت تعلیم کے علاوہ مستحق بچوں کوکتابیں اور یونیفارم بھی مہیا کی جاتی ہے۔ بیرون ملک تعلیم کے لیے وظائف بھی دیے جاتے ہیں۔ان اسکولوں میں صرف ملائی لوگوں کے علاوہ ان تمام شہریوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے جنھیں مستقل رہائش کا سرٹیفکیٹ (PRC)مل چکا ہے ۔باقی لوگوں کے بچے نجی اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ میں نے  کئی ایسے کروڑ پتی اور ارب پتی خاندان دیکھے،جن کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اسکولوں کی عمارتیں شاندار اور اساتذہ کا انتخاب ایجوکیشن کمیشن کرتا ہے، جس میں سیاسی مداخلت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ہمارے یہاں سرکاری تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانے پر مجبور ہیں۔ ہم بھی اگر اپنے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت کو بہتر بنانے پر توجہ دیں اور ان میں میرٹ پر اساتذہ کا تقرر کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ چند برسوں کے اندر پاکستان میں خواندگی کی شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ نہ ہوسکے۔لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے سنجیدہ اور مخلصانہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔ ساتھ ہی یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ملک کا دفاع آج کے جدید دور میں سپاہی کے مقابلے میں ایک اچھا استاد بہتر انداز میں کرسکتا ہے، بشرطیکہ اس کی پیشہ ورانہ تربیت جدید خطوط پرکی گئی ہو۔

دوسرا مسئلہ خواتین کی معاشی اور سماجی بااختیاریت اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایات ہیں۔ ہمارے مطالعہ کے مطابق ملائیشیا میں 90فیصد خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیںاور خاندان کی معاشی ترقی میں مساوی طور پر اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ملائیشیا میں گھریلوکام کاج کے لیے مردوں اور خواتین کی بڑی تعداد انڈونیشیاء اور نیپال سے آتی ہے۔ مرد زیادہ تر سیکیورٹی سروسز اور ڈرائیونگ کرتے ہیں جب کہ خواتین گھر کا کام کاج کرتی ہیں۔یہ لوگ دو سال کے معاہدے پر ملائیشیا آتے ہیں، جس میں مزید دو سال کی توسیع ممکن ہوتی ہے۔ آجر معاہدے کے مطابق تنخواہ ،خوراک اور رہائش کے علاوہ واپسی کا ٹکٹ فراہم کرنے کا پابند ہوتا ہے۔   پاکستانی نژاد ڈاکٹر سعدیہ جلالی، جو سماجی کام بھی کرتی ہیں ان کے مطابق ملکی اور غیر ملکی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات بہت کم ہیں ۔اگر کسی آجر پر خاتون ملازمہ کو ہراساں کرنے یا کم اجرت دینے کی شکایت مل جائے تو اس کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ڈاکٹر سعدیہ کے مطابق انڈونیشیا سے کام کرنے آنے والی بیشتر لڑکیاں خوبصورت اور اسمارٹ بھی ہوتی ہیں، مگرگذشتہ دس برسوں کے دوران سوائے اکادکاواقعے کے کوئی بڑا واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملائیشیا میں قانون پر سختی سے عمل کرنے کی روایت کمزور نہیں ہے۔ خود ہم نے رات کو بارہ بجے کے بعد خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور لڑکیوں کو بلاخوف وخطرتاخیر سے گھر آتے دیکھا ہے۔

بحیثیت ایک قلمکارہمارا یہ موقف ہے کہ ہمیں جہاں کہیں جو چیز اچھی نظر آئے اسے اپنے قارئین کے سامنے پیش کریں تاکہ وہ تقابلی جائزہ لیتے ہوئے اپنے اطرف کو تبدیل کرنے پر توجہ دیں۔ دنیا میں کوئی بھی معاشرہ مثالی نہیں ہے،لیکن اسی طرح ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔یہی سبب ہے کہ جب ہم کسی دوسرے معاشرے کو دیکھتے ہیں ،وہاں کے نظام کی اچھائیوں اور برائیوں پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اپنے معاشرے سے ان کا تقابل کرتے ہیں ،تو سیکھنے اور سمجھنے کو بہت کچھ مل جاتا ہے ۔کم از کم اسی طرح دوسروں کو دیکھتے ہوئے ہم خود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرلیں تو شاید ہم سب کی زندگیاں آسان ہوجائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔