میرا جی اور منٹو

رئیس فاطمہ  بدھ 12 دسمبر 2012

منٹو اور میرا جی کے حوالے سے منائی جانے والی عالمی اردو کانفرنس میں بات تو دونوں پر ہوئی، لیکن داد و تحسین جتنی منٹو کو ملی اتنی بے چارے میرا جی کے حصے میں نہ آئی۔ وہ تو بھلا ہو محترم انتظار حسین کا کہ انھوں نے اپنے کالم کے ذریعے یاد دلایا کہ منٹو کو تو یاد کرتے ہو لیکن میرا جی کو کیوں بھول جاتے ہو کہ اس کا سال بھی 2012 ہی ہے۔ تب کراچی آرٹس کونسل نے فوراً ہی میرا جی کو یاد کرنے کا بھی اہتمام کرلیا۔ ایک اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو جو میرا جی کے حصے میں آئی وہ یہ کہ وسعت اللہ خان نے بتایا کہ انھوں نے میرا جی کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات چاہیں تو جواب آیا، اداکارہ میرا کے بارے میں اور ہدایت کارہ میرا نائر کے متعلق۔

پھر انھوں نے میرا جی کو ان کے اصلی نام سے ڈھونڈا یعنی ثناء اللہ ڈار، تو تفصیلات موصول ہوئیں پنجاب کے وزیر قانون رانا  ثناء اللہ کی۔ یہ ایک المیہ ہے کہ میرا جی کو جی بھر کے نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ اس پر مضامین کے ذریعے بڑے نام نہاد لوگوں نے تبرّے بازی بھی کی اور خود کو غالبؔ سے بڑا شاعر بھی تسلیم کرلیا۔ ایک المیہ ہمارے ادب کا یہ بھی ہے کہ ادیب، شاعر یا کسی بھی تخلیق کار اور فنکار کی زندگی اور اس کے فن کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ عام طور پر زندگی فن پر حاوی ہوجاتی ہے اور تخلیق کار کی بہت ساری صفات کو اس کی بے ترتیب زندگی کا کفن پہنا کر دفنا دیا جاتا ہے۔ میرا جی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس موقع پر کشور ناہید صاحبہ نے ایک بڑی اچھی بات کہی کہ میرا جی پر مضامین پڑھنے والوں نے اس میرا سین کا بالکل ذکر نہ کیا جس کی وجہ سے ثناء اللہ ڈار میرا جی بن گیا۔ ساتھ ہی انھوں نے اختر الایمان کی یاد داشتوں پر مشتمل کتاب ’’اس آباد خرابے میں‘‘ کی طرف بھی توجہ دلائی جس میں میرا جی کی زندگی کے آخری دنوں کا احوال موجود ہے۔ کیونکہ وہی ایک شخص تھے جو ان کے ساتھ رہے اور انھوں نے ہی میرا جی کو ایک خیراتی اسپتال میں داخل کرا دیا تھا۔ تیسری بات کشور ناہید نے گیتا پٹیل کے بارے میں کی اور کہا کہ میرا جی کو سمجھنے کے لیے گیتا پٹیل کی کتاب پڑھنا بہت ضروری ہے۔

کانفرنس کے پہلے دن اپنے کلیدی خطبے میں ایک بڑی اچھی بات کہی کہ ’’کتاب آپ کی تنہائی کی رفیق ہوتی ہے‘‘ اور یہ بالکل سچ ہے۔ آپ اپنی تنہائیوں میں صرف اپنے ساتھ رہتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ کوئی اس میں دخل دے، لیکن کتاب تو خودبخود آپ کی تنہائیوں میں شریک ہوجاتی ہے اور تنہائی کو انجمن بنا دیتی ہے۔ منٹو کے حوالے سے چند نئی کتابیں اور رسائل اس کانفرنس کے دوران سامنے آئے جن کا ذکر کرنا ضروری ہے تاکہ ادب سے وابستہ لوگوں کے علاوہ نوجوان نسل جوکہ دن بدن کتابوں سے دور ہوتی جا رہی ہے وہ بھی حرف آشنا ہو۔ شمیم حنفی صاحب، جناب انتظار حسین اور جناب مسعود اشعر نے بار بار یہ بات مختلف انداز میں دہرائی کہ جو معاشرے کتاب کو اپنے وجود سے بے دخل کردیتے ہیں وہ بانجھ ہوجاتے ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ فاسٹ فوڈ اور موبائل فون کے اشتہارات اور ان کے تذکروں سے تو لوگوں کو پریشانی نہیں ہوتی، لیکن کالم نگار اگر کتابوں کا تذکرہ کریں یا ان کا تعارف کرائیں کہ نئی سوچ کی کونپلیں پھوٹتی رہیں تو اکثر ادب سے نابلد قارئین کو شکایت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ تو عادی ہیں روزانہ سات آٹھ لاشیں گرنے کی خبروں کے اور مرغوں کی طرح لڑنے والے سیاستدانوں کے بیانات کے۔ لیکن پڑھے لکھے اور باشعور قارئین کا ایک طبقہ وہ بھی ہے جو اخبار خرید کر پڑھتا ہے اور زندہ رہنا چاہتا ہے اور زندہ رہنے کے لیے کتابوں سے آشنائی ضروری ہے۔ ورنہ انسان اور حیوان میں کیا فرق رہ جائے جو صرف کھانے کے لیے زندہ رہتا ہے۔

2012 میں منٹو پر کئی کتابیں اور رسائل شایع ہوئے ہیں۔ منٹو پر مزید تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے چند نئی کتابوں اور رسائل کا ذکر ضروری ہے۔ سب سے پہلے ہندوستان سے آئے ہوئے ممتاز ادیب، اسکالر اور نقاد جناب شمیم حنفی کی کتاب ’’منٹو حقیقت سے افسانے تک‘‘ کا ذکر کروں گی جو بھارت اور پاکستان سے بیک وقت شایع ہوئی ہے، پاکستان میں یہ کتاب آصف فرخی نے اپنے ادارے ’’شہرزاد‘‘ سے شایع کی ہے۔ یہ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ دستاویز منٹو اپنے دفاع میں۔ مباحث اور اختتامیہ، کتاب میں منٹو کے کچھ مضامین بھی شامل ہیں۔ دوسری کتاب ہے ’’منٹو کا آدمی نامہ‘‘ اس کے مرتب بھی آصف فرخی ہیں اور انھوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے منٹو پر لکھے جانے والے مضامین کو یکجا کیا ہے۔ دیگر مضامین کے علاوہ خود آصف فرخی کے دو مضامین ہیں جو کتاب کے پہلے حصے میں شامل ہیں۔ وہ بہت بھرپور طریقے سے منٹو کے فن اور اس کی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ کاش! ایسی ہی کوئی کتاب آیندہ میرا جی کے لیے بھی شایع ہو۔

ایک اور اہم کتابی سلسلہ ’’زیست‘‘ کا منٹو نمبر بھی میرے سامنے ہے جو بڑی محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا دو تہائی حصہ غیر مطبوعہ مضامین پر مشتمل ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ تمام مضامین غیر مطبوعہ ہوتے۔ چبائے ہوئے نوالوں کو بار بار چبانا اچھا نہیں لگتا۔ منٹو کے حوالے سے شایع ہونے والی زیادہ تر کتب میں یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ خواہ افسانے ہوں یا مضامین، مسلسل تکرار کے ساتھ شایع ہورہے ہیں۔ نئے مضامین لکھوانے کے لیے مرتبین اور مدیران رسائل کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ ادیبوں کی سو سو طرح خوشامدیں کرنی پڑتی ہیں۔ محمد طفیل احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا جیسے لوگ اب ناپید ہیں جو صرف معیار کو دیکھیں اور احترام و اقرار کے ساتھ نئی تحریروں کے لیے تگ و دو کریں۔ یہ ایک آسان طریقہ ہے کہ جس ادیب یا شاعر کا سال منایا جائے اس پر لکھے جانے والے مضامین پرانے رسائل سے نکال کر دوبارہ شایع کردیے جائیں۔ یہ بھی ایک اچھا کام ہے کہ پرانی کتب و رسائل اب ناپید ہیں، لیکن ہر کتاب اور ہر رسالے میں چند مضامین کی تکرار گراں گزرتی ہے۔

آخر میں لوک ورثے سے متعلق ایک بہت اہم کتاب کا بھی ذکر کروں گی جو اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے اس کا نام ’’فوک لور کی پہلی کتاب‘‘ اور یہ تصنیف ہے جناب مظہر الاسلام کی جو تقریباً بارہ کتب کے مصنف ہیں جن میں سے تین انگریزی میں ہیں۔ زیر نظر کتاب میں انھوں نے کوشش کی ہے کہ پاکستان میں لوک ورثے کو سائنسی اور نصابی حیثیت دی جائے۔ اس تصنیف میں انھوں نے کوشش کی ہے لوک ورثے پر کام کرنے والے اس کے قواعد اور بنیادی معلومات سے واقف ہوں۔ دستکاری، موسیقی، گیت، فنون لطیفہ، فوٹو گرافی اور ریکارڈنگ سمیت بڑی اہم اور بنیادی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس کتاب کی رہنمائی میں لوک ورثہ پر کام کرنے والوں کو بہت مدد ملے گی اور وہ بھرپور طریقے سے پاکستان کے مختلف رسوم و رواج، زبانوں اور دیگر ثقافتی وتہذیبی امور کے ساتھ بحث کرسکتے ہیں۔ کتاب کا سرورق بہت جاذب نظر اور خوبصورت ہے۔ اندرونی صفحات میں جابجا رنگین تصاویر بھی موجود ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔